ایک دفعہ کا ذکر ہے ، کہ ایک چھوٹے سے قصبے سے ایک کنبہ شہر میں آیا ، میاں بیوی کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا کہ دونوں آپس میں بے انتہا محبت کرتے ہیں اور میاں بیوی کی عمر جتنی زیادہ ہورہی تھی، باہمی محبت اور خوشی اُتنی ہی بڑھ رہی تھی۔ اردگرد کی عورتوں کا خیال تھا :٭ - شاید وہ ایک بہت ماہر اور اچھا کھانا پکانے والی ہے؟
٭ - شاید اُس کی خوب صورتی اُس کا راز ہے ، جو عمر کے ساتھ برقرار ہے ؟
٭ - شاید اُس کی اولاد کی وجہ سے شوہر اُس کا گرویدہ ہے ؟
٭ - شاید یا وہ اعلیٰ نسب کی خاندانی عورت ہے؟
٭ - شاید وہ کوئی ، ایسا ٹوٹکا یا جادو جانتی ہے ۔ جس سے اُس کا شوہر اُس کے پلو سے بندھا ہے !
٭ - شاید وہ کوئی ، ایسا ٹوٹکا یا جادو جانتی ہے ۔ جس سے اُس کا شوہر اُس کے پلو سے بندھا ہے !
بالآخر عورتوں نے ، اُس کی دائمی محبت اور خوشیوں بھری زندگی کا راز جاننے کے لئے پوچھا ۔ کہ ہماری آپ کے بارے میں اِن سوچوں میں سے کون سی سہی ہے ۔ یا ہمیں بھی وہ گُر بتائے کہ ہمارے شوہر بھی ہماری محبت کا دم بھرنے لگیں ۔
تو عورت نے مسکرا کر جواب دیا ،
٭ - اچھے کھانے یقیناً، ہر شوہر کو قابو میں رکھنے کا گُر ہیں ۔ لیکن کبھی کبھی کھانا پکانے میں اونچ نیچ ہو جاتی ہے،اور بعض دفعہ کھانا بھی وجہ نزع بن جاتا ہے ۔
٭ - جسمانی خوب صورتی رفتہ رفتہ عمر کے ساتھ ڈھلتی جاتی ہے ، لیکن اُس کو عمر کے ساتھ برقرار رکھا جا سکتا ہے ۔ لیکن بیماریاں انسان کے تعاقب میں ہوتی ہیں ، معمولی غفلت جسمانی خوبصورت کو گھن کی طرح کھا جاتی ہے ۔
٭ - اچھی سعادت مند اولاد ،شوہر کا فخر ہوتی ہے ۔ لیکن اولاد کی تمام غلطیاں ماں کے کھاتے میں جاتی ہیں اور اچھائیاں باپ کے ، اور ممکن ہی نہیں کہ بچوں سے غلطیاں سرزد نہ ہوں جو شوہر کی نظر میں نہ آئیں ؟
٭ - بیوی کے اعلیٰ نسب یا خاندانی وجاہت سے گرویدہ شوہر بالآخر اُکتا جاتا ہے ۔
٭ - ٹوٹکا یا جادو ایک اہم نکتہ ہے جس سے شوہر کو بیوی اپنے پلو میں باندھ سکتی ہے ۔عورتوں نے جب ٹوٹکے اور جادو کا سُنا تو بضد ہوگئیں کہ ہمیں بھی یہ سکھائیے ۔
٭ - ٹوٹکا یا جادو ایک اہم نکتہ ہے جس سے شوہر کو بیوی اپنے پلو میں باندھ سکتی ہے ۔عورتوں نے جب ٹوٹکے اور جادو کا سُنا تو بضد ہوگئیں کہ ہمیں بھی یہ سکھائیے ۔
" جب ایک لڑکی بیوی بن کر ، شوہر کے گھر جاتی ہے تو وہ ایک خاندان سے دوسرے خاندان کی طرف اپنی مستقبل کی خوشیوں بھری زندگی کی طرف منتقل ہوتی ہے ۔شادی سے پہلے اُس کا شوہر اُس کے لئے ایک محبوب ہوتا ہے اور عورت اُس کے لئے محبوبہ ، شادی کے بعد یہ رشتہ بظاہر ختم ہو جاتا ہے اور میاں بیوی کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے ۔ لیکن ایسا نہیں ہے محبوب اور محبوبہ کا رشتہ برقرار رہتا ہے لیکن آہستہ آہستہ بیوی خود اِس تعلق کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیتی ہے ۔"عورتیں توجہ سے بزرگ خاتون کی بات سن رہی تھیں ، وہ سانس لینے کو رکی ، عورتوں نے کہا
" یہ تو ہم جانتے ہیں آپ ہمیں ٹوٹکا بتائیے ۔ کہ شوہر کو کیسے قابو کیا جائے ؟"
بزرگ خاتون مسکرائی اور گویا ہوئی ۔
" خوشیوں بھری زندگی کے اسباب خود بیوی کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔ اگر بیوی چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت کی چھاؤں بنا سکتی ہے اوروہ اپنے گھر کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سےبھی بھر سکتی ہے!
" یہ تو ہم جانتے ہیں آپ ہمیں ٹوٹکا بتائیے ۔ کہ شوہر کو کیسے قابو کیا جائے ؟"
بزرگ خاتون مسکرائی اور گویا ہوئی ۔
" خوشیوں بھری زندگی کے اسباب خود بیوی کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔ اگر بیوی چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت کی چھاؤں بنا سکتی ہے اوروہ اپنے گھر کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سےبھی بھر سکتی ہے!
ہمارے دور میں ایسی محبتوں کا رواج نہ تھا جیسی اب ہوتی ہیں ، منگنی ہوئی تو منگیتر نے محبوب کا درجہ اختیار کرنا شروع کر دیا ۔ اُس کی عادتوں پسند یا ناپسند کے بارے میں نندوں سے پوچھنا شروع کیا ، اُنہوں نے لازماً اپنے بھائی کی تعریف ہی کرنا تھی ، اپنے حلوے کو کون برا کہتا ہے !
کہنا کہ بھائی کو غلط بات پر غصہ آتا ہے ۔ ورنہ بھائی بہت محبت کرنے والے اور خوش مزاج ہیں ، بچوں میں تو اُن کی جان ہے ۔ وغیرہ وغیرہ
میں جب شادی ہو کر نئے گھر آئی تو ، حسبِ معمول میری ماں اور باپ نے مجھے بے شمار نصیحتیں کیں ، کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ اُن کی بیٹی ، دکھ بھری نہیں بلکہ سکھ اور خوشیوں سے بھرپور زندگی گذارنے جا رہی ہے ۔ اُس کے ساس اور سسر نے اُن کی بیٹی کو اپنے بیٹے کی مستقبل کی ساتھی کے طور پر کئی لڑکیوں کو دیکھنے کے بعد ، اپنی ، بہو ، بیٹے کی بیوی ، بیٹیوں اور بیٹوں کی بھابی کے طور منتخب کیا ہے ، تاکہ وہ اُن کے خاندان کے اضافے کا باعث ہو ۔ میں نے اپنے والدین کی بات کو پلے سے باندھ لیا ، لہذا سب سے پہلا مرحلہ اپنی ساس ، سسر ، نندوں اور دیوروں پر جادو کرنے کا تھا ۔
میں جب شادی ہو کر نئے گھر آئی تو ، حسبِ معمول میری ماں اور باپ نے مجھے بے شمار نصیحتیں کیں ، کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ اُن کی بیٹی ، دکھ بھری نہیں بلکہ سکھ اور خوشیوں سے بھرپور زندگی گذارنے جا رہی ہے ۔ اُس کے ساس اور سسر نے اُن کی بیٹی کو اپنے بیٹے کی مستقبل کی ساتھی کے طور پر کئی لڑکیوں کو دیکھنے کے بعد ، اپنی ، بہو ، بیٹے کی بیوی ، بیٹیوں اور بیٹوں کی بھابی کے طور منتخب کیا ہے ، تاکہ وہ اُن کے خاندان کے اضافے کا باعث ہو ۔ میں نے اپنے والدین کی بات کو پلے سے باندھ لیا ، لہذا سب سے پہلا مرحلہ اپنی ساس ، سسر ، نندوں اور دیوروں پر جادو کرنے کا تھا ۔
میرا شوہر یوں سمجھو اڑیل گھوڑے کی طرح تھا ، کہ زین ڈالو تو بُدک کر بھاگے، چارہ ڈالو تو مشکوک نظروں سے دیکھے ، اپنے والدین کے ہاں جاؤں تو ساتھ جائے اور واپسی پر ساتھ لے آئے ، نہایت غصیلا تھا ، شوہر پر جادو کرنا بڑامشکل اور صبر آزما مر حلہ تھا ۔ لیکن جادو تو کرنا تھا تاکہ اُسے قابو میں کیا جاسکے عمر بھر کے لئے ، تو میں نے جادو کے صرف "تین جملے" استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ۔"عورتیں یک دم بولیں، " وہ تین جملے کیا ہیں جلدی بتائیے ؟ "
ذرا صبر کرو بتاتی ہوں ، بتاتی ہوں ۔
ذرا صبر کرو بتاتی ہوں ، بتاتی ہوں ۔
وہ تین جملے تھے ، جی اچھا ، بہت بہتر ، ابھی کرتی ہوں ۔
یہ تین جادو بھرے لفظوں نے سب گھر والوں ، بشمول شوہر کو رام کرنا شروع کیا ، اِس کے علاوہ " عمل " سے بھی کام لیا اُس کے بغیرتو جادو ناممکن ہے ۔
"آپ نے عاملات کی مدد لی یا حاضرات کی ؟ " عورتوں نے پوچھا
" عاملات سے بھی مدد لی اور حاضرات سے بھی ، اِن کے بغیر تو شوہر پر قابو پانا ناممکن تھا "
خواتین ہمہ تن گوش ہو گئیں ۔
" ہاں ، میں نے بتایا کہ میرا شوہر غصیلا ہے ۔ جب اُسے غصہ آتا تو میں خاموش ہو جاتی اور چپ کر کے اُس کی باتیں سنتی رہتی، کمرے سے اُٹھ کر نہ جاتی اور چہرے کو نہ مضحکہ خیز بناتی اور نہ مسکراتی ، بس پریشانی کے تاثر لاتی ،کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ اُنہوں نے مجھے سنانی ضرور ہیں ، کمرے سے باہر جانے پر، کمرے سے بلکہ گھر سے باہر والے سنتے ، جب وہ سناتے سناتے دل کی بھڑاس نکال چکتے تو میں خاموشی سے باہر جاتی اور اُن کے لئے چائے یا شربت یا کوئی میٹھی چیز لاتی، اُن کے پاس رکھ کر ، کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر چلی جاتی، بچوں کو بتایا ہوا تھا کہ جب اُن کے ابو غصے میں ہوں تو کمر ے میں مت آئیں اور جب وہ اُن پر غصے ہوں تو کمرے سے نہ نکلیں ، کمرے سے نکل کر اپنے باقی کام کرتی ، اور دماغ میں اُن کے غصے کو وجوھات اور حل تلاش کرتی ، تاکہ آئیندہ کے لئے سدباب کیا جاسکے اور مجھے حل مل جاتا ۔ آدھے گھنٹے بعد آکر دیکھتی کہ اُنہوں نے چائے یا شربت پی لیا ہے یا نہیں ، سوئے ہوئے ہیں یا جاگے ہوئے ۔ اگر وہ جاگے ہوئے ہیں اور چائے یا شربت پڑا ہوا ہے ، تو اِس کا مطلب یہ ہوتا کہ غصہ شدید ہے ابھی بھڑاس باقی ہے ۔مجھے اندازہ ہوتا کہ غصے کے باعث ، ضائع ہونے والی توانا ئی کو واپس لانے کا کیا طریقہ ہوتا ہے، لہذاپھل کاٹ کر اُن کے پاس لاکر رکھ دیتی ، چائے یا شربت اُٹھا کر لے جاتی۔
"آپ نے عاملات کی مدد لی یا حاضرات کی ؟ " عورتوں نے پوچھا
" عاملات سے بھی مدد لی اور حاضرات سے بھی ، اِن کے بغیر تو شوہر پر قابو پانا ناممکن تھا "
خواتین ہمہ تن گوش ہو گئیں ۔
" ہاں ، میں نے بتایا کہ میرا شوہر غصیلا ہے ۔ جب اُسے غصہ آتا تو میں خاموش ہو جاتی اور چپ کر کے اُس کی باتیں سنتی رہتی، کمرے سے اُٹھ کر نہ جاتی اور چہرے کو نہ مضحکہ خیز بناتی اور نہ مسکراتی ، بس پریشانی کے تاثر لاتی ،کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ اُنہوں نے مجھے سنانی ضرور ہیں ، کمرے سے باہر جانے پر، کمرے سے بلکہ گھر سے باہر والے سنتے ، جب وہ سناتے سناتے دل کی بھڑاس نکال چکتے تو میں خاموشی سے باہر جاتی اور اُن کے لئے چائے یا شربت یا کوئی میٹھی چیز لاتی، اُن کے پاس رکھ کر ، کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر چلی جاتی، بچوں کو بتایا ہوا تھا کہ جب اُن کے ابو غصے میں ہوں تو کمر ے میں مت آئیں اور جب وہ اُن پر غصے ہوں تو کمرے سے نہ نکلیں ، کمرے سے نکل کر اپنے باقی کام کرتی ، اور دماغ میں اُن کے غصے کو وجوھات اور حل تلاش کرتی ، تاکہ آئیندہ کے لئے سدباب کیا جاسکے اور مجھے حل مل جاتا ۔ آدھے گھنٹے بعد آکر دیکھتی کہ اُنہوں نے چائے یا شربت پی لیا ہے یا نہیں ، سوئے ہوئے ہیں یا جاگے ہوئے ۔ اگر وہ جاگے ہوئے ہیں اور چائے یا شربت پڑا ہوا ہے ، تو اِس کا مطلب یہ ہوتا کہ غصہ شدید ہے ابھی بھڑاس باقی ہے ۔مجھے اندازہ ہوتا کہ غصے کے باعث ، ضائع ہونے والی توانا ئی کو واپس لانے کا کیا طریقہ ہوتا ہے، لہذاپھل کاٹ کر اُن کے پاس لاکر رکھ دیتی ، چائے یا شربت اُٹھا کر لے جاتی۔
"تو کیا آپ اپنے شوہر کے بلاوجہ غصہ پر ناراض نہ ہوتیں اور بولنا نہیں چھوڑتیں" ؟ ایک نے پوچھا ۔
"آپ بتائیے کہ کتنے دن تک ناراض رہ کر شوہر سے بات کرنا چھوڑا جا سکتا ہے ؟ انہوں نے سوال کیا ۔"جب تک شوہر نہ منائے " ؟ اُس نے جواب دیا ۔
"آپ بتائیے کہ کتنے دن تک ناراض رہ کر شوہر سے بات کرنا چھوڑا جا سکتا ہے ؟ انہوں نے سوال کیا ۔"جب تک شوہر نہ منائے " ؟ اُس نے جواب دیا ۔
"اور اگر شوہر ، تین دن یا ہفتے تک نہ منائے تو ! اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اُس کو خود سے دور رکھنے کا عادی بنا رہی ہیں ۔ یاد رکھیں اگر وہ اِس کا عادی ہوگیا تو آپ کی اپنے آپ سے دشمنی کا آغاز ہو گیا ۔
کبھی ایسا نہ کرنا ، کبھی نہیں ۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم سے بات چیت چھوڑنے کا مطلب ، اُسے گھر سے باہر نکلنے کا راستہ دکھانا ہے ۔ ایسا ہر گز نہ کرنا ۔بیوی کو شوہر کی نباض ہونا چاہئیے ، جراح نہیں ۔ جراحی کا کام وقت پر چھوڑ دو ۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے سکون کے لئے ساتھ رہتے ہیں ، عورت کو اپنے لئے محفوظ قلعہ چاہئیے اور مردکو عورت سے اپنا سکون۔ میں شوہر کو کبھی نہیں جتاتی کہ وہ غلط ہے اور میں صحیح ، میں اپنے شوہر کو احساس ہی نہیں ہونے دیتی کہ میں اُس سے ناراض ہوں ، اُس کے بار بار پوچھنے پر بھی ، میں کہتی ، آئیندہ غلطی نہیں ہو گی ، جب میں دوسروں کی غلطیوں کو بھی اپنا لیتی تو اُس کا رویہ مجھ سے نرم ہوجاتا اور محبت بڑھ جاتی ۔ وہ مجھے آئیندہ غصہ نہ کرنے کا یقین دلاتا اور پیار بھری باتیں کرتا تاکہ میرے ذہن سے وہ اپنے روئیے کو مٹا سکے ۔
" تو کیا آپ اُس کی پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟" عورتوں نے پوچھا
" تو کیا آپ اُس کی پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟" عورتوں نے پوچھا
بالکل، کیا غصے میں کہی ہوئی باتوں کا یقین کرلیں اور پُر سکون حالت میں پیار میں کہی ہوئی باتوں پر یقین نہ کریں ؟ یہ تو بیویوں کی حماقت ہے ۔ " وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا ایک عورت کی عزتِ نفس مجروح نہیں ہوتی آخر کو وہ بھی ایک انسان ہے ؟" عورتوں نے پوچھا
" عزت نفس تو انسان خود اپنے ہاتھوں مجروح کرتا ہے ۔ یقیناً عورت انسان ہے ، بلا وجہ کوئی انسان دوسرے انسان پر غصہ نہیں ہوتا ، اور وجہ کاسبب بننے والا ، غصے کو برداشت کرنے کی ہمت بھی پیدا کرے ۔ تاکہ اُس وجہ کا سدباب ہو جو اُس کی عزت نسب مجروح کرنے کا سبب بنی ہے " " لیکن ہر وقت عورت ہی کیوں ؟" عورتوں نے پوچھا
" عورت نہیں ، بلکہ ماں یا بیوی ! یوں سمجھو کہ جو ذمہ دار ہوگا وہ برداشت کرے گا ، بیوی گھر کی مالکہ ہوتی ہےاور مرد مکان کا ، اگر بچے مکان سے باہر کوئی خرابی پیدا کر کے آئیں ، تو لوگوں کا غصہ مالک مکان کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور بچے گھر میں خرابی کریں کو ، گھر کی مالکہ کو ، میں چونکہ اپنے شوہر کے گھر میں مالکہ بن کر آئی تھی ۔ لہذا برداشت مجھے ہی کرنا تھا ، میری پوری کوشش رہتی تھی کہ میرا شوہر اپناغصہ کسی اور کے سامنے نکالنے کے بجائے مجھ پر ہی نکالے اور گھر سے خوش و خرم نکلے اور مجھے رونے کے لئے میرے شوہر کا ہی کندھا ملے ۔ میری زندگی کو خوشگوار اور محبت سے بھرپور بنانے والے ، وہی تین جملے ہیں جو میں نے آپ کو بتائے ۔
" عزت نفس تو انسان خود اپنے ہاتھوں مجروح کرتا ہے ۔ یقیناً عورت انسان ہے ، بلا وجہ کوئی انسان دوسرے انسان پر غصہ نہیں ہوتا ، اور وجہ کاسبب بننے والا ، غصے کو برداشت کرنے کی ہمت بھی پیدا کرے ۔ تاکہ اُس وجہ کا سدباب ہو جو اُس کی عزت نسب مجروح کرنے کا سبب بنی ہے " " لیکن ہر وقت عورت ہی کیوں ؟" عورتوں نے پوچھا
" عورت نہیں ، بلکہ ماں یا بیوی ! یوں سمجھو کہ جو ذمہ دار ہوگا وہ برداشت کرے گا ، بیوی گھر کی مالکہ ہوتی ہےاور مرد مکان کا ، اگر بچے مکان سے باہر کوئی خرابی پیدا کر کے آئیں ، تو لوگوں کا غصہ مالک مکان کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور بچے گھر میں خرابی کریں کو ، گھر کی مالکہ کو ، میں چونکہ اپنے شوہر کے گھر میں مالکہ بن کر آئی تھی ۔ لہذا برداشت مجھے ہی کرنا تھا ، میری پوری کوشش رہتی تھی کہ میرا شوہر اپناغصہ کسی اور کے سامنے نکالنے کے بجائے مجھ پر ہی نکالے اور گھر سے خوش و خرم نکلے اور مجھے رونے کے لئے میرے شوہر کا ہی کندھا ملے ۔ میری زندگی کو خوشگوار اور محبت سے بھرپور بنانے والے ، وہی تین جملے ہیں جو میں نے آپ کو بتائے ۔
جی اچھا ، بہت بہتر ، ابھی کرتی ہوں ۔
بیوی کے منہ سے نکلنے والے الفاظ ، خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا جادو ہیں ۔
بہت عمدہ
جواب دیںحذف کریں