حیاتِ دل ورق ورق.... (ماخوذ)
دل
کو چھو لینے والی نہیں ،
بلکہ گھونسہ لگانے والی ایک تحریر !
..........ماں..........
قصہ زیاده پرانا نہیں ہے. دوسری شادی سے ہم آٹهویں اولاد تهے اپنے
والد کے، اور اپنی ہی بهانجی سے کم عمر
بهی تهے ..نہ شادیانے بجے، نہ ڈهولکی بجی... اور نہ ہی کسی کو کوئی خاص خوشی ہوئی...آٹهویں
بچے کی پیدائش پہ ہمارے یہاں اتنی ہی خوشی ہوتی ہے جتنی دوسرے گهروں میں پہلے بچے
کے ختم سپاره پر منائی جاتی ہے..
بس ایک وه عورت خوش تهی جو ماں نہ ہوتی تو بکری لکھ دیتا....
ایک مظلوم عورت من ہی من میں خوش تهی کہ شادی پانچ سال ،صرف ایک روٹی کی مزدوری بعد ہی سہی....پر عرش پر بیٹهے مالک کو اس پر بهی ترس آ ہی گیا..اسی بهی زنده رہنے کی آس مل ہی گئی....
ایک مظلوم عورت من ہی من میں خوش تهی کہ شادی پانچ سال ،صرف ایک روٹی کی مزدوری بعد ہی سہی....پر عرش پر بیٹهے مالک کو اس پر بهی ترس آ ہی گیا..اسی بهی زنده رہنے کی آس مل ہی گئی....
ایک عورت جو کبهی سکول نہ جا سکی...کبهی بازار نہ دیکھ سکی...کبهی
پارک نہ دیکھ سکی...جس نے کبهی ٹی وی نہیں دیکها تها..جس نےکبهی ریڈیو نہیں سنا
تها..جس نے زندگی میں پہلی بار آئس کریم اپنے بیٹے کے جوانی کے بعد کهائی تهی...
اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی کسی سکهی سہیلی کی منگنی ہی رہی
تهی.... زمیں پر گھسیٹتے برقعے میں پوش چهوٹے بهائی کا ہاتھ تهامے وه سہیلی کے گهر پہنچتی اور شام ہونے سے
پہلے اسے گهر پہنچنا تها تاکہ،
بکریوں اور بهینسوں کا دودھ دهو سکے...
کنویں سے پانی نکال سکے....
روٹی ترکاری پکا سکے...
والده کے لیے انگیٹهی جلا سکے.....
چراغوں کو صاف کر کے تیل بهر سکے....
چهوٹے بہن بهائیوں کو روٹی کهلا کر ان کے بستر بچا سکے....
اور پهر چاچی جی کے پاؤں دبا سکے....
بکریوں اور بهینسوں کا دودھ دهو سکے...
کنویں سے پانی نکال سکے....
روٹی ترکاری پکا سکے...
والده کے لیے انگیٹهی جلا سکے.....
چراغوں کو صاف کر کے تیل بهر سکے....
چهوٹے بہن بهائیوں کو روٹی کهلا کر ان کے بستر بچا سکے....
اور پهر چاچی جی کے پاؤں دبا سکے....
کیونکہ چاچی گهر کی بڑی تهی اور اپنی والده چهوٹی ، اس لیے چاچی کے
پاؤں دبانا ضروری تهے...ماں کے دبا کر جنت کمانے سے بہتر تها کہ چاچی کے پاؤں دبا
کر اسی دوزخ میں کچھ تو سکون سے رہا جا سکے...
پهر دیر رات کو نماز کے بعد ماں کو چراغ کی روشنی میں قرآن مجید کا
سپارہ ختم کرنا ہوتا تها....
ماں کو قرآن پڑهنا نہیں آتا تها. وه ہرلکیر پر انگلی پهیرتی تهی. نانا نے اسے بس اتنا
سکهایا تها
بسم الله الرحمن الرحیم..الله جی! تو نے جو کہا ہے سچ کہا ہے..محمد جی! تو جو لایا ہے سچ
لایا ہے
بسم الله الرحمن الرحیم.. الله جی! تو نے جو کہا ہے سچ کہا ہے..محمد جی! تو جو لایا ہے سچ لایا ہے
بسم الله الرحمن الرحیم.. الله جی! تو نے جو کہا ہے سچ کہا ہے..محمد جی! تو جو لایا ہے سچ لایا ہے
بسم الله الرحمن الرحیم.. الله جی! تو نے جو کہا ہے سچ کہا ہے..محمد جی! تو جو لایا ہے سچ لایا ہے
بسم الله الرحمن الرحیم.. الله جی! تو نے جو کہا ہے سچ کہا ہے..محمد جی! تو جو لایا ہے سچ لایا ہے
اس کے بعد ماں جی ..رو رو کے دعا کرتی هے..روز..
الله جی! میرے ابا کو واپس بهیج دے...الله جی زرق تو تو دیتا ہے...پهر
یہاں بهی دے دے گا...
الله جی! میرے ابا کو واپس بهیج دے.۔۔۔۔۔۔
الله جی! چاچا کہتا ہے مجهے کسی گدهے کے پلے باندھ دے گا...الله جی! میرے ابا کو واپس بهیج دے....
الله جی! چاچا کہتا ہے مجهے کسی گدهے کے پلے باندھ دے گا...الله جی! میرے ابا کو واپس بهیج دے....
صبح ہوتی ہے..پهر کنواں..پهر بهینسیں..پهر بکری..پهر چاره...
پهر ایک دن سنا کہ چاچا نے کسی کے پلے باندھ دیا....
ماں کے اپنے والد هندوستان میں بیوپار کرتے تهے اور سالوں میں گهر
آتے تهے...اور چاچا نے بهتیجی کا رشتہ طے کر کے بهائی کو خط لکھ دیا..
ماں نہ ہنسی یہ روئی..بس دل ہی دل میں الله جی سے کہا..میں نے کہا
تها ناں، ، ، ، ، ابا کو بهیج...لیکن ابا نہ آیا...
چاچی نے بتایا..تو تو رانی بن گئی..سنا ہے بہت بڑا زمیندار ہے..ارے
موٹر بهی ہے اس کے پاس..
آس پاس کے سات سات کوس میں کسی کے پاس موٹر نہیں هے....تو فکر نا کر....تیرے
چاچے نے بڑا اچها رشتہ ڈهونڈا هے تیرے لیے....ارے جوان ہے صرف اولاد کی خاطر دوسری
شادی کر رہا ہے...
میں ہوتا تو ضرور پوچهتا..کہ سات بچوں کے ہوتے ہوے اس زمیندار کو
اور
کون سی فوج بنانی ہے اولاد
کی؟؟
اور فوج بنانی اتنی ہی ضروری ہے تو کسی بیوه کو ڈهونڈ لیتا شادی کے
لیے....ارے کوئی اپنی بیٹی کے ہم عمر لڑکی سے بهی نکاح کرتا ہے کیا؟؟؟
اچها لفظ ہے یہ نکاح بهی..انسان کی ساری خباثت چهپا دیتا ہے...
بڑے لوگ پیسے سے جنس خریدتے ہیں اور ممبر پر بیٹها مولوی اپنی
جنتروں سے اسے حلال کرتا ہے....
میرے دوست کہتے کہ میں جذباتی ہوں..میرا لہجہ کاٹ دار ہے..لیکن میں کیا کروں میں روز اس معاشرے زهر خریدتا ہوں اسے کب تک شہد بنا بنا کے انڈیلتا رہوں. میرا اندر گهلا دیا ہے اس زهر نے..
میرے دوست کہتے کہ میں جذباتی ہوں..میرا لہجہ کاٹ دار ہے..لیکن میں کیا کروں میں روز اس معاشرے زهر خریدتا ہوں اسے کب تک شہد بنا بنا کے انڈیلتا رہوں. میرا اندر گهلا دیا ہے اس زهر نے..
میری پروهت سے کوئی دشمنی نہیں هے...
بس مجهے ان جنتروں کا حساب چاهیے جو اس نے پهونک پهونک کر انسانوں
کو چلتے پهرتے لاشے بنا دیے...
زمیندار کے گهر میں اس عورت کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی..بس
یہاں بکریوں اور بهینسوں کی تعداد زیاده تهی . چاچی کی جگہ ایک سوتن موجود
تهی..بہن بهائیوں کی جگہ زمیندار صاحب کے بچے موجود تهے..
اور ابا جی کے عمر کے ایک مجازی خدا موجود تهے..جس میں خدائی کی
کوئی صفت موجود نہیں تهی...
ماں اب بهی دعا کرتی تهی لیکن اس بار وه الله جی سے زندگی کا کوئی
آسرا مانگتی تهی...پانچ سال ایک روٹی کی مزدوری کے بعد الله جی کو ماں پر ترس آ ہی
گیا..لیکن ماں کو اس کی زندگی میں صرف سات دن کی خوشی ہی میسر آ سکی..
پیدائش کے ساتهویں دن پالکی میں لیٹے اس کے لعل کو چھ سات جگہ بچهو
نے کاٹ لیا....لیکن بچ گیا... بغیر کسی تریاق اور دوا کے...ماں کہتی هے. الله جی
نے میری ساری دعائیں اسی دن کے لیے جمع کر رکهیں تهیں...
بچهو پالکی تک کیسے پہنچا یہ سمجهنے میں ماں کو کوئی دشواری نہ ہوئی
...ماں نے اسی دن اپنی ماں کو بلا کر بچہ حوالے کر دیا ...وه بچہ جو ابهی تک بے
نام تها کیونکہ زمیندار صاحب کاروبار کے لیے باهر تهے اور جو گهر میں تهے انہوں نے
"مرحوم "نام پسند کیا تها..
شاید اسی بچهو کا زهر رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے. جس نے مجهے
تلخی کا انگاره بنا رکها ہے.
ماں پهر اکیلی ہو گئی...اور پهر الله جی سے گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں
مانگنی..
لیکن عجیب دعائیں تهیں یہ..ماں کو بچہ واپس چاہیئے بهی تها اور
نہیں بهی...........
ماں آج بهی بچهو کا نام سنتی ہے تو خوف سے چیخ اٹهتی ہے..
میں آج بهی بچهو کا نام سنتا ہوں تو میری رگوں میں نفرت کا زهر دوڑنے لگتا ہے..
میں آج بهی بچهو کا نام سنتا ہوں تو میری رگوں میں نفرت کا زهر دوڑنے لگتا ہے..
اے رب کریم!!!!! مجهے اور میری ماں کو اب اس زهر سے نجات دلا
دے......
پتہ نہیں کیوں میرے اور ماں کے الله جی میں فرق هے...
میں روز کہتا ہوں..اے رب کریم..اے رب عظیم..اے مالک..اے خالق....
چلتے پهرتے..اٹهتے بیٹھے ..لیکن خلا ہی خلا ہی.....زنگ ہی زنگ ہے
چلتے پهرتے..اٹهتے بیٹھے ..لیکن خلا ہی خلا ہی.....زنگ ہی زنگ ہے
لیکن ماں ایک بار جب کہتی ہے
بسم الله الرحمن الرحیم..الله جی! تو نے جو کہا ہے سچ کہا ہے..محمد جی! تو جو لایا ہے سچ
لایا ہے
اور اس کے بعد ہاتھ اٹها کر کہتی هے
اور اس کے بعد ہاتھ اٹها کر کہتی هے
الله جی!
تو مجهے لگتا هے ماں نے میرے ہاتھ باندھ کر محشر میں الله جی کے رو
برو کهڑا کر دیا ہے.....
ماں.....مجهے یہ الله جی سکها دے...........
مجهے بهی کچھ مانگنا ہے....
ماں.....مجهے یہ الله جی سکها دے...........
مجهے بهی کچھ مانگنا ہے....
(یدِ بیضاء)
نم آنکھوں کے ساتھ پڑھی ہے یہ تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںبہت خوبصورت اور نہائت عمدہ تحریر ہے