مولوی صاحب نے کہا،
“بابا ! تم اپنی خوشی سے دینِ محمدی قبول
کرنا چاہتے ہو ناں ! ”
_______________
جس دن ستیل اوڈو اور اس کی گھر والی کو
مسلمان ہونا تھا اس دن مسجد میں اتنے نمازی آئے کہ مسجد کے باہر بھی تین چار صفیں
قائم ہو گئیں ۔ اس سے پہلے یا تو عید پر اتنا ہجوم ہوتا یا کوئی مال دار آدمی اپنے
مرحوم باپ کی مغفرت کے لئے بریانی کی دیگ چڑھاتا تو لوگ کھنچے چلے آتے ۔
مسجد کے پیش امام مولوی امیر علی نے بھی ستیل
کے قبولِ اسلام کی بڑی تشہیر کی تھی۔ لوگوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بتایا تھ
کہ ایسا موقع عیدوں سے بھی زیادہ مبارک ہوتا ہے ۔
گوٹھ کے باشندے بھی کچھ دینی جذبہ رکھتے تھے
، اس لئے بہت سوں نے سر پر پیچ دار پگڑی باندھی اور مسجد میں آ گئے ۔
مولوی صاحب خود بھی اچھی خاصی آن بان میں
دکھائی دیئے ۔ سر پر ہری مونگیا دستار ، جسم پر سفید بے داغ شلوار کُرتا اور پاؤں
میں نئی جوتی۔ ہاتھوں میں نقشین عصا جس کے نچلے سرے میں لوہے کی شام لگی ہوئی تھی۔
وہ محراب کے قریب کچی زمین میں اپنا عصا اس طرح گاڑتے جیسے دین کا جھنڈا ہو۔
مولوی صاحب اس دن خطبے کی جو کتاب لائے وہ
بھی نئی تھی۔ کچھ قرآنی آیات کی تلاوت کے بعد جب وہ سندھی نظم کے اس قصے پر پہنچے
جہاں چاروں اصحاب پاک کی ثنا تھی تو نمازیوں کی آنکھیں بھیگنے لگیں ۔
فرض پڑھاتے ہوئے بھی مولوی صاحب نے سورہ
رحمٰن کی اثر آفرینی سے نمازیوں کے دلوں کو روحانی انبساط بخشا۔
پھر نماز کے بعد مختصر تقریر میں گوٹھ کے
لوگوں کو مبارک باد دی اور ایک پنج وقتہ نمازی کو بھیج کر ستیل اور اس کی گھر والی
کو بلوایا جو نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہنے مولوی صاحب کی بیٹھک میں موجود تھے ۔
مسجد میں ستیل اور اس کی گھر والی (مائی ٹلی)
کو اپنے سامنے بٹھا کر مولوی صاحب نے بلند آواز میں ستیل سے پوچھا، “بابا! تم اور
مائی ٹلی اپنی خوشی سے دینِ محمدی قبول کرنا چاہتے ہو؟”
“ہاں مولبی صاحب !”
“اپنی رضا و رغبت کے ساتھ یا کسی زور اور
زبردستی سے ؟”
“سائیں ! پوری رجا و رگبت اور کُھشی سے ۔”
“مائی ٹلی! تم بھی؟”
“ہاں سائیں ! میں بھی۔”
سمٹی سمٹائی مائی ٹلی
نے اپنے شوہر کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ مولوی صاحب نے یہ سن کر حاضرین سے رجوع
کیا۔
“سنتے ہو بھائیو!”
“ہاں ہاں سائیں ! ہم سب نے سن لیا۔”
مولوی صاحب نے شہادت کی انگلی چھت کی جانب
اُٹھائی اور تین مرتبہ بلند آواز سے کہا،
“اے اللہ ! تُو شاہد رہنا’ اے اللہ! تُو شاہد
رہنا’ اے اللہ ! تُو شاہد رہنا”
مولوی صاحب نے اس کے بعد ستیل اور مائی ٹلی
کو مبارک باد دی اور بڑی خوش دلی سے پوچھا،
“روزے رکھو گے ؟ نماز پڑھو گے ؟ اور نیک کام
کرو گے ؟”
“ہاں ہاں سائیں ! کیوں نہیں جو آپ کرتے ہو
وہی کروں گا۔ روجے رکھوں گا، نماج پڑھوں گا۔”
“میری جیسی داڑھی بھی رکھو گے ؟”
“رکھوں گا جرور رکھوں گا۔” ستیل نے سچے دل سے
اقرار کیا۔
اچانک مولوی صاحب کی نظر ستیل کے کانوں پر
پڑی جن میں سونے کی بالیاں لٹک رہی تھیں ۔
“یہ سونے کی بالیاں اُتار کر مائی کو دے دو۔
اسلام میں مردوں کے لئے سونا پہننا حرام ہے ۔”
ستیل نے یہ سن کر جلدی جلدی گھبراہٹ میں سونے
کی بالیاں اُتار کر مائی ٹلی کو دیں جس نے انہیں اپنے دوپٹے کے کونے میں باندھ
لیا۔
مولوی صاحب نے ستیل سے اگلا سوال پوچھا،
“جوا نہیں کھیلو گے ؟ دارو نہیں پیو گے ؟”
“نہ سائیں ! اب کبھی نہیں !” ستیل نے عاجزی
سے جواب دیا۔
“جزاک اللہ ! جزاک اللہ !” مولوی صاحب نے اسے
شاباش دی اور مزید سوالات پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کی بلکہ اس سے کہا،
“تھوڑا سرک کر میرے نزدیک آ جاؤ۔”
ستیل گھسٹ گھسٹ کر مولوی صاحب کے پاس جا
بیٹھا تو انھوں نے کلمہ پڑھوایا،
“کہو، لا الہ الا للہ!”
ستیل ٹھیک سے نہ کہہ سکا، رکتے رکتے بولا،
“لا ئیلا”
“ایسے نہیں ” ۔ ۔ ۔ کہو، “لا ۔ ا ۔ لاھ”
مولوی صاحب نے ہلکے ہلکے لفظ لفظ کو اس طرح دہرایا جیسے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے
اور اس طرح ستیل اور مائی ٹلی نے پورا کلمہ توحید تھوڑی سی مشق سے ٹھیک ٹھیک پڑھ
لیا۔
سب نمازی ایک بے دین اور اس کی گھر والی کو
مسلمان ہوتا دیکھ کر خوشی سے کھل اُٹھے ۔ انھوں نے مولوی صاحب کو مبارک باد دے کر
ستیل اور مائی ٹلی کو مبارک باد دی۔ ایک پُر جوش شخص نے تو زور دار نعرہ تکبیر
لگایا جس کا جواب حاضرین نے اتنی بلند آواز میں دیا کہ اس کی گونج دُور تک سنائی
دی۔ پھر مولوی صاحب نے ستیل کی جانب منہ کر کے کہا،
“آج سے تمہارا نام عبداللہ اور مائی ٹلی کا
نام فاطمہ ہو گیا۔”
کچھ لوگ جانے لگے تو مولوی صاحب نے انہیں
اشارے سے رکنے کی تاکید کی اور کہا،
“بھائیو! ذرا ٹھہرنا، ابھی ان کا نکاح پڑھانا
ہے ۔”
یہ سن کر ہر ایک اپنی جگہ پر جما رہا۔ مولوی
صاحب نے دونوں کی مرضی معلوم کی اور نکاح پڑھا دیا۔
——–×-×-×-×-×———-
گوٹھ کے باہر اوڈوں کی جھونپڑیوں میں کھلبلی
مچی ہوئی تھی۔ عورتیں اور لڑکیاں الگ الگ ٹولہ بنائے کوسنے دے رہی تھیں ۔
گوڑا رے گوڑا ہائے گوڑا کا شور تھا۔
گوڑا رے گوڑا ہائے گوڑا کا شور تھا۔
مرد اپنے مکھیا پھگن مل کی چارپائی کے چاروں
طرف بیٹھے زبردست بحث مباحثے میں مصروف تھے ۔ مکھی پھگن مل بار بار غصے میں اپنی
رانوں پر ہاتھ مار کر بڑبڑا رہا تھا۔
اس کو جب اس بات کی سن گن ملی تھی تو ستیل کو
بہت سمجھایا اور منتیں کی تھیں ۔ بھگوت گیتا کا واسطہ دیا تھا اور آخر میں پنچایت
کے سامنے اپنی چودھراہٹ کی رنگین پگڑی تک ستیل کے پاؤں میں ڈالنے کا تاثر دیا تھا
، مگر ستیل نے صاف صاف جتا دیا تھا،
” مکھیا ! تم کچھ بھی کرو ، میں نے جو کچھ
کرنا ہے ضرور کروں گا۔”
“مگر تو اپنا دھرم کیوں بدل رہا ہے ؟”
“میری مرجی۔”
“آخر پھر بھی؟”
ستیل سوچ میں پڑ گیا۔ ایک کھسیانی سی ہنسی اس
کے لبوں پر آئی اور اس نے کہا،
“مجھے اپنا دھرم اب اچھا نہیں لگتا۔”
“گوڑا رے گوڑا!۔۔۔ ۔ارے تجھ کو آخر کیوں
نہیں اچھا لگتا اپنا دھرم؟”
“اچھا مکھیا! بتا ہم کون ہیں ؟”
“ہم ہندو ہیں ۔”
“اچھا بتا ہندو لاش کو چتا میں جلاتے ہیں ،
مسلمان کیوں دفن کرتے ہیں ؟”
“یہ ہماری ریت ہے وہ ان کی ریت ہے ۔”
“اچھا ہم بکرا حلال کر کے کیوں کھاتے ہیں ؟”
“یہ بھی ہماری رسم ہے باپ دادا سے ۔”
“پر یہ تو مسلمانوں کی رسمیں ہیں ۔”
“تو چریا ہے ! یہ رسمیں ان کی بھی ہیں اور
ہماری بھی۔”
“پھر تم کیسے کہتے ہو کہ ہم ہندو ہیں ؟”
“نہیں تو کیا ہیں ڑے ! ”
“آدھے ہندو آدھے مسلمان۔ دھڑ دنبہ، گردن
بکری”
مکھیا پھگن مل لاجواب سا ہو گیا، مگر اس نے
بات کو بدلا،
“بھلے سے ہم کچھ بھی ہیں ۔ پر دھرم کیوں
بدلیں ”
“مجھے مسلمانوں کا دھرم پسند ہے ۔”
“تو کیا ہمارا دھرم جھوٹا ہے ؟”
“ہاں جھوٹا ہے ۔” ستیل نے دلیری سے جواب دیا
۔
جس پر پنچایت میں بیٹھے اوڈوں کے لہو نے جوش مارا۔ موتی اور کچھ دوسرے تو ستیل کی
پٹائی کرنے آگے بڑھے ، مگر مکھیا نے ہاتھ جوڑ کر روکا اور کہا،
“پنچو! مارنے پیٹنے سے کچھ نہ ہو گا۔ اس کو
مسلمانوں نے تاویج (تعویذ) پلائے ہیں ۔”
مکھیا کی یہ بات ان سب کے دلوں میں اس طرح اتر
گئی جیسے ان کے پھاوڑے گیلی زمین میں کُھب جاتے ہیں ۔ کئی ملی جُلی آوازیں اُبھریں
،
“مولوی کو بے سک (بے شک) تاویج دینے میں کمال
ہے ۔ سبھی تاویج لکھا کر لے جاتے ہیں ۔”
جوش میں کھڑے ہو جانے والے اوڈ اپنی اپنی
جگہوں پر بیٹھ گئے اور غصے میں بھر کر زور زور سے چرس کے دم لگانے لگے ۔ مکھیا نے
سب کو چُپ دیکھ کر پھر ستیل کی جانب منہ کیا اور پوچھا،
“تجھ کو مسلمانوں کا دھرم کیوں اچھا لگا ہے
؟”
“سب مسلمان بھائی ساتھ ساتھ نماج پڑھتے ہیں ۔
کھانے پینے میں چُھوت چھات نہیں ہوتی۔ ہندو بھی کوئی دھرم ہے ؟ برہمن، کھتری، اوڈ،
اچھوت سب الگ الگ۔”
مکھیا حیرت سے ستیل کو دیکھتا رہا اور سوچنے
لگا کہ سچ مچ یہ بات تو ہے کہ برہمن ، اچھوتوں اور اوڈوں کو اپنے پاس نہیں آنے
دیتے ۔ ایک تھالی میں کھانا تو بہت دور کی بات ہے ۔ مسلمان تو ایسا نہیں کرتے ۔
اب مکھیا نے دوسری چال چلی اور کہا،
“ستیل تُو مسلمان ہو جائے گا تو ہم سے تیرا
کوئی واسطہ نہیں رہے گا۔”
“نا رہے ، ہاں ہاں نہ رہے ۔”
“ہم تجھے اپنے پاس بھی نہیں آنے دیں گے ۔ ولر
کے پاس بھی نہیں ۔” مکھیا نے ستیل کو دھمکی دی۔ ولر کی گھر والی ستیل کی سگی بہن
تھی۔
“دھمکی کسے دیتے ہو، ہاں ہاں نہ آنے دینا۔
میں مسلمان بھائیوں کے ساتھ اٹھوں بیٹھوں گا اور سمجھوں گا کہ بہن مر گئی۔”
اتنی بڑی بات سُن کر مکھیا نے ٹھنڈے انداز میں
بات کی۔ اسے یقین تھا کہ ستیل کہیں نہ کہیں ہار کر اس کے جال میں آ جائے گا، مگر
جب کوئی چال کامیاب نہ ہوئی تو مکھی پر جھنجھلاہٹ سوار ہو گئی،
“یاد رکھنا ستیل! گدھوں پر چاہے پانچ زینیں
کس کر گھوڑوں میں بٹھا دو تو بھی گدھے ہی رہیں گے ، گھوڑا نہیں بن جائیں گے ۔”
پنچایت اُٹھنے کے بعد مکھیا نے ولر کو سمجھایا
تھا کہ پگڑی کا واسطہ دے کر ستیل کی منت سماجت کرنا کہ اپنا دھرم نہ چھوڑے ، لیکن
ستیل پر اپنے بہن بہنوئی کی منتوں کا بھی کوئی اثر نہ پڑا اور وہ مولوی امید علی
سے طے شدہ وقت پر جمعہ کے دن گھر والی کو لے کر سیدھا مسجد چلا گیا اور کلمہ پڑھ
کر باقاعدہ داخلِ اسلام ہو گیا۔
۔—–×-×-×-×-×——
مسلمان ہونے کے بعد ستیل کافی بدل گیا تھا۔
پہلے وہ ہر دوسرے تیسرے دن داڑھی نہ منڈاتا تو اسے چین نہ آتا۔ اب اس نے باقاعدہ
داڑھی رکھ لی تھی جو اس کے بھرے بھرے چہرے پر بڑی سجتی تھی۔ نماز پڑھنے مولوی صاحب
سے بھی پہلے مسجد میں آ جاتا۔ جھاڑو دینا، پانی کے گھڑے بھرنا اور بڑے ذوق و شوق
سے عربی پڑھنا اس کے معمولات میں شامل ہو گیا۔
مولوی صاحب کو بھی اس سے پہلے کسی غیر مسلم
کے مسلمان بنانے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی تھی، اس لئے وہ بہت خوش تھے اور آتے جاتے
تعریف کرتے ،
“بھائی ! یہ اپنا عبداللہ کتنا نیک اور کیسا
محنتی مسلمان ہے ۔”
کبھی کبھی مولوی صاحب کسی بے نمازی کو اللہ ،
رسول اور آخرت کا وعظ دیتے تو عبداللہ کی مثال دے کر کہتے ،
“ارے ! نماز پڑھو، ذکر کرو، نہیں تو قیامت کے
دن یہ اوڈ تمہاری مسلمانی کو شکی کر دے گا۔”
عبداللہ کا دینی ذوق و شوق اور مسلمانوں سے
سچی ہمدردی کے جذبے کو دیکھ کر مولوی صاحب اس کی دلداری کرتے اور کہتے تھے ،
“عبداللہ! گھبرانا مت۔ رب سائیں تمہارے گناہ
معاف کرے گا۔ صبح کو بھولا شام کو لوٹ آتا ہے تو اسے بھولا نہیں کہتے ۔”
عبداللہ بھی مولوی صاحب کی شفقت سے بہت متاثر
تھا۔ وہ عرض کرتا،
“سائیں ! آپ اللہ کے پیارے بندوں میں ہیں ،
میرے لئے دعا کرو کہ پچھلے گناہ معاف ہو جائیں ۔”
مولوی صاحب فوراً ہاتھ اُٹھا کر دُعا کرتے
اور دعا میں بڑی عاجزی سے کچھ شعر بھی پڑھتے ،
“عرض سن ہم عاصیوں کی مصطفے ٰ کے واسطے ”
اس دوران عبداللہ والہانہ سے انداز میں برابر
آمین آمین کہتا رہتا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر داڑھی میں جذب ہوتے رہتے
۔
—–×-×-×-×-×——
ایک دن عصر کی نماز سے کچھ پہلے اس کا بھانجا
“بھابھیو” بھاگتا ہوا آیا اور اپنی ماں کی بیماری کا حال بتایا۔ عبداللہ کو پہلے
ہی خبر مل گئی تھی، مگر مکھیا پھگن مل سے کئے گئے فیصلے کا خیال کر کے وہ نہیں گیا
حالانکہ بہن کی بیماری کا اسے صدمہ تو بہت تھا۔ اس نے بھابھیو سے کہا،
“میں نہیں جاؤں گا۔ مکھیا غصہ کرے گا۔ تُو بیل
گاڑی میں اسے ادھر لے آ۔”
بھابھیو نے یہ عذر سن کر بتایا،
“ماما! تُو اس بات کی فکر نہ کر۔ بابا نے
مکھیا کو راجی کر لیا ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے آتا ہے تو آ جائے ۔”
عبداللہ کے خون نے جوش مارا اور وہ بھانجے کے
ساتھ اپنی بہن کو دیکھنے چلا گیا۔ عصر کی نماز پر جب مولوی صاحب نے عبداللہ کو نہ
دیکھا تو حیران ہو گئے اور نمازیوں سے پوچھا۔ ان میں سے ایک نے عبداللہ کو نمازیوں
کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ بہن بیمار ہے ۔
مولوی صاحب کو عبداللہ کا وہاں جانا اچھا
نہیں لگا اور کہنے لگے ،
“اسے نہیں جانا چاہئے تھا۔ جتنی دیر کافروں
کی صحبت میں بیٹھے گا، ایمان میں کمزوری پیدا ہو گی۔ کوئی جا کر اسے لے آئے ۔”
مولوی صاحب کا حکم سن کر فتح ناریجو اُٹھا
اور جلدی جلدی قدم اُٹھاتا اوڈوں کی جھونپڑیوں کے علاقے میں داخل ہوا جہاں چاروں
طرف نوکیلے کانٹوں کی باڑھ تھی۔ اس نے باہر ہی سے آواز دی،
“عبداللہ ، او عبداللہ!”
مکھیا پھگن مل کا جھونپڑا باڑھ کے پاس ہی تھا۔
وہ اس وقت باہر سے آئے ہوئے مہمان کے ساتھ چوپڑ کھیل رہا تھا۔ آواز سن کر اٹھا اور
باہر نکل کر فتح ناریجو سے پوچھا،
“کیا ہے فتح؟”
“ہمارا عبداللہ تمہارے پاس آیا ہے ، اس کو
مولوی صاحب بلا رہے ہیں ۔”
مکھیا اس بات پر چڑ سا گیا۔ عبداللہ جو اِن کی
ہڈیوں اور خون میں سے تھا، جو جھونپڑیوں میں پیدا ہوا، پلا بڑھا وہ فتح والوں کا
کیسے ہو گیا؟ مگر مکھی نے شوخی سے پوچھا،
“عبداللہ تمہارا ہے ، فتح؟”
“ہاں ڑے ! ہمارا ہے ۔”
“تم اس کے وارث ہو؟”
“ہاں ہاں ہمارا مسلمان بھائی! ہم اس کے وارث
ہیں ۔”
اسی عرصے میں عبداللہ کو بھی کسی نے فتح
ناریجو کے آنے کی اطلاع دی اور وہ بیمار بہن کے جھونپڑے سے نکل کر وہیں آ کر بیٹھ
گیا۔
مکھیا نے فتح سے پوچھا،
“اچھا فتح ، ایک بات بتا۔ کل جو یہ مر جائے
تو اس کی گھر والی کو دھکے دے کر تو نہیں نکالو گے نا؟”
“کیوں نکالیں گے دھکے دے کر؟”
“تم مسلمان اس سے نکاح کر لو گے ؟”
“اگر راضی ہو گی تو اس میں کوئی عیب کی بات
نہیں ۔”
“گھن اور نفرت نہیں ہو گی تمہیں اس سے ؟”
“گھن اور نفرت کیوں ہو گی، اب تو یہ بھی
مسلمان ہے ۔”
عبداللہ سوال و جواب میں مکھیا کو ہارتا ہوا
دیکھ کر مسکرانے لگا۔ مکھیا کو سخت ناگوار گذرا اور وہ اس طرح اپنے سر کو تھپکی
دینے لگا جس طرح چوپڑ میں کسی کو گوٹ مارنے کے لئے سر اور ماتھے کو تھپ تھپاتا
تھا۔ اچانک اس نے پوچھا،
“اچھا فتح! اگر اس کی بیوی مر جائے تو اس کی
شادی اپنے گھرانے میں کر دو گے ؟”
مکھیا کا سوال سن کر فتح کا منہ سرخ ہو گیا۔
آنکھوں میں حقارت و نفرت کا تاثر ابھرا اور اسے ایسا لگا جیسے ایک خسیس اور نیچ
اوڈ نے اسے بہت بڑی گالی دے دی ہو۔
مکھی انے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ وہ
جانتا تھا کہ دیہات میں کوئی اپنی ذات سے باہر لڑکی نہیں دیتا۔ ناریجو ناریجوں ،
کلہوڑے کلہوڑوں میں لڑکی کا رشتہ کرتے ہیں ۔ مکھیا ڈرنے کی بجائے مسکرانے لگااور
فتح سے کہا،
“یہ کون سے قانون میں لکھا ہے کہ تم لو گے ،
مگر دو گے نہیں ۔ اسلام میں تو سب مسلمان بھائی بھائی ہیں نا؟”
“یہ ہماری رسم ہے بابا ،دادا سے ۔” فتح ناریجو
غصے میں گرجا۔
مکھیا اپنی چال میں کامیاب ہوا۔ عبداللہ کے
چہرے پر عجیب سا کرب نمایاں ہوا۔ اس کے ہونٹ کانپنے لگے اور آنکھوں میں موٹے موٹے
آنسو تیرنے لگے ۔ اس نے کسی سے کچھ نہ کہا، بس مکھیا کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر
اوڈوں کے جھونپڑوں کی جانب پلٹ گیا۔
(احمد نسیم کھرل)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں