Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 27 ستمبر، 2015

مستنصر حسین تارڑ کا المیہ !

کیا بیوی، ایک گرل فرینڈ ہو سکتی ہے ؟
 

یہ جو ان دنوں ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی لٹریری فیسٹیول منعقد ہو جاتا ہے تو ان میں آپ کے ساتھ کوئی نہ کوئی خصوصی سیشن رکھا جاتا ہے تو ان محفلوں میں آپ کے پڑھنے والے جہاں آپ کی تحریروں کے حوالے سے انتہائی فکرانگیز اور سنجیدہ سوال کرتے ہیں وہاں کچھ سوالوں میں تفریح کا سامان بھی ہوتا ہے۔۔۔ مثلاً کراچی لٹریری فیسٹیول کے دوران ایک سوال جواب کے سیشن کے آغاز میں، میں نے اقرار کیا کہ خواتین و حضرات بدقسمتی سے میرا ایک کان بالکل بیکار ہو چکا ہے البتہ دوسرے کان سے کچھ کچھ سنائی دے جاتا ہے اس لئے آپ سے ایک درخواست ہے کہ سوال ذرا بلند آواز میں پوچھئے اور مختصر پوچھئے۔۔۔ اس سے پیشتر کہ سیشن کا آغاز ہوتا ایک منحنی سے معنک صاحب کھڑے ہو کر کہنے لگے
’’تارڑ صاحب، پہلے یہ بتایئے کہ آپ کون سے کان سے بہرے ہیں‘‘۔
اس پر حاضرین بے اختیار مسکرانے لگے۔۔۔
’’میں نے عرض کیا کہ حضور اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں کون سے کان سے بہرا ہوں آپ سوال کیجئے‘‘۔
اس پر اُن صاحب نے حاضرین کی جانب فاتحانہ انداز میں دیکھا۔ ایک طنزیہ مسکراہٹ لبوں پر پھیلائی اور کہا
’’نہیں پہلے آپ یہ بتایئے کہ آپ کون سے کان سے بہرے ہیں پھر سوال پوچھوں گا‘‘۔
وہ سیشن کا ستیاناس کرنے پر تلے ہوئے تھے تو میں نے تنگ آ کر کہا
’’حضور، یہ سراسر میری صوابدید پر منحصر ہے کہ میں کس وقت کون سے کان سے بہرا ہو جاؤں۔۔۔ آپ میرے دائیں جانب کھڑے ہیں تو فی الحال میں دائیں کان سے بہرا ہوں۔۔۔ آپ کی آواز نہیں آ رہی‘‘۔۔۔
وہ صاحب چپکے سے کھسک گئے کہ حاضرین نے خوب تالیاں پیٹیں۔۔۔ اسی سیشن میں ایک خاتون نے نہایت دلچسپ سوال کیا، کہنے لگیں
’’تارڑ صاحب میں نے آپ کا حج کا سفرنامہ ’’منہ ول کعبے شریف‘‘ پڑھا ہے جس میں آپ نے اپنی بیگم کا تذکرہ اس طرح کیا ہے جیسے وہ آپ کی بیوی نہ ہوں گرل فرینڈ ہوں‘‘۔۔۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ
’’خاتون جب میں اپنے سفرناموں میں غیرمنکوحہ خواتین کا تذکرہ کرتا تھا تب بھی لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے اور اب اگر اپنی منکوحہ کے ساتھ چہلیں کرتا ہوں تو بھی اعتراض ہوتا ہے۔۔۔ اگر آخری عمر میں بالآخر اپنی بیوی کے عشق میں مبتلا ہو گیا ہوں تو بھی آپ کو منظور نہیں‘‘۔
وہ خاتون نہایت پُرمسرت انداز میں کہنے لگیں
’’آخری عمر میں ہی کیوں؟‘‘ ۔۔۔
میں نے انہیں تو جواب نہیں دیا محض مسکرا دیا لیکن میں آپ کو رازداں بناتا ہوں۔۔۔ آخری عمر میں بیوی کے عشق میں مبتلا ہو جانا ایک مجبوری ہے کہ اتنی طویل رفاقت کے بعد آپ کو احساس ہوتا ہے کہ اس بھلی مانس نے مجھ پر بہت احسان کئے۔۔۔ میری بے راہرو حیات کو برداشت کیا۔۔۔ کبھی شکایت نہ کی البتہ ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ بہت کی تو بس یہی عشق میں مبتلا ہونے کے لائق ہے۔
ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جوانی میں بیوی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی، مرد آخر مرد ہے دل میں خیال آتا تھا کہ اگر یہ مر جائے تو سبحان اللہ میں دوسری شادی کر لوں۔۔۔
اب اس بڑھاپے میں ہر نماز کے بعد میں دعا مانگتا ہوں کہ یا اللہ اسے سلامت رکھنا، یہ مر گئی تو میں دربدر ہو جاؤں گا، مجھے تو کوئی پانی بھی نہیں پوچھے گا۔۔۔ مجھے پہلے لے جانا اِسے سلامت رکھنا۔

ویسے یہ میرا نصف صدی کا پاسے سونے کی مانند کھرا تجربہ ہے کہ نوجوانی میں اپنی بیویوں سے عشق کرنے والے اور اُس کا چرچا کرنے والوں نے ہمیشہ اُن بیویوں سے چھٹکارا حاصل کر کے دوسری شادیاں کیں۔۔۔
مجھ سے پانچ چھ برس جونیئر ایک مناسب شاعر اور ان دنوں بہت دھانسو کالم نگار نے کہا
’’تارڑ بھائی۔۔۔ آپ جانتے ہیں کہ میں نے عشق کی شادی کی ہے۔۔۔ میں اپنی بیوی سے ایک ایسا عشق کرتا ہوں جس کی مثال روئے زمین پر نہ ملے گی۔ میں اُس کی پرستش کرتا ہوں، وہی میرا مذہب ہے اور میں نے اُسے جو خطوط لکھے، جاں نثار اختر نے کہاں لکھے ہوں گے، یہ خطوط تاج محل سے بھی عظیم تر ہیں۔۔۔ میں یہ خطوط کتابی صورت میں شائع کروا رہا ہوں تاکہ آنے والی نسلوں کو معلوم ہو کہ عشق کیا ہوتا ہے۔۔۔ اور اس شہر میں صرف تین لوگ ہیں جنہیں میں اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خطوط کی اس کتاب کا فلیپ تحریر کریں۔۔۔ اعتزاز احسن، منو بھائی اور آپ۔۔۔ اُنہوں نے لکھ دیا ہے آپ بھی لکھ دیں۔۔۔
میں نے لکھ دیا اور پھر کتاب کا انتظار کرنے لگا۔ چار پانچ ماہ کے بعد میں نے اس کتاب کے ناشر سے پوچھا کہ خطوط کی وہ کتاب کیاہوئی تو وہ کہنے لگے
’’موصوف تو اپنے عشق کو طلاق دے چکے ہیں اور ان دنوں دوسری بیوی کے عشق میں سرشار ہو رہے ہیں‘‘۔
میرے ابّا جی کے ایک دوست نسبت روڈ چوک کے قریب حکمت کی دکان کرتے تھے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اتنا عشق کرتے تھے کہ دکان کی دیواروں پر اُس کی تصویریں سجا رکھی تھیں اور کہتے تھے
’’چوہدری صاحب۔۔۔ میں لمحہ بھر کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔ اُس کا چہرہ دیکھتا رہتا ہوں تب دن گزرتا ہے‘‘۔۔۔
جانے کیا ہوا کہ اُن کی بیوی ناگہانی موت سے دوچار ہو گئیں، اُن کو اتنا صدمہ ہوا کہ بہت دنوں تک کچھ کھایا پیا نہیں اور لاغر ہو گئے۔۔۔ مرحومہ کی قبر کے برابر میں ایک جھونپڑا ڈال کر اُس میں فروکش ہو گئے۔۔۔ گھر ترک کر کے قبرستان میں بسیرا کر لیا، درویشی اختیار کر لی، بیوی کی قبر کے ساتھ لپٹ کر روتے رہتے۔۔۔ ایک دو ماہ بعد میں نے ابّا جی سے پوچھا کہ آپ کے اُس دوست کا کیا حال ہے جو بیوی کی قبر کے ساتھ رہتے ہیں تو ابّا جی کہنے لگے اور مسکرا کر کہنے لگے
’’ اُس نے اپنی چھوٹی سالی سے شادی کر لی ہے اور ان دنوں ہنی مون منانے مری گئے ہوئے ہیں‘‘۔
جوانی میں اپنی بیویوں سے محبت کرنے والے لوگ ۔۔۔ ہمیشہ دوسری شادی کرتے ہیں۔۔۔ آزمائش شرط ہے۔۔۔ چونکہ میں نے اپنی اہلیہ سے جوانی میں محبت نہیں کی اس لئے میں نے دوسری شادی بھی نہیں کی۔
ویسے اس عمر میں آ کر اپنی بیوی کے عشق میں مبتلا ہو کر اُس کے ساتھ فلرٹ کرنا نہایت ہی شاندار تجربہ ہے۔ میں اُسے ’’ڈارلنگ‘‘ یا ’’سویٹ ہارٹ‘‘ کہتا ہوں تو وہ ناک چڑھا کر کہتی ہے
’’دفع"

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔