آفس آئی آئی چندریگر روڈ کے پاس واقع ہے، کل شام آفس سے واپس گھر کو آرہا تھا، ڈالمیا کے پاس پولیس کا ناکہ لگا ہوا دیکھا، 4 سپاہی
موٹر سائیکل سوار اور رکشہ والوں کی چیکنگ کر رہے تھے، مجھے بھی رکنے کا
اشارہ ہوا، رکشہ سے اتر کر انہیں شناختی و دیگر پریس کارڈزچیک کرائے تو کہا
کہ آپ جاسکتے ہیں، اتنے میں ایک فحش گالی اور ساتھ میں تھپڑ کی آواز آئی ،
بے اختیار دیکھا تو یہ کارنامہ دوسرے سپاہی نے سرانجام دیا تھا اور ہدف
تھا موٹر سائیکل پر سوارایک مدقوق صحت کا لڑکا ، اسکے ساتھ بائیک پر دوسرا
ساتھی لگ بھگ 25 سال کا ہوگا۔
میں نے اس سپاہی سے پوچھا جس نے مجھے روکا تھا کہ کیا ماجرا ہے بولا ٹارگٹ کلرز ہیں ، ان ہی کی بابت اطلاع پر تو ناکہ لگایا تھا ہم نے، میں نے کہا کہ جب اتنی کنفرم اطلاع تھی کہ مذکورہ ٹارگٹ کلز بائیک سوار ہیں، پھر رکشےکیوں چیک کرتےپھر رہے ہوں، اسنے جواب دئے بنا ہی دوسرے سپاہی کو سندھی میں کچھ کہا، جس کے بعد انہوں نے لڑکوں کو گاڑی میں ڈال دیا اور ایک سپاہی ان لڑکوں کے بائیک پر بیٹھ گیا، اس وقت تک میری صحافیانہ حس مکمل طور پر بیدار ہوچکی تھی۔ میں نے گاڑی میں لڑکوں ساتھ بیٹھے اس سپاہی کو جس نے ایک لڑکے کو تھپڑ مارا تھا سے پوچھا کہ آپ بتانا پسندکرینگے کہ آپکو مخبری کیسے ہوئی اور کیسے کنفرم ہے کہ یہ وہی لڑکے ہیں جس کی آپ کو تلاش ہے۔ سپاہی نے سر سے پاوں تک مجھے گھور کر دیکھا جیسے کتا ہڈی کو دیکھتا ہے (اس مثال میں ہڈی مجھے سمجھیں) اور طنزیہ انداز میں بولا تو بھی انکے ساتھ ہی آجا، میری تو سلگ گئی جواب دیا، اگر آپ یہاں بتادیں تو کیا حرج ، تھانے لے جاکر کونسا مجھے رشتہ دیدینا آپ لوگوں نے۔
میرے اس جملے نے جیسے اسکی ہزاروں سال سوئی ہوئی غیرت کو جگا دیا ، اسی اثنا میں فون آگیا، بات سے اندازہ ہوا کہ فون پر کوئی سینیر پولیس اہلکار سے بات ہورہی تھی، اسے بتایا کہ لڑکے مل گئے ہیں، انہیں لے کر آرہے ہیں ، پھر میری طرف دیکھ کر بولا ، ساتھ میں ایک الو کا پٹھا اور بھی ہے جو کہتا ہے کہ تھانے لے جاکر کونسی بہن کا رشتہ دوگے۔ (اب میں نے صرف رشتہ کی بات کی تھی، بہن سے شادی کرانے کا اسنے خود ہی سوچ لیا تھا) خیر آگے سے جو بھی جواب ملا اسکے بعد مجھے بھی اسی طرح موبائیل وین میں اچک لیا گیا جس طرح نکاح کے بعد مٹھائی کے ٹوکرے سے گلاب جامن کو اٹھایا جاتاہے۔
میری سوچ یہی تھی کہ تھانے جاکر جو بھی ڈیوٹی انچارج ہوگا اس کو اپنا تعارف کرا کر استفسار کرونگا کہ یہ کس قسم کی غنڈہ گردی اور لاقانوننیت ہے۔ گاڑی میں لڑکوں سے بھی پوچھا کہ کیا کرتےہو وہ بولا کہ میں موٹر بائیک مکینگ ہوں، ایک ہنڈا سروس شاپ پر ملازمت کرتا ہوں اور یہ میرا سالا ہے جو رنگ سازی کا کام کرتا ہے۔
خیر تھانے پہنچتے ہی سائیڈ پر ایک کمرے میں پیش کیا گیا جہاں پر ایک خرانٹ صورت اے ایس آئی موجود تھا ، اس سے قبل کہ میں اسے اپنا تعارف کراتا اسنے سپاہی سے پوچھا کہ بہن کا رشتہ والی بات کس نے کی تھی، سپاہی نے میری طرف اشارہ کیا ، قبل ازیں میں کچھ کہتا، زناٹے دار تھپڑ میرے گال پر ، چونکہ میں اس کی توقع نہیں کر رہا تھا اسلئے نیچے لڑکھڑا کرگرا، اسکے بعد لاتوں اور ٹھڈوں سے میری خاطرتواضع شروع ہوگئی، مار کھاتے ہوئے دو باتوں کا احساس ہوا کہ ایک جب میں انساپی چوزوں کی دھلائی کرتا ہوں وہ خود کو کتنا بے بس محسوس کرتے ہونگے دوسرا اگر بندہ مجھ جیسا ڈھیٹ ہو تو اس موقع پر بھی حس مزاح قائم رکھی جاسکتی ہے۔ ( میں ان سے کہنا چاہ رہا تھا کہ سوکھے سوکھےمت مارو ساتھ میں کوئی چٹنی سلاد بھی دو لیکن لاتوں کی برسات اسقدر تیز تھی کہ جملہ منہ میں ہی رہا)
2 منٹ کے دھلائ پروگرام کے بعد اے ایس آئی صاحب جاکر اپنی نشست پر براجمان
ہوگئے۔ اور دوسرے لڑکوں کی جیبوں سے تلاشی کردہ سامان کے معائنہ میں محو
ہوگئے۔ میں نے اپنے حواس مجتمع کئے
اور جاکر اے ایس آئی کے سامنے جاکر بیٹھ گیا، اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتا ، میں نے ایک ناقابل تحریر گالی دیتے ہوئے سے کہا کہ جو تم نے کرنا تھا وہ تو کرلیا لیکن اب سنو اپنے بہنوئی کا تعارف۔ اسکے بعد میں نے اپنا بٹوہ کھولا اور اس میں سے ایک ایک کرکے اخبار دفتر، نیشنل پریس کلب، پاکستان فیڈریشن یونین آف جرنلسٹس، کرائم اینڈ کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن کی ممبرشپ کے کارڈز اسکے سامنے ڈھیر کردئے ، یہ جان کر کہ جس کی ٹھکائی کی یہ تو مستند صحافی ہے، اسکا چہرہ پل بھر کو متغیر ہوگیا پھر بولا کہ آپ صحافی ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ قانون کو ہاتھ میں لینگے اور پولیس والوں کو گالیاں دینگے، میں نے کہا اپنے اس چول سپاہی سے قسم دے کر پوچھو بات رشتے کی کہی تھی ، بہن تو خود اسنے ڈال دی بہر کیف جو ہونا تھا ہوگیا، اب تم اپنا زورلگاو میں اپنا زور لگاتا ہوں دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
اسکے بعد فلمی انداز میں دونوں جانب سے ڈائیلاگز کا سلسلہ شروع ہوا جس کے انجام پر اسنے سیٹ چھوڑی اور باہر جاکر ایس ایچ او کو فون لگالیا۔ بتایا گیا کہ ایس ایچ او صاحب آنے والے ہیں آپکا مسئلہ انکے پاس لے کر جائینگے، میں نے فون کرنا چاہا تو فون سپاہی نے لے لیا کہ جب تک ایس ایچ او صاحب نہیں آجاتے فون کی اجازت نہیں ہے۔
ایک گھنٹے بعد سپاہی آیا اور بولا کہ آپ کے کارڈز ایس ایچ او صاحب نے ویریفائی کرلئے ہیں لیکن وہ سب اسلام آباد کے ہیں اگر آپ کوئی توپ شے ہیں تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ کارسرکار میں مداخلت کریں باوردی پولیس والوں سے گالم گلوچ اور ہاتھا پائی کریں۔اسلئے آپ پر مقدمہ درج ہوگا۔ میں نے کہا جو کرنا ہے کرو جو اکھاڑنا ہے اکھاڑو لیکن مجھے ایک فون کرنے دو جو میرا قانونی حق ہے، سپاہی بولا ایس ایچ او صاحب چلے گئے ہیں ، ڈیوٹی آفیسر کھانا کھانے گئے ہیں واپس آتے ہیں تو ان سے بات کرنا۔اسکے بعد مجھے تفتیشی کمرے سے حوالات میں شفٹ کردیا گیا۔میں سمجھ گیا اب صرف مجھے دباو میں لانا چاہ رہے ہیں کہ میں یہاں سے جاکر مسئلہ نہ بناوں۔
لاک اپ میں وہ دونوں لڑکےجن کی وجہ سے یہ سارا مسئلہ بنا بھی موجود تھے میں نے پوچھا یار سچی میں کرمنل ہوں تو بتادو خوامخواہ میں میری دھلائی بھی ہوگئی ، وہ رونے لگے کہ قسم لے لیں جو ہم نے کبھی مکھی بھی ماری ہو باقی ان پولیس والوں کی آپس میں سندھی میں بات چیت سے پتا چلا کہ دو ٹارگٹ کلرز مانگے ہیں کسی صاحب نے تھانے کی پراگرس شو کرنی ہے اسی چکر میں ہمیں اٹھاکر لائے ہیں۔ جو تفصیلات انہوں نے بتائی تو سمجھ آیا کہ ان لڑکوں کو مار پیٹ کر ان سے ناکردہ جرائم کا اعتراف کراکر اپنی نوکری پکی کرنے کا پلان ہے۔
رات کو بارہ بجے دوبارہ طلبی ہوئی، اے ایس آئی کمرے میں سیگریٹ سلگا کر بیٹھا ہوا تھا اور چہرے پر نرمی تھی، کہنے لگا سر معذرت دلی معذرت جو بھی ہوا غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا،باقی ایس ایچ او صاحب نائٹ گشت پر گئے ہیں فون لگارہا ہوں اٹینڈ نہیں ہورہا جسیے ہی ان سے بات ہوتی آپکو چھوڑ دینگے۔ ہم آپ پر کوئی مقدمہ درج نہیں کر رہے، آپکے لئے کھانا منگوایا ہے کھانا کھالیں، میں نے جواب دیا کھانا تو میں نے لاتوں اور ٹھڈوں کی شکل میں کھلادیا باقی جو کرنا ہے کرو۔ اے ایس آئی نے دوبارہ معذرت کی اور فون اور بٹوہ کارڈز میرے سامنے رکھ دئے۔ میں نے فون آن کیا اور تین چار کالز گھمائی۔ اسکے بعد میں نے اسے کہا چلو اب مجھے دوبارہ لاک اپ میں ڈالدو۔ اسنے کہا نہیں سائیں آپ ادھر ہی بیٹھے جیسے ایس ایچ او صاحب آتے ہیں انکے ساتھ ایک کپ چائے پی کر غلط فہمیاں دور کرکے آپ جہاں کہنگے ہم چھوڑدینگے۔
قصہ المختصر میرے میڈیا کے دوست بھی آگئے، ایس ایچ او بھی نمودار ہوا، متعلقہ ڈی ایس پی کی جانب سے فون پر عاجزانہ معافی اور درگذر کی درخواست کے بعد جرگہ سمٹا اور صبح پانچ بجے تھانے سے باہر نکلے، پتا چلا لڑکوں کو صبح میجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرکے جسمانی ریمانڈ لیا جائیگا پھر تفتیش ہوگی۔
دوستوں کے ساتھ باہر آکر ایک ہوٹل میں بھرپور ناشتہ کیا اور آئندہ کا لائحہ عمل پر تبادلہ خیال بھی، 8 بجے کے قریب واپس گھر پاس پہنچا تو اچانک ان دو لڑکوں کے چہرے دماغ پر ابھرے، اور چند دن قبل ایم کیو ایم کے مبینہ ٹارگٹ کلرز کی لاشوں کی تصاویر بھی یاد آگئی کیسے انکے جسم تشدد سے چھلنی تھے اور انگلیوں کے ناخن تک زنبور سے اکھاڑے گئے تھے، دوست کو کہا چلو کچہری چلو، کچہری پہنچ کر مطلب کا سستا سا وکیل تلاش کیا، اسکے منشی اور نائب منشی کی ڈیوٹی لگائی، کہ متعلقہ تھانے کے میجسٹریٹ میں جب پولیس جب لڑکوں کوجسمانی ریمانڈ کے لئے پیش کریں تو ہمیں بتادینا۔ پھر وکیل سے گپ شپ چائے کےدور ، ساڑھے گیارہ بجے نائب منشی کا فون آگیا کہ پولیس ان لڑکوں کو لے آئی ہے کورٹ میں، ہم فورا پہنچ گئے، جیسے ہی جسمانی ریمانڈ کے لئے درخواست اے ایس آئی نے آگے کی ساتھ ہی ہمارے وکیل نے شور ڈال دیا ، جج کو ساری بات بتائی تصدیق کے لئے میری طرف اشارہ کیا ، اور میرے صحافتی کارڈز پیش کئے، جج صاحب ذہین آدمی تھے پولیس کا کھیل بھانپ گئے، اے ایس آئی کی جماکر کلاس لی اور جسمانی ریمانڈ کی درخواست منسوخ کرکے لڑکوں کو جیوڈیشل کرنے کا آرڈر دے دیا۔ وکیل سے کہا کہ لڑکے جیل بجھوارہا ہوں آپ انکی ضمانت کے لئے درخواست فائل کردیں۔
باہر آکر اے ایس آئی نے مجھے قہر آلود نگاہوں سے گھورا اور بولا سائیں ہمارا خیال تھا کہ بات رات کو ختم ہوگئی تھی۔ میں نے کہا بات مری حد تک ختم ہوئی تھی، باقی اب گھوڑا بھی حاضر اور میدان بھی، آج آفس میں جاکر کرائم رپورٹنگ جوائن کر رہا ہوں۔ ایس ایچ او سے کہنا کہ روزانہ ملاقات ہوگی، فی الحال تو کل رات کو جو میرے ساتھ ہوا وہ کسی اور شریف کے ساتھ نہ ہو ، اسی لئے آئی جی آفس میں تم لوگوں کے خلاف درخواست گزار کر رہا ہوں۔ اپنا زور لگاو اور مجھے بتاو کہ صرف کسی کو گرا کر ٹھڈے مارنے میں ہی شیر ہوں یا کوئی اثر رسوخ بھی ہے تم لوگوں کا۔
تو یہ تھی کراچی میں میری پہلی عزت افزائی کی روداد، لڑکے جیل چلے گئے ہیں لیکن وکیل کے مطابق جسمانی ریمانڈ کی منسوخی کے بعد پہلی ہی پیشی میں انکی درخواست ضمانت منظور ہوجانی ہے۔
سہ پہر چار بجے گھر واپس لوٹا، بستر پر گرا تو خیال آیا کہ اگر دو درجن گالیوں ، چار درجن لاتوں اور ٹھڈوں کے بدلے میں دو بے گناہ لڑکوں کی جاں خلاصی ہوجاتی ہے ۔
تو ناٹ بیڈ۔
کیا خیال ہے دوستو؟
( ابوعلیحہ - کرائم رپورٹر )
اور جاکر اے ایس آئی کے سامنے جاکر بیٹھ گیا، اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتا ، میں نے ایک ناقابل تحریر گالی دیتے ہوئے سے کہا کہ جو تم نے کرنا تھا وہ تو کرلیا لیکن اب سنو اپنے بہنوئی کا تعارف۔ اسکے بعد میں نے اپنا بٹوہ کھولا اور اس میں سے ایک ایک کرکے اخبار دفتر، نیشنل پریس کلب، پاکستان فیڈریشن یونین آف جرنلسٹس، کرائم اینڈ کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن کی ممبرشپ کے کارڈز اسکے سامنے ڈھیر کردئے ، یہ جان کر کہ جس کی ٹھکائی کی یہ تو مستند صحافی ہے، اسکا چہرہ پل بھر کو متغیر ہوگیا پھر بولا کہ آپ صحافی ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ قانون کو ہاتھ میں لینگے اور پولیس والوں کو گالیاں دینگے، میں نے کہا اپنے اس چول سپاہی سے قسم دے کر پوچھو بات رشتے کی کہی تھی ، بہن تو خود اسنے ڈال دی بہر کیف جو ہونا تھا ہوگیا، اب تم اپنا زورلگاو میں اپنا زور لگاتا ہوں دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
اسکے بعد فلمی انداز میں دونوں جانب سے ڈائیلاگز کا سلسلہ شروع ہوا جس کے انجام پر اسنے سیٹ چھوڑی اور باہر جاکر ایس ایچ او کو فون لگالیا۔ بتایا گیا کہ ایس ایچ او صاحب آنے والے ہیں آپکا مسئلہ انکے پاس لے کر جائینگے، میں نے فون کرنا چاہا تو فون سپاہی نے لے لیا کہ جب تک ایس ایچ او صاحب نہیں آجاتے فون کی اجازت نہیں ہے۔
ایک گھنٹے بعد سپاہی آیا اور بولا کہ آپ کے کارڈز ایس ایچ او صاحب نے ویریفائی کرلئے ہیں لیکن وہ سب اسلام آباد کے ہیں اگر آپ کوئی توپ شے ہیں تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ کارسرکار میں مداخلت کریں باوردی پولیس والوں سے گالم گلوچ اور ہاتھا پائی کریں۔اسلئے آپ پر مقدمہ درج ہوگا۔ میں نے کہا جو کرنا ہے کرو جو اکھاڑنا ہے اکھاڑو لیکن مجھے ایک فون کرنے دو جو میرا قانونی حق ہے، سپاہی بولا ایس ایچ او صاحب چلے گئے ہیں ، ڈیوٹی آفیسر کھانا کھانے گئے ہیں واپس آتے ہیں تو ان سے بات کرنا۔اسکے بعد مجھے تفتیشی کمرے سے حوالات میں شفٹ کردیا گیا۔میں سمجھ گیا اب صرف مجھے دباو میں لانا چاہ رہے ہیں کہ میں یہاں سے جاکر مسئلہ نہ بناوں۔
لاک اپ میں وہ دونوں لڑکےجن کی وجہ سے یہ سارا مسئلہ بنا بھی موجود تھے میں نے پوچھا یار سچی میں کرمنل ہوں تو بتادو خوامخواہ میں میری دھلائی بھی ہوگئی ، وہ رونے لگے کہ قسم لے لیں جو ہم نے کبھی مکھی بھی ماری ہو باقی ان پولیس والوں کی آپس میں سندھی میں بات چیت سے پتا چلا کہ دو ٹارگٹ کلرز مانگے ہیں کسی صاحب نے تھانے کی پراگرس شو کرنی ہے اسی چکر میں ہمیں اٹھاکر لائے ہیں۔ جو تفصیلات انہوں نے بتائی تو سمجھ آیا کہ ان لڑکوں کو مار پیٹ کر ان سے ناکردہ جرائم کا اعتراف کراکر اپنی نوکری پکی کرنے کا پلان ہے۔
رات کو بارہ بجے دوبارہ طلبی ہوئی، اے ایس آئی کمرے میں سیگریٹ سلگا کر بیٹھا ہوا تھا اور چہرے پر نرمی تھی، کہنے لگا سر معذرت دلی معذرت جو بھی ہوا غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا،باقی ایس ایچ او صاحب نائٹ گشت پر گئے ہیں فون لگارہا ہوں اٹینڈ نہیں ہورہا جسیے ہی ان سے بات ہوتی آپکو چھوڑ دینگے۔ ہم آپ پر کوئی مقدمہ درج نہیں کر رہے، آپکے لئے کھانا منگوایا ہے کھانا کھالیں، میں نے جواب دیا کھانا تو میں نے لاتوں اور ٹھڈوں کی شکل میں کھلادیا باقی جو کرنا ہے کرو۔ اے ایس آئی نے دوبارہ معذرت کی اور فون اور بٹوہ کارڈز میرے سامنے رکھ دئے۔ میں نے فون آن کیا اور تین چار کالز گھمائی۔ اسکے بعد میں نے اسے کہا چلو اب مجھے دوبارہ لاک اپ میں ڈالدو۔ اسنے کہا نہیں سائیں آپ ادھر ہی بیٹھے جیسے ایس ایچ او صاحب آتے ہیں انکے ساتھ ایک کپ چائے پی کر غلط فہمیاں دور کرکے آپ جہاں کہنگے ہم چھوڑدینگے۔
قصہ المختصر میرے میڈیا کے دوست بھی آگئے، ایس ایچ او بھی نمودار ہوا، متعلقہ ڈی ایس پی کی جانب سے فون پر عاجزانہ معافی اور درگذر کی درخواست کے بعد جرگہ سمٹا اور صبح پانچ بجے تھانے سے باہر نکلے، پتا چلا لڑکوں کو صبح میجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرکے جسمانی ریمانڈ لیا جائیگا پھر تفتیش ہوگی۔
دوستوں کے ساتھ باہر آکر ایک ہوٹل میں بھرپور ناشتہ کیا اور آئندہ کا لائحہ عمل پر تبادلہ خیال بھی، 8 بجے کے قریب واپس گھر پاس پہنچا تو اچانک ان دو لڑکوں کے چہرے دماغ پر ابھرے، اور چند دن قبل ایم کیو ایم کے مبینہ ٹارگٹ کلرز کی لاشوں کی تصاویر بھی یاد آگئی کیسے انکے جسم تشدد سے چھلنی تھے اور انگلیوں کے ناخن تک زنبور سے اکھاڑے گئے تھے، دوست کو کہا چلو کچہری چلو، کچہری پہنچ کر مطلب کا سستا سا وکیل تلاش کیا، اسکے منشی اور نائب منشی کی ڈیوٹی لگائی، کہ متعلقہ تھانے کے میجسٹریٹ میں جب پولیس جب لڑکوں کوجسمانی ریمانڈ کے لئے پیش کریں تو ہمیں بتادینا۔ پھر وکیل سے گپ شپ چائے کےدور ، ساڑھے گیارہ بجے نائب منشی کا فون آگیا کہ پولیس ان لڑکوں کو لے آئی ہے کورٹ میں، ہم فورا پہنچ گئے، جیسے ہی جسمانی ریمانڈ کے لئے درخواست اے ایس آئی نے آگے کی ساتھ ہی ہمارے وکیل نے شور ڈال دیا ، جج کو ساری بات بتائی تصدیق کے لئے میری طرف اشارہ کیا ، اور میرے صحافتی کارڈز پیش کئے، جج صاحب ذہین آدمی تھے پولیس کا کھیل بھانپ گئے، اے ایس آئی کی جماکر کلاس لی اور جسمانی ریمانڈ کی درخواست منسوخ کرکے لڑکوں کو جیوڈیشل کرنے کا آرڈر دے دیا۔ وکیل سے کہا کہ لڑکے جیل بجھوارہا ہوں آپ انکی ضمانت کے لئے درخواست فائل کردیں۔
باہر آکر اے ایس آئی نے مجھے قہر آلود نگاہوں سے گھورا اور بولا سائیں ہمارا خیال تھا کہ بات رات کو ختم ہوگئی تھی۔ میں نے کہا بات مری حد تک ختم ہوئی تھی، باقی اب گھوڑا بھی حاضر اور میدان بھی، آج آفس میں جاکر کرائم رپورٹنگ جوائن کر رہا ہوں۔ ایس ایچ او سے کہنا کہ روزانہ ملاقات ہوگی، فی الحال تو کل رات کو جو میرے ساتھ ہوا وہ کسی اور شریف کے ساتھ نہ ہو ، اسی لئے آئی جی آفس میں تم لوگوں کے خلاف درخواست گزار کر رہا ہوں۔ اپنا زور لگاو اور مجھے بتاو کہ صرف کسی کو گرا کر ٹھڈے مارنے میں ہی شیر ہوں یا کوئی اثر رسوخ بھی ہے تم لوگوں کا۔
تو یہ تھی کراچی میں میری پہلی عزت افزائی کی روداد، لڑکے جیل چلے گئے ہیں لیکن وکیل کے مطابق جسمانی ریمانڈ کی منسوخی کے بعد پہلی ہی پیشی میں انکی درخواست ضمانت منظور ہوجانی ہے۔
سہ پہر چار بجے گھر واپس لوٹا، بستر پر گرا تو خیال آیا کہ اگر دو درجن گالیوں ، چار درجن لاتوں اور ٹھڈوں کے بدلے میں دو بے گناہ لڑکوں کی جاں خلاصی ہوجاتی ہے ۔
تو ناٹ بیڈ۔
کیا خیال ہے دوستو؟
( ابوعلیحہ - کرائم رپورٹر )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں