" نوجوان ! میرے اِس ٹیسٹ کی تاریخ 24 ستمبر تھی ، اور اُس دن چھٹی تھی ۔ اب کیا کیا جائے ؟" بوڑھے نے ریسیپشن ڈیسک کے پیچھے بیٹھے، نیم فوجی سے پوچھا -
نوجوان نے کاغذ کو غورسے دیکھا اوربے اعتنائی سے کہا، " آج تو 29 تاریخ ہے آپ کی تاریخ گذر گئی ، میں آپ کو اگلی تاریخ دے دیتا ہوں "۔
" کون سی ؟ میرے مرنے سے پہلے ، یا بعد کی ؟" بوڑھے نے پوچھا ۔
12 اگست کو بوڑھا اوربڑھیا اپنی روزانہ ،مٹھی بھردوائیاں پھانکنے کے بعد ، تقریباً ختم ہونے والے مہینہ بھرکے کوٹے کو نئے سرے سے چالو کرنے کے لئے، دو گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ، بریگیڈئر صاحب کے پاس بیٹھے تھے اور بڑھیا تفصیلاً ، دردوں ، چکروں کی گھن چکری کی داستان سنا رہی تھی اور بریگیڈئر صاحب ایک ھاتھ کمپیوٹر کے کی بورڈ پر رکھے ، نہایت انکساری سے سن رہے تھے، بڑھیا نے ہر دوائی کے کھانے سے ہونے والے ری ایکشن کی تفصیل بتائی ۔
پھر 9 اگست کو بوڑھوں کے جکرنڈا کلب میں برپا ہونے والے برنچ پر شوگر بنانے کی فیکٹریوں کی مالکان، بڑی بی بیبوں سے شوگر کی بہترین صفائی کے لئے مختلف ادویات ھائے خورا ک کی بابت پوچھا ، سب نے اپنے اپنے تجربے سے بتایا ، وہی اب ڈاکٹر صاحب سُن رہے تھے ۔
اُنہوں نے ، نہایت مشفق لہجے میں ہدایت دی ۔
"دوائیاں یہ بہترین ہیں لیکن آپ کو وقت کے مطابق روزانہ کھانا پڑیں گی " ۔
" ڈاکٹر صاحب ، یہی تو مسئلہ ہے مجھے یاد نہیں رہتیں" بڑھیا نے اپنا دُکھڑا رویا " بیٹی یادکرائے تو کھا لیتی ہوں"۔
" میجرصاحب ، کو کہیں یہ یادکرا دیں !" بریگیڈئر صاحب نےیہ کہہ کر گویا شکایات کے گٹھر پر لٹھ مارا ۔
" انہیں لیپ ٹاپ سے فرصت ہو تو یہ ، مجھے توجہ دیں ، میں اِن کے پاس آ کر بیٹھ بھی جاؤں تو انہیں پرواہ نہیں ہوتی کہ میں آئی ہوں ، بس لیپ ٹاپ پر دیدے گاڑے بیٹھے رہتے ہیں اور ٹھک ٹھک ،انگلیاں چل رہی ہوتی ہیں ۔ 5 ہزاراِن کےدوست ہیں فیس بک پر ، بس رونے والی میں اورمیری بیٹیاں ہوں گی ، پوری رات بیٹھ کرمعلوم نہیں کیا کرتے ہیں "
میں بریگیڈئر صاحب کی آنکھوں کو غورسے پڑھ رھا تھا ، اُن میں افسوس کا پانی تو نہیں البتہ بوڑھی کے شکوے سے لطف اندوز ہونے کی شرارت تیرہی تھے -
بریگیڈئر صاحب! کا یہی کام تھا ، ماہرادوایات کے ساتھ ماہرنفسیات کے فرائض سرانجام دینا ۔
" تو یہ سوتے کب ہیں ؟ اِنہیں بھی تو سونا ضروری ہے " بریگیڈئر صاحب نے پوچھا
" کون سی ؟ میرے مرنے سے پہلے ، یا بعد کی ؟" بوڑھے نے پوچھا ۔
12 اگست کو بوڑھا اوربڑھیا اپنی روزانہ ،مٹھی بھردوائیاں پھانکنے کے بعد ، تقریباً ختم ہونے والے مہینہ بھرکے کوٹے کو نئے سرے سے چالو کرنے کے لئے، دو گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ، بریگیڈئر صاحب کے پاس بیٹھے تھے اور بڑھیا تفصیلاً ، دردوں ، چکروں کی گھن چکری کی داستان سنا رہی تھی اور بریگیڈئر صاحب ایک ھاتھ کمپیوٹر کے کی بورڈ پر رکھے ، نہایت انکساری سے سن رہے تھے، بڑھیا نے ہر دوائی کے کھانے سے ہونے والے ری ایکشن کی تفصیل بتائی ۔
پھر 9 اگست کو بوڑھوں کے جکرنڈا کلب میں برپا ہونے والے برنچ پر شوگر بنانے کی فیکٹریوں کی مالکان، بڑی بی بیبوں سے شوگر کی بہترین صفائی کے لئے مختلف ادویات ھائے خورا ک کی بابت پوچھا ، سب نے اپنے اپنے تجربے سے بتایا ، وہی اب ڈاکٹر صاحب سُن رہے تھے ۔
اُنہوں نے ، نہایت مشفق لہجے میں ہدایت دی ۔
"دوائیاں یہ بہترین ہیں لیکن آپ کو وقت کے مطابق روزانہ کھانا پڑیں گی " ۔
" ڈاکٹر صاحب ، یہی تو مسئلہ ہے مجھے یاد نہیں رہتیں" بڑھیا نے اپنا دُکھڑا رویا " بیٹی یادکرائے تو کھا لیتی ہوں"۔
" میجرصاحب ، کو کہیں یہ یادکرا دیں !" بریگیڈئر صاحب نےیہ کہہ کر گویا شکایات کے گٹھر پر لٹھ مارا ۔
" انہیں لیپ ٹاپ سے فرصت ہو تو یہ ، مجھے توجہ دیں ، میں اِن کے پاس آ کر بیٹھ بھی جاؤں تو انہیں پرواہ نہیں ہوتی کہ میں آئی ہوں ، بس لیپ ٹاپ پر دیدے گاڑے بیٹھے رہتے ہیں اور ٹھک ٹھک ،انگلیاں چل رہی ہوتی ہیں ۔ 5 ہزاراِن کےدوست ہیں فیس بک پر ، بس رونے والی میں اورمیری بیٹیاں ہوں گی ، پوری رات بیٹھ کرمعلوم نہیں کیا کرتے ہیں "
میں بریگیڈئر صاحب کی آنکھوں کو غورسے پڑھ رھا تھا ، اُن میں افسوس کا پانی تو نہیں البتہ بوڑھی کے شکوے سے لطف اندوز ہونے کی شرارت تیرہی تھے -
بریگیڈئر صاحب! کا یہی کام تھا ، ماہرادوایات کے ساتھ ماہرنفسیات کے فرائض سرانجام دینا ۔
" تو یہ سوتے کب ہیں ؟ اِنہیں بھی تو سونا ضروری ہے " بریگیڈئر صاحب نے پوچھا
" رات کو دیر سے سوتے ہیں صبح 10 بجے اُٹھتے ہیں ، دوپہر کو سوتے ہیں تو رات کو اُٹھتے ہیں ، انھیں بھی میں ہی دوائیاں کھلاتی ہوں " بڑھیا نے اپنے احسانِ عظیم بتلایا ۔
" آپ ایسا کریں کہ دوائیاں کھانے کے لئے الارم لگا دیں " ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا ۔
" خدا کے لئے ڈاکٹر صاحب! میں پہلے ہی اکیس الارم بجنے سے پریشان ہوں ۔ مزید 20 الارم تو ، اُف اب مجھے پورچ میں اپنا بستر شفٹ کرنا پڑے گا " بوڑھا بلبلایا ۔
" غضب خدا کا ، ہرنماز ے لئے تین الارم ، ایک گہری نیند سے اٹھانے کے لئے ، دوسرا مزید اٹھانے کے لئے اور تیسرا بالکل اٹھانے کے لئے چَف ، چَف ، چَف !چَف !چَف !، اور دن کی کل سات نمازیں اور بچوں اور اُن کے بچوں کی لئے نمازیں ، پھر اپنے ماں باپ اور میرے ماں باپ کے لئے نمازیں ۔ پھر کسی باعلم کے مطابق ، روزانہ دس بجے اور چار بجے سورۃ بقرۃ کی، ایل سی ڈی ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کی تلاوت ۔ یقین مانیں ، میرے گھرسے توزیادہ رائے ونڈ کے اجتماع میں خاموشی ہوتی ہے "
بوڑھے نے اپنی کتھا پرسوز آواز میں سنائی ۔ اب بریگیڈئر صاحب کی آنکھوں میں درد کا سمندر اُمنڈ آنے کو تھا ، مگر اُنہوں نے اُسے درد بھری مسکراہٹ کا بند باندھ کر قابو میں رکھا ، گو بریگیڈئر صاحب بوڑھے سے قریباً 15 سال چھوٹے نظر آتے تھے، لیکن سچ ہے مرد کا دکھ ہم عمرمرد ہی سمجھ سکتا ہے اور وہ بھی اگر فوجی مرد ہو ، گو ڈاکٹر ، ڈاکٹر ہوتا ہے فوجی نہیں ، لیکن معلوم نہیں کیوں ؟ فوجی وردی پہنتے ہی ، اُس کی جون تبدیل ہوجاتی ہے ۔
بریگیڈئر صاحب ، کی انگلیاں کی بورڈ پر چلنے لگیں اور جب رکیں تو بڑھیا سے بولے ، " میں نے دوائیاں لکھ دی ہیں آپ اِنہیں ، اُس ہدایت کے مطابق کھائیں جیسا کہ میں نے بتائی ہیں اور پریشان ہونا چھوڑ دیں آپ کی آدھی استطاعت شوگر افزائی رک جائے گی "
بڑھیا اُٹھی تو بوڑھے کی باری آئی ، " جی سر ! آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ "
" سر ، اللہ کا شکر ہے ۔ بس پچھلی دوائیاں کاپی ٹو کاپی کر دیں " بوڑھے نے کہا ۔
" ڈاکٹر صاحب ، اِن کے دماغ میں مسئلہ ہے ، بیٹھے بیٹھے دس بیس سیکنڈ کے لئے گم ہو جاتے ہیں سر ڈھلنے لگتا ہے اور ہم سب پریشان ہو جاتے ہیں " بڑھیا بولی ۔
" کم خوابی میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ آپ پوری نیند لیا کریں "
بریگیڈئر صاحب بولے ۔
" بھائی نیند کی وجہ نہیں ، اِن کے برین میں بلڈ کلاٹ بنتا ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ ہوتا ہے " بڑھیا بولی " آپ کلاٹ ختم کرنے کی دوائیں دے دیں "
" سر ! آپ کا سی ٹی سکین اورڈاپلر ٹیسٹ ہوا ہے " بریگیڈئر صاحب نے پوچھا ۔
" سر ! سی ٹی سکین ہوا ہے، ڈاپلر ٹیسٹ نہیں" بوڑھے نے جواب دیا -
" میں نے ڈاپلر ٹیسٹ لکھ دیا ہے وہ کروا کر مجھے دکھائیں اور پرانی سی ٹی سکین کی رپورٹ بھی ساتھ لانا "
بریگیڈئر صاحب بولے ۔ بڑھیا اور بوڑھا شکریہ ادا کر کے باہر آگئے ۔ اور ڈاپلر ٹیسٹ کے لئے ۔ الٹرا ساونڈ ڈیپارٹمنٹ کی طرف روانہ ہوئے ۔ جہاں بوڑھے کوڈاپلر ٹیسٹ کے لئے 24 ستمبر کو آنے کے لئے کہا ، وجہ پوچھی تو معلوم ہوا ،
" بہت رش " ہے ، اور بوڑھے پر مہربانی کر کے جلدی تایخ دی ہے ورنہ دو ڈھائی ماہ سے کم تاریخ نہیں ملتی ۔ بڑھیا کا بھی 15 منٹ میں ڈاپلر ٹیسٹ ہوا تھا -
" اور اللہ رحم کرے اتنے مریض " بوڑھے نے سوچا ۔ اور دونوں گھر آگئے -
ستمبر کے کوٹے کی دوائی لینے کے لئے ، ملازم کو بھجوایا تو بڑھیا کو یاد آیا کہ بوڑھے کا ڈاپلر ٹیسٹ بھی ہونا تھا ۔ بوڑھا سو کر اُٹھا ، تو بڑھیا نے ناشتے کے ساتھ معلومات دی ،
" سلیم کو دوائیوں کے لئے بھجوادیا ہے اور آپ کی ڈوپلر ٹیسٹ کی تاریخ گذر گئی ؟ " بڑھیا نے پوچھا
" میرا خیال ہے 24 ستمبر کو جانا ہے ، لیکن چٹ کہاں ہے ۔ اپنے بیگ میں دیکھو !" بوڑھے نے کہا ۔
اب چٹ کی تلاش شروع ہوئی ۔ خیر بوڑھے نے 12 اگست کے " سیکوئنس آف ایونٹس " یاد کرنے شروع کئے اور ہر اُس شاپر ، تھیلے ، دوائیوں کے ڈبے ، میڈیسنٹ کیبنٹ کو دیکھا مگی چٹ نہ ملی ۔
"خیر پھر نئی چٹ لے لیں گے، تاریخ تو رجسٹر پر لکھی ہوئی ہے " بوڑھے نے بڑھیا کو تسلی دی ۔
بوڑھے کے جنم دن پر ، بوڑھے کے پرس سے چٹ مل گئی ۔
24 ستمبر کو عید الاضحیٰ کی چھٹیاں ہوگئیں ۔ لیکن بوڑھے نے احتیاطً ، سی ایم کے پاس رہنے والے ایک دوست ے بیٹے کی مشقت لگائی، کہ اگر سی ٹی سکین ڈیپارٹمنٹ کھلا ہے تو موبائل پر بتائے ۔ لیکن وہ بند تھا ۔ اُس نے موبائل پر پوری روداد سنائی -
یوں 29 ستمبر کو بوڑھا ، سی ایم ایچ پہنچا ، جہاں ایک نئی کہانی نے جنم لیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
" آپ ایسا کریں کہ دوائیاں کھانے کے لئے الارم لگا دیں " ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا ۔
" خدا کے لئے ڈاکٹر صاحب! میں پہلے ہی اکیس الارم بجنے سے پریشان ہوں ۔ مزید 20 الارم تو ، اُف اب مجھے پورچ میں اپنا بستر شفٹ کرنا پڑے گا " بوڑھا بلبلایا ۔
" غضب خدا کا ، ہرنماز ے لئے تین الارم ، ایک گہری نیند سے اٹھانے کے لئے ، دوسرا مزید اٹھانے کے لئے اور تیسرا بالکل اٹھانے کے لئے چَف ، چَف ، چَف !چَف !چَف !، اور دن کی کل سات نمازیں اور بچوں اور اُن کے بچوں کی لئے نمازیں ، پھر اپنے ماں باپ اور میرے ماں باپ کے لئے نمازیں ۔ پھر کسی باعلم کے مطابق ، روزانہ دس بجے اور چار بجے سورۃ بقرۃ کی، ایل سی ڈی ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کی تلاوت ۔ یقین مانیں ، میرے گھرسے توزیادہ رائے ونڈ کے اجتماع میں خاموشی ہوتی ہے "
بوڑھے نے اپنی کتھا پرسوز آواز میں سنائی ۔ اب بریگیڈئر صاحب کی آنکھوں میں درد کا سمندر اُمنڈ آنے کو تھا ، مگر اُنہوں نے اُسے درد بھری مسکراہٹ کا بند باندھ کر قابو میں رکھا ، گو بریگیڈئر صاحب بوڑھے سے قریباً 15 سال چھوٹے نظر آتے تھے، لیکن سچ ہے مرد کا دکھ ہم عمرمرد ہی سمجھ سکتا ہے اور وہ بھی اگر فوجی مرد ہو ، گو ڈاکٹر ، ڈاکٹر ہوتا ہے فوجی نہیں ، لیکن معلوم نہیں کیوں ؟ فوجی وردی پہنتے ہی ، اُس کی جون تبدیل ہوجاتی ہے ۔
بریگیڈئر صاحب ، کی انگلیاں کی بورڈ پر چلنے لگیں اور جب رکیں تو بڑھیا سے بولے ، " میں نے دوائیاں لکھ دی ہیں آپ اِنہیں ، اُس ہدایت کے مطابق کھائیں جیسا کہ میں نے بتائی ہیں اور پریشان ہونا چھوڑ دیں آپ کی آدھی استطاعت شوگر افزائی رک جائے گی "
بڑھیا اُٹھی تو بوڑھے کی باری آئی ، " جی سر ! آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ "
" سر ، اللہ کا شکر ہے ۔ بس پچھلی دوائیاں کاپی ٹو کاپی کر دیں " بوڑھے نے کہا ۔
" ڈاکٹر صاحب ، اِن کے دماغ میں مسئلہ ہے ، بیٹھے بیٹھے دس بیس سیکنڈ کے لئے گم ہو جاتے ہیں سر ڈھلنے لگتا ہے اور ہم سب پریشان ہو جاتے ہیں " بڑھیا بولی ۔
" کم خوابی میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ آپ پوری نیند لیا کریں "
بریگیڈئر صاحب بولے ۔
" بھائی نیند کی وجہ نہیں ، اِن کے برین میں بلڈ کلاٹ بنتا ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ ہوتا ہے " بڑھیا بولی " آپ کلاٹ ختم کرنے کی دوائیں دے دیں "
" سر ! آپ کا سی ٹی سکین اورڈاپلر ٹیسٹ ہوا ہے " بریگیڈئر صاحب نے پوچھا ۔
" سر ! سی ٹی سکین ہوا ہے، ڈاپلر ٹیسٹ نہیں" بوڑھے نے جواب دیا -
" میں نے ڈاپلر ٹیسٹ لکھ دیا ہے وہ کروا کر مجھے دکھائیں اور پرانی سی ٹی سکین کی رپورٹ بھی ساتھ لانا "
بریگیڈئر صاحب بولے ۔ بڑھیا اور بوڑھا شکریہ ادا کر کے باہر آگئے ۔ اور ڈاپلر ٹیسٹ کے لئے ۔ الٹرا ساونڈ ڈیپارٹمنٹ کی طرف روانہ ہوئے ۔ جہاں بوڑھے کوڈاپلر ٹیسٹ کے لئے 24 ستمبر کو آنے کے لئے کہا ، وجہ پوچھی تو معلوم ہوا ،
" بہت رش " ہے ، اور بوڑھے پر مہربانی کر کے جلدی تایخ دی ہے ورنہ دو ڈھائی ماہ سے کم تاریخ نہیں ملتی ۔ بڑھیا کا بھی 15 منٹ میں ڈاپلر ٹیسٹ ہوا تھا -
" اور اللہ رحم کرے اتنے مریض " بوڑھے نے سوچا ۔ اور دونوں گھر آگئے -
ستمبر کے کوٹے کی دوائی لینے کے لئے ، ملازم کو بھجوایا تو بڑھیا کو یاد آیا کہ بوڑھے کا ڈاپلر ٹیسٹ بھی ہونا تھا ۔ بوڑھا سو کر اُٹھا ، تو بڑھیا نے ناشتے کے ساتھ معلومات دی ،
" سلیم کو دوائیوں کے لئے بھجوادیا ہے اور آپ کی ڈوپلر ٹیسٹ کی تاریخ گذر گئی ؟ " بڑھیا نے پوچھا
" میرا خیال ہے 24 ستمبر کو جانا ہے ، لیکن چٹ کہاں ہے ۔ اپنے بیگ میں دیکھو !" بوڑھے نے کہا ۔
اب چٹ کی تلاش شروع ہوئی ۔ خیر بوڑھے نے 12 اگست کے " سیکوئنس آف ایونٹس " یاد کرنے شروع کئے اور ہر اُس شاپر ، تھیلے ، دوائیوں کے ڈبے ، میڈیسنٹ کیبنٹ کو دیکھا مگی چٹ نہ ملی ۔
"خیر پھر نئی چٹ لے لیں گے، تاریخ تو رجسٹر پر لکھی ہوئی ہے " بوڑھے نے بڑھیا کو تسلی دی ۔
بوڑھے کے جنم دن پر ، بوڑھے کے پرس سے چٹ مل گئی ۔
24 ستمبر کو عید الاضحیٰ کی چھٹیاں ہوگئیں ۔ لیکن بوڑھے نے احتیاطً ، سی ایم کے پاس رہنے والے ایک دوست ے بیٹے کی مشقت لگائی، کہ اگر سی ٹی سکین ڈیپارٹمنٹ کھلا ہے تو موبائل پر بتائے ۔ لیکن وہ بند تھا ۔ اُس نے موبائل پر پوری روداد سنائی -
یوں 29 ستمبر کو بوڑھا ، سی ایم ایچ پہنچا ، جہاں ایک نئی کہانی نے جنم لیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ پڑھئے ۔ اگلی قسط میں !
بہت اعلی اور مزے کی تحریر
جواب دیںحذف کریںWah Bhai....... Khoob
جواب دیںحذف کریںWah Bhai....... Khoob
جواب دیںحذف کریں