آج 6 ستمبر 1965 کی پچاسویں سالگرہ تھی ۔
میں اس تقریب میں پہلی دفعہ اپنی بیگم کے ساتھ گیا ، اِس سے پہلے مصروفیت کی بنا پر نہ جاسکا ۔
یہ شہیدوں کے اعزاز میں ایک پروقار اور آنکھیں نم کر دینے والاماحول تھا ۔یہاں تک کہ پر جوش ملّی نغمے بھی اِس فضا کو پر لطف نہ بنا سکے -
یہ شہیدوں کے اعزاز میں ایک پروقار اور آنکھیں نم کر دینے والاماحول تھا ۔یہاں تک کہ پر جوش ملّی نغمے بھی اِس فضا کو پر لطف نہ بنا سکے -
ہم مراقبہ کی دنیا میں تیسری آنکھ کے متلاشی ، ایسے ہجوم میں شعور کی دنیا کے اجتماعی شعور ( Collective Conscious) کی لہروں پر بہتے ہوئے اُسی مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں اُس چیز کی ابتداء ہوئی ۔ جو اِس اجتماعِ سوگ ، رنج و الم اور تحسین و آفرین کی بنیاد تھی ۔
بہت ہمت و حوصلے کی بات ہے ، کہ برق رفتاری سے دائیں بائیں گذرتی گولیوں میں صرف ایک جذبے اور مقصد کو زندہ رکھنا ، کہ میرا دشمن میری لاش کو پھلانگ کر ہی گذر سکتا ہے ۔ اِس جذبے کو آپ کوئی بھی نام دیں ، ذہن میں پیدا ہوکر دل کی دھڑکنوں کو متلاطم کرنے والے کا امین ایک فرد جسے ، انسانی دنیا وطن کا محافظ کہتی ہے - جس میں یہ جذبہ بیدار کرنے والے ، ماں باپ ، بہن بھائی ، بیوی بچے ہوتے ہیں ، اپنے بھی اوراپنے ارد گرد بسنے والے انسانوں کے جو ملکی وحدت کی اکائی میں پروئے ہوئے ہوتے ہیں ۔
یہ محافظ اپنے سنِ شعور سے یہ جذبہ ساتھ لے کر آگے بڑھتے ہیں ۔ جو ایک باہمت ماں اور وطن پرست باپ کی اُس سوچ سے پیدا ہوتا ہے جو وہ لوریوں کے ذریعے اُس کی گھٹی میں اتارتے ہیں ۔
ذرا سوچیں ایک ملک کی آبادی کا صرف ایک سے دو فیصد تک افراد افواج(بری ، بحری اور فضائی) میں شامل ہوتے ہیں ۔ جن میں سے تیسرا حصہ وہ افراد ہوتے ہیں جو ایک وقت میں کم از کم ، ملکی سالمیت کے لئے ، آگے قدم بڑھاتے ہیں ۔ باقی 2/3 حصہ یوں سمجھو کہ اِن کی تبدیلی کے لئے تیار رہتا ہے ۔
پہلے1/3 حصے پر مشتمل افراد ، کے والدین جانتے ہیں کہ ، جنگ کا بگل بجنے پر اُن کی برسوں کی محنت سے پالا ہوا بیٹا ، واپس آنے کے لئے نہیں جارہا ۔
وہ اپنے ماں کے دودھ ، باپ کے وقار اور ملک کی سالمیت کے لیئ سینے پر ہی گولی کھائے گا ۔ یہ جذبہ کسی بھی ملک ، کسی بھی مذھب کے فوجی کے ماں اور باپ کے سینے میں موجزن ہوتا ہے ۔
انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا بیٹا ، دشمن ے علاقے میں صرف اُسی وقت داخل ہو سکتا ہے کہ جب وہ ، اُس کی طرف لپکتی گولیوں ، راہ میں بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں سے بچے یا اِس کوشش میں وہ ، اپنی لہورنگ وردی میں واپس آئے یا نہ آئے ۔
ایک بیوی ، اپنے بچوں کو یہی دلاسہ دیتی ہے ، کہ میرے بچو تم ایک شہید کے بچے ہو جس نے اپنی جان ملک کی خاطر قربان کر دی ۔ اور وہ اپنے بچوں کی آنکھوں میں وہی چمک دیکھتی ہے جو اُسے محاذ پر جاتے ہوئے اپنے شوہر کی آنکھوں میں نظر آئی تھی ۔
یہ ساری چمک مجھے آج اِس تقریب میں جھل مل کرتی نظر آرہی تھی ۔ کیوں کہ شہیدوں کے والدین ، بیوی اور بچے اِس تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے ۔
گوکہ اِس تقریب میں 12 سال سے کم عمر کے بچوں کو لانے کی اجازت نہیں ۔ اِس کے باوجود میں نے 12 سال کی عمر کے بھائیوں کے ساتھ وردیوں میں ملبوس ننھے بچے بھی دیکھے جو اِس اجتماعی شعور کی بکھرنے والے کرنوں کو اپنی آنکھوں کے ذریعے اپنے جسم میں جذب کر رہے تھے ۔
میں باقی ریٹائرڈ فوجیوں کی طرح یہ سوچ رھا تھا ، کہ ہماری (فوجیوں) کی نئی نسل ، یقیناً ملک کی خاطر جان قربان کرنے والوں کے لہو سے روشن کی جانے والی اِس قندیل کی روشنی سے اپنے اُس شعور کو لازماً منور رکھے کی جس کو مختلف طریقوں سے بجھانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔
اسلامی فوج یا غیر اسلامی فوج ۔ فوج صرف فوج ہوتی ہے جس میں ہم وطن بلا تخصیص مذہب ، شانہ بشانہ ہر مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ۔
اُن تمام شہیدوں ، کو ملک کی نئی نسل کا سلام اور ساتھ اِس بوڑھے ریٹائر فوجی کے ساتھ باقی بوڑھے فوجیوں کا سلام ۔
بہت اعلیٰ سر جی ۔۔۔ انشااللہ ہماری نئی نسل بھی پاکستان کی خاطر جان قربان کرنے والی ہی ہوگی
جواب دیںحذف کریں