Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 30 دسمبر، 2015

مختون سے پختون تک


ہم نے ایک پوسٹ  کو خوبصورت بنا کر فیس بُک پر  ، ہنسی کی آڑ میں  ، تعلیم در تعلیم کے لئے پوسٹ کیا :
 
تو ، نہایت ہی شدید قسم کا رد عمل  پوسٹ پر اور اِن باکس میں پڑھنے  اور دیکھنے کو ملا ۔ بوڑھا   عمرانی تربیت یافتہ نوجوانوں  کی خاندنی تربیت کی پرواہ نہیں کرتا ۔ 

 لیکن نوجوان بزرگ کا شدید ،  نوٹ آف کنسرن ملا ، مہاجر زادہ نے دریافت کیا :


نوجوان بزرگ ! آپ کو " ختنہ " پر اعتراض ہے یا " پختون " پر !


ویسے ! یہ پوسٹ وٹس ایپ پر مجھے میرے " پشتون"  دوستوں ، یونٹ کے افسروں (بشول سیکنڈ لفٹین تا لیفٹننٹ جنرل) پسندیدگی کا انگوٹھا لیتی، اردو لُغت میں شامل ہوتی ہوئی محو گردش ہے ۔ کیوں کہ وہ " پختون " نہیں !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭  


مجھے معلوم ہے  کہ جو "پختون" ہیں وہ اِس پر مجھے گالیاں نکالیں گے اور جو "پشتون "  ہیں ،  وہ کڑھیں گے ، کہ قومِ لوط کے بھائیوں نے اُنہیں بھی مشکوک بنا دیا یوں وہ اپنے بچوں کو اِس فعل سے دور رہنے کا مشورہ دیں گے تاکہ " پشتون " ہی رہیں اور "پختون" نہ کہلائیں ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ، کہ میں اپنے ایک پٹھان دوست جو اپنی جوانی میں ، مکمل "پختون" تھا  ، کو جب " لوطی " کہتا تو وہ مجھے گالیاں دیتا ، لیکن اپنے "قصصِ لواطت " فخر سے سناتا ۔ آج کل وہ " تبلیغیوں " میں شامل ہے ، کیوں کہ پٹھان ہے ، لہذا اُس کے چہرے پر ایک فُٹ داڑھی سے نور برستا ہے ۔ 
جو میرے خیال میں " نور " نہیں ، " نار " کی جھلک ہے ۔ شاید ، اللہ یہ جھلک اُن کے چہروں سے قیامت کے دن نارِ جہنم کی شدت سے ،معدوم کر دے ، جو جوانی میں ، ہم جنسیت ، لواطت ، یا "گےازم"  پر شدت سے جمے رہے ۔ کیوں کہ اُن کے رسول نے اُنہیں بتایا ، کہ اللہ نے زنا کی سزا تو رکھی ہے لیکن " لونڈے بازی " کی سزا اللہ نے نہیں بتائی ، لہذا اُنہیں کھلی چھٹی ہے ، خوا  ہ مسجد  کی چھت ہی کیوں نہ ہو ، جہاں مُولوی  بچوں کو مذہب سکھاتا ہے ۔   کیوں کہ مولوی  بھی اِسی  طرح تعلیم یافتہ  ہوا ہے - 
  ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ ﴿العنكبوت: 28﴾  
 اور لوط،جب اس  نے اپنی  (لونڈے باز ) قوم سے کہا: کیا تم الْفَاحِشَةَ کرتے ہو جسے تم سے پہلے الْعَالَمِينَ میں سے کسی نے نہیں کیا  ؟

 ٭٭٭٭٭٭٭٭

پیر، 28 دسمبر، 2015

جوان ، بوڑھا اور پیرا گلائیڈنگ

" سر یہ اتھلیٹک ٹریک دیکھ رہے ہیں ، اِس کے دو چکر 6 منٹ میں لگا لیں ۔ تو آپ سلیکٹ "
ایس ایس جی کے نوجوان میجر نے کہا 
15 دسمبر کی بات ہے ، بڑھیا نے بتایا ، کہ عروضہ کا پیرا ونگ کورس آیا ہے ، وہ اگلے ہفتے وہ ایبٹ آباد جائے گی  ، 
" اچھا " بوڑھے نے جواب دیا " کیا پروگرام ہے ، ہم بھی ایبٹ آباد چلیں ، عالی کی بھی چھٹیاں ہیں اُسے بھی ساتھ لے جاتے ہیں "
" مانی نے بتایا ، وہاں ٹھنڈ بہت ہو گئی ہے ، عالی کو ٹھنڈ لگی ہے ۔ بڑی مشکل سے اُسے دوائیوں سے ٹھیک کیا ہے " بڑھیا تشویش سے بولی ،" اور آپ کو بھی بہت ٹھنڈ لگتی ہے ، رہنے دیں "
شام کو بوڑھے کی کپتان بیٹی آئی ، اُس نے چم چم کو بتایا اور پھر ایبٹ آباد کا پروگرام بن گیا ۔ 


ہفتہ 19 دسمبر کو دو کاروں میں سردیوں کا مکمل مقابلہ کرنے اور ایبٹ آباد میں گالف کھیلنے کا سامان لوڈ کرنے کے بعد ، کنوائے تین بجے روانہ ہوا۔

 بڑھیا نے ، ہر قِسم کی قَسم دے کر ، بوڑھے سے 60 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ تیز نہ چلانے کا وعدہ لیا اور یوں یہ قافلہ رات دس بجے ، برفی کے گھر پہنچا ۔
 برفی ، کو ملتے ہی ہم سب کی راستے کی تھکن اتر گئی ، چم چم اور برفی نے کھیلنا شروع کیا ، رات دیر گئے تک سوئے ۔ برفی کے بابا ، کیڈٹس کے ساتھ ایکسرسائز پر گئے ہوئے تھے ،
رات کو سونے کا مرحلہ آیا تو بوڑھے نے چھوٹے کمرے میں سونے کا عندیہ دیا ، بیٹی چلائی ۔
" پپا میں نیچے گدا بچھا کر سو جاؤں گی ، ایک پلنگ پر آپ اور دوسرے پر ماما اور عالی سوجائیں گی "
" نہیں بھئی میں ، سٹڈی میں سوؤں گا " بوڑھا بولا ۔
" سردی سے جم جائیں گے " بڑھیا بولی ۔
" چلو کوئی بات نہیں صبح ہنستا ہوا ملوں گا " بوڑھا بولا 


بوڑھا اپنی خصوصی رضائی ، اور سرھانہ کار میں رکھ کر لایا تھا ، لہذا پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی ، بوڑھا سٹڈی میں بچھے پلنگ پر سو گیا ، رات کو بوڑھے کی چوکیداری ، بیٹی اور بڑھیا کرتی رہیں ۔ کہ کہیں قلفی تو نہیں بن گیا !


بڑھاپے میں مرغے کی بانگ کے ساتھ ہی بوڑھوں کی آنکھ کھل جاتی ہے ، لہذا بوڑھا چھ بجے اُٹھ گیا، سٹڈی سے باہر نکلا تو بڑھیا ھیٹر جلائے ، صوفے پر بیٹھی اپنے گناہوں کے معافیاں مانگنے لگی ہوئی تھی۔
بوڑھے کو دیکھ کر بولی ۔
" بھئی آپ نے تو حیران کر دیا ، رات بھر خراٹے لیتے مزے سے سوتے رہے۔ اور میں پریشان رہی " 

مزید معلومات دیں " آپ کا کمرہ بے حد ٹھنڈا تھا "
" ارے نہیں! کوئی ٹھنڈ نہیں تھی میں تو آرام سے سویا " بوڑھا بولا ۔ 


بہو کو صبح 11 بجے تک اُٹھنے کی عادت ہے ،  کیوں کہ برفی رات کو اُسے خوب پریڈ کراتی ہے۔

ملازم کیوں کے رات دیر گئے، کھانا کھلا کر فارغ ہوتا ہے اور بوڑھے کا میجر بیٹا ، کیڈٹس کے ساتھ ایکسر سائز پر گیا ہوا ہے ، لہذا ملازم  بھی آٹھ بجے آتا ہے ، 

 یہ معلومات حاصل کرنے کے بعد بڑھیا نے ، رات کو ، بہو سے کچن میں چائے کے سامان کی جگہ پوچھ لی تھی ، لہذا چائے بنائی ، دونوں نے بسکٹ کے ساتھ پی وہ اپنے کام میں اور بوڑھا اپنے کام میں مشغول ہو گیا ۔

بوڑھے اور اُس کی بیٹی نے گالف کھیلنے کا پروگرام بنایا 11 بجے ، چم چم ، بیٹی اور بوڑھا گالف گراونڈ پہنچے ، گارڈ نے بتایا کہ آج گالف گراونڈ بند ہے ، کوئی جنرل صاحب آیا ہے ، اُس کا کھانا یہاں پر ہوگا۔ چنانچہ ، بوڑھا ، بیٹی اور چم چم واپس ہوئے ۔

گھر آئے اور برفی کے ساتھ کھیلنے لگے ، برفی کی ناک بھی کھانسی اور نزلے سے غمناک ہوئی تھی۔

 کپڑے پہنا کر بوڑھا ، چم چم اور برفی گھر کے نزدیک پارک گئے ۔ جب وہ دورڑتے ہوئے ، روئی کے گالے کی طرح لڑھکتی تو بوڑا خوب انجوائے کرتا ، اُس کے کپڑوں سے سوکھی گھاس جھاڑتا ، کوئی گھنٹہ یہ تفریح جاری رہی ۔ جب تینوں تھک گئے ، تو گھر واپس آگئے ۔
برفی ، چم چم اور بوڑھا سوگئے ، ساس اور بہو گپیں مارنے لگیں ، پھر دونوں سو گئیں ، برفی کوئی چار بجے اُٹھی ماما کے کمرے سے نکلی اور بوڑھے کا دروازہ پیٹنے لگی ،
بوڑھے کی آنکھ کھلی ، تو دورازہ دھڑ دھڑ کر رھا تھا اور برفی کے رونے کی آواز،
" دادا ، دادا "
کے ساتھ آ رہی تھی ، بوڑھے نے جلدی سے اُٹھ کر دروازہ کھولا اور برفی کو اُٹھا کر بستر پر لے آیا اور سینے پر بٹھا لیا 
" دادا ، اُوئی ، دادا اُوئی "
برفی اپنا ھاتھ دکھاتے ہوئے بولی ، بوڑھے نے پیار کرتے ہوئے سنّی پلاسٹ ھاتھ پر لگا دیا ، پلاسٹر لگاتے ہی ، برفی لپک کر نیچے اتری اور دورد بھری آواز میں ،
" اٗوئی ی ی ی ی ی "
کہتی ہوئی لاونج کی طرف دوڑی اور دادی کے کمرے کی طرف لپکی ، جہاں دادی ، بھوپی اور چم چم سو رہی تھیں ،
" اٗوئی ی ی ی ی ی "
کی آواز سنتے ہی دادی ، پھوپی اور چم چم یک دم اُٹھ بیٹھیں ، دادی نے برفی کو گود میں لیا ، برفی کی
" اٗوئی ی ی ی ی ی " جاری تھی۔

دادی نے پلاسٹر اتارا ، تو ھاتھ صاف ۔ دادی کی جان میں جان آئی ۔
برفی کو لے کر بوڑھے کے کمرے میں آئی  ،
" یہ آپ نے اسے پلاسٹر  کیوں لگایا ، میرا تو دل ھول گیا تھا " بڑھیا شکایت بھرے لہجے میں بولی ۔
" بیوی ، اگر اسے چوٹ لگتی تو ، یہ اُؤئی نہیں کہتی ، چلا کر روتی " ۔
برفی بوڑھے کے پاس آتی ، پلاسٹر لگواتی اور اُس کی
" اٗوئی ی ی ی ی ی " شروع ہوجاتی ،


  دس بجے رات کو بڑھیا کو سردی لگ گئی۔

 بڑھیا ، بوڑھے کے کمرے میں سُر سُر کرتے آگئی اور پائینتی بیٹھ گئی ، 12 بجے تک وہ بوڑھے سے باتیں کرتی رہی ، بوڑھا فیس بک پر کمنٹ بھی دے اور بُڑھیا  کے سوالوں کا جواب بھی اور بڑھیا اپنے کمرے میں جانے کا نام نہ لے ۔
" سونا نہیں ہے ؟ " بوڑھے نے پوچھا ۔
" نہیں اُس کمرے میں بہت سردی ہے " بڑھیا بولی
" تو یہیں سوجاؤ " بوڑھے نے کہا
" آپ کہاں سوئیں گے ؟ بڑھیا بولی
" تم سو جاؤ ۔ میں دیکھوں گا " بوڑھے نے جواب دیا
" عروضہ کے کمرے میں ، پلنگ کے نیچے میڑیس ہے وہ لے آئیں " بڑھیا بولی
بوڑھا ، کرسی پر کمبل اوڑھ کر بیٹھ گیا اور بڑھیا ، بوڑھے کے لئے ، بدُو کا اونٹ ثابت ہوئی۔

 رات بارہ بجے سے صبح چھ بجے تک بڑھیا ، نے بوڑھے سے جو نیند میں وعدے لئے ، وہ کوئی نئے نہیں بلکہ پرانے وعدوں کا رپیٹ ٹیلی کاسٹ تھا ۔
لگتا تو ایسا ہی تھا کہ بڑھیا نے پکا پکا ، اِس دنیا سے جانے کا ارادہ کر لیا ، بوڑھے نے سورۃ الملک لیپ ٹاپ پر لگائی اور ھیڈ فون بڑھیا کے کان میں لگا دیا ،   اور خود فیس بُک اور دوسرے لکھائی کے کام میں مصروف ہو گیا ۔
پھر سورۃ مریم بڑھیا نے اونگھتے ھوئے سُنی ۔

سوموار کو صبح چھ بجے ، بوڑھے نے چائے بنائی بڑھیا کو پیش کی ، بڑھیا کے جسم میں گرمی آئی۔
بڑھیا نے واپس اسلام آباد جانے کا پکا پروگرام بنا لیا ۔ صبح جب بیٹی اُٹھی تو اُسے اپنا پروگرام بتایا ، بیٹی نے کہا ،
" میں ایک بجے آجاؤں گی، پھر چلے جانا "

 ساڑھے سات بجے ، بیٹی ، پیرا کورس کرنے پی ٹی سکول چلی گئی ، چم چم اور برفی سوئے ہوئے تھے ۔ بڑھیا حسبِ  معمول ، اپنے، بوڑھے اور بچوں کے گناہ بخشوانے میں مصروف ھو گئی 

اور رات بھر کا جاگا ہوا ، بوڑھا سو گیا ،

دس بجے چم چم اُٹھی ، اور اُس نے برفی اور اُس کی ماما کو اُٹھا دیا ۔ اور گھر میں بھونچال آگیا ، دونوں بوڑھے کے کمرے میں آگئیں ۔
بوڑھا اُٹھ گیا ، بڑھیا کی طبیعت پوچھی ، بڑھیا نے واپس اسلام آباد جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا ، کیوں کہ ملازم نے گیس کے ہیٹر میں لمبی پائپ لگا کر اُسے سٹڈی تک پہنچا دیا تھا ، بوڑھے نے ، بڑھیا ، بہو ، چم چم  اور برفی کے ساتھ ناشہ  کیا اور پھر اُن کے ساتھ بچہ بن گیا ۔ 


سوا ایک بجے ، عروضہ واپس آئی ، کھانا کھاتے ہوئے روداد بتانے لگی ،
" ماما ، آرمی آفیسر تو کم سے سویلئین لڑکے اور لڑکیاں کافی ہیں ، کوئی 70 کے قریب افراد ہیں "
کیا یہ آرمی کورس نہیں ہے " بوڑھے نے سوال کیا ۔
" نہیں پپا ، ہم  تین فیمیل آفیسرز ہیں اور 6 میل آفیسر ، باقی سارے سویلئین ہیں ، میں حیران ہوں ، کہ ممی ڈیڈی ٹائپ لڑکیاں کیسے یہ ٹف کورس کریں لیں گی ؟  کیپٹن عروضہ بولی ۔
" اچھا " بوڑھے نے حیرت کا اظہار کیا، " وہ کیسے آگئیں "
" وہ اور لڑکے پے منٹ دے کر یہ کورس کر رہے ہیں " عروضہ بولی ۔
" ذرا  ، فون پرمعلوم کرنا کہ ، اِس کورس کے کیا چارجز ہیں " بوڑھا بولا ۔
چارجز معلوم ہونے پر بوڑھا بولا ، " میں بھی یہ کورس کروں گا "
" پاگل ہو گئےہیں ؟ "
بڑھیا تنک کر بولی " پیر خراب ہیں چلا نہیں جاتا ، بڑھاپے میں جوان بننے کا شوق چرایا ہے "۔
" پپا ، کیا ؟  " بیٹی چلائی ، " آپ کی صحت اجازت دیتی ہے ؟ "
" بات یہ ہے ، کہ اگر سویلئین لڑکیاں کر سکتی ہیں تو پھر میں بھی کر سکتاہوں " بوڑھا بولا
" بیوی ابھی تو میں جوان ہوں "


" انکل ، آپ آرام کریں" ڈاکٹر بہو بولی " میرے خیال میں اپ میڈیکلی فٹ نہیں " 


" ؤاؤ ، آوا ، آئی ایم پراؤڈ آف یو " چم چم چلائی ۔
" عالی ، آئی ایم ناٹ پراؤڈ آف ھِم " عروضہ بولی " پپا ، آپ میرا مذاق اُڑوائیں گے ؟"

" بالکل نہیں ، مذاق نہیں اُڑے گا بلکہ تم فخر محسوس کرو گی کہ بوڑھے باپ میں ابھی بھی ہمت ہے، اور شائد ریکارڈ قئم ہو جائے "  بوڑھا بولا
" کتنے بجے شام کو جاؤ گی ، میں بھی چلوں گا "
" پپا ، پلیز "،
" انکل پلیز "
" مت بچوں والی ضد کریں "
بیٹی ، بہو اور بڑھیا بولیں 

۔
" عالی ، کیا میں پیرا شوٹ سے چھلانگ لگاؤں ؟ " بوڑھے نے چم چم سے پوچھا ۔


" یس آوا ، آئی ایم ود یو " 


اور ھاتھ اٹھا کر بوڑھے سے ھائی فائی کیا ۔ یوں بوڑھے کو ایک مضبوط ، سہارا مل گیا ۔
شام کو بوڑھا ٹریک سوٹ اور جاگرز پہن کر ، بیٹی کے ساتھ ، گروانڈ میں پہنچ گیا ،
" پپا  ، وہ میجر اعجاز ہیں پیرا ونگ کے اوسی اور انسٹرکٹر ۔ اُن سے ملتے ہیں "
ہم دونوں ، میجر اعجاز کے پاس پہنچے ، بیٹی نے تعارف کروایا ،
" سر میرے فادر ، یہ پیرا گلائیڈنگ کرنا چاھتے ہیں ؟ "
میجر اعجاز نے ، بوڑھے کے چہرے پر نظر ڈالی ،
" کیوں نہیں ، میم سب کو اجازت ہے "
" ریٹائرڈ میجر ، عمر 63 سال ، یہ بتاؤ ، فیس کتنی ہے ؟ " بوڑھے نے پوچھا ۔
" سر آپ کے لئے 6،500 روپے ہے " میجر اعجاز نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
" پے منٹ کون لے گا ؟ " بوڑھے نے پوچھا
" سر پے منٹ لے لیں گے لیکن ،  یہ اتھلیٹک ٹریک دیکھ رہے ہیں ، اِس کے دو چکر 6 منٹ میں لگا لیں ۔ تو آپ سلیکٹ " ایس ایس جی کے نوجوان میجر نے بغیر کسی رعایت کے کہا

بوڑھے نے سر جھکایا اور دوڑ پڑا ۔ بوڑھا ابھی 200 میٹر دوڑا تھا اور ایک چکر کے 600 میٹر باقی تھے کہ بوڑھے کے دائیں پاؤں کے تلے میں ایک ٹیس اُٹھی ،
" اوہ کھال پھٹ گئی اور پیر زخمی ہو گیا ۔ کیا میں دو چکر لگا سکوں گا ؟ "
  62 سال ، تین ماہ اور چھ دن کے بوڑھے نے دوڑتے ہوئے سوچا ۔
" کیا میں دوڑ سے نکل جاؤں ؟"
" تالاب میں کودنے سے پہلے سوچنا تھا "

اور دوڑتے ہوئے بس یہی سوچ رہا تھا ۔ 
" نہیں ، ایک چکر پورا کرنا ہے " بوڑھے نے ایک عزم سے سوچا ۔
" بچوں سے مذاق نہیں اُڑوانا ۔ دوڑ ، میجر دوڑ "
بوڑھا دوڑتے ہوئے ، ایک چکر کے خاتمے کے قریب تھا کہ آواز آئی ،
" واؤ پپا ، فاسٹ ، فاسٹر "
بوڑھے کی چھوٹی بیٹی چلائی ۔
" انکل بَک اَپ ، دوڑتے رہیں "
لڑکوں اور لڑکیوں ملی جلی آوازیں آرہی تھیں ۔ بوڑھا نے پہلا چکر مکمل کیا ۔
" ویل ڈن سر ، آپ نے تین منٹ میں پہلا چکر مکمل کیا " نوجوان ایس ایس جی، میجر اعجاز بولا ۔
" دوسرا چکر آپ کے لئے چار منٹ "
" بوڑھے صرف ایک چکر لگاتے ہیں اور جوان دو ! " بوڑھا بولا
" ھا ھا ھا ، سر آپ سلیکٹ ہو گئے ہیں ، مبارک ہو " میجر اعجاز بولا ، " سٹاف، سر کو پیرا شوٹ پہنا کر پریکٹس کروائیں ۔
بوڑھے نے پیرا شوٹ پہن کر تین دفعہ پریکٹس کی اور پیرا شوٹ دوڑ کر سنبھالنے کے قابل ہونے کے بعد ، کوالی فائی ہو گیا ۔
واپسی پر بیٹی نے پوچھا،
" پپا ، کل آئیں گے "
" جی ہاں ، کیوں نہیں ؟ " میں بولا ۔

گھر پہنچے ، بڑھیا سمجھ رہی تھی ، کہ بوڑھا ناکام آئے گا ۔ جب  معلوم ہوا کہ بوڑھا پہلا ٹیسٹ پاس کر گیا ہے اور کل بھی جائے گا تو اُس کی پریشانی ، بڑھ گئی ۔
اگر پیراشوٹ نہ کھلا اور آپ نیچے گر گئے تو ؟ "
بڑھیا نے جذبات کا اظہار کیا ۔


" کوئی بات نہیں ، پھر لوگ چمچے سے اُٹھا کر لائیں گے "
"توبہ توبہ ،  کبھی تو منہ سے اچھی بات نکالیں " بڑھیا بولی 

 " پردے کے پیچھے یعنی ان ڈائریکٹ سپیچ میں تم بھی تو اسی خواہش کا اظہا کیا ہے۔   کہ کاش پیرا شوٹ نہ کھلے یا کاش یہ نیچے گر جائے " بوڑھے نے یاد دلایا ۔

" پپا ، آج اتوار نہیں ، آپ کا پھر لڑائی کا ارادہ ہے " بیٹی نے یاد دلایا۔ " ماما کی شوگر بڑھ جائے گی "

" ارے ، میرا شوگر ٹیسٹ کا میٹر کہاں ہے وہ لانا ، ذرا شوگر چیک کروں ۔ کتنی بڑھا دی ہے تمھارے پاگل باپ نے " بڑھیا نے آخری حربہ کے طور پربوڑھے کو روکنے کے لئے کوشش کرتے ہوئے شوگر چیک کی ۔
" یہ سٹرپ نقلی آگئیں ہیں " بڑھیا منمنائی
" اچھا ، یہ نقلی سٹرپ کتنی شوگر بتا رہی ہیں " بوڑھے نے پوچھا ۔
" ایک سو بیس "
بڑھیا بولی ، " لیکن اسے تو تیس سو ھونا چاھئیے !
مگر آپ کو بڑھاپے میں ہڈیاں تڑوانے کا خیال کیوں آیا ؟ مجھے سے خود اپنا بوجھ نہیں اٹھایا جاتا ، آپ کی خدمت کیسے کروں گی ؟
ہم دونوں بوڑھے ہیں ، چھوڑیں جمپ ومپ کو، یہ نوجوانی کے شوق ہیں " بڑھیا ایک سانس میں روپہلی الفاظ پھیلاتی ہوئی بولی۔


 " ابھی تو میں جوان ہوں ، ابھی تو میں جوان ہوں "
 بوڑھا پرسوز ترنم سے گنگنا یا

" جواااااااا ن " برفی نے لِے میں ساتھ دیا ،
جو بھی الفاظ نیا ہوتا ہے وہ ضرور بولنے کی کوشش کرتی ہے ۔
دل میں سوچا ۔
صبح دیکھتے ہیں، 1999 کے بعد پہلی دفعہ میدانِ ایڈونچر میں کیا ہوتا ہے ؟

رات کو آٹھ بجے کھانا کھا کر بوڑھا ، میڑس بچھا کر  سو گیا ۔ 

اتوار، 20 دسمبر، 2015

20 دسمبر 2015 کی ڈائری- برفی اور چم چم کا فوجی گھوڑا

بوڑھا اور بڑھیا ، چم چم کے ساتھ ایبٹ آباد برفی کے گھر آئے ہیں ، 
گو کہ ہم دونوں اکثر آتے ہیں ، لیکن چم چم کے ساتھ آنا ، ایک بہت بڑی تفریح ہے ، وہ اور برفی سارا دن بوڑھے کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتیں ۔
آج ہم نے
پارک میں گالف کھیلی ۔
فٹ بال کھیلا
پھر چم چم اور برفی نے جھولے جھولے ۔
پارک کے پھر بچوں کے ساتھ ھوٹل والا کھیلا
پائریٹ اور خطرناک سمندر کھیلا
گھر آکر بوڑھا ، برفی اور چم چم کھانا کھا کر سوگئے ۔
بڑھیا حیران ، کی آج بوڑھے نے لیپ ٹاپ آن نہیں کیا ۔
شام ساڑھے چار بجے برفی ،
" دادا، دادا، آوا، دادا" ، 
کہتی بوڑھے کے کمرے میں آئی ،
بوڑھا گدھا گھوڑا سب بیچ کر سویا ہوا تھا ،
اُس کے "دادا دادا "،
کہنے پر بھی نہیں اُٹھا تو اُس نے زور زور سے رونا شرع کر دیا ۔
اب بوڑھے کو خواب آنا شروع ہوگئے ،
وہ برفی کو چپ کرائے مگر برفی ، کارونا بند نہ ہو ،
خواب ہی میں بڑھیا کے چلانے کی آواز آئی ،
" اے سنو ! بچی رو رہی ہے چپ کراؤ "۔
بوڑھا چپ کرائے ، لیکن برفی چپ ہی نہ ہو ۔
بڑھیا نے جھنجھوڑا ، بوڑھا ھڑبڑا کر اُٹھا ۔
"آپ واقعی سو رہے تھے ، میں سمجھی شاید اِس سے مذاق کر رہے ہیں ۔"
بوڑھے کا حکم ہے کہ اگر ، گھر میں آگ بھی لگ جائے ۔ اور جب تک بوڑھے  کے بستر تک نہ آئے اُسے نہ اُٹھایا جائے ۔

اور آگ دوروازہ کھول کر بستر کے پاس پہنچ چکی تھی اور بھڑک رہی تھی ۔
بوڑھے نےبرفی کو پیار کیا اٹھا کر سینے پر بٹھایا ۔
وہ چپ ہو گئی اور " باہر ، باہر"  کا شور مچائے ۔
اب ٹھنڈ میں اُسے باہر کیا لے جانا ، چم چم کے آئی پیڈ پر کارٹون لگائے مگر اُس نے بند کر دئے اور پھر"باہر باہر"، کے نعرے مارے ۔
بوڑھا چائے پیئے بغیر بستر سے نہیں اٹھتا کیوں کہ توانائی بحال جو کرنی ہوتی ہے ۔
لیکن برفی نے بستر سے اتار دیا ، اُسے لے کر لاونج میں آیا ۔ برفی نے پھرتی سے چپلیں پہن اور دروازے کی پاس کہ باہر جانا ہے ۔
بوڑھے نے سمجھایا باہر سردی ہے ۔ نہ مانی
دادی نے سمجھایا باہر سردی ہے ۔ نہ مانی
پھوپی نے سمجھایا ۔ نہ مانی ۔ (اُس کی کپتان پھوپی بھی ، پیرا گلائیڈنگ کورس کرنے ایبٹ آباد آئی ہے ۔ جو کل سے شروع ہوگا) ۔
چم چم نے سمجھایا ۔ نہ مانی
ماما نے کچن سے آ کر ایک گھرکی دی برفی چپ چاپ ، بوڑھی کے گود میں آکر ۔ ماما کی طرف دیکھ کر بولی،
" دادا ، جھو جھو جھو ۔"
اب پوتی کی فرمائش "جھو جھو جھو : کی ،
بوڑھے نے کہا،
"آؤ ہارس ہارس کھیلتے ہیں"،
چم چم کو اپنا سردیوں کی چھٹیوں کا کام جو اُس کی ماما نے دیا وہ کر رہی تھی ، لپک  کر بوڑھے کی پیٹھ پر سوار ہو گئی ۔
برفی نے بھی بیٹھنے کی کوشش کرے مگر گھوڑا اونچا تھا ۔
خیر پھوپی نے بٹھایا ،
برفی ، کوکاٹھ کے نہیں بلکہ ، فوجی گھوڑے پر ۔ 

 ٭٭٭٭  فوجی بوڑھا نہیں ہوتا   ٭٭٭٭٭

اگلا مضمون :۔ جوان ، بوڑھا اور پیرا گلائیڈنگ


جمعہ، 18 دسمبر، 2015

ڈاکٹر رابعہ- ادھوری داستاں !

 ارے ثمر تم تو خالدہ ریاست سے بہت ملتی ہو. . 
میں نے ایک دم اپنی میٹرک کی ٹاپ پوزیشن ہولڈر کلاس فیلو کو کہا ..
وہ چونکی اور چپ سی ہو گئی
اگلے دن اس کی خالہ جو ہماری بائیو کی ٹیچر تھیں ان کا میسج مجھے ایک اور کلاس فیلو سے ملا کہ ثمر نے ایک کیرئیر وومن بننا ہے اس لئے اس کا نام کسی اداکارہ کے ساتھ نہ لیا جائے ..
اس کی ریپوٹیشن بہت اہم ہے ۔

ہم اس وقت پری میڈیکل میں تھے .. مجھے ٹیچر خالہ کی بات بری لگی کیونکہ ڈاکٹر تو سب ہی بننا چاہتے تھے .لیکن استاد تھیں سو چپ کئے رہی ..
ثمر کے والدین میں علحدگی ہو چکی تھی اور وہ اپنی والدہ کے ہمراہ اپنی شادی شدہ خالہ کے گھر میں رہتی تھی . بے انتہا ذہین ہر کلاس میں ٹاپ کرنے والی لڑکی ..
ہم سب اس کی لیاقت سے مرعوب رہا کرتی تھیں ..
خاموش طبع ثمر مجھے اچھی لگتی تھی لیکن ہم میں زیادہ دوستی نہ پنپ سکی ..
ایف ایس سی کا رزلٹ آیا تو ہمیشہ کی طرح ثمر پھر ٹاپ پر تھی ..
میرا میرٹ بھی کے ای کا بن چکا تھا ..
نتیجے والے روز ہی ثمر میرے گھر تحفہ اور مبارک دینے آئی ..
وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ میں کہاں داخلہ لے رہی ہوں. .
میں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا بتایا تو کہنے لگی ..
میرٹ تو میرا بھی ہے لیکن مجھے پنڈی میں ہی داخلہ لینا پڑے گا . کیونکہ گھر یہیں ہے..
اب میں کیا کہہ سکتی تھی ..
وہ ہماری آخری ملاقات تھی ..
میں لاہور آ گئی اور وہ وہیں پنڈی میں ہی رہ گئی ..
پنڈی سے کبھی کبھار کسی دوست کا خط یا فون آ جاتا تو ثمر کا حال احوال بھی پتا لگتا ..
اس کی والدہ نے بھی دوسری شادی کر لی تھی اور دوسرے شوہر کے جوان بچوں کی وجہ سے اپنی بیٹی کو ساتھ نہیں رکھ سکتی تھیں. .
اس لئے اب ثمر اپنے خالہ اور خالو کی سرپرستی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی تھی ..
خالہ تو ماں سی ہوتی ہے لیکن خالو کے لئے یہ زبردستی کی ذمہ داری تھی . وہ کچھ سخت مزاج بھی تھے ..
گھر میں ثمر والدین کے پر شفقت رویے سے محروم تھی ..
کالج میں ایک لاولد بوڑھے پروفیسر صاحب اور ان کی اہلیہ کو ثمر کی کہانی کا علم بھی تھا اور وہ دونوں اس سے ہمدردی بھی رکھتے تھے ..
رفتہ رفتہ ثمر بھی ان سے اپنی چھوٹی موٹی الجھنیں شیئر کرنے لگی ..
چوتھے سال تک پہنچتے پہنچتے ثمر اور عمر رسیدہ پروفیسر صاحب کے بےلوث رشتے کو افواہ سازوں نے گناہ کا روپ دے کر بدنام کر دیا تھا ..
خالو تک جب خبر پہنچی تو کالج نے ایک تماشا دیکھا ..
بوڑھا پروفیسر کاریڈور میں کھڑا گالیاں کھا رہا تھا. .
اور اپنے ساتھ ساتھ ثمر کی صفائی پیش کر رہا تھا ...
میری بیٹی ہے...
یہ قسمیں کھا رہا تھا.. غیظ آلود خالو نے ثمر کو بالوں سے پکڑا ہوا تھا اور کالج کی راہداری میں ٹاپ پوزیشن ہولڈر ثمر کے مستقبل کو اس سمیت زمین پر گھسیٹ رہا تھا ..
اس روز کے بعد ثمر کا کالج چھوٹ گیا ..
چند روز کالج میں افواہیں گرم رہیں . پروفیسر صاحب کا تبادلہ ہو گیا ..
افواہ سازوں نے کچھ اور شکار ڈھونڈ لئے ..
گھر میں ثمر کو نظر بند کر دیا گیا ..
ماں کو دوسرے شوہر کے گھر سے بلوایا گیا کہ آو اور اسے اپنے ساتھ لے جاو ہم مزید اسے نہیں سنبھال سکتے ..
والدہ نے پہلے کی طرح معذرت کر لی ..
باپ کو فون کیا گیا. .
باپ کا جواب بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ میری بیوی اسے برداشت نہیں کرے گی اور اس وجہ سے ثمر بھی ادھر سیٹ نہیں ہو پائے گی ..
میں جیب خرچ بڑھا دیتا ہوں ...
آپ اسے ہوسٹل بھیج دیں. .
لیکن غصے میں بھرے ہوئے خالو کے لئے اب ثمر کو دوبارہ اسی کالج بھیجنا ممکن نہیں تھا..
انہوں نے جھٹ پٹ خاندان میں سے ہی ایک پکی عمر کے صاحب سے ثمر کا رشتہ طے کیا اور اسے یہ بھی بتا دیا کہ یہ رشتہ کس لئے کیا جا رہا ہے ..
اور اب یہ لڑکی تعلیم جاری نہ رکھے تو ہی خاندان کی عزت بچے گی. .
اب محترم خاوند صاحب کو تو اس لڑکی پر ایسا اختیار ملا کہ جس لڑکی کے والدین اپنے گھروں میں مگن تھے ان کے لئے ثمر اپنے اپنے پرانے شریک حیات سے جڑی ایک ناپسندیدہ یاد تھی جسے وہ دونوں ہی بھول جانا چاہتے تھے. .
خالو کی انا کے لئے تو ثمر خاندان پر تہمت تھی اس لئے اس کے شوہر کو خود اپنی باتوں سے اس کے کردار سے مشکوک کر دیا گیا. ..
یاد رہے یہ وہ لڑکی تھی جسے کیرئیر وومن بننا تھا اور جس کی ریپوٹیشن کا صاف رہنا بہت ضروری تھا. .
جو جتنی ذہین تھی اتنی ہی حساس بھی تھی..
وہ خاموش ہو گئی ..
شوہر آتے جاتے طعنے دیتا کہ کس کے خیالوں مین گم رہتی ہو . وہ چپ رہتی. .
پڑھائی تھی نہیں..گھر میں قید تھی ..
کم عمری میں ہی تین بچے بھی ہو گے ..
تیسرے بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی بلڈپریشر بڑھا اور ثمر کومے میں چلی گئی ..
دو ماہ کومے میں رہی. .
ہوش میں آئی تو مزید کھو چکی تھی ..
مزید خاموش گم سم ..
گہری چپ

اب شوہر کا دل بھی نرم پڑ چکا ہے
خالو اور خالہ بھی معافی مانگتے ہیں. .
ماں باپ بھی شرمندہ ہیں لیکن ثمر کو اب کوئی چیز متاثر نہیں کرتی اس کے ذہین اور حساس ذہن نے راہ فرار ڈھونڈ لی ہے .. وہ آج بھی اسی دنیا میں سانس لے رہی ہے لیکن وہ جی کسی اور دنیا میں رہی ہے جو اس نے اپنے خیالوں میں بسائی ہے .. اس دنیا میں صرف وہ اپنے بچوں کو پہچانتی ہے اور بس ..

اس کی زندگی ہم سب کے لئے سوالیہ نشان ہے ..
ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی حد تک ایک دوسرے پر اپنے اثرات ثبت کرتا ہے .
جبکہ کچھ معصومین کی زندگی ہی دوسروں کے ثبت کئے نشانات کا مرقع ہوتی ہے..
ذرا اپنے ارد گرد دیکھئے کیا ہمارے اس پاس کوئی ایسی ہی ثمر تو نہیں

رعنائی خیال
ڈاکٹر رابعہ خرم درانی


نوٹ..... کردار اور علاقے کے نام تبدیل کر دیئے گئے ہیں. ..

جمعرات، 17 دسمبر، 2015

انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا

تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
اچھا ہے ابھی تک تیرا کچھ نام نہیں ہے
تجھ کو کسی مذہب سے کو ئئ کام نہی ہے
جس علم نے انسان کو تقسیم کیا ہے
اس علم کا تجھ پر کوئئ الزام نہیں ہے
تو بدلے ہوے وقت کی پہچان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا
ہم نے اسے ہندو یا مسلمان بنایا
قدرت نے تو بخشی تھی ہمیں ایک ہی دھرتی
ہم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا
جو توڑ دے ہر بند وہ طوفان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
نفرت جو سیکھاے وہ دھرم تیرا نہیں ہے
انساں کو جو روندے وہ قدم تیرا نہیں ہے
قراں نہ ہو جس میں وہ مندر نہیں تیرا
گیتا نہ ہو جس میں وہ حرم تیرا نہیں ہے
تو امن کا اور صلح کا ارمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
یہ دین کے تاجر یہ وطن بیچنے والے
انسان کی لاشوں کے کفن بیچنے والے
یہ محل میں بیٹھے ہوے قاتل یہ لٹیرے
کانٹوں کے مدھ روح چمن بیچنے والے
تو ان کے لیے موت کا اعلان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
( ساحر لدھیانوی )

https://www.facebook.com/ibn.e.umeed/videos/745723505460152/

نمو کا پہلا پاسپورٹ

1973 کی بات ، جب وزیراعظم نے پاسپورٹ بنوانے کے لئے ، حکومت کی طرف سے لگائی گئی بندش ختم کر دیں اور پاکستانیوں نے دھڑا دھڑ پاسپورٹ بنوانے شروع کر دئے ، عام فیس 300 روپے تھی اور ارجنٹ 500 روپے ، چنانچہ نمو نے بھی پیسے جمع کر کے پاسپورٹ بنوانے کی درخواست دے دی ۔
نمّو اُن دنوں کراچی ہوتا تھا ،اب کھلی فضاؤں میں اُڑنے کا دل چاہنے لگا ۔
جنوری کی بات ہے ، تین ماہ بعد کی تاریخ ملی ۔ رسید ملتے ہی خواب بننا شروع ہو گئے ۔
محمد شاہد ، کا پاسپورٹ بن چکا تھا ، لائلپور کا رہنے والا ، یہ مشورہ اُسی نے دیا تھا کہ میں پاسپورٹ بنواؤں اور دونوں سعودی عرب جاتے ہیں وہاں اچھی تنخواہ پر ملازمت مل جائے گی ، میں نے اُسے " جرمنی" کا بتایا جہاں کوئیٹہ کے پہت سے پاکستانی ہیں ، جن میں تین تو میرے کلاس فیلو ہیں جو 1970 ، میں گئے ہیں اور اچھی جاب کر رہے ہیں ، بلکہ دو نے وہاں جرمنی سیکھی اور اب وہاں کی یونیورسٹی میں مُفت پڑھ رہے ہیں ۔
شاہد کا پاسپورٹ ، فروری میں مل گیا ۔ تو اُس نے تمام تٖفصیلات سے بھی آگاہ کرنا ضروری سمجھا ۔
اپریل میں مجھے پاسپورٹ مل گیا ، میری خوشی کا عالم کیا بتاؤں گویا ہفت اقلیم کا خزانہ میرے ہاتھ آگیا ۔ اپریل 1973 کا پہلا ہفتہ تھا ۔ کراچی سے میرپور خاص کے لئے روانہ ہوا ، رات 11 بجے مہران سے گھر پہنچا ، امی ابا اور بہن بھائی سو رہے تھے ، دروازہ کھٹکھٹانے پر امّی اُٹھیں دروازہ کھولا ، ابّا بھی اُٹھ گئے ، آہستہ آہستہ باقی بہن بھائی بھی جاگ گئے ، امّی نے کھانا نکال کر دیا ،
چھوٹے بھائی نے پوچھا ،" پاسپورٹ مل گیا ؟"
میں نے اُس کی طرف گھور کر دیکھا ،
" ھاں " آہستہ سے جواب دیا
" امی نعیم ، ملک سے باہر جا رہا ہے " اُس نے بھانڈا پھوڑا ،
جب کہ میرے اور اُس کے درمیان طے پایا تھا کہ ، کہ وہ یہ کسی کو بھی نہیں بتائے گا کہ میں باہر جانے کے لئے پاسپورٹ بنوا رہا ہوں ۔
" کیوں ؟" امی نے پوچھا " یہاں نوکری اچھی نہیں "
" امی ، وہاں زیادہ تنخواہ ملتی ہے " میں نے جواب دیا " لقمان کا بڑا بھائی مسقط میں ہے اور خوب پیسے بھجواتا ہے "
لقمان ، میرا دوست تھا جو ہمارے گھر سے چوتھی گلی میں رہتا تھا ۔ امّی اُن کو جانتی تھیں ۔ 1979 میں اُنہیں میرا سالا بننے کا شرف حاصل ہوا ۔ یعنی بڑھیا کے بڑے بھائی ہیں ۔
" نہیں بیٹا پاکستان میں ہی نوکری کرنا اچھا ہے ، ہمارے سامنے تو ہو دو تین مہینے بعد ملاقات ہو جاتی ہے ، بس ہمارے لئے یہی کافی ہے ، اللہ رزق یہاں بھی بڑھا دے گا " امّی نے جواب دیا
امّی یہ کہہ کر جاکر سو گئی ، اور مجھے پریشانی میں مبتلاء کر گئیں ، سب مائیں اپنے بچوں کوملک سے  باہر بھجوانا چاہتی ہیں اور ایک میری ماں ہے وہ میرے ملک سے باہر جانے پر خوش نہیں ۔
امّی، اباّ  اور دونوں بہنیں اور دونوں چھوٹے بھائی سانمے والے صحن میں سوتے تھے ، چھوٹا بھائی پچھلے صحن میں سوتا تھا ، میں بھی پچھلے صحن میں چلا گیا جہاں اُس نے چارپائی بچھا کر بستر لگا دیا تھا ۔
" نعیم ، اب کیا ہوگا ؟" اُس نے چارپائی پر لیٹے ہوئے مجھ سے پوچھا ۔" امی تو راضی نہیں "
" دیکھتے ہیں ۔ بعد میں شائد مان جائیں " میں بولا " ابھی تو باہر نہیں جارہا ہوں "
ہم  دونوں اپنے قصے سناتے سناتے سو گئے ،
دوسرے دن اتوار تھا ، میرا پروگرام ، سوموار کی صبح مہران سے کراچی جانے کا ارادہ تھا ، سوموار کو 2 بجے کے بعد کی ڈیوٹی تھی ، مہران ٹرین 11 بجے دوپہر کراچی پہنچ جاتی تھی۔
دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے 12 بجے دوستوں سے مل کر گھر آیا ، سب نے بیٹھ کر کھانا کھایا ،
" نمّو ، تم نے پاسپورٹ نہیں دکھایا ، کیسا ہوتا ہے ؟ " امّی نے پوچھا ۔
" ابھی دکھاتا ہوں " کہہ کر اُٹھا ، دل میں سوچا شائد امّی راضی ہوجائیں ، خوشی خوشی کمرے میں گیا اور بیگ سے پاسپورٹ نکال کر لایا اور بیٹھتے ہوئے امّی کے ہاتھ میں دیا ، لیکن اُن کے ہاتھ سے چھوٹی بہن نے اُچک لیا ۔
پانچوں پاسپورٹ کو دیکھ رہے تھے ،
"بھائی ، تصویر اچھی ہے ، کب بنوائی " سعیدہ نے پوچھا ،
" جنوری میں پاسپورٹ کے لئے بنوائی تھی " میں نے جواب دیا ۔
" بھائی اب یہ لے کر ملک کے باہر جا سکتے ہو ؟" بہن نے دوبارہ پوچھا ۔
" نہیں اِس پر ویزہ لگے گا اور پھر نعیم باہر جائے گا " مجھ سے چھوٹا بھائی بولا ۔
" ارے ، مجھے بھی تو دکھاؤ " امّی بولیں ،
تو چھوٹی بہن نے پاسپورٹ امؔی کے ہاتھ میں دے دیا ، امّی نے تصویر دیکھی تعریف کی ۔
" نمّو یہ بتا کہ صرف اِس کو دکھا کر ملک سے باہر جاتے ہیں " امّی نے پوچھا
  " جی امّی " میں نے جواب دیا !
اور اگر یہ گم ہوجائے ، یا کوئی بیگ چوری کر لے " امّی نے پوچھا
" امّی ۔ پولیس میں رپورٹ کروانی پڑے گی اور شائد پاسپورٹ جلدی نہ ملے " میں نے جواب دیا ۔
" بھائی میرا پاسپورٹ کب بنے گا ؟" چھوٹے بھائی نے پوچھا ۔
" تم میٹرک تو کر لو اُس کے بعد ایپلائی کرنا مل جائے گا" میں  اُس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔
ابھی میں نے جملہ ختم ہی کیا تھا ، کہ کاغذ پھٹنے کی آواز آئی ،
امّی نے بغیر کسی تردد کے ، بڑے آرام سے میرا پاسپورٹ پھاڑا ، میں دم بخود ، امّی نے پھٹا ہوا پاسپورٹ میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا ،
" اگر پاکستان سے باہر گئے تو دودھ نہیں بخشوں گی "
میری آنکھوں میں آنسو آگئے ، میں نے سحردہ شخص کی طرح پاسپورٹ پکڑا ، مشینی انداز میں کھڑا ہوا ، کمرے میں گیا۔ پھٹے ہوئے پاسپورٹ کو ہاتھ میں لئے بیگ اُٹھا کر پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا ۔
پیدل چلتا ہوا ، گھر سے ڈیڑھ کلو میٹر دور ریلوے سٹیشن پر پہنچ گیا ، ٹرین نے شام پانچ بجے جانا تھا ، شیڈ کے نیچے بنچ پر لیٹ گیا تھوڑی دیر بعد سلیم آزاد اور چھوٹا بھائی پہنچ گئے ۔
" بھائی گھر چلو "وہ بولا
" اب گھر کبھی نہیں جاؤں گا " میں نے غصے میں کہا
 پھر اکتوبر میں مجبوراً چھوٹی عید پر گھر آنا پڑا ، کیوں کہ غصہ اتر گیا تھا ، امّی ۔ ابا اور بھائی بہنوں کی یاد آتی تھی ۔



MUHAMMAD SULEIMAN THE MAGNIFICENT

The untold tale of 17th Dec 1971 War:
THE PAK FAUJ PHANTOM WARRIOR WHO DENIED THE PERSONAL ORDERS OF GEN NIAZI AND REFUSED TO SURRENDER...

I never understood why Gen Musharraf would always refer to his Course Mate as Muhammad Suleiman "The Magnificent"...

Than one day I asked the question but was never prepared for the story i am about to share for the very first time...

1971... a Mother hugs & embraces her son as he departs for War... Her loving words "jaa putter Allah dey Havalay... Lout kar ana Ghazi ya Shaheed"...

One night in a bunker two Commandos were joking with one another to keep their morale and spirits high... SSG Bilal Rana turns to his friend and says "yaar, mera bulava aa gaya ha... Lekin promise me one thing... Take this grenade of mine and should the enemy get close, use the grenade but never be captured by them... And one last thing, should you have a son, name him Bilal" and with this sentence they both erupted with uncontrollable laughter... On the 10th Dec 1971, whilst on a mission, Rana Bilal fought bravely and embraced the highest honour of Shahadat.

On that BLACK DAY in Pakistans history, 16th Dec 1971, General Niazi surrendered to the enemy, hence the "Fall of Dacca". As word spread, one Pak Fauj Soldier had NO intentions of going against his Mothers words or breaking a promise he made just a few nights earlier to his friend Bilal Shaheed...

Suleiman barged into the underground dug in bunkers of Eastern Command in Dacca Cantt, (the War HQs of East Pakistan was known as Eastern Command)... full of anger/rage with his loaded kalashnikov rifle in hand... He looked Gen Niazi in the eyes and refused to accept the orders of surrendering... confronting the arrogant Gen Niazi, at one stage the Gen emphasised " I am the Commander and I order you to surrender". Suleiman replied, " You have accepted defeat and you are surrendering. You have LOST the moral authority to be Commander. I refuse to obey your orders."
Controlling his anger, the Warrior gave Gen Niazi a piece of his mind (words unappropriate to repeat, lol)... Gen Niazi shouted "you r a fool and u will be killed trying to escape"... The Phantom Warrior turned back for the final time and said "i promised i will not be captured as a POW (Prisoner of War)... My Mother will only accept my return as a Ghazi ya Shaheed and no other way... I came to fight the enemy, NOT surrender to the enemy"...

On the eve of 17th December 1971, The Phantom disappeared into the darkness of the night & was never found by the enemy... escaping to Burma.
BUT... when Suleiman left HQ Eastern Command he didn't escape alone. Maj P.D.Khan who was 2nd in command of 2 Cdo Bn (Suleiman's Bn) was in CMH Dacca with a bullet in his knee. Suleiman went to CMH and asked P.D to accompany him. P.D refused explaining that because he was badly wounded he would hamper Suleiman's escape.
One hit on the neck & PD was unconscious. Suleiman lifted wounded PD and brought him all the way home in W. Pak.
PD later became Lt Gen P.D.Khan and commanded the famous 10 Corps Chaklala. (this paragraph added courtesy of  SSG Col Mohammad Arif ).

The lonesome Soldier did not allow the enemy to stain his Khaki... He returned to his Mother and Motherland as a BRAVE GHAZI and both he and Gen Musharraf went on to name their sons Bilal after their friend, Bilal Rana Shaheed.

Such bravery and courage...
Defying the orders of surrender...
Escaping...
Now we all know why Gen Musharraf and so many in the PakArmy till this date call him "MUHAMMAD SULEIMAN THE MAGNIFICENT" !!!


پیر، 14 دسمبر، 2015

بچے کا جنسی استحصال بذریعہ تشدّد و لالچ

ہم نے تو ایک بات کی اٗس نے کمال کردیا
دھوتی کو اِس طرح پھاڑا کہ رومال کردیا

ایک پوسٹ نے ہمارے فیس بک کے ایک دیرینہ دوست نے کو اچانک ہڑبڑا کر بیدار کر دیا اور انہوں نے اِن بکس کیا ،
It might be fun for some, but in the wake of the fact that in our cultural ethos such overt expression is hardly approved, please reconsider its posting. All of us have female family members on FB and it might be embarrassing for them to see elders behaving below decency.

 ہمارے یہ دوست ، ہم سے یک سالہ بزرگ ہیں ، لہذا بزرگی اور محبت کا پاس رکھتے ہوئے ہم نے فوراً سعادت مندی سے ، پوسٹ کو اپنے صفحے سے  اَن شئیر کیا ۔ اور لکھا "

Thanks Sir, Unshared.

 مجھے یہی ڈر  تھا کہ ہم ابھی اتنے کُھلے ذہن کے نہیں کہ مزاح کو سمجھ سکیں ، شکریہ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے یہ دوست ، کیوں کہ ہم سے مخالف سیاسی رُجحان بھی رکھتے ہیں ، چنانچہ جب فیس بُک کھولتے ، اُنہیں میری پوسٹ کے مزاح میں ڈوبے ہوئے نشتر دکھائی دیتے ، تو وہ فوراً جھاڑ پلا دیتے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو انہوں نے  ۔   12 اگست  2015 ، کو پلائی ! جو خاور یوسف کی یہ پوسٹ شیئر کرنے پر تھی ۔

منافقت
 At our age we need to avoid things which are below dignity. I am sorry I observed you repeatedly doing this. Perhaps you have the ability to absorb the abuses hurled in return. Can you quote something from Holy Prophet's life in support of your this behavior?

 مہاجر زادہ نے وضاحت پیش کی !
بھائی یہ پوسٹ میری نہیں ۔ میں نہیں بنائی ۔ صرف میں نے شیئر کی ہے ۔
کہ عمران خان جیسے پلے بوائے کا سر شرم سے نہیں جھکنا چاھئیے ۔ بلکہ فخر سے بلند ہونا چاھئیے ، کہ وہ بھی گو یہ کام تو نہیں اس سے کم سزا 100 کوڑوں کے کام میں ملوث رہا ہے  ۔
مجھے حیرانی ہے کہ آپ جیسا بردبار، سلیم الفطرت فہم و ادراک کا مالک اِس جیسے قبیح الفطرت شخص کو پسند کرتا ہے ۔ تو کیا مجھے اس سے نفرت کرنے کا کوئی حق نہیں ؟ (مہاجرزادہ)


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  عمرانیوں نے مجھے پیج پر اور ان بکس میں ہر طرح کی گالیاں دیں جو اُنہیں اُن کے والدین  نے سکھائیں تو ، میں نے مُفت پُور کے مُفتی کا سہارا لیا ،




  مجھے نہیں معلوم کہ اس میں عمران کو پسند یا ناپسند کرنا کہاں سے آ گیا؟
٭٭٭٭٭٭٭
پسند اور ناپسند ایک فطری جزبہ ہے اور نفرت ناپسندیدگی کی انتہائ صورت- آپ کو یقیناً یہ حق حاصل ہے - اس پوسٹ کے جواب میں آپ کی وال پر جو مغلظات لکھی گئیں تھیں میں نے اس کے حوالے سے بات کی تھی- ناپسندیدگی یا نفرت کے اظہار کی کوئی احسن صورت بھی ہو سکتی ہے مگر آپ جسے غلاظت سمجھتے ہیں ،اس پر پتھر پھینکنے کو ہی مناسب سمجھتے ہیں تو خاکسار کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے- اڑنے والے چھینٹے اگر آپ کی طبع پر ناگوار نہیں گزرتے تو میں کون ہوتا ہوں اس پہ کچھ کہنے والا- سمع خراشی کے  لئے
معذرت خواہ ہوں- آئندہ ذحمت نہ دونگا- لنا اعمالنا و لکم اعمالکم- امید ہے کہ آپ مجھے اپنے عمومی خیالات سے مستفیض ہونےکے حق سے محروم نہیں کرینگے-

 اردو ادب کا عمومی طالب علم ہوں اور اس کی صنف مزاح سے بھی رغبت ہے- ایک بات طے ہے کہ لطیفے اور کثیفے میں فرق ہوتا ہے- پھر کچھ باتیں بے تکلف دوستوں کی مجلس میں ہی روا ہیں اور عمومی مجلسوں میں ان کے بیان سے اعرض کیا جاتا ہے- ہر معاشرے کے کچھ حدود و قیود ہیں سو ہمارے بھی ہیں- قابل تحریر یا نہ ہونے کا ایک عمومی معیار یہ ہے کہ دیکھا جائے  کہ افراد خانہ کے ساتھ اسے مل کر دیکھا یا پڑھا جا سکتا ہے کہ نہیں اگر جواب مثبت ہے تو بسم ا للہ وگرنہ نہ کرنا ہی بہتر سمجھا جائے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
  جواباً مہاجر زادہ کو  بھی اپنی سوچ اُن کے گوش گذار کرنا پڑی :۔
  عمومی میعار اب تبدیل ہو چکے ہیں اور ہوتے رہیں گے ، پیارے  بھائی :
پہلے والد کو منڈوا دیکھنے پر گو شمالی ہوتی تھی ہم اپنی والدہ کے ساتھ ، باپ کی اجازت سے ، منتخب منڈوے (بائیسکوپ ) دیکھنے جاتے تھے ، جن کا نام اب "فلم" کر دیا گیا تھا ۔
جوانی میں گھر میں منڈوا چلانے والی مشین ( وی سی آر) میں گھر میں لے آیا ۔تو  اُس وقت کی " اخلاقی" فلموں کی خاص وڈیو بناتا جن میں قابلِ گرفت گانے اور ڈائلاگ نکلوا کر  اپنی کیسٹ بناتا اور پھر گھر مٰن سب دیکھتے اور لطف اندوز ہوتے ۔
اب ، سمارٹ ٹی وی پر روزانہ گھر میں بغیر فلٹر کے منڈوا دیکھا جاتا ہے ، اور تو اور جو لطیفے ،انٹر نیٹ کی فضاؤں میں وٹس ایپ اور فیس بُک پر چکر لگا رہے ہیں ، وہی میری بیوی ، بیٹیوں ، بھتیجیوں اور بھانجیوں کے پاس آتے ہیں-
اچھے نیک دل انسان :
زمانہ آہستہ ، آہستہ اُس منافقت سے نکل رہا ہے ، جس میں ہم پاکستانی رہ رہے ہیں ۔ قومِ لوط کا فعل جاری رہے اور ہم بھی حج اور نمازوں کے نشان اپنے ساتھ چسپاں کئے رکھتے ہیں ، شاید آپ میرے پوسٹ پوری نہیں پڑھتے یا آپ کو جھنجھلاہٹ ہوتی ہوگی ،
لیکن یاد رہے ، قصور میں ہونے والے ظلم کاسدِ باب اپنے بچوں اور بچیوں  کو  سیکس  ایجوکیشن دے کر ، آگاہ نہیں کیا کہ کس قسم کے قریبی عزیز و رشتہ دار یا اقارب  یا اُن کے بچے  ، آپ کے بچے کا جنسی استحصال بذریعہ تشدّد و لالچ   کر سکتے ہیں آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔ہاں مختلف بیان بازیوں سے لوگ آپ کے زخموں پر پھا رکنے کی کوشش ضرور کریں گے ، لیکن پیٹھ پیچھے  نفرت سے کہیں گے ،

" بڑا مبلغ بنا پھرتا ہے اپنے بچے کو نہیں سنبھال سکا "
میری عادت ، ہر ایسی چیز جو مشکوک ہے ، "لا " کہنے کی فطرت ہے ۔ اور پھر سوچ بچار و غور و خوص کے بعد ۔ " الا"   زبان پر آتا ہے ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں :

پختون سے مختون تک 

فحاشی کیا ہوتی ہے ؟



خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔