ہم کوئیٹہ کے رہنے والے ، جب 1966 کے نومبر میں والدین کے ساتھ میرپورخاص گئے۔
تو گلی ہاکی کھیلنے والے دوستوں سے ساتھ ، نہر پر نہانے گئے ۔ راستے میں سٹلائیٹ ٹاؤن کو میٹھا پانی سپلائی کرنے والی واحد ٹنکی کےگیٹ کے باہر تین چار درخت لگے ،دوستوں نے بتایا اِن پر بادام لگتے ہیں ۔
میں اور چھوٹا بھائی ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ، نہ درخت کا تنا باداموں جیسا اور نہ پتے باداموں والے۔ ہم دونوں نے یکسر انکار کردیا ۔
پھر 1968 میں دوبارہ آئے ، بہن کی بیماری کی وجہ سے وہیں جم گئیں اوریہ بوڑھا اُس وقت کا نوجوان گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول میں ہاکی کھیلنے کی وجہ سے ۔ ماسٹر الطاف صاحب والدہ کی اجازت سے خود اپنے ساتھ لے کر گئے اور جب تک سرٹیفکیٹ کوئیٹہ سے نہ آئیں ،لہذا اپنی کلاس آٹھویں میں بٹھا دیا تاکہ بچے کو گورنمنٹ ہائی سکول والے نہ لے اُڑیں ۔
یوں موسم بہار میں ہم نے اِس درخت کے بادام توڑ کر کھائے ۔ ذائقہ بادام جیسا تو نہ تھا مگر شائد آموں کے دیس میں رہنے کی وجہ سے یا جامن کے پودے پر بادام کی قلم کی پیوند کاری کی وجہ سے ۔ چھلکے میں جامن و آم کا مکس ذائقہ آگیا ۔ لیکن گری کی بناوٹ بادام کی طرح ہونے کی وجہ سے ، بادام کی برادری میں شامل ہوگیا ۔ لیکن بطورِ مہاجر، یعنی ہندوستانی بادام کے لقب سے مشہور ہوا ۔
آج جب فیس بُک کے مشہور لکھاری ثنا اللہ خان احسن کی پوسٹ " کھٹے بادام " کو پڑھا ، تو بالا یاد ذہن کے تحت الشعور تہہ سے چھلانگ مار کر شعور میں آگئی۔
ثنا اللہ خان احسن کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے مضمون سے اِس بوڑھے کو ماضی بعید میں لے جاتے ہیں ۔ جو اب بھول بھلیاں بن چکی ہیں ۔
پوسٹ کے کمنٹس میں ایک نوجوان نے سوال پوچھا ،
" کیا ہم اِس کھٹے بادام کے بیج سے درخت اُگا سکتے ہیں ؟"
کیوں نہیں!
پڑھیں : پھلوں کے بیج اُگانا
" آپ ہر بیج سے پودا اُگاسکتے ہیں ، لیکن اچھا پھل حاصل کرنے کے لئے ، اچھی دیکھ بھال بھی چاہئیے ہو گی۔ جس میں سب سے اہم موسمی اثرات سے بچانا ہے !"
اب یہ دیکھیں ، جب بوڑھے کو باغبانی کا شوق چرایا تو اُس نے پھلوں کے بیجوں سے پودے اُگانا شروع کر دئیے ۔
ارے بھئ بات ہو رہی تھی ، ثنا اللہ خان احسن کے " کھٹے بادام " کی یا ہندوستانی باداموں کی پاکستان میں آمد ، ہوا یوں کہ دراصل اِس کھٹے بادام کی جنم کنڈلی کا سرا افریقہ میں جاکر ملتا ہے ، کیوں کہ یہ خطِ استوا کے شمال اور جنوب میں پائے جانے والے تمام ممالک میں پایا جا سکتا ہے ۔ لہذا اِس کے بیج جہازران ، قافلوں اور فوجیوں کی خرجیوں کی بدولت ایشیا میں پھیل گیا ۔
اگانے کے لئے یہ طریقہ سود مند ہے ۔ پہلے بیج کی جڑیں خول سمیت یا خول اتار کر نکالیں ۔ پھر گملوں میں لگائیں اور جب دوتین فٹ اونچے ہو جائیں تو زمین میں دبا دیں ۔
گملوں کے بجائے اگر پیپسی یا کوک کی خالی بوتلوں میں لگائیں تو وہ بھی بہتر ہے ۔
گھروں کی چھت پر آپ بوتلوں میں سبزیاں بھی اُگا سکتے ہیں ، اِس کے دو فائدے ہیں ایک تو آپ کو تازہ سبزیاں کھانے کو ملیں گی دوسرے آپ کی چھت سورج میں تپنے کے بجائے ، ٹھنڈک مہیا کرے گی ۔ آزمائش شرط ہے !
تو گلی ہاکی کھیلنے والے دوستوں سے ساتھ ، نہر پر نہانے گئے ۔ راستے میں سٹلائیٹ ٹاؤن کو میٹھا پانی سپلائی کرنے والی واحد ٹنکی کےگیٹ کے باہر تین چار درخت لگے ،دوستوں نے بتایا اِن پر بادام لگتے ہیں ۔
میں اور چھوٹا بھائی ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ، نہ درخت کا تنا باداموں جیسا اور نہ پتے باداموں والے۔ ہم دونوں نے یکسر انکار کردیا ۔
پھر 1968 میں دوبارہ آئے ، بہن کی بیماری کی وجہ سے وہیں جم گئیں اوریہ بوڑھا اُس وقت کا نوجوان گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول میں ہاکی کھیلنے کی وجہ سے ۔ ماسٹر الطاف صاحب والدہ کی اجازت سے خود اپنے ساتھ لے کر گئے اور جب تک سرٹیفکیٹ کوئیٹہ سے نہ آئیں ،لہذا اپنی کلاس آٹھویں میں بٹھا دیا تاکہ بچے کو گورنمنٹ ہائی سکول والے نہ لے اُڑیں ۔
یوں موسم بہار میں ہم نے اِس درخت کے بادام توڑ کر کھائے ۔ ذائقہ بادام جیسا تو نہ تھا مگر شائد آموں کے دیس میں رہنے کی وجہ سے یا جامن کے پودے پر بادام کی قلم کی پیوند کاری کی وجہ سے ۔ چھلکے میں جامن و آم کا مکس ذائقہ آگیا ۔ لیکن گری کی بناوٹ بادام کی طرح ہونے کی وجہ سے ، بادام کی برادری میں شامل ہوگیا ۔ لیکن بطورِ مہاجر، یعنی ہندوستانی بادام کے لقب سے مشہور ہوا ۔
آج جب فیس بُک کے مشہور لکھاری ثنا اللہ خان احسن کی پوسٹ " کھٹے بادام " کو پڑھا ، تو بالا یاد ذہن کے تحت الشعور تہہ سے چھلانگ مار کر شعور میں آگئی۔
ثنا اللہ خان احسن کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے مضمون سے اِس بوڑھے کو ماضی بعید میں لے جاتے ہیں ۔ جو اب بھول بھلیاں بن چکی ہیں ۔
پوسٹ کے کمنٹس میں ایک نوجوان نے سوال پوچھا ،
" کیا ہم اِس کھٹے بادام کے بیج سے درخت اُگا سکتے ہیں ؟"
کیوں نہیں!
پڑھیں : پھلوں کے بیج اُگانا
" آپ ہر بیج سے پودا اُگاسکتے ہیں ، لیکن اچھا پھل حاصل کرنے کے لئے ، اچھی دیکھ بھال بھی چاہئیے ہو گی۔ جس میں سب سے اہم موسمی اثرات سے بچانا ہے !"
اب یہ دیکھیں ، جب بوڑھے کو باغبانی کا شوق چرایا تو اُس نے پھلوں کے بیجوں سے پودے اُگانا شروع کر دئیے ۔
ارے بھئ بات ہو رہی تھی ، ثنا اللہ خان احسن کے " کھٹے بادام " کی یا ہندوستانی باداموں کی پاکستان میں آمد ، ہوا یوں کہ دراصل اِس کھٹے بادام کی جنم کنڈلی کا سرا افریقہ میں جاکر ملتا ہے ، کیوں کہ یہ خطِ استوا کے شمال اور جنوب میں پائے جانے والے تمام ممالک میں پایا جا سکتا ہے ۔ لہذا اِس کے بیج جہازران ، قافلوں اور فوجیوں کی خرجیوں کی بدولت ایشیا میں پھیل گیا ۔
اگانے کے لئے یہ طریقہ سود مند ہے ۔ پہلے بیج کی جڑیں خول سمیت یا خول اتار کر نکالیں ۔ پھر گملوں میں لگائیں اور جب دوتین فٹ اونچے ہو جائیں تو زمین میں دبا دیں ۔
گملوں کے بجائے اگر پیپسی یا کوک کی خالی بوتلوں میں لگائیں تو وہ بھی بہتر ہے ۔
گھروں کی چھت پر آپ بوتلوں میں سبزیاں بھی اُگا سکتے ہیں ، اِس کے دو فائدے ہیں ایک تو آپ کو تازہ سبزیاں کھانے کو ملیں گی دوسرے آپ کی چھت سورج میں تپنے کے بجائے ، ٹھنڈک مہیا کرے گی ۔ آزمائش شرط ہے !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں