ہمارے بچپن کے زمانے کیا خوب تھے ، مغرب سے پہلے کھانا کھا کر صحن میں بچھی چارپایوں پر لیٹ جاتے کبھی امی سے اور کبھی باجیوں ، آپاؤں ، خالاؤں سے کہانیاں سنتے ، کہانیاں سنتے سنتے نیند کی آغوش میں پہنچ جاتے۔ یو ں کہانی کبھی نہ پوری ہوتی کیوں کہ پوری کہانی سننے والے بڑے بچے دوبارہ وہ کہانی سننا پسند نہیں کرتے تھے ۔
اب بوڑھے ہو چکے ہیں ، چنانچہ فیس بُک پر کہانیاں پڑھتے ہیں ۔ ایک فیس بُک پر بننے والے دوست نے ایک کہانی پوسٹ کی ، آج بچپن اور جوانی میں کھو جانے کا دن تھا لہذا اپنے گالف کے پارٹنر اور سنہرے دنوں کے میں ساتھ رگڑا کھانے والے ساتھی سے اچھی فلموں کی لسٹ وٹس ایپ پر منگوائی، 3 انگلش فلمیں ڈاؤن لوڈ کیں اور ترتیب وار دیکھنا شروع کیں ، فلموں سے فارغ ہو تو فیس بُک کھولا ، تو یہ کہانی نظر آئی :
" آپ بلیک بورڈ پہ ایسے 25- 30 لوگوں کے نام لکھو جو تمہیں سب سے زیادہ پیارے ہوں"
لڑکی نے پہلے تو اپنے خاندان کے لوگوں کے نام لکھے، پھر اپنے سگے رشتہ دار، دوستوں، پڑوسی اور چند کلاس کی لڑکیوں کے نام لکھ دیئے !
" شاباش " پروفیسر کلاس سٹیج پ ٹہلتا ہوا بولا،"گویا ساری دنیا میں یہ 26 لوگ آپ کو سب سے پیارے ہیں ؛
اچھا ایسا کرو کہ اِن لوگوں میں جو 5 افراد آپ کو کم پسند ہوں اِن کے نام مٹا دو "
لڑکی نے اپنے دوستوں کے نام مٹا دیے !
" ہوں "پروفیسر بولا،" چلو اب مزید 5 نام مٹا دو "
لڑکی نے تھوڑا سوچ کر اپنے پڑوسيو ں کے نام مٹا دیے "اوکے "پروفیسر بولا،" ایسا کرو کہ اب اس میں سے کوئی بھی کم پسند والے 10 نام مٹا دو "
لڑکی نے اپنے سگے رشتہ داروں کے نام مٹا دیے
اب بورڈ پر صرف 6 نام بچے تھے ۔ ماں ، باپ ، بہن ، بھائی ، شوہر اوربچے کا نام تھا ۔
" ہوں "پروفیسر بولا،" چلو اب 2 نام مٹا دو "
کلاس میں سناٹا چھا گیا ، کسی بھی انسان کی زندگی کو خوبصورت بنانے کے لئے 6 اہم افراد !
لڑکی کشمکش میں پڑ گئی، بہت سوچنے کے بعد بہت دکھی ہوتے ہوئے اس نے اپنی ماں اور باپ کا نام مٹا دیا۔ پوی کلاس نے گہری سانس لی لیکن پرسکون تھے ،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ کھیل صرف وہ لڑکی ہی نہیں کھیل رہی تھی بلکہ وہ بھی اپنے ذہن میں اِس کھیل میں شامل ہو چکے تھے!
" چلو اب 2 نام اور مٹا دو " پروفیسر بولا
لڑکی نے بغیر جھجکے بہن اور بھائی کا نام مٹا دیا ۔ اب صرف دو نام بچے ، کلاس سوچ رہی تھی کہ ایک شادی شدہ عورت کی زندگی میں شوہر اور بچہ دنیا کی سب سے پیاری ہستیاں ہوتی ہیں ۔
پروفیسر سٹیج کے درمیان سے چلتا ہوا کلاس کے بائیں کونے تک گیا ، گھوم کر کلاس کی طرف دیکھا ، ساری کلاس دم سادھے اُس کو دیکھ رہی تھی ، کہ اب پروفیسر کیا کہتا ہے ؟
پروفیسر نے لڑکی کی طرف دیکھا وہ ملول اور افسردہ سی ایک کونے میں کھڑی تھی ۔ شاید وہ بھی پروفیسر کے اگلے جملے کا انتظار کر رہی تھی ، پِن ڈراپ سائیلنس زدہ ماحول میں پروفیسر کی آواز گونجی ۔
" اب ایک نام مٹا دو "
پوری کلاس کی نظریں لڑکی پر جم گئیں ، کے دماغ میں آندھیاں چلنے لگیں ۔ لڑکی سہمی نظر آنے لگی اُس کے جسم کا لرزنا سب دیکھ رہے تھے، بالآخر اپنی پوری قوتِ ارادی جمع کرکے آہستہ قدموں سے آگے بورڈ کی طرف بڑھی ۔
کانپتا ہاتھ بورڈ کی طرف آہستہ آہستہ اُٹھایا ۔ رُکی ۔آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں ۔ اور
اپنے بیٹے کا نام کاٹ دیا!
"تم اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ جاؤ" پروفیسر بولا ۔ لڑکی سر جھکائے اپنی سیٹ پر جا بیٹھی !
پوری کلاس کی طرف غور سے دیکھا۔
" کیا کوئی بتا سکتا ہےکہ سب سے عزیز ہستی میں صرف شوہر کا ہی نام بورڈ پر رہ گیا، ماں باپ ، بہن بھائی ،یہاں تک کہ بیٹے کا کام بھی کٹ گیا ، ایسا کیوں ہوا ؟ "پروفیسر کی آواز گونجی
سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ، مگر خاموش رہے ۔
پروفیسر نے اُسی لڑکی طرف دیکھا ،
" بیٹے اور شوہر میں سے آپ نے شوہر کا انتخاب کیوں کیا ؟ "
لڑکی کھڑی ہوئی اور پر اعتماد لہجے میں بولی ،
"میرا شوہر مجھے میرے ماں باپ، بہن بھائی، حتیٰ کہ اپنے بیٹے سے بھی زیادہ عزیز ہے!
وہ میرے ہر دکھ سکھ کا ساتھی ہے!
میں اس سے ہر وہ بات شیئر کر سکتی ہوں جو میں اپنے بیٹے یا کسی اور یہاں تک کہ اپنی ماں سے بھی نہیں کر سکتی !
میں اپنی زندگی سے اپنا نام مٹا سکتی ہوں ، مگر اپنے شوہر کا نام کبھی نہیں مٹا سکتی!"
بوڑھے کو یوں لگا کہ جیسے یہ جواب بڑھیا نے پروفیسر کو دیا ہے ، واقعی بیوی اور شوہر کا رشتہ ایسا ہی ہونا چاہئیے ۔ پھر بوڑھے کو ایک وڈیو یاد آگئی آپ بھی دیکھیں !
کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی ، بلکہ شروع ہوئی ہے بوڑھے کے اِس سوال پر !
اب بوڑھے ہو چکے ہیں ، چنانچہ فیس بُک پر کہانیاں پڑھتے ہیں ۔ ایک فیس بُک پر بننے والے دوست نے ایک کہانی پوسٹ کی ، آج بچپن اور جوانی میں کھو جانے کا دن تھا لہذا اپنے گالف کے پارٹنر اور سنہرے دنوں کے میں ساتھ رگڑا کھانے والے ساتھی سے اچھی فلموں کی لسٹ وٹس ایپ پر منگوائی، 3 انگلش فلمیں ڈاؤن لوڈ کیں اور ترتیب وار دیکھنا شروع کیں ، فلموں سے فارغ ہو تو فیس بُک کھولا ، تو یہ کہانی نظر آئی :
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پروفیسر نے ایک شادی شدہ لڑکی کو کھڑا کیا
اور کہا ،" آپ بلیک بورڈ پہ ایسے 25- 30 لوگوں کے نام لکھو جو تمہیں سب سے زیادہ پیارے ہوں"
لڑکی نے پہلے تو اپنے خاندان کے لوگوں کے نام لکھے، پھر اپنے سگے رشتہ دار، دوستوں، پڑوسی اور چند کلاس کی لڑکیوں کے نام لکھ دیئے !
" شاباش " پروفیسر کلاس سٹیج پ ٹہلتا ہوا بولا،"گویا ساری دنیا میں یہ 26 لوگ آپ کو سب سے پیارے ہیں ؛
اچھا ایسا کرو کہ اِن لوگوں میں جو 5 افراد آپ کو کم پسند ہوں اِن کے نام مٹا دو "
لڑکی نے اپنے دوستوں کے نام مٹا دیے !
" ہوں "پروفیسر بولا،" چلو اب مزید 5 نام مٹا دو "
لڑکی نے تھوڑا سوچ کر اپنے پڑوسيو ں کے نام مٹا دیے "اوکے "پروفیسر بولا،" ایسا کرو کہ اب اس میں سے کوئی بھی کم پسند والے 10 نام مٹا دو "
لڑکی نے اپنے سگے رشتہ داروں کے نام مٹا دیے
اب بورڈ پر صرف 6 نام بچے تھے ۔ ماں ، باپ ، بہن ، بھائی ، شوہر اوربچے کا نام تھا ۔
" ہوں "پروفیسر بولا،" چلو اب 2 نام مٹا دو "
کلاس میں سناٹا چھا گیا ، کسی بھی انسان کی زندگی کو خوبصورت بنانے کے لئے 6 اہم افراد !
لڑکی کشمکش میں پڑ گئی، بہت سوچنے کے بعد بہت دکھی ہوتے ہوئے اس نے اپنی ماں اور باپ کا نام مٹا دیا۔ پوی کلاس نے گہری سانس لی لیکن پرسکون تھے ،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ کھیل صرف وہ لڑکی ہی نہیں کھیل رہی تھی بلکہ وہ بھی اپنے ذہن میں اِس کھیل میں شامل ہو چکے تھے!
" چلو اب 2 نام اور مٹا دو " پروفیسر بولا
لڑکی نے بغیر جھجکے بہن اور بھائی کا نام مٹا دیا ۔ اب صرف دو نام بچے ، کلاس سوچ رہی تھی کہ ایک شادی شدہ عورت کی زندگی میں شوہر اور بچہ دنیا کی سب سے پیاری ہستیاں ہوتی ہیں ۔
پروفیسر سٹیج کے درمیان سے چلتا ہوا کلاس کے بائیں کونے تک گیا ، گھوم کر کلاس کی طرف دیکھا ، ساری کلاس دم سادھے اُس کو دیکھ رہی تھی ، کہ اب پروفیسر کیا کہتا ہے ؟
پروفیسر نے لڑکی کی طرف دیکھا وہ ملول اور افسردہ سی ایک کونے میں کھڑی تھی ۔ شاید وہ بھی پروفیسر کے اگلے جملے کا انتظار کر رہی تھی ، پِن ڈراپ سائیلنس زدہ ماحول میں پروفیسر کی آواز گونجی ۔
" اب ایک نام مٹا دو "
پوری کلاس کی نظریں لڑکی پر جم گئیں ، کے دماغ میں آندھیاں چلنے لگیں ۔ لڑکی سہمی نظر آنے لگی اُس کے جسم کا لرزنا سب دیکھ رہے تھے، بالآخر اپنی پوری قوتِ ارادی جمع کرکے آہستہ قدموں سے آگے بورڈ کی طرف بڑھی ۔
کانپتا ہاتھ بورڈ کی طرف آہستہ آہستہ اُٹھایا ۔ رُکی ۔آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں ۔ اور
اپنے بیٹے کا نام کاٹ دیا!
"تم اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ جاؤ" پروفیسر بولا ۔ لڑکی سر جھکائے اپنی سیٹ پر جا بیٹھی !
پوری کلاس کی طرف غور سے دیکھا۔
" کیا کوئی بتا سکتا ہےکہ سب سے عزیز ہستی میں صرف شوہر کا ہی نام بورڈ پر رہ گیا، ماں باپ ، بہن بھائی ،یہاں تک کہ بیٹے کا کام بھی کٹ گیا ، ایسا کیوں ہوا ؟ "پروفیسر کی آواز گونجی
سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ، مگر خاموش رہے ۔
پروفیسر نے اُسی لڑکی طرف دیکھا ،
" بیٹے اور شوہر میں سے آپ نے شوہر کا انتخاب کیوں کیا ؟ "
لڑکی کھڑی ہوئی اور پر اعتماد لہجے میں بولی ،
"میرا شوہر مجھے میرے ماں باپ، بہن بھائی، حتیٰ کہ اپنے بیٹے سے بھی زیادہ عزیز ہے!
وہ میرے ہر دکھ سکھ کا ساتھی ہے!
میں اس سے ہر وہ بات شیئر کر سکتی ہوں جو میں اپنے بیٹے یا کسی اور یہاں تک کہ اپنی ماں سے بھی نہیں کر سکتی !
میں اپنی زندگی سے اپنا نام مٹا سکتی ہوں ، مگر اپنے شوہر کا نام کبھی نہیں مٹا سکتی!"
بوڑھے کو یوں لگا کہ جیسے یہ جواب بڑھیا نے پروفیسر کو دیا ہے ، واقعی بیوی اور شوہر کا رشتہ ایسا ہی ہونا چاہئیے ۔ پھر بوڑھے کو ایک وڈیو یاد آگئی آپ بھی دیکھیں !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوجوانو !کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی ، بلکہ شروع ہوئی ہے بوڑھے کے اِس سوال پر !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں