Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 29 جون، 2019

ہم اور ہمارے افکار

 ایسٹ تِمور پہنچ کر سوچا تھا کہ پہلے سفر نامہ لکھوں لیکن میرے  ہم شہر نوجوان کی پکار ، جہاز میں پڑھی اور پھر لیپ ٹاپ کھولتے ہی سب سے پہلی پوسٹ اُس کی تھی ۔سوچا کہ چلو دلجوئیِ نوجوان لکھاری کر دوں ۔
کہتے ہیں دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ۔ یہ وجہ ہے کہ غوری سے دوستی انٹرنیٹ کی لہروں سے ہوئی اوراب وہ میرے ہردل عزیز نوجوان لکھاری اور ذاتی دوستوں میں سے ہے ۔ 
غوری کی باتوں اور لکھائیں میں ضرب ہے ، جِسے میں کسی مردِ فتنہ جو  کے گھونسے کی طرح شدید تو نہیں کہوں گا اور نہ کسی خاتون کی لگائی ہوئی چماٹ کی طرح نازک  ،جس کا مجھے اور آپ سب کو یقیناً بچپن سے تجربہ ہوگا ۔ یہ خاتون ماں یا بڑی بہن کی صورت میں ہماری زندگی میں داخل ہوتی ہیں  اول الذکّر تو ہماری پہنچ سے باہر ہوتی ہے لیکن دوسری خاتون کی سو سنار کے بدلے ایک لوہار کی جمادی جاتی ہے ۔
ہاں تو ذکر ہورہا تھا غوری کی تحریروں کا ، انسان کی تحریروں میں نکھار یا تو پیسہ کرتا ہے اور یا زبوں حالیءِ عشق یا معیشت ۔
غوری کے عشق کے بارے میں زیادہ معلومات تو نہیں ۔ہاں البتّہ معیشت میں وہ ابھی  ملک کے کئی نوجوانوں کی طرح  معیشت کے خطِ  فارغ البالی سے نیچے ہے ، کیوں کہ کمانے والا ایک ہاتھ ہوتاہے اور کھانے والے  دو ۔  جو انسان  کی زبان میں تلخی بھر دیتے ہیں۔

 تلخیاں دو طرح کی ہوتی ہیں:
اک زبانی اور دوسری تحریری ۔ 
میں نے غوری کو ہمیشہ اچھا سامع پایا ہے وہ دوسروں کی سنتا ہے اور احساسات کی ترجمانی تحریری کرتا ہے ۔ 
اُس کی شروع کی تحریروں اور اب کی تحریروں کے درمیان الفاظ کا انتخاب یوں سمجھو کہ میڑک سے ماسٹر کی کے اوائل میں پہنچ چکا ہے ۔ 
لیکن اُس کی بالا تحریر دیکھ کر  اُس کی پختگی نے  دوسروں کو مجبور کیا ہے کہ اُس کے ذہنی مینار پر کھڑا ہوکر اپنا قد بلند کریں ، جس پر یہ نوجوان لکھاری پریشان دکھائی دیتا ہے ۔نہ صرف یہ بلکہ ثنا اللہ احسن بھی انہیں  ، پری شانوں میں شامل ہے ۔
شائد نوجوان   غوری کو نہیں معلوم کہ کاپی رائیٹ کا قانون رائیٹ برادران نے تو نہیں البتہ لیفٹ برادران کی وجہ سے ظہور میں آیا ۔ جنہیں آپ برادرانِ یوسف بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ خطابت اور لکھایت،   دنوں میدانوں  میں پائے جاتے ہیں یہ پہلے مکھی پر مکھی مارے میں ماہر تھے اور اگر کوئی  اُن کے الفاظِ ناشائسہ پر گرفت کرتا تو  یہ فوراً،    فلاں ابنِ فلاں نے کہا اور میں نے سنا  کے الفاظ سنا کر اگلے کو لاجوب کرتے اور اگر اگلا بھی صاحبِ علم ہوتا تو یہ  کیا کرتے وہ قابل تحریر نہیں ، بس یوں سمجھیں کہ  رضویانہ   الفاظ سننے پڑجاتے ۔

اور پھر نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا  ، بس یہ جواب سننے کو ملتا ہے :
اچھا یہ بتاؤ  کہ ہم دونوں میں کو ن اچھے مقام پر اور  صاحبِ خطاب (احسن نادیا  ) ہے ۔

تو غوری جی !  حوصلہ کرو اور برداشت کرو کہ اِس سے پہلے  صاحب خطاب اور اُس کے چیلوں  کے جواب ،
 تیری پین دی سری کے اونچے سُروں سے شروع ہوکر  ، آپ   نہ صرف ایک جاہل ہیں بلکہ بدتمیز بھی ہیں  کے نیچےسروں پر ختم ہوں ۔
 یا پھر اِن باکس ،  جس میں مدرسہءِ   دھرنا  کے طالبعلم و فارغ التحصیل مہارت رکھتے ہیں۔ 
مہاجرزادہ کی رائے یہ ہے ،

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

بس سر جھکا کر اپنے افکار  کو  ایسا بناؤ کہ پڑھنے واہے ہمہ تن بصر ہوں اور سننے والے ہمہ تن گوش ۔
 قادرغوری ۔ مہاجرزادہ اور خالد چنا
٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔