لیکن وہ وہ فائلر نہیں !
وہ فائلر کیوں نہیں بنتا ؟
حقیقت تو یہ ہے کہ سرکاری ادارے ٹیکس لینا ہی نہیں چاہتے۔
کیوں کہ اُن کی منتھلی ماری جا تی ہے !
ایف بی آر کہتا ہے کہ اسے ہر برس’ ریٹرن ‘جمع کروائی جائے جو وصولیوں اور ادائیگیوں پر ٹیکس کی رسید ہوتی ہے مگراس ریٹرن کا تیار کرنا ایک عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں، اسے انتہائی مشکل اور ٹیکنیکل بنایا گیا ہے مگر اس سے بھی دلچسپ امر یہ ہے کہ
یہ ریٹرن آپ کے بنک اکاونٹ کی بنیاد پر بنتی ہے یعنی اگر آپ نقد لین دین کریں تو ریٹرن کی زدمیں نہیں آتے۔
جناب وزیراعظم!
اب سوال یہ ہے کہ:
پاکستان کے سترہ ہزار سات سو انچاس بنکوں کے تقریبا پانچ کروڑ بنک اکاؤنٹس کا ڈیٹا تو سنٹرلائزڈ ہے اور اداروں کی انگلیوں کے نیچے ہے تو آپ ان پانچ کروڑ اکاؤنٹس کو جمع شدہ گوشوارے کیوں ڈیکلئیر نہیں کر دیتے؟
جس کے بعد آپ کے فائلرز کی تعداد اچانک اٹھارہ ، بیس لاکھ سے بڑھ کے چار سے پانچ کروڑ ہوجائے گی۔
حقیقت میں ٹیکس ریٹرن ایک رسید ہے کہ میں نے کتنا ٹیکس ادا کیا اور رسید ہمیشہ وصول کرنے والا دیتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ میرے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ پر میری تنخواہ کے علاوہ پانی، بجلی، گیس، پراپرٹی، پٹرول، فون اور دیگر مدات پر جتنا ٹیکس کٹا۔
اس کی رسید مجھے ایف بی آر دے اور میرا شکریہ ادا کرے۔
مگریہاں الٹی گنگا بہتی ہے کہ ٹیکس بھی میں ہی دیتا ہوں اور
نان فائلر ہونے کی وجہ سے چور بھی میں ہی کہلاتا ہوں ۔
جناب وزیراعظم!
اگر آپ شناختی کارڈ نمبر کو ہی نیشنل ٹیکس نمبر بنا کے کام شروع کر دیں اور بنک اکاونٹس ہی گوشوارے بنا دیں تو !
صرف ایک مزید کام کرتے ہوئے پوری کی پوری اکانومی کو ڈاکومنٹڈ کیا جاسکتا ہے کہ ایک لاکھ روپے سے زائد کسی بھی نقد ادائیگی یعنی کیش پے منٹ کو قانونی تسلیم کرنے سے انکا رکر دیا جائے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہر شہری اپنی ادائیگیوں کے قانونی تحفظ کے لئے بنکنگ چینل استعمال کرے گا۔
جب ہر زیر استعمال بنک اکاونٹ ایک گوشوارہ ہو گا تواس کے بعد کوئی امیر آدمی نان فائلر نہیں رہے گا اور جو رہے گا وہ اپنے رسک پر ہو گا!
کیونکہ کسی بھی تنازعے کی صورت میں عدالتیں اس کا دعویٰ قبول نہیں کریں گی۔اور وہ الاعلان چور کہلایا جائے گا ۔
یوں ہمارے چہرے سے یہ کالک بھی اتر جائے گی کہ صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں، جی نہیں !
ٹیکس تو ہر پاکستانی دیتا ہے مگر فائلرز صرف ایک فیصد ہیں۔
(منقول)
انکم ٹیکس وکیل اِن کو بھرنے کے 8000 روپے لیتا ہے ۔ اور جو ریٹرن بھرتا ہے وہ کسی بھی شریف آدمی کو پھنسانے کے لئے کافی ہوتی ہے ۔
اگر آپ تنخواہ دار ملازم ہیں اور تنخواہ سے ٹیکس جمع کروا رہے ہیں ، تو آپ کو پریشانی کی ضرورت نہیں ، بس آپ نے یہ دونوں فارم بھرنے ہیں ۔
٭- پہلے یہ فارم 116(2) بھرا جاتاہے ۔
جس میں آپ کے اثاثے اور اخراجات ، درج کئے جاتے ہیں ۔
٭- اور پھر یہ فارم 114(1) بھرا جاتا ہے ۔
وہ فائلر کیوں نہیں بنتا ؟
حقیقت تو یہ ہے کہ سرکاری ادارے ٹیکس لینا ہی نہیں چاہتے۔
کیوں کہ اُن کی منتھلی ماری جا تی ہے !
ایف بی آر کہتا ہے کہ اسے ہر برس’ ریٹرن ‘جمع کروائی جائے جو وصولیوں اور ادائیگیوں پر ٹیکس کی رسید ہوتی ہے مگراس ریٹرن کا تیار کرنا ایک عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں، اسے انتہائی مشکل اور ٹیکنیکل بنایا گیا ہے مگر اس سے بھی دلچسپ امر یہ ہے کہ
یہ ریٹرن آپ کے بنک اکاونٹ کی بنیاد پر بنتی ہے یعنی اگر آپ نقد لین دین کریں تو ریٹرن کی زدمیں نہیں آتے۔
جناب وزیراعظم!
اب سوال یہ ہے کہ:
پاکستان کے سترہ ہزار سات سو انچاس بنکوں کے تقریبا پانچ کروڑ بنک اکاؤنٹس کا ڈیٹا تو سنٹرلائزڈ ہے اور اداروں کی انگلیوں کے نیچے ہے تو آپ ان پانچ کروڑ اکاؤنٹس کو جمع شدہ گوشوارے کیوں ڈیکلئیر نہیں کر دیتے؟
جس کے بعد آپ کے فائلرز کی تعداد اچانک اٹھارہ ، بیس لاکھ سے بڑھ کے چار سے پانچ کروڑ ہوجائے گی۔
حقیقت میں ٹیکس ریٹرن ایک رسید ہے کہ میں نے کتنا ٹیکس ادا کیا اور رسید ہمیشہ وصول کرنے والا دیتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ میرے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ پر میری تنخواہ کے علاوہ پانی، بجلی، گیس، پراپرٹی، پٹرول، فون اور دیگر مدات پر جتنا ٹیکس کٹا۔
اس کی رسید مجھے ایف بی آر دے اور میرا شکریہ ادا کرے۔
مگریہاں الٹی گنگا بہتی ہے کہ ٹیکس بھی میں ہی دیتا ہوں اور
نان فائلر ہونے کی وجہ سے چور بھی میں ہی کہلاتا ہوں ۔
جناب وزیراعظم!
اگر آپ شناختی کارڈ نمبر کو ہی نیشنل ٹیکس نمبر بنا کے کام شروع کر دیں اور بنک اکاونٹس ہی گوشوارے بنا دیں تو !
صرف ایک مزید کام کرتے ہوئے پوری کی پوری اکانومی کو ڈاکومنٹڈ کیا جاسکتا ہے کہ ایک لاکھ روپے سے زائد کسی بھی نقد ادائیگی یعنی کیش پے منٹ کو قانونی تسلیم کرنے سے انکا رکر دیا جائے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہر شہری اپنی ادائیگیوں کے قانونی تحفظ کے لئے بنکنگ چینل استعمال کرے گا۔
جب ہر زیر استعمال بنک اکاونٹ ایک گوشوارہ ہو گا تواس کے بعد کوئی امیر آدمی نان فائلر نہیں رہے گا اور جو رہے گا وہ اپنے رسک پر ہو گا!
کیونکہ کسی بھی تنازعے کی صورت میں عدالتیں اس کا دعویٰ قبول نہیں کریں گی۔اور وہ الاعلان چور کہلایا جائے گا ۔
یوں ہمارے چہرے سے یہ کالک بھی اتر جائے گی کہ صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں، جی نہیں !
ٹیکس تو ہر پاکستانی دیتا ہے مگر فائلرز صرف ایک فیصد ہیں۔
(منقول)
٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ دونوں فارم آن لائن بھرنا، نہایت آسان ہے ۔انکم ٹیکس وکیل اِن کو بھرنے کے 8000 روپے لیتا ہے ۔ اور جو ریٹرن بھرتا ہے وہ کسی بھی شریف آدمی کو پھنسانے کے لئے کافی ہوتی ہے ۔
اگر آپ تنخواہ دار ملازم ہیں اور تنخواہ سے ٹیکس جمع کروا رہے ہیں ، تو آپ کو پریشانی کی ضرورت نہیں ، بس آپ نے یہ دونوں فارم بھرنے ہیں ۔
٭- پہلے یہ فارم 116(2) بھرا جاتاہے ۔
جس میں آپ کے اثاثے اور اخراجات ، درج کئے جاتے ہیں ۔
٭- اور پھر یہ فارم 114(1) بھرا جاتا ہے ۔
مہاجرزادہ : اگلے مضمون میں اِن کو بھرنے کا طریقہ بتائے گا ۔
جو آپ کماتے ہیں وہ اِن میں بھر دیں !
جو آپ کماتے ہیں وہ اِن میں بھر دیں !
پریشانی کی کوئی بات نہیں ، اپنی آمدنی اور اخراجات اور بنک اکاونٹ سٹیٹمنٹ (1 جولائی تا 30 جون ) ، سکین کر کے بطور ڈاکومنٹ اٹیچ کردیں ۔ انہیں ایف بی آر میں جمع کروا کر آپ فائلر بن سکتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭
بہترین معلومات
جواب دیںحذف کریںماشااللہ جی۔ خوب ھمت اور حوصلہ دلانے والی تحریر ہے ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔
جواب دیںحذف کریں