روداد ماہانہ بزم مناثرین کی دسویں نشست
مورخہ؛ پندرہ جون 2019
بمقام؛ نسٹ لائبریری، اسلام آباد
جون کی قیامت خیز گرمی اور ایکوی نوکس کی غیر ممکنہ قیامت اٹھانے والے مومنین کے درمیان، بزم مناثرین نے اپنا سلسلہ باقاعدہ جاری رکھا اور گرمی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس سلسلے کی دسویں نشست نسٹ کے پروقار، شاندار بلکہ ٹھنڈے ٹھار ماحول میں منعقد ہوئی۔۔۔گرمی کا ایسا کامیاب توڑ کرنے کا سہرا عاطف مرزا صاحب کے سر جاتا ہے کیوں نہ ہو کہ حضرات کو اپنے سر پر ایک کے بعد پھر سے سہرا دیکھنے کا ارمان ہی بہت ہوتا ہے۔ اس سہرا بندی پر خاص تہنیت ۔۔۔
بزم مناثرین کی یہ محفل اس لحاظ سے بے حد کامیاب رہی کہ مستقل اراکین کے علاوہ غیر مستقل اراکین بھی تشریف لائے بلکہ مزید مہمانان گرامی نے بھی رونق میں چار چاند لگائے۔۔
زاعفرانی نثر پیش کرنے والے احباب کا نام اور ترتیب وار تسلسل حسب ذیل رہا
عاطف مرزا صاحب (میزبان)
عزیز فیصل صاحب
حبیبہ طلعت
آصف اکبر صاحب
محمد عارف صاحب
فردوس عالم صاحب
بیگم فردوس عالم صاحب
شہریار خان صاحب
رحمت اللہ عامر صاحب
امجد قیصرانی صاحب
بیگم امجد قیصرانی صاحب
گیٹ نمبر 1 ریسپشن پر عاطف مرزا اپنی کار کے ہمراہ مہمانوں کے استقبال کے لیے بذات خود موجود رہے۔۔۔ اور مہمانوں کو اپنے جلو میں لے کر بزم گاہ لے گئے۔بزم اپنے اعلانیہ وقت پر شروع ہوئی۔۔
ماہر سماجیات کا کہنا ہے کہ مسکراہٹ کسی شخص کی عمر میں اضافہ کرسکتی ہے۔ بزم مناثرین کے تمام شرکائے کرام اس بات کا خاص اہتمام کیے ہوئے تھے کہ کسی شخص کی بھی مسکراہٹ اسکے لبوں سے جدا نہ ہونے پائے کہ یوں عمر کا بھی بھرم باقی رہ سکے گا۔ چنانچہ قہقہہ بار نکتہ وری اور چست فقروں سے مسکراہٹ کا بازار گرم کیے رکھا
گزر رہا ہے ادھر سے تو مسکراتا جا
چراغ مجلس روحانیاں جلاتا جا
جوشؔ ملیح آبادی
تمام معزز اہل قلم و مسکراہٹ نے بالترتیب اپنی تحاریر پیش کیں ۔۔چنیدہ اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
عاطف مرزا صاحب نے محفل کے آغاز میں اپنے دانش کدے کی پٹاری سے چست فقرہ عنایت کیا لکھتے ہیں کہ؛
"پاکستان میں دینی فتوی، سیاسی تجزیہ،قانونی مشورہ اور طبی نسخہ۔۔۔ ہر شخص سے ہر وقت، ہر جگہ دستیاب ہے۔"
اب باری تھی ڈاکٹر عزیز فیصل صاحب کی جنہوں نے تقی اللہ خان ہنس مکھ رنگساز پر رنگیلا خاکہ کیا پڑھا کہ اسکے بعد حسب محاورہ مسکراہٹ ایک متعدی مرض کی طرح ایک سے دوسرے کو لاحق ہوتی گئی۔ لکھتے ہیں کہ؛
"عجیب بندہ ہے کہ جس کی گهنیری داڑهی اور اکہری جسامت کو نظر انداز کر دیاجائے تو باقی کچه بچتا ہی نہیں. اس کی ہمہ وقتی دیده زیب مسکراہٹ "مردانہ" مونا لیزائی تاثر پیداکرتی رہتی ہے. "
اب باری تھی ناچیز کی جسے بزم کی غیر اعلانیہ سرکاری روداد نویس ہونے کا اعزاز حاصل ہے ہم نے "کس قیامت کے یہ بدنامے میرے نام آتے ہیں۔" کے عنوان سے فارورڈنگ میسیجز پر شگفتگی کے جوہر دکھانے کی ناکام سی کوشش کی کہ؛
"دجال نے خوب ہمیں اپنے دجالی میڈیا پر مشغول کر دیا ہے ۔۔۔ آپ سوچیں ذرا کہ وہ خود تو علم کے میدان میں آگے ہی آگے بڑھتے جا رہے ہیں ہمیں کہاں پھنسا دیا گیا ہے۔ ان کو پتا ہے کہ ہماری قوم والے بغیر سوچے سمجھے چیزیں آگے بڑھانے کے دس ہزار سال پرانے مرض میں مبتلا ہیں۔ "
اب قلمدان آصف اکبر صاحب کے ہاتھ میں تھا۔ " بھولے بادشاہ کے عنوان تلے خوب ہنسایا۔۔۔ ادبیات اور تاریخ کے پر لطف تذکرے کے بعد اردگرد کے بھولے اور بھولے بادشاہوں کے خوب عکس منعکس کیے۔ کہتے ہیں کہ؛
"اب جہاں تک بھوُلے بادشاہوں کو تعلق ہے تو ہمارے ضیا الحق بھُولے بادشاہوں کے بادشاہ ۔ نوے دن کی بات تو ایسے بھولے کہ پھر ملک الموت بھی یاد نہ دلا سکے۔ جبکہ مشرف وردی اتارنی بھول گئے۔ ان کو یار لوگوں نے بہلا پھسلا کر رام کرنا چاہا مگر انہوں نے تو وردی دشمنوں کی نیندیں حرام کر دیں۔ پھر کہا کہ آنکھوں میں تو دم ہے۔ مگر جب ان کو مثل آدم ان کی جنت سے نکالا گیا تو وہ بہت دل گرفتہ تھے کہ قوم نے میری خدمات بھلا دیں۔"
محمد عارف نے "کابلی" پر کیا ہی خوب خاکہ پیش کیا کہ ان کے الفاظ اور تراکیب نے مسلسل قہقہے لگاتے رہنے پر مجبور کیا لکھتے ہیں کہ؛
" اسکی شخصیت اور کردار کے ساتھ اسکی چال میں بھی لچک ہے۔ سگریٹ چائے اور پانی ہر قسم کا پسند ہے۔ بے ایمان ہوکر بھی بے ایمانی نہیں کرتا۔ کھلنڈرا پن اس کے انگ انگ سے چھلکتا ہے ہر کام سیکھنے اور ہر پنگا لینے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ کسی بات کو زیادہ دیر دماغ پر سوار نہیں کرتا۔ اسے سیاستدان ہونا چاہئے تھا ہوتا تو شیخ رشید کی قبیل سے ہوتا۔ آدھا شاعر، پونا انسان اور پورا دوست ہے۔ آدھا پاکستان اسکی بے غیرتیوں کی وجہ سے اسے جانتا ہے اور باقی آدھا پاکستان اس وجہ سے جانتا ہے"۔
فردوس عالم صاحب نے بزم مناثرین کے شرکاء کو اپنی تحریر کی گرفت سے باہر بالکل نہ نکلنے دیا ان کے انشائیے کا عنوان تھا
چائے پینا عذاب ہے یا رب
کہتے ہیں کہ چائے ہماری گھٹی میں پڑی ہے بلکہ حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو کہنا چاہیے کہ گھٹی ہماری چائے میں پڑی ہے۔مثلا ہمارے دوست بتا رہے تھے کہ ایک دفعہ وہ بہ نصیب ڈاکٹراں بیمار ہوگیے۔ تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئے اوہ ڈاکٹر صاحب ہمارے ان دوست ہی کی بدولت میدان طب میں بڑے بڑے تجربات کرچکے ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے کوئی سائنسدان جب کوئی نئی تحقیق پیش کرتا ہے تو وہ پہلے اس نئی تحقیق کو کسی دوسری مخلوق پر آزماتا ہے اور قدرت نے دونوں کا ساتھ دیا۔"
شہریار خان نے آمریت کی ایک حساس قسم سے متعارف کرایا 'جب مردوں کا عالمی دن گزر گیا' جی ہاں یہی عنوان تھا ان کے قلم سے نکلے ظریفانہ مضمون کا اپنے ہی جیسے بیوی کے ڈسے مظلوم مرد کا غم بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ؛
"ایک مرتبہ تو خاتون نے حد ہی کر دی کہنے لگیں کہ آپ کی سالگرہ کے لیے نیا سوٹ لیا ہے۔میری آنکھوں میں آنسو آگئے میں نے کہا اچھا دکھاو کہنے لگی ابھی پہن کر آتی ہوں۔پہلے آنسو خوشی کے تھے پھر اب صدمے کے آنسو بہہ نکلے بتائیے سالگرہ میری اور تحفہ میرے لیے کیا لائیں محترمہ اپنے لیے نیا سوٹ۔۔
یہ کیسا پیار ہے؟ یہ آمریت ہی ہے ناں"
اب باری تھی نئے شگفتہ نثار رحمت اللہ عامر صاحب کی جن کے پاس شگفتہ 'نمک پارے' دستیاب تھے لکھتے ہیں کہ؛
کتنے دنوں کے ترلے منتوں کے بعد ابا جی اماں کے بے حد اصرار پر آخر کار لڑکی والوں کے گھر پہنچ گئے ہمارے من میں لڈو پھوٹ رہے تھے اور بار بار اماں جی کو فرشی سلام کرتے رہے آخر کار لڑکی والوں کی طرف سے دامادی کا شرف حاصل ہوگیا اباجی کا"
زعفرانی بزم مناثرین نے نئے مہمانوں شہریار
خان، رحمت اللہ عامر اور امجد قیصرانی صاحبان کو بے حد خوش دلی سے خوش
آمدید کہا جس کا ثبوت بھرپور داد کے ہمراہ دیا گیا۔
حسب سابق میزبان کی جانب سے پرلطف عصرانہ دیا گیا جس کو قریب عشاء کے وقت تناول کیا گیا۔۔۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بزم تاخیر سے اختتام پذیر ہوئی بلکہ ہوا ہوں کہ جب عاطف مرزا صاحب مہمانوں کو فردا فردا با رضاو رغبت اغوا کر رہے تھے تو لائبریری کے باہر بزم کی شوخ تحریروں کی وجہ سے موسم نے بھی انگڑائی لی اور سنہری شام کی بھرپور خوشگوار ہواوں نے مہمانوں کو عکس بندی کی طرف توجہ دلائی اور یہ یادگار محفل خوب صورت تصاویر کی صورت محفوظ ہوگئی ۔۔بعد ازاں عاطف صاحب پھر گھیر گھار کر مہمانوں کو جانب منزل لے گئے جہاں لوازمات کا بھرپور اہتمام کیا گیا تھا۔ ۔
مورخہ؛ پندرہ جون 2019
بمقام؛ نسٹ لائبریری، اسلام آباد
جون کی قیامت خیز گرمی اور ایکوی نوکس کی غیر ممکنہ قیامت اٹھانے والے مومنین کے درمیان، بزم مناثرین نے اپنا سلسلہ باقاعدہ جاری رکھا اور گرمی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس سلسلے کی دسویں نشست نسٹ کے پروقار، شاندار بلکہ ٹھنڈے ٹھار ماحول میں منعقد ہوئی۔۔۔گرمی کا ایسا کامیاب توڑ کرنے کا سہرا عاطف مرزا صاحب کے سر جاتا ہے کیوں نہ ہو کہ حضرات کو اپنے سر پر ایک کے بعد پھر سے سہرا دیکھنے کا ارمان ہی بہت ہوتا ہے۔ اس سہرا بندی پر خاص تہنیت ۔۔۔
بزم مناثرین کی یہ محفل اس لحاظ سے بے حد کامیاب رہی کہ مستقل اراکین کے علاوہ غیر مستقل اراکین بھی تشریف لائے بلکہ مزید مہمانان گرامی نے بھی رونق میں چار چاند لگائے۔۔
زاعفرانی نثر پیش کرنے والے احباب کا نام اور ترتیب وار تسلسل حسب ذیل رہا
عاطف مرزا صاحب (میزبان)
عزیز فیصل صاحب
حبیبہ طلعت
آصف اکبر صاحب
محمد عارف صاحب
فردوس عالم صاحب
بیگم فردوس عالم صاحب
شہریار خان صاحب
رحمت اللہ عامر صاحب
امجد قیصرانی صاحب
بیگم امجد قیصرانی صاحب
گیٹ نمبر 1 ریسپشن پر عاطف مرزا اپنی کار کے ہمراہ مہمانوں کے استقبال کے لیے بذات خود موجود رہے۔۔۔ اور مہمانوں کو اپنے جلو میں لے کر بزم گاہ لے گئے۔بزم اپنے اعلانیہ وقت پر شروع ہوئی۔۔
ماہر سماجیات کا کہنا ہے کہ مسکراہٹ کسی شخص کی عمر میں اضافہ کرسکتی ہے۔ بزم مناثرین کے تمام شرکائے کرام اس بات کا خاص اہتمام کیے ہوئے تھے کہ کسی شخص کی بھی مسکراہٹ اسکے لبوں سے جدا نہ ہونے پائے کہ یوں عمر کا بھی بھرم باقی رہ سکے گا۔ چنانچہ قہقہہ بار نکتہ وری اور چست فقروں سے مسکراہٹ کا بازار گرم کیے رکھا
گزر رہا ہے ادھر سے تو مسکراتا جا
چراغ مجلس روحانیاں جلاتا جا
جوشؔ ملیح آبادی
تمام معزز اہل قلم و مسکراہٹ نے بالترتیب اپنی تحاریر پیش کیں ۔۔چنیدہ اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
عاطف مرزا صاحب نے محفل کے آغاز میں اپنے دانش کدے کی پٹاری سے چست فقرہ عنایت کیا لکھتے ہیں کہ؛
"پاکستان میں دینی فتوی، سیاسی تجزیہ،قانونی مشورہ اور طبی نسخہ۔۔۔ ہر شخص سے ہر وقت، ہر جگہ دستیاب ہے۔"
اب باری تھی ڈاکٹر عزیز فیصل صاحب کی جنہوں نے تقی اللہ خان ہنس مکھ رنگساز پر رنگیلا خاکہ کیا پڑھا کہ اسکے بعد حسب محاورہ مسکراہٹ ایک متعدی مرض کی طرح ایک سے دوسرے کو لاحق ہوتی گئی۔ لکھتے ہیں کہ؛
"عجیب بندہ ہے کہ جس کی گهنیری داڑهی اور اکہری جسامت کو نظر انداز کر دیاجائے تو باقی کچه بچتا ہی نہیں. اس کی ہمہ وقتی دیده زیب مسکراہٹ "مردانہ" مونا لیزائی تاثر پیداکرتی رہتی ہے. "
اب باری تھی ناچیز کی جسے بزم کی غیر اعلانیہ سرکاری روداد نویس ہونے کا اعزاز حاصل ہے ہم نے "کس قیامت کے یہ بدنامے میرے نام آتے ہیں۔" کے عنوان سے فارورڈنگ میسیجز پر شگفتگی کے جوہر دکھانے کی ناکام سی کوشش کی کہ؛
"دجال نے خوب ہمیں اپنے دجالی میڈیا پر مشغول کر دیا ہے ۔۔۔ آپ سوچیں ذرا کہ وہ خود تو علم کے میدان میں آگے ہی آگے بڑھتے جا رہے ہیں ہمیں کہاں پھنسا دیا گیا ہے۔ ان کو پتا ہے کہ ہماری قوم والے بغیر سوچے سمجھے چیزیں آگے بڑھانے کے دس ہزار سال پرانے مرض میں مبتلا ہیں۔ "
اب قلمدان آصف اکبر صاحب کے ہاتھ میں تھا۔ " بھولے بادشاہ کے عنوان تلے خوب ہنسایا۔۔۔ ادبیات اور تاریخ کے پر لطف تذکرے کے بعد اردگرد کے بھولے اور بھولے بادشاہوں کے خوب عکس منعکس کیے۔ کہتے ہیں کہ؛
"اب جہاں تک بھوُلے بادشاہوں کو تعلق ہے تو ہمارے ضیا الحق بھُولے بادشاہوں کے بادشاہ ۔ نوے دن کی بات تو ایسے بھولے کہ پھر ملک الموت بھی یاد نہ دلا سکے۔ جبکہ مشرف وردی اتارنی بھول گئے۔ ان کو یار لوگوں نے بہلا پھسلا کر رام کرنا چاہا مگر انہوں نے تو وردی دشمنوں کی نیندیں حرام کر دیں۔ پھر کہا کہ آنکھوں میں تو دم ہے۔ مگر جب ان کو مثل آدم ان کی جنت سے نکالا گیا تو وہ بہت دل گرفتہ تھے کہ قوم نے میری خدمات بھلا دیں۔"
محمد عارف نے "کابلی" پر کیا ہی خوب خاکہ پیش کیا کہ ان کے الفاظ اور تراکیب نے مسلسل قہقہے لگاتے رہنے پر مجبور کیا لکھتے ہیں کہ؛
" اسکی شخصیت اور کردار کے ساتھ اسکی چال میں بھی لچک ہے۔ سگریٹ چائے اور پانی ہر قسم کا پسند ہے۔ بے ایمان ہوکر بھی بے ایمانی نہیں کرتا۔ کھلنڈرا پن اس کے انگ انگ سے چھلکتا ہے ہر کام سیکھنے اور ہر پنگا لینے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ کسی بات کو زیادہ دیر دماغ پر سوار نہیں کرتا۔ اسے سیاستدان ہونا چاہئے تھا ہوتا تو شیخ رشید کی قبیل سے ہوتا۔ آدھا شاعر، پونا انسان اور پورا دوست ہے۔ آدھا پاکستان اسکی بے غیرتیوں کی وجہ سے اسے جانتا ہے اور باقی آدھا پاکستان اس وجہ سے جانتا ہے"۔
فردوس عالم صاحب نے بزم مناثرین کے شرکاء کو اپنی تحریر کی گرفت سے باہر بالکل نہ نکلنے دیا ان کے انشائیے کا عنوان تھا
چائے پینا عذاب ہے یا رب
کہتے ہیں کہ چائے ہماری گھٹی میں پڑی ہے بلکہ حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو کہنا چاہیے کہ گھٹی ہماری چائے میں پڑی ہے۔مثلا ہمارے دوست بتا رہے تھے کہ ایک دفعہ وہ بہ نصیب ڈاکٹراں بیمار ہوگیے۔ تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئے اوہ ڈاکٹر صاحب ہمارے ان دوست ہی کی بدولت میدان طب میں بڑے بڑے تجربات کرچکے ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے کوئی سائنسدان جب کوئی نئی تحقیق پیش کرتا ہے تو وہ پہلے اس نئی تحقیق کو کسی دوسری مخلوق پر آزماتا ہے اور قدرت نے دونوں کا ساتھ دیا۔"
شہریار خان نے آمریت کی ایک حساس قسم سے متعارف کرایا 'جب مردوں کا عالمی دن گزر گیا' جی ہاں یہی عنوان تھا ان کے قلم سے نکلے ظریفانہ مضمون کا اپنے ہی جیسے بیوی کے ڈسے مظلوم مرد کا غم بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ؛
"ایک مرتبہ تو خاتون نے حد ہی کر دی کہنے لگیں کہ آپ کی سالگرہ کے لیے نیا سوٹ لیا ہے۔میری آنکھوں میں آنسو آگئے میں نے کہا اچھا دکھاو کہنے لگی ابھی پہن کر آتی ہوں۔پہلے آنسو خوشی کے تھے پھر اب صدمے کے آنسو بہہ نکلے بتائیے سالگرہ میری اور تحفہ میرے لیے کیا لائیں محترمہ اپنے لیے نیا سوٹ۔۔
یہ کیسا پیار ہے؟ یہ آمریت ہی ہے ناں"
اب باری تھی نئے شگفتہ نثار رحمت اللہ عامر صاحب کی جن کے پاس شگفتہ 'نمک پارے' دستیاب تھے لکھتے ہیں کہ؛
کتنے دنوں کے ترلے منتوں کے بعد ابا جی اماں کے بے حد اصرار پر آخر کار لڑکی والوں کے گھر پہنچ گئے ہمارے من میں لڈو پھوٹ رہے تھے اور بار بار اماں جی کو فرشی سلام کرتے رہے آخر کار لڑکی والوں کی طرف سے دامادی کا شرف حاصل ہوگیا اباجی کا"
حسب سابق میزبان کی جانب سے پرلطف عصرانہ دیا گیا جس کو قریب عشاء کے وقت تناول کیا گیا۔۔۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بزم تاخیر سے اختتام پذیر ہوئی بلکہ ہوا ہوں کہ جب عاطف مرزا صاحب مہمانوں کو فردا فردا با رضاو رغبت اغوا کر رہے تھے تو لائبریری کے باہر بزم کی شوخ تحریروں کی وجہ سے موسم نے بھی انگڑائی لی اور سنہری شام کی بھرپور خوشگوار ہواوں نے مہمانوں کو عکس بندی کی طرف توجہ دلائی اور یہ یادگار محفل خوب صورت تصاویر کی صورت محفوظ ہوگئی ۔۔بعد ازاں عاطف صاحب پھر گھیر گھار کر مہمانوں کو جانب منزل لے گئے جہاں لوازمات کا بھرپور اہتمام کیا گیا تھا۔ ۔
(مبصّر - حبیبہ طلعت )
٭٭٭٭٭٭واپس جائیں٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں