Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 29 جولائی، 2021

مرکزِ ملت ، عیسائیت و اسلامیت

٭٭٭٭٭٭
حیوانات بھی اپنی اپنی راہیں الگ بناتے ہیں ۔
 حیوانوں میں جو محکومیت پسند کرتے ہیں وہ کمزور ہوتے ہیں ۔ شیر جب جوان ہوتا ہے تو وہ اپنا فرقہ الگ بناتا ہے اور اُس فرقے کے اصول بھی خود طے کرتا ہے ۔ یوں ایک خاندان فرقہ در فرقہ میں تبدیل ہوتے جاتا ۔ کیوں کہ جانوروں کا مذہب نہیں ہوتا لہذا ، اُن کے درمیان یہ   طاقتور اور کمزور کے درمیان قبیلوں کی تقسیم کہتے ہیں۔
 اِسی اصول کی بنیاد پر انسانی حیوانات بھی قبائل در قبائل اور برادری در برادری میں تقسیم ہوتا گیا ۔ 
مذھب نے بھی یہی کیا جو لچھے دار باتوں کے ماہر ہیں ، اُنہوں نے پہلے سے لچھے دار باتیں بنانے والوں کی راہ چلتے ہوئے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا شروع کیا ۔ کیوں کہ وہ طاقتور نہیں ہوتے تھے لہذا قبیلے کے طاقتوروں نے اُنہیں اپنے مفاد کے لئے پالنا شروع کر دیا ۔
 جب اِن لچھے دار باتیں بنانے والوں نے قبیلے کے طاقتوروں کو اُپنے سننے والوں کی تعداد سے متاثر ہو کر خود کو طاقتور بنانے کی کوشش کی تو وہ جلاوطن کر دیئے گئے یا پھانسی پر لٹکا دئے گئے ۔ اُن کے مریدوں نے وہ لچھے دار باتیں اندرونی سطح پر پھیلانا شروع کر دیں ۔ طاقتورں نے نئے لچھے دار باتیں بنانے والوں کو اپنے گروپ میں شامل کیا تو نئے لچھے دار باتیں بنانے والوں اپنے سننے والوں کا نیا گروپ تشکیل دیا ۔ یوں تفریق در تفریق بڑھتی گئی ۔
 پرانی اور نئی لچھے دار باتوں کو اپنے فہم کے مطابق انسانوں نے اصولوں کی شکل دی اور پھر اُنہیں کتابوں کی صورت میں ڈھال دیا ۔
 تاریخ میں درج ہے کہ1604 میں بائیبل کے 66 نسخے تھےجو 66  سینٹ تھے     ۔یہ  ایڈم سے شروع ہوئے ، نوحا ، ابراہم اور لوٹ سے گذرتے ہوئے کرائسٹ کو  صلیب  پر چڑھانے کے بعد  ختم ہوئے  ۔
 گویا 66 تفریقی گروپس تھے 1911 میں اِن تمام کتب کو اکٹھا کرکے ایک مستند نسخہ کنگ جیمس نے بنایا اور دولت کے بل پر پوری عیسائیت  جماعت میں پھیلا دیا گیا۔
 یوں عیسائیوں میں لچھے دار باتیں بنانے والوں کا 1929 میں اختتام ہوا ۔ جب ویٹیکن سٹی میں چرچ کو ایک متفقہ عبادت گا بنا لیا ۔
مذہب اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ آدم کے ساتھ زمین پر آیا اور بنی آدم میں رسولوں اور نبیوں کے ہمراہ چلتا ہوا ہیکلِ سلیمانیہ کی بنیادوں سے گذرتا ہوا ، یروشلم کے عیسائی عبادت گا کو قبلہ بناتا ہوا ۔
 مکّہ میں کعبہ ہر آکر ٹہر گیا جہاں لات ،منات اور عزہ کے معبد 360 ہمرایوں کے قائم تھے ۔
اسلامیت کے پرچاروں کابھی یہی دعویٰ تھا کی اُن کی تمام کتابوں  اور صحیفوں  کو ایک جگہ کمپائل کرکے قرآن نامی کتاب  مصحفِ عثمانی وجود میں لائی گئی ۔جس کی صرف  7 فوٹو کاپیاں  مملکت میں بھجوادی گئیں ۔
  یوں مذہبی تفرقہ بازوں کی لچھے دار باتوں کا ویٹیکن سٹی اور کعبہ میں اختتام ہو گیا  اور اسلامیت  میں بھی تفریق ختم ہو گئی ۔کالے اور گورے برابر قرار دیئے گئے ۔ امیر طبقہ  اور غریب  طبقہ دولت کی مساوی تقسیم کے باعث متوسط طبقے میں تبدیل ہوگئے ۔
تمام پڑھنے والے تالیاں بجائیں ۔
  لیکن مسئلہ یہ ہوا ۔ کہ
 لچھے لچھےدار باتوں کا ایک گروپ ، مدینہ سے جان کے خوف سے بھاگ کر ،  کوفہ میں بننا شروع ہوا ۔
 اُس گروپ کے لوگ ماورالنہر کے شہروں تک پہنچ گئے ، جن میں ماوراء النہر کے اہم ترین شہر سمرقند اور بخارا،خجند،شیستان ، نیشاپور ، قزوین اور ترمذ شامل تھے۔ 
لچھے دار باتوں کے بنانے والوں میں بھی فرقے بننے شروع ہو گئے ۔ ہر فرقہ خود کو دوسرے سے افضل سمجھتا ، اِن لچھے دار باتیں بنانے والوں کو بھی ملک بدر کیا گیا ، زندان خانوں میں ڈالا گیا اور غالباً زہر دیا گیا ، قتل کیا گیا ۔ اں کے بھی متبعین وہاں سےبھاگے اور 10 لاکھ آبادی کے شہر بغداد 66  میں تو نہیں البتہ 15یا 20  لچھے دار باتیں بنانے والوں کے مرکز بن گئے ۔ 
یہاں تک کہ ہلاکو خان نے سب لچھے دار باتیں بنانے والوں اور اُن کی باتیں سن سن کر سر دھننے والوں کو دریائے فرات میں اُن کی کتابوں سمیت بالکل ایسے بہایا جیسے  آج کل کرونا انسانوں کو بہا رہا ہے ۔
 لیکن کیا کیا جائے ؟ 
 اسلامیت   کا  سٹی موجود ہے ۔ مسلمانوں کی متفقہ کتاب موجود ۔ 
لیکن افسوس لچھے دار باتیں بنانے والوں کے گروپس کے گروپس بنتے جا رہے ہیں ۔ 
پاکستان کے رہنے والے مسلمان ، تمام مسلمانوں کےمتفقہ سٹی کے حکمرانوں کو خود سے الگ گروپ سمجھتے ہیں اور کیوں نہ سمجھیں ؟
 کہ یہ گروپ بھی بغدادی گروپ کا دیوانہ  اور وہابی فرقہ ہے  ۔ 
سنا ہے کہ اب آئندہ حکومت لینے والا نیا حکمران ، بغدادی لچھے دار باتیں بنانے والوں کو پسِ پشت ڈال کر  قرآن  کو ترجیح دینے کی کوششوں میں انٹرویو دے رہا ہے ۔
 تاکہ عیسائیوں کی طرح مسلمانوں کو بھی امت واحدہ پر لائے ۔ لیکن ایک بات وہ بھول رہا ہے کہ اِس کے لئے اُسے اپنے متفقہ  سٹی پر ابھرنے والے چاند کے تہواروں کو پورے گلوب پر  ویٹیکن سٹی کے کرسمس کے تہوار کی طرح ایک دن  قرار دینا ہوگا ۔
 ٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔