سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ فَإِن جَآؤُوكَ فَاحْكُم
بَيْنَهُم أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن
يَضُرُّوكَ شَيْئًا وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ
اللّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ[5:42]
جسٹس نعیم اختر افغان،نامزد چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نےوکلا سے بات کرتے ہوئے بتایا ، " جب میں خضدار جیل کا معائنہ کرنے گیا ۔ تو دورے کے اختتام پر جب میں باہر نکلنے کے لیے مین گیٹ پر پہنچا ۔تو آخری بیرک کی جالیوں کے پیچھے سے ایک شخص نے آواز دی۔ کیا آپ میری بات سنیں گے۔ میں نے کہا کہ ضرور کیونکہ میں تو آپ لوگوں کو سننے کے لیے آیا ہوں۔ جب میں اُس کے قریب گیا ۔تو اُس شخص نے رونا شروع کر دیا۔ میں نے اُس شخص کو غور سے دیکھا اور اُس کو دلاسہ دیا اورپوچھا ، آپ رو کیوں رہے ہو ۔کیا ہوا ؟اُس کو بلک بلک کر روتے دیکھ کر میری اپنی حالت بھی غیر ہو گئی تھی ۔‘
قیدی نے مجھے بتایا کہ اس کا تعلق کراچی سے ہے اور میں بے گناہ قید ہوں ۔ اُ س کا ہسٹری ٹکٹ دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اُسے عمر قید کی سزا ہوئی تھی۔ میں حیران ہوا کہ وضع اور قطع سے وہ مجرم لگتا نہیں تو پھر اُس کو سزا کیسے ہوئی؟
جیل کے عملے نے میرے استفسار پر بتایا کہ اس قیدی کو منشیات کے مقدمے میں عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔ میں نے قیدی کو کہا کہ اگر آپ منشیات کا کاروبار کریں گے تو پھر سزا تو ہو گی۔اُس کے کہا مائی باپ میں بے قصور ہوں ۔
اُس نے بتایا :۔
" اُس کی بھتیجی کی شادی کوئٹہ میں ہوئی تھی لیکن یہ شادی صرف ایک سال چل سکی۔ ایک سال بعد لڑکی کی طلاق ہوئی۔اُس کا کہنا تھا کہ طلاق کے بعد لڑکی واپس کراچی چلی گئی۔ تاہم سسرال کی جانب سے جہیز میں لڑکی کے شوہر کو جو سامان دیا گیا تھا اس کی واپسی کے لیے کوئٹہ کی فیملی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
جب فیملی کورٹ سے لڑکی کے حق میں فیصلہ آیا تو جو سامان واپس کیے جانے تھے۔ ناظر نے اس کی فہرست تیار کی اور سامان لڑکی کے حوالے کرنے کا بندوبست کر دیا۔ جہیز کے سامان کو منتقل کرنے کے لیے وہ کوئٹہ کے ٹرک اڈاگیا ۔ جہاں ایک ٹرک والے سے کرایہ طے ہوا۔
ٹرک والے سے یہ طے پایا کہ وہ اگلی صبح آئے گا اور سامان لے کر کراچی کے لیے روانہ ہوں گے۔ جب اگلی صبح ٹرک آیا تو اس میں سامان رکھ دیا گیا۔
قیدی سامان رکھنے کے بعد ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا اور وہ کراچی کے لیے روانہ ہو گئے۔ جب وہ کراچی کے قریب اوتھل پہنچے تو چیک پوسٹ پر گاڑی کو روک دیا گیا۔
پھر وہ ہوا جو قیدی کے خواب و خیال میں نہیں تھا۔ قیدی نے بتایا کہ ایک اہلکار آیا اور یہ پوچھا کہ یہ سامان کس کا ہے؟ تو میں نے کہا کہ میرا ہے۔ اہلکار نے بتایا کہ ہماری اطلاع یہ ہے کہ اس ٹرک میں منشیات ہیں۔ میں نے کہا کہ نہیں اس میں کوئی ایس چیز نہیں بلکہ بچی کے جہیز کاسامان ہے۔ پلنگ ،دیگر فرنیچر اور بسترہیں۔جو اہلکاروں کو بھی نظر آرہا تھا ۔
قیدی نے تلاشی کے لیے آنے والے اہلکاروں کو رسید دکھائی، ناظر کی رپورٹ دکھائی، اجرا کا حکم دکھایا لیکن انھوں نے مجھے اور ڈرائیور کو نیچے اتار دیا۔ جب سامان اتارنے کے بعد ٹرک کے پچھلے فرش کو اکھیڑا گیا تو وہاں خفیہ خانوں میں منشیات تھی اور اس میں پانچ سو پیکٹ چرس چھپائی گئی تھی"۔
چیف جسٹس نے وکیلوں کو بتایا کہ چرس کی برآمدگی کرنے والے اہلکاروں نے دونوں کو گرفتار کر لیا۔ تفتیشی افسر نے دونوں افراد کا چالان کیا اور سیشن جج نے دونوں کو عمر قید کی سزا سنا دی۔میں نے قیدی سے پوچھا کہ آپ نے اپنی بے گناہی کا کوئی ثبوت کیوں نہیں پیش کیا ۔ جب ہی تو آپ کو سزا ہوئی۔
قیدی نے بتایا کہ اُس اپنے نے دفاع میں تمام دستیاب دستاویزات اور دیگر ثبوت پیش کیے ۔لیکن سیشن جج صاحب نے اُس کے باوجود سزا سنا دی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ میں نےقیدی سے پوچھا کہ ہائیکورٹ میں ان کی اپیل کی اگلی سماعت کب ہے؟ تو معلوم ہوا کہ گذشتہ تین سال سے ہائیکورٹ میں ان کی اپیل کی کوئی سماعت نہیں ہوئی۔
وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ ،۔
"یہ بات ذہن میں رکھنا چائیے کہ میں انصاف کے نظام میں بہتری کی بات کررہا ہوں۔"
جسٹس نعیم اختر افغان نے بتایا کہ خضدار سے واپسی پر وہ اپنے چیف جسٹس کے پاس گئے اور انھیں اس شخص کی کہانی بتائی اور ان سے درخواست کی کہ اس کیس کو میں خود سنوں گا۔
چیف جسٹس نے میری ستائش کی اور کہا کہ یہی تو کرنے کی بات ہے آپ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو۔؟
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ وہ اس وکیل کا نام نہیں لیں گے تاہم اگر وہ اس پنڈال میں بیٹھے ہیں تو ان کو یاد آ جائے گا۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے بتایا ۔ " رات کو میں نے قیدی پر مقدمے کی فائل پڑھی تو اس کے ہر صفحے پر اُس کی بے گناہی کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔' انھوں نے کہا کہ ،" میں حیران ہوا کہ ثبوت نہ ہونے کی باوجود میرے ساتھی جج صاحب نے ان کو سزا کیسے دی؟۔
نامزد چیف جسٹس نے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔" یہ دیکھنے کے لیے کہ ہائیکورٹ میں سزا کے خلاف اپیل لگنے کے بعد اس کی سماعت کیوں نہیں ہوئی؟ میں نے مقدمے کے آرڈر شیٹس دیکھیں ۔ آرڈر شیٹس پر قیدی کے وکیل کی بار بار غیر حاضری پائی گئی۔ مجھےاس پر بھی بہت زیادہ تکلیف ہوئی کہ وکیل نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیوں کیا؟۔
نامزد چیف جسٹس نے بتایا کہ اگلے دن جب سماعت کے لیے قیدی کی اپیل کی باری آئی ، تو نوٹس ہونے کے باوجود وکیل پھر نہیں آیا۔
انھوں نے کہا کہ،میں نے اپنے سٹاف کو کہا کہ وکیل کو فون کریں اور اُسے وہ جہاں کہیں بھی ہو بلا لیں ۔
وکیل ساڑھے بارہ بجے میرے سامنے پیش ہوا۔ میں نے وکیل سے پوچھا کہ آپ کا کیس ہے، کیوں ظلم کر رہے ہو، کیس کیوں نہیں چلا رہے۔؟
نامزد چیف جسٹس نے بتایا کہ وکیل کا جواب یہ تھا ،"یہ ظالم میری فیس نہیں دیتا"۔
جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ انھوں نے قیدی کے وکیل کو کہا کہ آپ کو ایک اور موقع دیتا ہوں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے بتایا ، میں نے قیدی کے وکیل کو کیس کی فائل پڑھنے کی مہلت دی مگر اگلے دن جب وکیل آیا ،تو اُس نے فائل ابھی تک نہیں پڑھی تھی"۔
ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ اس قیدی سے منشیات کی برآمدگی کا کوئی ثبوت نہیں تھا جس پر میں نے ان کو پانچ منٹ میں بری کر دیا۔
نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس میں بہت سارے سوال ہیں اور بہت سارے کردار ہیں۔
کس نے کہاں ٹھیک ہونا ہے؟
میری کیا ذمہ داری ہے؟
اور آپ کی کیا ذمہ داری ہے؟۔
نامزد چیف جسٹس نے کہا ۔ " میں تو قسم کھا رہا ہوں کہ میں اپنی ذمہ داری پوری کروں گا چاہے مجھے اس کے لیے کتنے کڑوے گھونٹ کیوں نہ پینے پڑیں" ۔
انھوں نے وکلا سے سوال کیا کہ
’آپ لوگ بتا دیں کہ آپ اپنی ذمہ داری پوری کریں گے یا نہیں؟‘
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اُفق کے پار رہنے والے میرے پیارے فیس بُک کے دوستو ۔
کیا کبھی ہم نے اللہ کی آیات کی روشنی میں اپنا محاسبہ کیا ہے ، یا
ھارو سکوپ کی تحاریر کی طرح اچھی باتیں خود اور بُری باتیں دوسروں سے منسوب کر دیتے ہیں ۔
اُفق کے پار رہنے والے میرے پیارے فیس بُک کے دوستو ۔
آئیں اپنا محاسبہ کریں ۔ کہ کیا ہم الْمُؤْمِنِين ہیں ؟ یا
ابھی تک الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ ہیں !۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (14:41)
اُفق کے پار بسنے والے دوستو !۔
یہ ایک واقعی ہے جو جج صاحب نے بیان کیا لیکن اس معاشرے میں بے زابتگیوں کے اور ناانصافیوں کی صرف مسالییں ہی نہیں اور یہ سب کچھ عوام دیکھ بھی رہی ہے کیا جس نے زولفقار علی بھٹو کو پھانسی کا فیصلہ کیا تھا وہ بھی تو جج تھا اور ساقب نثار بھی چیف جسٹس تھا اور ملک ارشد بھی جج تھا اورال عدلیہ کا پرنور نظر نہیں اتا۔ موجودہ وقت میں اگر بات کی جا جاوید اقبال کی تو انکی وجہ سے نیب کی جو حالت ہوئی ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے نیب کے پاس ایک مقدمہ ایڈن گارڈن فیروز پور روڈ لاہور کا عرصہ دراز سے چل رہا ہے خدا خدا کر کے اب وہ ہائیکورٹ لاہور میں دل رہا ہے اور کئ ایڈن متاثرین الللہ پاک کو پیارے ہو گئے انکی بیوہ اور بچے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں لیکن کسی کو انصاف نہیں مل رہا ہے کیوںکہ مجرموں کے پیچھے ایک رٹائر چیف جسٹس افتخار چودھری ہے اس لئے ساری عدالتیں اور نیب مجرموں کو آج تک گرفتار نہیں کر سکی بلکہ بات چیت کے ذریعے سے مجرموں کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔
جواب دیںحذف کریں