آپ نے کبھی بڑے بڑے اور مینا کاری سے مزین ٹرکوں کو دیکھا ہے؟
کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ان خوبصورت ٹرکوں میں بسا اوقات ایک کم سن بچہ بھی ہوتا ہے۔۔۔ یہ بچہ کون ہے ؟ کیا وہ ڈرائیور کا بیٹا ہے یا رشتہ دار؟ یا کوئی کام سیکھنے والا apprentice؟ آخر اس کا یہاں کام کیا ہے؟
ٹرک ڈرائیورز اور کنڈکٹرز اکثر ان بچوں کو لمبے سفر پر اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ یہ وہی غریب اور بے سہارا بچے ہیں جو چند پیسوں کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ یہاں ان کی ضرورت ایک سیکس پارٹنر کے طور پر ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ رفتہ رفتہ ایک کلچر کی شکل اختیار کر چکا ہے مگر مجال ہے جو کوئی اس پر بات کرے۔ سب جانتے بوجھتے اس موضوع کو ٹیبو یا شجر ممنوعہ بنا کر آنکھیں بند کیے رہتے ہیں؟
رفتار چینل پہ دکھائی گئی ڈاکومنٹری میں ایک بدبخت ڈرائیور کےمطابق “لڑکوں کے ساتھ سونا ان کا واحد ’’سورس آف انٹرٹینمنٹ‘‘ ہے۔ "ٹرک میں بچہ ساتھ ہوتا ہے،اپنا ہاتھ ہے، جو دل چاہے اس سےکام لیں، بوسہ لے لیا یا کچھ اور۔۔ہم تو مہینہ مہینہ گھر نہیں جاتے، دل بھر جاتا ہے۔
بیوی کو ساتھ رکھنا اسلام میں جائز نہیں، پردے کا حکم ہے،اسےگھر میں ہونا چاہیے" بچوں کے ساتھ اس زبردستی کے پیچھے کیا سوچ ہے؟
د سیند په غاړه یو هلک ماته بالکل د شفتالو په څیر ښکاري،
افسوس چې زه لامبو نه شم کولای
ذرا اس سے اندازہ لگائیے: ۔
دریا کے اُس پار ایک لڑکا مجھے بالکل آڑو جیسا دکھتا ہے، افسوس کہ میں تیرنا نہیں جانتا۔
یہ گانا پاکستان بننے سے بھی پہلے کا ہے
کم عمر بچوں سے جنسی خواہش پوری کرنے کی تاریخ، افغانستان اور وسط ایشیا میں ایک ہزار سال سے بھی پہلے ملتی ہے۔
جرمن ایتھنو گرافک ریسرچ کے مطابق پہاڑوں میں رہنے والے بڑی عمر کے شادی شدہ مرد ۔ بلکہ مدرسوں کے طالبعلموں کو بھی اُن کے استاد بھی چھوٹے لڑکوں کو چائلڈ پروسٹیٹیوشن یا سیکس غلام کے طور پر استعما ل کرتے آئے ہیں یہ انسان نہیں، حیوان بھی نہیں… یہ درندے ہیں جو معصوم بچوں کی مسکراہٹ، ان کے خواب اور ان کا بچپن نوچ کے اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔
افغانستان میں تو یہ ناسور “کلچر” کے نام پر جیتا جاگتا پھوڑا ہے جو گُھلنے کی بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔طاقتور اور دولت مند لوگ غربت کا فائدہ اٹھا کر والدین کے بچوں کو خرید لیتے ہیں یا زبردستی اٹھا لیتے ہیں۔ ان بچوں کو محفلوں میں عورتوں کے کپڑے پہنا کر نچایا جاتا ہے، ان کی عزت پامال کی جاتی ہے اور ان کی معصوم آنکھیں ہمیشہ کے لیے بجھ جاتی ہیں۔
جس معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل کر دینا ایک عام سی بات ہو، وہاں اس کھلی بے غیرتی کا بھلا کیا جواز ہو سکتا ہے۔ یہ بات تو دین سے دوری اور کلچر کے ڈبل اسٹینڈرڑز کو ظاہر کرتی ہے۔ جہاں عورت کا گھر سے باہر نکلنا جرم سمجھا جائے، وہاں بچوں کے ساتھ زیادتی کا یہ اوپن سیکریٹ معاشرے کے ہر فرد کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہ ظلم صرف ایک لمحے کا نہیں یہ نسلوں کی بربادی ہے۔ اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس فعل کا باقاعدہ مربوط نظام ہے جو قبائلی معاشرے، خصوصاً خیبر پختونخواہ اور افغانستان کے بیشتر حصے میں عام ہے۔
چھ یا سات سال کا بچہ اپنی کسٹڈی میں لے کر اسے پہلے ٹرین کیا جاتا ہے اور پھر اگلے 10/15 سال اس کو ہر طرح سے نوچ کھاتے ہیں یہ بےغرت ، اسلام کے نام لیوا جاہل اور گھناؤنے لوگ۔ اوپر اوپر سے نماز اور دینی شعائر کے پابند، عورتوں کو پردہ کے نام پہ قید کر کے مردوں سے خواہش پوری کرتے نظر آتے ہیں۔
جبکہالقرآن میں ایسے گھناؤنے فعل کے بارے میں نہایت سخت حکم دیا ہے لواطت اور بدکاری کرنے والے کے لیے واضح کیا گیا ہے کہ:۔
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاءِ ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوهُم مِّن قَرْيَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ فَأَنجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ۔(القرآن صحوف 160۔161)
اللہ نے تومردوں کے ساتھ شہوت کرنے پر سنگساری کہ سزا لونڈے بازوں کو دی ہے ،
اس کے مجرم واجب القتل ہیں یہ سب سے بڑی لعنت ہے کہ یہ سب کچھ ان طاقتور ہاتھوں سے ہوتا ہے جن کے آگے قانون بے بس ہو جاتا ہے۔ جیسے بچوں کی عزت اور ان کا مستقبل کوئی قیمت ہی نہیں رکھتے۔
لیکن یاد رکھو! اللہ کے ہاں کوئی سفارش، کوئی رشوت، اور کوئی طاقت نہیں چلے گی۔ ان درندوں کو دنیا میں قانون سے شاید ریلیف مل جائے، مگر آخرت میں جہنم ان کا مقدر ہے۔٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں