Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 21 جولائی، 2021

ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے

 
جون 1948 کے لائف میگزین سے لی گئ کراچی کی ایک تصویر۔
یہ سن 1948 کا کراچی ہے۔ ایک کھلے میدان میں یہ سفید خیمے دراصل ان سرکاری اھل کاروں کے دفتر ہیں جو نوزائیدہ مملکت پاکستان کے دارالحکومت میں قائم اس سیکریٹیریٹ سے پورے ملک کا نظم و نسق سنبھالتے تھے۔ 

سخت گرمی دھوپ اور ریتیلی ہوائوں کا مقابلہ کرتے ان قابل مہاجر افسران نے کچھ ہی عرصے میں کراچی کو ایک مثالی شہر بنا دیا تھا۔
کس مپرسی کا یہ عالم تھا کہ کاغذات کو نتھی کرنے کے لئے پنیں تک دستیاب نہ تھیں بلکہ اس مقصد کے لئے کیکر کے لمبے کانٹے استعمال کئے جاتے تھے۔ یہ کوئی افسانہ بیان نہیں کر رہا بلکہ آج بھی سندھ سیکریٹیریٹ اور دیگر دفتروں کے پرانے کباڑخانے یا ریکارڈ میں آپ کو نیچے دبی ایسی فائلیں مل جائیں گی جن کے کاغذات کیکر کے کانٹوں سے نتھی کئے گئے ہیں۔ 

جمیل الدین عالی لکھتے ہیں کہ ببول کے کانٹے کراچی میں تین آنے سینکڑہ جبکہ گھارو اور ٹھٹھہ میں ایک آنے سینکڑہ تھے۔ وہ اور انکا ایک دوست بذریعہ سائیکل جاتے اور ایک آنے سینکڑہ پر ہر ماہ کانٹے خریدتے تاکہ دو آنے فی سینکڑہ بچائے جاسکیں۔
اس زمانے میں، ایک روپے میں چونسٹھ پیسے ہوتے تھے ا

 ٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔