Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 10 جنوری، 2022

ایک مسلم لیگی کی سافٹ وئر اَپ ڈیشن

سب سے پہلے تو میں اپنا تعارف کروا دوں۔ میرا نام چوہدری امیر علی ورک ہے۔ فیصل آباد شہر میں رہائش ہے۔ پچھلے 32 سال سے میاں نواز شریف کا کارکن، دوست اور عہدیدار ہوں۔ چھوٹا بھائ فیصل آباد کا ناظم رہا ہے۔ بیوی فوت ہو چکی ہے۔ اکیلا گھر میں بچوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ دونوں بیٹوں کی شادی ہو چکی ہے اور ساتھ رہتے ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اب آتے ہیں جمعہ\ ہفتہ کی قیامت رات کی طرف۔
میں،بڑا بیٹا، بہو اور ان کے دو بچے بدھ کی رات نتھیا گلی پہنچ گئے۔ جمعرات اور جمعہ کو بچوں نے خوب انجوائے کیا۔ ارادہ تھا کے جمعہ کے دن رش بڑھ جائے گا ۔تو ہم جمعہ شام کو واپس اسلام آباد اپنی بہن کے گھر چلے جائیں گے۔ 2 بجے چیک آوٹ کیا اور واپسی کی تیاری شروع کی۔

 ہوٹل سے نکلے اور تھوڑی دور جا کر ایک گراونڈ آتا ہے جس میں سینکڑوں بچے، مرد اور خواتین برف میں انجوائے کر رہے تھے۔ اقرا اور حمزہ دونوں نے شور مچایا کے کھیلنا ہے برف میں۔ حالانکہ دل میں یہی چاہتا  تھا کہ جلدی نکلیں ،مگر بچوں کے دمکتے چہرے دیکھ کر بیٹے کو کہا ،" بچوں کو کھیلنے دو" ۔

 بس اسی فیصلے نے زندگی کی بھیانک رات دکھائی۔

 بیٹا اور بہو بھی بچوں کے ساتھ انجوائے کرنے لگے۔ برف تیزی سے گرنا شروع ہو چکی تھی۔ مغرب ہونے لگی تو میں کہا ، "اب نکلو"۔ 

باڑیاں سے آگے کلڈنہ سے تھوڑا پہلے پہنچے  تو گاڑیاں سست ہو گئیں۔ اس وقت اندھیرا ہو چکا تھا اور برف تیز ہو چکی تھی۔ اب میں پریشان ہو رہا تھا۔ بیٹا کہہ رہا تھا ،"ابو پریشان نہ ہوں نکل جائیں گے"۔ 

اس وقت سوزوکیوں والے اور مزدا والے جاہلوں کی طرح لائینیں توڑ کے آگے رستہ بلاک کر رہے تھے۔ 

اچانک شدید قسم ک برف کا طوفان شروع ہو گیا اور گاڑیاں بالکل رک گئیں۔رات 12 بجے ہماری گاڑی پہ تقریبا 3 فٹ برف پڑچکی تھی۔ بچوں کو بھوک لگی تھی۔

 اچانک پیچھے سے کچھ آوازیں آئیں تو بیٹا اترا تو  پانچ یا چھ ، مری والے  لوکل پراڈو سے پٹرول کا کین اتارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ روکنے پہ بیٹے کو چھتری کی نوکیں ماریں اور زبردستی اتار کر لے گئے۔

 پوری رات ایک بھیانک قیامت کی طرح گذری۔ عورتوں بچوں کے چیخنے کی آوازیں اتنی خوفناک تھیں کی کلیجہ پھٹتا تھا۔

صبح سات بجے بچوں کو 800, 800 روپے کی دو روٹیاں اور ہم سب نے 1200 فی کپ چائے کے حساب سے ناشتہ کیا۔ ابھی بھی طوفان جاری تھا اور اندھیرا تھا۔ تقریبا 9 بجے پٹرول ختم ہو گیا۔ بچے ٹھٹھرنے لگے۔ انہی لوکل سے 3000 ہزار روپے لٹر پہ پٹرول لیا۔

 اب لوگوں کے مرنے سے ایک خوف کی فضا بن چکی تھی۔  مری کے لوکل لوگ ،  اب بھی اسی طرح ہزار   روپے کا  ایک    ابلا  انڈہ دے رہے تھے۔  

اچانک سامنے سے کچھ فوجی جوان آتے دکھائی دئیے۔

اُنہیں  دیکھتے ہی 2018 کا الیکشن ذہن میں آ گیا جب میں نے ایک فوجی جوان کو تھپڑ مارا تھا تو مجھے گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے اور ایم۔پی۔او کے تحت 2 ہفتے حوالات میں گذارےپڑے تھے۔ 

 آتے ہی انہوں نے بسکٹ اور پانی دیا۔ تھوڑی دیر بعد پراٹھا اور چائے دی۔ مگر اس وقت وہ فرشتے لگ رہے تھے۔

  ایک جوان جس کی عمر بمشکل 20 سال ہو گی بھاگ بھاگ کر ہر گاڑی کے پاس جا رہا تھا۔اس پر مجھے بہت پیار آ رہا تھا۔

 انہوں نے قریب ایک مسجد۔ایک سکول۔ ایک مدرسہ اور ایک خالی پولٹری شیڈ میں سینکڑوں لوگوں کو شفٹ کیا۔ مٹی تیل کے چولہے، لکڑیاں، کریٹوں کی پھٹیاں جلا کر ماحول گرم کیا اور کھانے کی چیزیں دینے لگے۔

 میجر ایک کرنل، خود اپنے ہاتھوں میں بوڑھوں کو اٹھا کر اندر لا رہے تھے۔

 بوڑھے مرد اور عورتیں بلا بلا کر ان کے ماتھے چوم رہے تھے اور۔ ۔ ۔ 

 میں، میرا بیٹا اور بہو ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے کہ ان کو پچھلے 5 سال سے گالیاں دے رہے تھے اور ہر محفل میں ذلیل کر رہے تھے۔

 رات کو سینکڑوں کمبل اور رضائیں آ گئیں۔پتہ نہیں اس خلائی مخلوق کہ پاس ہر چیز کا حل کیسے موجود ہوتا ہے؟۔  

اور اگلے دن اتوار کو ہم نکلے اور رات تک اسلام آبادپہنچ گئے۔ 

ابھی ،  رات کے 2 بجے ہیں سب سے زندہ بچنے کی مبارکیں لے کر بہن کہ گھر بیٹھا یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ نیند کوسوں دور ہے۔ 

میں حلفاً  کہتا ہوں کی اگر فوجی نہ آتے تو اموات تقریبا" 1000 سے ہوتیں۔

 میری جان اور میرا ووٹ آج بھی میاں صاحب کی امانت ہے۔ 

مگر میں خدا کو گواہ بنا کہ کہتا ہوں کہ آج کہ بعد فوج کے خلاف میرے دل میں رتی برابر بھی گلہ نہیں اور میں، میری فیملی فوج کہ شکر گذار ہیں جنہوں نے انسانیت کو ایک بڑی سانحے سے بچایا۔

 میری تمام لیگیوں سے اور پورے پاکستان سے گذارش ہے کہ پاک فوج کی عزت اور قدر کریں۔
 پاک فوج زندہ باد

🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰٭٭٭٭٭

2 تبصرے:

  1. پاک فوج ہماری ہے کوٸ غیر نہیں۔ یہ قوم کے بیٹے ہیں۔ جو انکو گالی دے یا برا کہے ٹھیک نہی کرتا۔۔ہر مصیبت آفت مپں یہ اپنی جانوں پر کھیل جاتے ہیں۔۔شکریہ قوم کے بیٹو۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. پاک فوج کے جوان ہمارے لیے باعث فخر ہیں , اللہ ﷻ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے۔آمین۔

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔