Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 10 مئی، 2015

ملاؤں کی شریعت میں تصویریں حرام ہیں

ملاؤں کی شریعت میں تصویریں حرام ہیں ۔
لیکن یہ تصویر مجھے میری نوجوانی کی یاد دلاتی ہے جو اِن دونوں کی محبت اور پیار بھرے غصے سے لبریز تھا ۔
غصہ ہم بہن بھائیوں کی شرارت پر آتا تھا ۔ ابا مجھ سے 28 سال (پیدائش 2 جون 1925 وفات 2006) بڑے تھے اور امی 24 سال
(پیدائش  یکم فروری 1930 وفات 1988) ، اس تصویر میں دونوں کی عمریں بالترتیب 54 اور 49 سال ہیں -
میری شادی کا دوسرا دن تھا یعنی ولیمہ ، بڑی مشکل سے امّی کو منا کر اوپر کی منزل پر لایا ، ابّا بھی تذبذب میں تھے - کیوں کہ دونوں جماعت اسلامی کے سرگرم رُکن تھے ۔ لیکن بچّوں کی خاطر مان جاتے ۔

ہمارے بچپن کی تمام تصویریں میری سب سے چھوٹی بہن (حمیدہ) کی طرح امّی نے پھاڑ کر ضائع تو نہیں کیں ۔ البتہ کہیں کسی بکس میں چھپا کر سٹور کر دیں ۔ میر پور خاص میں بارشوں میں علاقہ پانی سے بھر گیا اور وہ سب آپس میں بری طرح چپک کر ضائع ہو گئیں ۔ جو کم از کم تین کلو کے وزن کی تھیں ، دادا ، دادی اور چچا کی تصویریں،  امی ابا کی شادی کی تصویریں ، میری اور تمام بہن بھائیوں کی بچپن کی تصویریں ، ابا کی تمام پوسٹ کارڈ سائز میں لاہور ، ایبٹ آباد ، نوشہرہ ، راولپنڈی اور کوئٹہ کی فوجی تصویریں ، یوں سمجھیں کہ ہمارے بچپن کا ایک خزانہ تھا - جن کو دیکھ کر ہمارے بچپن کی یادیں تازہ ہو جاتیں ۔
میں جب بھی تصویریں کھیچنے کا کہتا تو یک دم پھٹ پڑتیں ،
" اللہ کو کیا جواب دوگے ؟ قیامت کے دن جان ڈالنا پڑے گی اِن میں " ۔
" امی ڈال دوں گا ۔ فکر نہ کریں، مودوی صاحب ڈالیں گے تو میں بھی ڈال دوں گا " میں ایک ہی جواب دیتا ۔
" کمبخت ، وہ تو لوگ زبردستی کھینچتے ہیں،  اُن کی تصویریں ، اللہ کے نیک بندے اور بڑے آدمی جو ہوئے " وہ جواب دیتیں ۔
" ارے امّی آپ کسی سے کم ہیں ، آپ بھی اللہ کی نیک بندی ہیں اور بڑی بھی ، اور اتنی عورتوں کو آپ درس دیتی ہیں اور کونسلر بھی ہیں ، ہم کسی اور بڑے آدمی کی طرف کیوں دیکھیں " میں اُنہیں قائل کرتا -

اور منا کر تصویر کھینچ لیتا ، امی کو منانے کا بہترین طریقہ میرے پاس یہ تھا کہ انہیں گود میں اٹھا لیتے اور ڈولنے کی اداکاری کرتے ، 
"امی جلدی ھاں کہیں ورنہ میں گرنے لگا ہوں" میں خوفزدہ ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے کہتا ۔  
اور امّی اپنے گرنے کے خوف سے فوراً ھاں کہہ دیتیں ۔ لیکن وہ آخری وقت میں کوئی ایسی ترکیب کرتیں کہ جب تصویریں دھل کر آتیں تو دل مسوس جاتے ۔ یہی حالت اب ہماری بڑھیا کی تصویروں میں ہوتی ہے ۔ لیکن ہماری ڈانٹ ڈپٹ اور دھمکی کام کر جاتی ۔ 
ولیمہ کے دن سارے رشتہ دار چھت پر جمع تھے اور بڑھ بڑھ کر تصویریں کھنچوا رہے تھے اِس تصویر کے لئے ، میں نے  امی اور ابّا کو سب سے الگ کھڑا کیا میرے پاس اُس وقت YASHIKA Mat کیمرہ تھا ، جو میں نے سٹینڈ پر کھڑا کیا ہوا تھا ۔ اور ہماری بیگم کے منجھلے بھائی کے پاس پولارائیڈ کیمرہ وہ بھی میرے پاس کھڑے تصویریں کھینچ کر فوراً تصویر بانٹ رہے تھے ۔ میرا پروگرام تھا کہ اپنے کیمرے سے گروپ فوٹو کھینچوں گا ۔
لیکن میں نے امی اور ابا کی توجہ اسحاق بھائی  طرف دیکھتے ہوئے اُن کی تین چار تصاویر کھنچ لیں انہیں معلوم ہی نہیں ہوا -

پھر جب گروپ فوٹو کی باری آئی تو ،کسی تصویرمیں امی کا منہ نیچے کی طرف تھا اور کسی میں انہوں نے چھوٹے بھائی کی ایک سالہ بیٹی ،فائزہ  کو سامنے کھڑا کیا ہوتا تھا ۔
لیکن جب کیمرہ تیار کر کے آواز دیتا ، "امی " اور جب وہ دیکھتیں تو فوراً بٹن دبا دیتا ،
" خبیث ، فوٹو میں جان تجھے ڈالنا پڑے گی ، میں بری الذمہ ہوں "
گو تصاویر یادوں کو جلا بخشتی ہیں لیکن جو تصاویر، امّی ابّا کی میرے ذہن پر نقش ہیں۔ وہ اَنمٹ ہیں ۔

1 تبصرہ:

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔