Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 20 مئی، 2015

20 مئی 2015 بوڑھے کی ڈائری - بوڑھے کا ریزرو کھانا !

ناظرین ! دال پرانی ہے ، روٹی اور اچار تازہ ، کیوں کہ
بُڑھیا بیمار ہے ! جو اُس کا اب عمومی مشغلہ ہے !

فیس بُک پر، بالا جملے لکھ کر ہم نے یہ تصویر موبائل سے لے کر پوسٹ کر دی، یہ بوڑھے کا عمومی شغل ہے کہ فیس بک کے دوستوں کی رال ٹپکائی جائے اور ٹپکتی ہوئی رال کے ساتھ دئیے جانے والا ، کمنٹس کا لطف اُٹھایا جائے ۔

لیکن دکھ کے ایک شدید ریلے نے بوڑھے کو مایوس کر دیا ، کیوں کہ دعائے صحت (عتیق عباسی) برائے بڑھیا کم ، جملہ ہائے شکّیہ اور زبید آپا موجود تھے اور وہ بھی پسندیدہ دوستوں کی طرف سے ، بس یہی دل سے نکلا
دیکھا جو دال کھا کے سکرین کی طرف 
اپنے ہی خیر خواہوں سے ملاقات ہو ئی ۔

پہلا سوال : بوڑھے کو تازہ روٹی کس نے بنا کر دی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
سوال یقیناً باعث غلط فہمی ہے ، کہیں دوست یہ نہ سمجھیں کہ بوڑھا بیوی کی عدم موجودگی میں کچن آباد کرتا ہے ، لہذا غلط فہمی دور کرنے کے لئے سادہ جواب دیا ۔
روٹی بنانے والے نے !
لیکن ہمارا شعار نہیں کہ لندن بہ لندن جواب دیں ، لہذا تُرکی بہ ترکی جواب دیا :
باسی دال کھانے پر بوڑھے سے کسی نے ہمدردی نہیں کی !
بس اُلٹے سیدھے سوال پوچے جا رہے ھیں ۔

یہ انیائے نہیں ، دختر نیک اختر !(مہر افشاں)

ایک  کمنٹ اپنے رانا اکمل کی طرف سے :
Sir g agar nal thora jay payaz v kat landay، tay Dal otay Garam Masala pesya hoya v paa laynday، tay Morag tu bota Maza na aanda،  tay Poray Paysay Wapas ho ja nay c
( سر جی ! اگر ساتھ پیاز بھی کاٹ لیتے ، اور دال پر پسا ہوا گرم مصالحہ بھی ڈالا ہوتا ۔ تو مُرغ سے زیادہ مزہ نہ آتا تو پورے پیسے واپس ہوجاتے )

اب رانا اکمل، کو کون سمجھائے کہ -
1- زبیدہ آپا کے چھابے میں ھاتھ نہ مارو ۔
2- یہ دال ہے اسے دال ہی رہنے دو ، مُرغ نہ بناؤ ۔
3- مزہ اِس سادہ دال کا راناجی آپ کیا جانیں ۔ ہائے ناداں آپ نے چمچے سے پی ہی نہیں ۔

 رانا جی ۔ ایک محبت کرنے والے فیس بک دوست ہیں ، اِن کی محبت کا اندازہ لگانے کے لئے میرے پاس ایک نہایت سادہ فوجی میعار پیمائش ہے۔ وہ یہ کہ 
جب کوئی دوست خط لکھتا ہوا دیکھو تو اپنا بھی سلام لکھوا دو ، اور محبت میں ہر کھڑی چیز کو سلیوٹ مارو اور پڑی چیز کو چونا کر دو ۔
اب آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہوا ہوگا ، کہ رانا جی فوجی نہیں تو اِن پر اِس فارمولے کا اطلاق کیسے ہوتا ہے ؟
ھا ھا ھا ۔ کوئی بتلاؤ اِن کو یا ہم بتلائیں کیا ؟
چلو بتلائے دیتے ہیں !فیس بک میں:-
سلام : آپ کی پوسٹ کے جواب میں کمنٹس لکھنے کو کہتے ہیں -
سلیوٹ : لائکس کو کہا جا سکتا ہے ۔
اور چُونا ! چُونا لگانا ، بتا دوں لیکن فیس بُک پر موجود خواتین سے ڈر لگتا ہے ۔ کہیں مجھے اُن فرینڈ نہ کر دیں - ویسے چونا اور گیری کا استعمال ، اُن کی پوسٹ پر آپ دیکھ سکتے ہیں 
تو اپنے رانا جی میری پوسٹ پر سلام اور سلیوٹ بہت کرتے ہیں ، جو ہمیں کیا سب کو پسند ہیں ، یہی وجہ ہے کہ پوسٹ پر لکھا جاتا ہے ۔ کہ لاکھ سلیوٹ (لائکس) تو بنتے ہیں !
رانا جی: یہ ایک سادہ دال ہے ۔ دو دالوں مونگ اور مسور کا اجتماع، جس کی تاریخ تیاری میں نہیں بتا سکتا ۔
یہ صرف میں ہی کھاتا ہوں ۔
جب یہ بنتی ہے ۔ تو میں سفید چاول پر ڈال کر دوپہر کو کھاتا ہوں ۔
پھر اُس کے بعد ، جب میری بیوی کے پیٹ میں ،کدّو ، فریش بین ، شلغم کی محبت جاگتی ہے تو مجھے یہ پیش کی جاتی ہے ۔ جو میں کھاتاہوں ۔
ھائے دال جتنی پتلی ہو بوڑھے کو مرغوب ہے، کیوں کہ دال کو چمچ سے پینے کا جو مزہ ہے وہ بھلا کسی چائینیز سوپ میں کہاں ۔
اور ھاں اِس میں کم سے کم مصالحہ جات ہوتے ہیں ، یوں سمجھو یہ طعام دعوتِ شیراز (طعامِ فقراء) ہے ۔
اب دیکھو بوڑھے کے ھاتھ ایک مضمون برائے بلاگ "یادش بخیر " افق کے پار، لگ گیا جس کا "پاپ اَپ " آپ نے کھولا ۔
باقی دال کی تفسیر " بلاگ پر رات 12 بجے کے بعد پڑھنا ۔
نوٹ: یہ وہ مضمون نہیں جو میں نے لکھنا تھا ۔ ابھی تو مضمون شروع ہوا ہے ۔ 

 باقی بریک کے بعد ۔
 

10 تبصرے:

  1. بہت اعلیٰ ۔۔۔ مزہ آیا پڑھ کر
    آپ نے ایک اسٹیٹس کو پورا مضمون بنا ڈالا اور وہ بھی مزے کا۔۔۔ بہت خوب

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ ، نجیب جی :
      دراصل میں نئے لکھنے والوں کو سمجھانا چاھتا تھا کہ ، اِنسان خود مقبولیت تک جانے کے لئے کیسے لکھنا شروع کرے ۔
      1- آپ بیتی اگر مزاحیہ انداز میں ہو تو بہت جلد پسندیدہ مصنفوں میں شامل کروا دیتی ہے ۔ کیوں کہ دکھوں کے اس دور میں انسان ہنسنا بھول گیا ہے ۔
      ہم سب کو نو اموز لکنے والوں کی تعریف کرنا چاھئے، خاص طور پر بلاگرز کی ۔
      ۔
      اسی لئے میں ے ریٹنگ بڑھانے کے گُر بتائے ہیں ، جو چھ بلاگرز سے سیکھے ہیں ۔ لیکن انہوں نے دوسروں کو یہ گُر بتانت پر توجہ نہیں دی کیوں ؟
      یہ وہی جانتے ہیں !

      حذف کریں
    2. معذرت : کچھ حروف مِسنگ ہیں وہ لیپ ٹاپ اور فاضل کی بورڈ کی شرارت ہے

      حذف کریں
  2. لوگ دال بھی کھائیں تو اتنی زبردست بلاگ پوسٹ بن جاتی ہے۔ ادھر ہم مخز کھپا کھپا کر کوئی ماٹھی سی پوسٹ بھی نہیں کر پاتے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. واہ کیا بات ہے پورا بلاگ لکھ مارا لیکن یہ پھر بھی نہ بتایا کہ بوڑھے کو روٹی کس نے بنا کر دی؟؟؟؟؟؟؟؟ :)

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

      حذف کریں
    2. اب تو اور دب کے رھنا پڑے گا دختر نیک اختر ۔

      سیدہ کا سابقہ جو لگ گیا ہے ۔ کمنٹس میں بھی احتیاط لازم ہو گئی ہے -

      ربّ کا شکر ادا کر بھائی !
      جِس نے گرم گرم روٹی کھلوائی !

      حذف کریں
  5. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. عمیر محمود جی :
    بات یہ ہے کہ اردو ہمارے گھر کی لونڈی تھی ۔
    مگر مختلف زبانوں کے امتزاج سے ناجائز کہلوانے لگی ہے ۔
    بس اِس کو لکھنے میں کیا شرمندگی ۔
    ہاں اب ہلکا سا دکھ ضرور ہوتا ہے ۔
    ویسا ہی جیسا عمران خان کو ہوتا ہوگا ۔ جائما کا نام سننے پر ،

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔