Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 28 مئی، 2015

توھینِ عدالت

ایک جج کا اور سبزی فروش کا مول تول پر جھگڑا ہوگیا ۔
اگلے دن سبزی فروش کو توہین عدالت کا نوٹس ہوا ۔
سبزی فروش ے چارہ بھاگا بھاگا عدالت پہنچا ۔ پیشی ہوئی ۔
جج ، " کل تم نے عدالت کی توہین کی تھی ۔
جس پر تمھیں کڑی سی کڑی سزا دی جاسکتی ہے ۔
تمھیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے " ؟
سبزی فروش ۔ " مائی باپ میں غریب سبزی فروش ، میری اتنی ہمت کہاں،
کہ میں عدالت کی توھین کروں:
جج غصے سے ،" تم عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے ہو؟ "
سبزی فروش ، " جناب حضورِ والا !
میرے دشمنوں نے غلط اور جھوٹی اطلاع دی ہے ،
میرا تو کل کسی سے جھگڑا نہیں ہوا"
جج غصے سے ،" حاموش تم جھوٹ بول رہے ہو !
کل عدالت خود وہاں موجود تھی اور ٹنڈے خرید رہی تھی ،
جب عدالت نے اپنی آنکھوں سے خود یہ سارا واقعہ دیکھا " 
سبزی فروش ، نے غور سے دیکھا ، تو اُسے بھیڑ کی کھال کے نیچے ، کل والا بدمزاج شخص نظر آیا ۔ جس کو سودا بیچتے وقت ، تھوڑی منہ ماری ہوئی تھی ۔

سبزی فروش ۔ " مائی باپ، اگر اِس احمق کو معلوم ہوتا ،
کہ عدالت ، آج ٹنڈے ، گوبھی پیاز اور لہسن لینے بذاتِ خود آئی ہے ۔
تو یہ ناچیز ، ہر گزتوھین عدالت نہیں کرتا "

جج نے توھین عدالت کا مقدمہ ، نپٹاتے ہوئے فیصلہ سنایا ،
"تم پر ایک آنہ جرمانہ کیا جاتا ہے ، تم ہر ماہ ایک پیسہ عدالت میں جمع کروایا کرو گے "
( نوٹ : 1947 سے پہلے کا یہ واقعہ ہمیں ایک بہت ہی بزرگ دوست جو بذاتِ خود وکیل ہیں انہوں نے سنایا )

4 تبصرے:

  1. بہت اعلیٰ ، سبق آموز اور مزے کی تحریر

    جواب دیںحذف کریں
  2. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. ایک دوست نے بتایا ، کہ یہ واقعہ ابنِ انشاء نے اپنے مضامین میں لکھا ہے ۔ مجھے اس کا علم نہیں ۔
    لیکن جس دوست سے سنا انہوں نے انشاء جی کا حوالہ نہیں دیا تھا ۔
    کیوں کہ ، یہ مذاق کی محفل کے دوران اُس وقت بتایا جب ۔ چند سال پہلے توہینِ عدالت زیادہ ہوگئی تھی اور غالبًا ، ڈاکٹر بابر اعوان کا کیس چل رہا تھا ۔

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔