Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 14 مئی، 2015

للی ، لِلّی ، لِلّی ، امّی بچاؤ ، مر گیا

لِلّی ، لِلّی ، لِلّی ، امّی بچاؤ  ! مر گیا  ، مر گیا  !"
" کیا ہوا ؟ کیا ہوا  ؟  " امّی گھبرا کر گھر کے دروازے سے باہر آئیں ۔ 
دیکھا تو چھوٹا بھائی ، اپنے سر کو ھاتھ مار مار  کر دوڑ  رھا ہے ۔ اور تتئیے ( دھموڑیاں)  جیٹ طیاروں کی طرح اُس پر حملے کر رہی ہیں ۔
" بیٹھ جاؤ ! بیٹھ  جاؤ " امّی چلائیں
اِس سے پہلے  چھوٹا بھائی بیٹھتا ،  دوڑتے  ہوئے  ٹھوکر لگنے سے وہ گرا ، تو دھموڑیوں نے واپسی  راہ   لی ۔ امیّ اُسے اُٹھا کر گھر لے آئیں ۔ میں اور آپا  گلزار  خالہ کے ہاں جا کر چھپ گئے !
 فیس بک پر آئی ہوئی اِس بچے کی تصویر  دیکھتے ہی میں ایک جھونکے سے ماضی میں پہنچ چکا تھا  اور اوپر لکھے ہوئے الفاظ میرے ذہن میں " پوپ آپ" ہوگئے ۔
غالباً 1959 کی بات ہے ، ابّا کی پوسٹنگ اے ایم سی سنٹر  ایبٹ آباد تھی ، ہم چار بہن بھائی ، آپا   (ساڑھے سات سال)، میں  (چھ سال)، مجھ سے چھوٹا بھائی(ساڑھے  چار سال )  اور بہن جو چھ ماہ  کی تھی ۔ اور ہم تینوں برکی پرائمری سکول میں پڑھتے تھے  ۔ غالباً مئی کا مہینہ تھا ، ہماری بیٹھک کے پاس شہتوت کے درخت پر شہد کی مکھیوں نے چھتہ بنایا ۔ ہم اُس درخت پر چڑھ کر کھیلتے تھے ۔ لیکن  جب مکھیوں کی بھنبھناہٹ بڑھ گئی تو ہم اُس سے دور رہنے لگے ۔ لیکن پھر ابّا نے ، بیٹ مین کو کہہ کر رات کو چھتہ اتروالیا ، دوسرے دن اتوار تھا ۔ ابا نے ہمیں سمجھایا کہ اِس سے شہد کیسےنکال کر کھانا ہے ۔ انہوں نے ، ماچس کی تیلی لی اُسے توڑا ، اور جس خانے میں شہد تھا اُس میں داخل کیا اور چھوٹے بھائی کو چھکایا اور بتایا کہ جو خانے بند ہیں اُنہیں نہیں کھولنا ۔ ہم تینوں بہن بھائیوں نے مزے لے لے کر شہد کھایا ۔
 کوئی تین چار دن کی بات ہے ، کہ آپا نے مجھے بتایا کہ دروازے کے سوراخ میں بھی ایک  شہد کا چھتہ ہے ۔ میں اور چھوٹا بھائی باہر  دوڑ ے ، آپا بھی ہمارے پیچھے پیچھے آئی ، ہمارا یہ دروازہ کم استعمال ہوتا تھا ، کیوں کہ مرغیوں کے باہر بھاگ جانے کا ڈر ہوتا ، لہذا امی نے تالا ڈال کر بند کر دیا تھا ، اور ہم بیٹھک کا دروازہ استعمال کرتے ۔ہم دوڑتے ہوئے باہر آئے ۔ آپا نے دور کھڑے ہوکر اشارہ کیا کہ وہاں ، میں اور چھوٹابھائی  ، خوف سے بے نیاز ہوکر بند دروازے کے گھر کے باہر والے حصے پر پہنچے ۔ دائیں طرف کی چوکھٹ  کے پاس سیمنٹ گرنے سے ایک لمبی سی دراڑ پڑی تھی ، اُس میں ایک شھد کاچھتہ نظر آیا  جو گول تھا -
"واپس آجاؤ،  واپس آجاؤ  " آپا چلائی ۔
ہم  شھد مکھیوں  کے نہیں بلکہ آپا کے خوف سے واپس آگئے ۔ لیکن دل میں خواہش تھی کہ ، چھتہ نکال کر میٹھا میٹھا شہد کھایا جائے ۔  اب پوری تیاریاں کیں ۔ آپا نے ایک لمبی لکڑی ے گرد کپڑا لگایا ، تاکہ آگ لگاکر ، موذی مکھیوں کو دور رکھا جائے ، میں سر پر ، بیٹ مین کی طرح آپا کا دوسرا دوپٹہ لپیٹ کے ، شہد کا چھتہ ، لکڑی سے مار کر باہر گراؤں گا ۔  خیر پورا پلان بننے کے بعد آپا نے لکڑی پر آگ لگائی ، میں بلا خوف ایک اور لکڑی لے کر آگے بڑھا ،اِس سے پہلے کہ کچھ کام ہوتا ، سوراخ سے ایک دھموڑی باہر نکلی اُسے دیکھتے ہی  ، میں خوف کے مارے لکڑی پھینک اور 50 فٹ دور گلزار خالہ کے دروازے پر پہنچ گیا ۔
آپا نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور زور سے کہا ، " بزدل "
اِس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ، چھوٹے نے لکڑی اُ ٹھائی  اور دوڑ کر ، چھتے کو باہر نکالنے کے لئے دراڑ میں ڈال دی ، کہ موذی دھموڑیوں  کا ایک لشکر نکلا اور چھوٹے پر حملہ آور ہوا ۔ اور اُس کے قیامت خیز شور نے  ہمارے دل دھلا دئے  ۔
" لِلی ،   لِلی ، لِلی ،   لِلی ، امّی بچاؤ  ! مر گیا  ، مر گیا  !"

5 تبصرے:

  1. ہاہاہاہاہاہا ۔۔سچی اور اچھی تحریر پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا
    میرے ایک دوست کے ساتھ بچپن میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا وہ سیانا دور بھاگنے کی بچائے مجھ سے چمٹنا چاہتا تھا وہ تو میں نے بھاگ کر جان بچائی نہیں تو اس کی جگہ میرا منہہ کُپا بن جانا تھا

    جواب دیںحذف کریں
  2. بڑی ظالم ہوتی ہیں یہ بھڑیں !

    جواب دیںحذف کریں
  3. ہم نومبر 1990 میں کنری (تھرپارکر) کے پاس ایکسر سائز کر ہے تھے وہاں ہزاروں کی تعداد میں اڑتی رہتیں اور ہمارے خیموں میں گھس جاتیں ، یہ اُن کی ھائیبرنیشن کا پیریڈ تھا لہذا ان کے ڈنک دو حصوں میں تقسیم ہوکر بے کار ہوجاتے تھے ۔ لیکن پھر بھی خوف آتا تھا۔ مچھر دانی میں سونا پڑتا تھا ۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. سر ، اس کی تو تصویر دیکھ کر ہی ڈر لگتا ہے مجھے کئی بار کاٹ چکی ہیں ۔ بلکہ یہ تو واٹر کولر میں گھس کر کمرے میں آجاتی ہیں ۔ میں نے بیڈ منٹن کا ریکٹ رکھا ہے اس سے مار دیتی ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. اوہ ! OSHA بھول گئی ہو ، یہ تو بڑی ہوتی ہیں ، مچھر اور وہ بھی ڈینگی تو کمرے میں دندناتے پھرتے ہوں گے ۔ ڈیزرٹ کولر کے سامنے ہمیشہ جالی لگائی جاتی ہے ۔ سیفٹی سٹینڈرڈ برائے پاکستان کے مطابق ۔

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔