دکھاؤ کچھ طبیعت کی روانی
جو دانا ہو سمجھو کیا ہے پانی
یہ مل کر دو ہواؤں سے بنا ہے
گرہ کھل جاۓ تو فورا ہوا ہے
نہیں کرتا کسی برتن سے کھٹ پٹ
ہر اک سانچے میں ڈھل جاتا ہے جھٹ پٹ
جو ہلکا ہو اسے سر پر اٹھاۓ
جو بھاری ہو اسے غوطہ دلاۓ
لگے گرمی تو اڑ جاۓ ہوا پر
پڑے سردی تو بن جاتا ہے پتھر
ہوا میں مل کے غائب ہو نظر سے
کبھی اوپر سے بادل بن کے برسے
اسی کے دم سے دنیا میں تری ہے
اسی کی چاہ سے کھیتی ہری ہے
اسی کو پی کے جیتے ہیں سب انساں
اسی سے تازہ دم ہوتے ہیں حیواں
تواضع سے سدا پستی میں بہنا
جفا سہنا مگر ہموار رہنا
اسماعیل میرٹھی
اسماعیل میرٹھی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں