1997 میں کوئٹہ سے اپنی پوسٹنگ کوئٹہ سے اٹک کروانے کا مقصد ، آفس زندگی
کے مزے لینا اور گالف کھیلنا تھا ۔
بچے بھی 1991 سے کوئٹہ رہ کر اور گھومنے کی
جگہ صرف ھنّہ لیک دیکھ دیکھ کر اُکتا گئے تھے وہ بھی پنجاب کے علاقے
دیکھنا چاھتے تھے ۔ یوں میں فروری 1997 میں
الیکشن کروا کر مارچ میں اٹک آگیا ، بچے مئی میں امتحان دے کر آئے ۔
صبح
آٹھ بجے آفس ، آفس میں ہی لنچ اور دو بجے گالف گراونڈ میں ، جہاں میجر
اسرار الھدیٰ ، میجر نجم اور چوتھا کوئی بھی گالفر شامل کر کے 18 ہول
کھیلتے گالف کھیلتے اور سورج غروب ہونے پر گھر پہنچتے ۔ او ر ویک اینڈ
بچوں کے ساتھ اٹک سے باہر نکل جاتا ، یہی روز کا معمول تھا ۔
وقت گذرتا گیا-
ائر
فورس کامرہ سے بھی اِکا دُکا آفیسر اپنی اپنی گاڑیوں میں آیا کرتے تھے ،
گو کہ پی اے ایف کامرہ میں بھی گالف کورس تھا- لیکن اُس کے دو ہولز کو
غازی بروتھا کینال کھا گئی ، گالفرز کو مزہ 9 ہول یا 18 ہول کھیل کر ہی آتا
ہے -
سکواڈرن
لیڈر بھٹی ، کرنل سعید خالد (میرا کورس میٹ، کمانڈر ایم ای ایس پی اے ایف
کامرہ ) ، میں اور چوتھا کوئی بھی شامل کر لیتے گالف کھیلا کرتے تھے
۔
گالف
کھیلنے کے بعد م گالگ کلب کے لان میں بیٹھ کر چائے پینے اور اپنی اپنی
شاٹوں کا ذکر کرنے اور لطف لینے کا جو مزہ گالف میں ہے وہ کسی اور کھیل
میں نہیں ۔ خصوصاً جب ہارنے والی ٹیم ، چائے ،کوک، بسکٹ ، پکوڑے اور نمکو
کھلا رہی ہو ، قہقہوں پر قہقہے بلند ہو رہے ہوں ۔
غالباً جنوری 1999 کی بات ہے ۔ سکواڈرن لیڈر بھٹی نے بتایا کہ اُن کے نئے ڈی جی آئے ہیں وہ گالف کھیلنا چاھتے ہیں ، لیکن مصروفیت کی بنا پر وہ اتوار کو کھیلیں گے ۔
اتوار
کو گو گالف کی چھٹی ہوتی تھی ،لیکن خاص ریکوئسٹ پر گالف کلب سیکریٹری
کرنل پرویز نے کمانڈنٹ سے اجازت لے کر دے دی - یوں ہم نے ائر مارشل
مصحف علی میر کے ساتھ گالف کھیلے اُس کے بعد تو وہ تقریباً ہفتے
میں دو یاتین دن آنے لگے ،یوں ائر فورس اور آرمی کی، ہم چاروں کی ٹیم بن گئی ۔
ائر
مارشل میر کے گالف کورس میں آنے کا یہ فائدہ ہوا کہ اُنہوں نے گالفرز کے
کامرہ سے اٹک آنے جانے کے لئے ، کوسٹر کی اجازت دے دی ، یوں انڈس گالف کلب اٹک میں
ائر فورس کے آفیسرز زیادہ ہوگئے -لہذا میچز بھی ہونے لگے ، ہم آرمی کے چند
گنے چُنے آفیسرز تھے ۔ بچوں نے بھی گالف کھیلنا شروع کردیا، جن میں میرے
بچے بھی شامل تھے ۔
ائر
مارشل میر اور سکواڈرن لیڈر کا ہینڈی کیپ بالترتیب 4 اور 6 تھا ،
جبکہ میرا اور کرنل سعید خالد کا 12 تھا ۔ جب وہ ہارتے ، تو
ائر مارشل میر ہنس کر کہتے ،
" فوجیو ! تمھارا ہینڈی کیپ کم کروانا پڑے گا ، بڑے موذی گالفر بن گئے ہو -"
ہمیشہ ٹی آف کرنے سے پہلے وہ کہتے ،
" فوجیو ، یہ بتاؤ چائے کون پلائے گا ؟؟"
" سر ، ہارنے والا لیکن ہمیں آپ کو پلانے میں فخر ہو گا " میں جواب دیتا ۔
وہ زور کا قہقہہ لگاتے اور کہتے ۔
" مجھے خوشی ہوگی ، تمھارے جیتنے پر " اور کھیل شروع ہو جاتا ۔
یوں دن گذرتے گئے ۔ سکواڈرن لیڈر اور سعید خالد کے ائر مارشل میر ، باس تھے لہذا میر ا اور ائر
مارشل میر کی گپ شپ گالفرزکے لطیفے اور خراب شاٹ پر چٹکلے اور اچھی
شاٹ پر نعرہ تحسین بلند کرتے ۔باتوں باتوں میں ائرفورس کے جہازوں کا
ایکسیڈنٹ کا ذکر ہوا ، تو اُنہوں نے بتایا کہ وہ اپنے کورس کے واحد زندہ
پائلٹ ہیں ۔ اُن کے کورس کے سارے پائلٹس ، کسی نہ کسی ائر ایکسیڈنٹ میں
فوت ہوچکے ہیں۔
وہ آج ہی کا دن تھا ۔ 12 اکتوبر 1999، جب ہم چاروں گالفرز نے ٹی 1 سے 3بج کر 30 منٹ کے بعد شاٹیں لگائیں ، جب ہم ٹی نمبر 2 پر پہنچے ، تو اچانک اطلاع ملی ۔
"
وزیر اعظم نواز شریف نے پرویز مشرف کو بطورچیف آف آرمی سٹاف کو ریٹائر
کردیا ہے، چئیرمین جائینٹ چیف آف سٹاف کا عہدہ اُن کے پاس رہے گا اور ڈی
جی آئی ایس آئی کو نیا چیف آف آرمی سٹاف اپائنٹ کر دیا ہے۔"
مجھے اچھی طرح یاد ہے ،
ائر مارشل میر نے بڑے سکون سے چہرے پر کوئی تاثرات پیدا کئے بہترین شاٹ
لگائی جو درختوں کے اوپر سے ہوتی ہوئی گرین سے 70 فٹ کے فاصلے پر گری ،
ہم تینوں نے بھی ایسی ہی شاٹ کھیلی ۔
دوسری
شاٹس ہم چاروں کی گرین پر تھیں ۔ ہم چاروں اپنے اپنے پٹّر لے کر گرین پر
پہنچے تو ساتھ والی بیرک سے نعرے بلند ہونے لگے ، پاک فوج زندہ باد ۔
معلوم ہوا کہ
" فوج نے وزیر اعظم ھاوس کا گھیراؤ کر لیا ہے -"
ائر مارشل میر نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا ،
" تم فوجی باز نہ آؤ گے "
پٹنگ ختم کی تو میں اور سعید خالد 4 پوائیٹ سے جیت رہے تھے ۔ جب ٹی 9 پر پہنچے تو وہاں ائرفورس کا ایک نوجوان کھڑا تھا ، اُس نے ایک چِٹ ائر مارشل میر کی طرف بڑھائی ، اُنہوں نے وہ چِٹ پڑھی اور بولے ۔
" سوری بوائز ، آئی ایم آف ، آپ کھیل جاری رکھیں ، بھٹی انہیں کو ک اور چائے بسکٹ کھلا دینا "
یہ کہہ کر وہ پارکنگ لاٹ کی طرف بڑھ گئے ۔
یکم دسمبر کو میں ریٹائر ہو کر اسلام آباد آگیا ،
ائر مارشل میر اسلام آباد آتے تو اُن کے ساتھ ائر ہیڈ کوارٹر گالف کلب
میں گالف کھیلتا ، اٹک جاتا تو وہاں بھٹی ،سعید خالد اور اُن کے ساتھ
کھیلتا ۔ اکثر ایسا ہوتا کہ وہ اپنی کار میں بٹھا کر کامرہ اپنے گھر لے
جاتے۔ میری کار اُن کا ڈرائیور چلا کر لاتا اور رات کو واپس اسلام
آباد آجاتا ۔
نومبر
2000 میں وہ ائر چیف مارشل بن کر اسلام آباد آگئے ، میں اُنہیں مبارکباد
دینے اُن کے آفس گیا، گرم جوشی سے ملے ، پھر وہ بہت مصروف ہوگئے ، لیکن
گالف کلب میں ہونے والے فنکشنز کے لئے مجھے دعوت نامہ پہنچ جاتا ۔
فروری
2003 کی بات ہے میں اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ حج پر گیا ہوا تھا ، طواف
کر کے آکر باپ عبدالعزیز کی طرف کعبہ کے سامنے بیٹھا تلاوت کر رہا تھا
کہ بڑی بیٹی تیز چلنے کی وجہ سے ہانپتی ہوئی آئی ،
" پپا ،پپا ۔آپ کے وہ دوست جو تھے ائر کریش میں شہید ہو گئے "
" کون؟؟" میں نے پوچھا
" انکل مصحف میر " وہ بولی ۔
" کیسے پتا چلا؟ "
" ماما نے فون کیا ہے "
میرے منہ سے نکلا :
"رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ"
مسجد الحرام میں ، ہم
نے اُن کے لئے دُعائے مغفرت پڑھی ۔ یو ں 1967 میں پاس آؤٹ ہونے والا جی ڈی پی کورس کا آخری آفیسر ، اپنے آخری عہدے ائر چیف مارشل مصحف علی میر (1947–2003) پر پہنچ کر ، یونیفارم میں اپنی بیوی اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ ، اللہ کی امان میں چلا گیا ۔
17 اگست 1987 کے بعد یہ دوسرا بڑا حادثہ تھا جس میں ، ائر وائس مارشل عبد الرزاق ،
ائر وائس مارشل سلیم نواز ، ائر کموڈور جاوید صابر، ائر کموڈور رضوان اللہ خان ، گروپ کیپٹن آفتاب چیمہ ، ونگ کمانڈ تبسّم عباس ، سکواڈرن لیڈر ممتاز کیانی ، سکواڈرن لیڈر احمد یوسف ، سکواڈرن لیڈر عبدالرّب ، سینیئر ٹیکنیشن خان محمد ، سینیئر ٹیکنیشن غضنفر علی ،
کارپورل ٹیکنیشن محمد اشرف ، کارپورل ٹیکنیشن فیاض ، کارپورل ٹیکنیشن خوش خادم شاہ ، کارپورل ٹیکنیشن امجد پرویز ۔ شامل تھے ۔.
٭٭٭٭٭٭٭