سیٹھ ''بھولا بھالا'' کی انکم ٹیکس ریٹرن پڑھتے ہوئے اچانک میں چونک گیا، جس پر لکھا تھا'
" کتوں کا کھانا 75000 روپے''۔
" کتوں کا کھانا 75000 روپے''۔
تین دن کی مغز ماری کے بعد یہ پہلا نکتہ تھا جس پر میں نے سیٹھ جی کی ٹیکس چوری پکڑ ہی لی، نہ جانے لوگ ٹیکس بچانے کے لیئے کیسے کیسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں؟
اللہ معاف فرمائے۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ یہ ٹیکس چور مجھ سے کیسے بچ پاتا ہے؟
چنانچہ اگلے ہی دن میں نے انہیں اپنے دفتر میں طلب کرلیا،
سیٹھ صاحب تشریف لائے تو میں نے انہیں ٹیکس کی اہمیت، ملک و قوم کے لیئے اسکی ضرورت اور ایمانداری کے موضوع پر ایک سیر حاصل لیکچر پلا دیا، وہ خاموشی سے سنتا رہا، نہ ہوں نہ ہاں، مجھے اسکا رویہ دیکھ کر مزید غصہ آگیا اور اسے کتوں کے کھانے کے بارے میں بتا کر مزید شرمندہ کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہا-
آخر کار میں خاموش ہوکر سیٹھ بھولا بھالا کی طرف دیکھنے لگا، وہ مسکرایا اور کہنے لگا،
" صاحب! آپ افسر ہو حکم کرو ہم کیا کر سکتے ہیں آپکے لئے؟"
میں زیر لب مسکرایا کہ اب اونٹ پہاڑ کے نیچے آگیا ہے، چنانچہ میں نے نہایت عیاری کے ساتھ مسکراتے ہوئے کہا،
" سیٹھ جی! کیا آپ ایک ''ذمہ دار'' انکم ٹیکس آفیسر کو رشوت کی پیش کش کررہے ہیں؟ "
" ارے نہیں صاحب میں نے کب کہا کہ میں رشوت دوں گا؟
میں نے زندگی میں آج تک رشوت نہیں دی بلکہ کارباری ڈیلیں کی ہیں، آپ بھی اسے ایک بزنس ڈیل سمجھ سکتے ہیں-" سیٹھ بولا
" وہ کیسے سیٹھ جی" ؟ میں نے پوچھا-
سیٹھ نے ہولے سے مسکراتے ہوئے کہا،
" اس مرتبہ گرمیوں کی چھٹیوں میں بھابی اور بچوں کے لیئے میری طرف سے بھوربن مری میں سیر اور شاپنگ کا پیکیج قبول فرمائیں تمام خرچ میرے ذمہ ہوگا اور اس عرصہ میں ایک گاڑی بھی انکے استعمال میں رہے گی جسکا انتظام بھی میں ہی کروں گا"
تھوڑی سی ردّ و قدح کے بعد میں نے اس پیکیج کی منظوری دے دی اور سیٹھ کے جاتے ہی بیگم کو فون کرکے اس ڈیل کے بارے میں بتایا،
" بیگم اور بچے ، مری گئے اور خوب شاپنگ و سیر کی "
ایک سال کا وقت گزر گیا اور میں بھی سیٹھ بھولا بھالا کو بھول گیا، آخر ایک دن سیٹھ کی انکم ٹیکس ریٹرن پھر میری میز پر تھی۔
میں نے غور سے اسے پڑھا تو ایک صفحے پر لکھا تھا،
''کتوں کو بھوربن کی سیر کروائی، خرچ ایک لاکھ "
مجھے یوں لگا کہ میرا سر گھوم رہا ہے اور ائیر کنڈیشنڈ فل اسپیڈ پر چلنے کے باوجود میرا جسم پسینے میں نہا گیا ہے، میں نے چپڑاسی کو بلا کر ایک گلاس ٹھنڈا پانی منگوایا اور ایک ہی سانس میں اسے خالی کردیا-
تحریر: محسن رفیق مرحوم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں