جب سے فیس بُک وجود میں آئی ہے اور اِس کا پاکستان میں استعمال بڑھا ہے ، دوستی کے دائرے کی وسعت کو آپ کے لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر نے اپنی سکرین تک محدود کر دیا ، جہاں نہ صرف آپ کے پرانے دوستوں سے رابطے بحال ہوئے ہیں
بلکہ نئی دوستوں کا بھی اضافہ ہوا ہے ، جن میں ہم خیال ، ہم مسلک ، ہم پیشہ ، ہم کھیل اور دیگر ہمہ جہت انسانوں سے رابطے بڑھے ہیں ،
آپ کو ہر طرح کے مضامین اور تصاویر دیکھنے کا موقع ملتا ہے ۔ یہاں تک کہ انسانی حجلہءِ خلوت بھی آپ کی سکرین پر اپنی پوری شیطانیت کے ساتھ موجود ہے ۔ انسانی جبلّت ہے کہ اُس میں بُرائی کی راہ پر چلنے نہ سہی بلکہ نظر مارنے کی پوری علّت موجود ہے ، ہر وہ انسان جو انٹرنیٹ سے منسلک ہے، وہ اِس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ کہ وہ ایسی قباحتوں سے مبرّا ہے ۔
یہاں تک کہ موبائل پر بھی یہ انسانی جبلّت و علّت اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ فگن ہے ۔
یورپی معاشرہ جہاں یہ جبلّت و علّت صدیوں پہلے تخلیق ہوئی آج بھی اُسی شدّت سے موجود ہے ، وہاں سامانِ جنسِ حقیقی کی فراوانی کے باوجود سامانِ جنسِ مصنوعی بھی وافر مقدار میں دستیاب ہیں ۔
ایسا کیوں ہے ؟
سائیکالوجسٹ اِس کی کئی وجوھات بتاتے ہیں ۔ لیکن سب سے بڑی وجہ خود انسانی ذات اور اُس کے ارد گرد کا ماحول ہے ۔
ایک بچہ جس طرح کے ماحول میں پروان چڑھتا ہے وہی اُس کے ذہن کے گوشوں میں ثبت ہوتا جاتا ہے ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ،کہ میرے بچپن میں بلکہ آٹھویں کلاس تک مائیں بچّے ہسپتالوں میں نام لکھوا کر لاتی تھیں، مرد اورعورت کا واحد تعلّق تھا کہ وہ یا تو ماں باپ ہیں ، یا ماموں ممانی ، چچا چاچی ، خالہ خالو اور یا بہن بھائی ۔ باقی گالیوں کے رشتے ہوتے تھے، جو گلیوں اور محلوں میں بڑی فصاحت و بلاغت سے جوڑے جاتے تھے، وہ جنسی کرداروں کے گرد ہی گھومتے تھے۔ جس میں مردانہ کردار " گانڈو" کا زیادہ استعمال ہوتا تھا۔
لیکن جہاں کہیں ، کسی کی بہن کو "یہی گالی" دی تو وہاں کمزور سے کمزور بچہ ، گالی دینے والے پر حملہ کرتا اور دوسرے بچے اُس کا ساتھ دیتے ۔ کیوں کہ بہن کا تقدّس سب کے لئے محترم تھا بلکہ دیہاتوں میں اب بھی ہے ۔
آٹھویں کلاس کا واقع ہے ، اردو کا پیریڈ تھا ، آغاجان خان غلام سرور افغان ، کاپیاں چیک کر رہے تھے، کلاس میں سوئی گرنے کی آواز سُنی جا سکتی تھی ، ایک لڑکا " نجیب الحسن " کھڑا ہو کر اُونچی آواز کتاب پڑھ رھا تھا ۔ کیوں کہ وہ آغاجان کے عین سامنے کھڑا تھا لہذا میں اور انور لطیف ، آغاجان کی نظروں سے اُوجھل تھے ۔
انور نے مجھے کُہنی ماری ، اور کتاب کی طرف اشارہ کیا، ترچھی نظروں سے دیکھا ، کیوں کہ چھ فٹ لمبے اور 100 کلو سے زیادہ وزنی، ہمارے چار ہاتھوں کو ملا کرآغاجان کا ایک ہاتھ، جب پڑتا تو بلا شبہ چودہ طبق روشن ہوجاتے اور کافی دیر تک روشن رہتے، مجھے یہ سعادت کبھی حاصل نہیں ہوئی ، کہ اردو میرے گھر کی لونڈی تھی۔
بہرحال صفحہ پر نظر پڑی چند لائینیں پڑھیں ۔ دماغ بھن بھن کرنے لگا ،کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اردو کی کتاب میں یہ کیا لکھا ہے۔ پھر دیکھا تو وہ ایک صفحہ تھا جسے انور نے چھپایا ہوا تھا اُس نے کتاب بند کی اور وہی صفحہ نکال لیا جو نجیب پڑھ رہا تھا ۔
" تمھیں شرم نہیں آتی ، ایسی چیزیں پڑھتے ہو؟" میں نیچی آواز میں بولا ۔
" کس بات کی شرم، ہمارے ماں باپ بھی یہی کام کرتے ہیں " انور بولا ۔
" چٹاخ " کمرے میں آواز گونجی، میرا بائیں ہاتھ کا تھپڑ انور کے منہ پر پڑا ، کلاس میں بھونچال آگیا ۔
" کون ہے یہ ؟ " آغاجان کی آواز گونجی
میں آہستہ آہستہ کھڑا ہوا ۔
" تم آغا جان " حیرانگی سے بولے ۔
اُس کے بعد کیا ہوا ، بتانے کی ضرورت نہیں ، لیکن یہ نغمہ بعد میں لکھا گیا ، مگر اِس کی بازگشت اُس وقت بھی سنائی دیتی تھی ۔
ہم تم ہوں گے تھپڑا ہوگا
رقص میں سارا کمرہ ہوگا
ایسا کیوں ہے ؟
سائیکالوجسٹ اِس کی کئی وجوھات بتاتے ہیں ۔ لیکن سب سے بڑی وجہ خود انسانی ذات اور اُس کے ارد گرد کا ماحول ہے ۔
ایک بچہ جس طرح کے ماحول میں پروان چڑھتا ہے وہی اُس کے ذہن کے گوشوں میں ثبت ہوتا جاتا ہے ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ،کہ میرے بچپن میں بلکہ آٹھویں کلاس تک مائیں بچّے ہسپتالوں میں نام لکھوا کر لاتی تھیں، مرد اورعورت کا واحد تعلّق تھا کہ وہ یا تو ماں باپ ہیں ، یا ماموں ممانی ، چچا چاچی ، خالہ خالو اور یا بہن بھائی ۔ باقی گالیوں کے رشتے ہوتے تھے، جو گلیوں اور محلوں میں بڑی فصاحت و بلاغت سے جوڑے جاتے تھے، وہ جنسی کرداروں کے گرد ہی گھومتے تھے۔ جس میں مردانہ کردار " گانڈو" کا زیادہ استعمال ہوتا تھا۔
لیکن جہاں کہیں ، کسی کی بہن کو "یہی گالی" دی تو وہاں کمزور سے کمزور بچہ ، گالی دینے والے پر حملہ کرتا اور دوسرے بچے اُس کا ساتھ دیتے ۔ کیوں کہ بہن کا تقدّس سب کے لئے محترم تھا بلکہ دیہاتوں میں اب بھی ہے ۔
آٹھویں کلاس کا واقع ہے ، اردو کا پیریڈ تھا ، آغاجان خان غلام سرور افغان ، کاپیاں چیک کر رہے تھے، کلاس میں سوئی گرنے کی آواز سُنی جا سکتی تھی ، ایک لڑکا " نجیب الحسن " کھڑا ہو کر اُونچی آواز کتاب پڑھ رھا تھا ۔ کیوں کہ وہ آغاجان کے عین سامنے کھڑا تھا لہذا میں اور انور لطیف ، آغاجان کی نظروں سے اُوجھل تھے ۔
انور نے مجھے کُہنی ماری ، اور کتاب کی طرف اشارہ کیا، ترچھی نظروں سے دیکھا ، کیوں کہ چھ فٹ لمبے اور 100 کلو سے زیادہ وزنی، ہمارے چار ہاتھوں کو ملا کرآغاجان کا ایک ہاتھ، جب پڑتا تو بلا شبہ چودہ طبق روشن ہوجاتے اور کافی دیر تک روشن رہتے، مجھے یہ سعادت کبھی حاصل نہیں ہوئی ، کہ اردو میرے گھر کی لونڈی تھی۔
بہرحال صفحہ پر نظر پڑی چند لائینیں پڑھیں ۔ دماغ بھن بھن کرنے لگا ،کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اردو کی کتاب میں یہ کیا لکھا ہے۔ پھر دیکھا تو وہ ایک صفحہ تھا جسے انور نے چھپایا ہوا تھا اُس نے کتاب بند کی اور وہی صفحہ نکال لیا جو نجیب پڑھ رہا تھا ۔
" تمھیں شرم نہیں آتی ، ایسی چیزیں پڑھتے ہو؟" میں نیچی آواز میں بولا ۔
" کس بات کی شرم، ہمارے ماں باپ بھی یہی کام کرتے ہیں " انور بولا ۔
" چٹاخ " کمرے میں آواز گونجی، میرا بائیں ہاتھ کا تھپڑ انور کے منہ پر پڑا ، کلاس میں بھونچال آگیا ۔
" کون ہے یہ ؟ " آغاجان کی آواز گونجی
میں آہستہ آہستہ کھڑا ہوا ۔
" تم آغا جان " حیرانگی سے بولے ۔
اُس کے بعد کیا ہوا ، بتانے کی ضرورت نہیں ، لیکن یہ نغمہ بعد میں لکھا گیا ، مگر اِس کی بازگشت اُس وقت بھی سنائی دیتی تھی ۔
ہم تم ہوں گے تھپڑا ہوگا
رقص میں سارا کمرہ ہوگا
سر جی بہت عمدہ
جواب دیںحذف کریں