مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ''قربت مرگ میں محبت '' تو پڑھی نہیں لیکن اس
کا تعارف ہی زندگی کی تنہائیوں اور مرگ کی قربت کے سکون کا احساس دلانے کے
لیے کافی ہے.
ایک " مڈیاکر انسان " کی زندگی کولہو کے بیل کے جیسی ہے جس میں اگر کامیابی ہے تو وہ بھی محض پرانے سے نئے کولہو تک کا سفر ہی ہے.
انجام کار یہی ہے کہ کولہو کی چوں چرخ میں لپٹے بے مقصد گول دائروں میں کبھی مکمل نہ ہونے والا سفر کتنا بے معنی تھا . آنکھوں پر چڑھے کھوپے درحقیقت اس میڈیوکر بیل کی عقل پر چڑھے ہوتے ہیں . وہ اپنا اسٹیٹس بدلنے کی تگ و دو میں جینا بھول جاتا ہے .
محبت نام کا پنچھی گھر کی دیوار پر چہچہا کر رزق کی تلاش میں کسی اور سمت اڑان بھر لیتا ہے ..بالوں کا کالا کلف دھوپ کی عطا کردہ برف میں بدل جاتا ہے. چیتے جیسے چست کمر خمیدہ سے خمیدہ تر ہو جاتی ہے . دنیا کے جو کام ایک مڈیاکر کے بغیر ہو نہیں سکتے تھے وہ بنا کسی تعطل کے جاری رہتے ہیں.
وقت کے گدلے دریا میں کسی کسی لمحے کوئی تازہ چشمہ اپنا سفید یخ بستہ پانی شامل کرتا ہے تو کچھ دیر کے لیے سکون آور کامیابی کا احساس ہوتا ہے لیکن کیا کہیے کہ ایک مڈیاکر کی زندگی میں کامیابی عارضی اور جدوجہد مسلسل کیفیت کا نام ہے .
زندگی کی ریس میں ایک خیال اسے دوڑائے رکھتا ہے کہ بس ان ذمہ داریوں سے فارغ ہو لوں پھر اپنی زندگی جینا ہے.
اس دوڑ بھاگ میں وہ اپنے اور اپنے ہمسفر کی زندگی کو اولاد کے مستقبل کی نظر کر دیتا ہے . ضروریات خواہشات کو نگل جاتی ہیں دن رات تھکن آلود اور جذبات منجمد، بچوں کا مستقبل، مستقل رہائش کا ٹھکانہ بناتے بناتے جسم جواب دیتا چلا جاتا ہے، جوڑ کراہنے اور قوی چٹخنے لگتے ہیں. جسم کا سونا ، وقت کی ریت میں جذب ہو جاتا ہے .
ہمسفر کی آنکھوں میں چمکتے ستارے کی جگہ نظر کی عینک لے لیتی ہے . اس کی آواز کی نغمگی حالات کی بھٹی میں پک کر پختہ اور کھرکھری ٹھیکری بن جاتی ہے.
گھونسلے سے چوزے پر سنبھالتے ہی آزاد فضاؤں میں اپنا رزق تلاش کرنے جا نکلتے ہیں اور گھر کی تنہائی مڈیاکر کی زندگی کا استعارہ بن جاتی ہے
زندگی میں اگر کوئی آب جو کھلے تو اس سے گھونٹ دو گھونٹ چوری چھپے بھر لو جس سے سیرابی تو کیا ہو تشنگی سوا ہو جائے . گھر کی نیم پلیٹ بنواتے بنواتے قبر کا کتبہ مل جاتا ہے. اور ایک غیریقینی طویل سفر کا آغاز پھر سے ہو جاتا ہے
رابعہ خرم درانی
ایک " مڈیاکر انسان " کی زندگی کولہو کے بیل کے جیسی ہے جس میں اگر کامیابی ہے تو وہ بھی محض پرانے سے نئے کولہو تک کا سفر ہی ہے.
انجام کار یہی ہے کہ کولہو کی چوں چرخ میں لپٹے بے مقصد گول دائروں میں کبھی مکمل نہ ہونے والا سفر کتنا بے معنی تھا . آنکھوں پر چڑھے کھوپے درحقیقت اس میڈیوکر بیل کی عقل پر چڑھے ہوتے ہیں . وہ اپنا اسٹیٹس بدلنے کی تگ و دو میں جینا بھول جاتا ہے .
محبت نام کا پنچھی گھر کی دیوار پر چہچہا کر رزق کی تلاش میں کسی اور سمت اڑان بھر لیتا ہے ..بالوں کا کالا کلف دھوپ کی عطا کردہ برف میں بدل جاتا ہے. چیتے جیسے چست کمر خمیدہ سے خمیدہ تر ہو جاتی ہے . دنیا کے جو کام ایک مڈیاکر کے بغیر ہو نہیں سکتے تھے وہ بنا کسی تعطل کے جاری رہتے ہیں.
وقت کے گدلے دریا میں کسی کسی لمحے کوئی تازہ چشمہ اپنا سفید یخ بستہ پانی شامل کرتا ہے تو کچھ دیر کے لیے سکون آور کامیابی کا احساس ہوتا ہے لیکن کیا کہیے کہ ایک مڈیاکر کی زندگی میں کامیابی عارضی اور جدوجہد مسلسل کیفیت کا نام ہے .
زندگی کی ریس میں ایک خیال اسے دوڑائے رکھتا ہے کہ بس ان ذمہ داریوں سے فارغ ہو لوں پھر اپنی زندگی جینا ہے.
اس دوڑ بھاگ میں وہ اپنے اور اپنے ہمسفر کی زندگی کو اولاد کے مستقبل کی نظر کر دیتا ہے . ضروریات خواہشات کو نگل جاتی ہیں دن رات تھکن آلود اور جذبات منجمد، بچوں کا مستقبل، مستقل رہائش کا ٹھکانہ بناتے بناتے جسم جواب دیتا چلا جاتا ہے، جوڑ کراہنے اور قوی چٹخنے لگتے ہیں. جسم کا سونا ، وقت کی ریت میں جذب ہو جاتا ہے .
ہمسفر کی آنکھوں میں چمکتے ستارے کی جگہ نظر کی عینک لے لیتی ہے . اس کی آواز کی نغمگی حالات کی بھٹی میں پک کر پختہ اور کھرکھری ٹھیکری بن جاتی ہے.
گھونسلے سے چوزے پر سنبھالتے ہی آزاد فضاؤں میں اپنا رزق تلاش کرنے جا نکلتے ہیں اور گھر کی تنہائی مڈیاکر کی زندگی کا استعارہ بن جاتی ہے
زندگی میں اگر کوئی آب جو کھلے تو اس سے گھونٹ دو گھونٹ چوری چھپے بھر لو جس سے سیرابی تو کیا ہو تشنگی سوا ہو جائے . گھر کی نیم پلیٹ بنواتے بنواتے قبر کا کتبہ مل جاتا ہے. اور ایک غیریقینی طویل سفر کا آغاز پھر سے ہو جاتا ہے
رابعہ خرم درانی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں