مظہر حسین کا تعلق اسلام آباد کے نواہی علاقے سہالہ سے تھا۔
1997 میں ہونے والے ایک قتل کا الزام مظہر حسین پر لگا۔ پولیس نے اپنی خانہ پُری کی اور مظہر حسین کو علاقہ مجسٹریٹ کے روبرو پیش کردیا۔ بچارے مظہر حسین کے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ کوئی اعلیٰ پائے کے وکیل کی فیس ادا کرکے انصاف خرید لیتا۔ اور مجسٹریٹ صاحب کے پاس کہاں اتنا وقت تھا کہ وہ کیس کی طے تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔ اُس نے ایف آئی آر کے مدرجات اور تفتیشی کی لکھی ضمنیوں کو حرف آخر قرار دیا۔ یوں مظہر حسین کو سزائے موت سُنا دی گئی۔ علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت سے جاری ہونے والا حکم سیشن جج اور ہائیکورٹ میں بھی تبدیل نہ ہو سکا۔ کئی سال سے سپریم کورٹ میں بھی چلتا رہا۔ لیکن اس دوران کیس کی پیروی کرنے والا مظہر حسین کا والد دار فانی سے کوچ کر گیا۔ صعیف ماں آنسو بہا بہا کر آنکھوں سے محروم ہو گئی۔ چھوٹے بہن بھائی جنہیں نوجوانی میں چھوڑ کر جیل میں جا بسا تھا، اُن کے بچے جوان ہو چکے تھے، اس کے اپنے ننھے منے بچوں کی شادیاں ہو چکی تھیں۔
خیر معلوم نہیں کہ سپریم کورٹ کے کسی جج نے دلچسبی لی، یا مظہر حسین کے وکیل نے ایمانداری دیکھائی۔ لیکن بلآخر کل 20 سال بعد پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے اُسے بے گناہ قرار دے کر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ عدالت عظمیٰ یہ حکم ملنے پر مظہر حسین کے گھر خوشیوں کے شادیانے بجنے کے جگہ آہ و بقا مچ گئی۔
وجہ یہ تھی کہ عدالت کا فیصلہ آنے سے دو سال پہلے مظہر حسین انصاف کی امید سے مایوس ہو کر دنیا چھوڑ چکا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں