کل بوڑھے نے " کس نے کھا نا ۔ ساڈہ کھانا " کے شعری کیپشن سے ، فقیری بیگن کی تصویر فیس بُک کی جو اُس نے عین دوپہر تناول کئے ، بطور ثبوت تصویر ساتھ لَف ہے ۔
محبت کرنے والے دوستوں نے کمنٹس دئے ، بوڑھا محظوظ ہوا ۔
اچھی بھتیجی ڈاکٹر رابعہ خرم درانی نے سوال پوچھ ڈالا :
سر آنٹی سے بینگن کے دہی رائتہ کی ریسپی پوچھ کر پوسٹ کر دیں۔
آنٹی کیا بتاتیں ؟
38 سال ، اُس کے ساتھ رہتے رہتے ، آدھا شیف تو بوڑھا بھی ہوگیا ،
اور کھانا پکانے کے بنیادی اصولوں سے واقف ہے ، کنسلٹنٹ تو پہلے ہی تھا ،
لہذا انڈے کو پانی میں تَلا جائے یا تیل میں , کھا نا تو بوڑھے نے ہے نا !
اب رہی بیگن کو پکانے کا طریقہ ہائے جات :
بیٹی
، بینگن کی وسعت، فقیری بینگن سے راجہ ومہاراجہ سے شاہی بینگن تک ہے،
تصویر میں فقیری بینگن ہیں ، جنہیں جلدبازی میں بنایا جاتا ہے ، جب کے خاتون خانہ کے
پاس کھانا بنانے کا وقت نہ ہو !
بینگن کے قتلے باریک قتلے کاٹیں ، اُنہیں توے پر دھیمی آنچ میں تلیں ۔
پلیٹ میں ڈالیں اوپر حسب ذائقہ ، نمک اور مرچ چھڑک دیں (شوہر پر نہیں بیگن پر ) -
دہی الگ
پیالے میں ساتھ رکھیں روٹی کے ساتھ،
شوہر کودیں ، چادر پہنیں اور یہ کہتے
ہوئے ، اپنے کام پر نکل جائیں ،
"کھا کر برتن سنک میں رکھ دیں ،اور بچی ہوئی
روٹی ہاٹ پاٹ میں رھنا "
شوہرفوٹو کھینچ کر فیس بک پر ڈال دے ، کہ چلو کچھ کا تودل للچائے اور
مشہوری بھی ہو،
اب شوہر کی مرضی کہ نوالے سے بینگن توڑ کر کھائے یا ، ساتوں قتلے دہی میں ڈبو دے خوب مکس کرے اور کھائے ،
تڑکا لگانے کی ضرورت ہے مگر تڑکا تو شوہر کو لگا ہے !
تو بیٹی ، یہ بینگن اور دہی کہلائے گا !
اگر ان قتلوں کو کاٹ کر دہی میں ملائے ، تو بینگن کا فقیری دہی رائتہ کہلایا جائے گا ۔
پہلی صورت میں چاہے ،
بینگن کو دہی میں ملا کر کھائیں
اور
یا دہی کو بینگن میں ملا کر کھائیں !
رال ٹپکانے والوں کے لئے ، مزہ
دونوں میں ہے !
٭۔ مہاراجوں کے چھپرکٹ پر لے جانے کے لئے ، اِس میں تمام مصالحے ملا دیئے
جائیں۔
٭ ۔ حیدر آبادی نوابوں کے دسترخوان پر رکھنے کے لئے املی کا اضافہ کیا جاتا ہے ۔
اور
٭- شاہی دسترخوان کی زینت بنانے کے لئے ، خُشک میوہ جات ملا دیں ۔
مگر رہیں گے ،
بینگن کے قتلے ،
بیگن کاسالن
اور
بگھارے بیگن۔
لیکن اگر وقت ہو تو بیگن سے(بیگم سے نہیں) انتقام لینا ہو ، تو بازو اوپر چڑھائیں اور اُبلے
ہوئے بینگن کا خوب کچومر نکالیں تو وہ بخیر انجام بھرتہ بن جائے گا ۔ یا بینگن سے وکھری ٹائپ کا انتقام لینا ہو تو آگ پر بھون لیں ،
گیس کی آگ میں وہ مزہ کہاں جو کوئلوں کی آگ میں ہے ۔کوئلوں کے تڑکے ، ارے نہیں دھوئیں کے تڑکے سے کام چل جائے گا !
اب اگر وہ تمام مصالحے و میوہ جات جو بینگن میں ڈالیں ، وہ اگر لان میں
اُگی ہوی گھاس توڑ کر اُس میں ڈال دیں تو گھاس بھی وہی لذت پاتی ہے
جو پالک میں ہے !
نوٹ: ڈاکٹر ، صرف فقیری نسخہ جات ، برائے ترکیبِ ہائے بینگن استعمال کریں !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مسلمانوں
میں یہ عقیدہ ہے کہ القرآن آج جس شکل میں ہم تک موجود ہے یہ بعینہ ویسا ہی ہے
جیسا کہ خود محمد صلعم پر نازل ہوا کیوں کہ اِس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے
اٹھا رکھا ہے۔
اگرچہ مسلمانوں سے نکلا شیعاً فرقہ، اپنی روایات کی روشنی میں
اس عقیدے کا قائل نہیں،
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ
فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا
كَانُواْ يَفْعَلُونَ [6:159]
پڑھیں : الدین میں فرق کرنے والے شیعا!
باقی 72 فرقے قرآن کی حفاظت و تدوین کو اللہ کی
براہ راست ذمہ داری ہی سمجھتے ہیں۔لیکن جب اُن کے عقیدے کے مطابق ، اُن کے مذھب کی عمارت کا جائزہ لیتے ہیں جن کی بنیادیں انسانی لکھی ہوئی انسانی ہدایات کی کتابوں نے تھام رکھی ہے- جنہیں صحاح ستّہ کہا جاتا ہے ۔
جب اپنے دین کو مضبوط کرنے کے لئے اِن انسانی لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے
،کہ اِن کتابوں کے مطابق :
1- قرآن کی پہلی آیت اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ اور آخری آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا تھی جو حجتہ الوداع 10 ہجری میں نازل ہوئی، جس کے بعد قرآن مکمل ہوگیا ۔
1- محمدﷺ کو جبرائیلِ امین نے قرآن حفظ کروایا اور دو بار رمضان میں سنا بھی ۔
2- اصحاب صفّہ کا کام ، چبوترے پر بیٹھ کر قرآن کی آیات کو حفظ کرنا تھا
3- ایک جنگ میں کئی حفّاظ شہید ہوگئے ،اور بعد کی جنگوں میں بھی حفّاظ شہید ہوئے ، تو قرآن کی کتابت کا خیال آیا ۔
4- سب سے پہلے جو قرآن جمع کیا وہ حفّاظ سے نہیں بلکہ دیگر ذرائع استعمال کئے گئے ، حضرت ابُوبکر صدیقؓ کا قرآن تھا ، جو حضرت عمرؓ کے پاس گیا ۔ حضرت عثمان نے جس مسودہ کو منظور کیا وہ حضرت حفضہ (بنتِ عمرؓ ) کا تھا ۔ جبکہ مسودہ ابنِ ابوطالب کے علاوہ دیگر مسودات بھی تھے ۔
5- حضرت عثمان کا جو مسودہ منظر عام آیا :
ا - مکمل نہیں (بخاری )
ب۔ کئی آیات بکری کھا گئی (بخاری)
ج- اُس کے مطابق نہیں جیسا نزول ہوا (صحاح ستّہ )
د- 6666 آیات تھیں (اب 6348 آیات ہیں بشمول 112 دفعہ ہر آیت کے شروع میں بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ )
ک۔ اعراب و نقاط نہیں تھے ، کیوں کہ خطِ کوفی میں تھا
(پانچ سو افراد پر مشتمل ، کوفہ اُن دنوں علم و فضل کا مرکز تھا ، کیوں کہ
سارے علامہ وہاں جمع تھے، نہج البلاغہ سُن رہے تھے اورابنِ ابوطالب کے
قرآن سے استفادہ کر رہے تھے )
ل۔ حضرت عثمانؓ ، اُسی کی تلاوت کرتے ہوئے شہید ہوئے ، اُس پر خون کے نشان ہیں (وہ نسخہ توپ کاپی عجائب گھر ترکی میں ہے اور بخارا میوزیم میں بھی ہے ) ۔
م- حضرت عثمانؓ کا یہ مصحف بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سے لے کر مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ تک ہے ،
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صحاح ستّہ کی تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن جس موجودہ شکل میں موجود ہے یہ بالکل اس شکل میں نہیں ہے جو خود
پیغمبر اسلام کی زندگی تک پایا جاتا تھا ۔
نیز یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ
خدا کی اس آخری الہامی کتاب کے دعویٰ ہونے کے باوجود، اس کی حفاظت کی ذمہ
داری بھی اپنی پیشرو کتب کی طرح پوری نہیں کی جا سکی۔کیسے ؟ آئیں آگے چلتے ہیں :
1- یہی روایت،سنن ابو داود، کتاب النکاح، باب ھل یحرم ما دون خمس رضعات، حدیث: ۲۰۶۲ میں بھی ہے ۔
کہ یہ قرآن کا حصہ تھی ۔ جب رسول اللہ کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں
قراءت کئے جا رہے تھے۔ جبکہ حجتہ الوداع ، آیک آیت کے آخری ٹکڑے کا دن تھا :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا
أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ
وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا
ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ
بِالْأَزْلاَمِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن
دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ
دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ
الْإِسْلاَمَ دِينًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ
لِّإِثْمٍ فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [5:3] نوٹ : موجودہ ترتیب کے مطابق یہ الکتاب کی 702 آیت ہے
جبکہ مشہور
خادمِ رسول حضرت انس بن مالک نے گواہی دے رکھی ہے :
“اللہ نے رسول اللہ
کی وفات سے پہلے مسلسل وحی اتاری اور آپ کی وفات کے قریبی زمانے میں تو بہت
وحی نازل ہوئی، پھر اس کے بعد رسول اللہ وفات پا گئے۔گویا وحی 10 ذی الحج 9 ھجری سے 12 ربیع الاول 11 ہجری میں بھی نازل ہوئیں !
افسوس
کہ وفات النبی کے انتہائی قریب نازل ہونے والی وحی اور آیات کی حفاظت کا
مناسب انتظام نہ ہو سکا اور وہ مختلف حادثات کا شکار ہو کر ضائع ہوتی رہیں۔
چنانچہ ایک ایسے ہی حادثہ میں وہ آیات بھی ضائع ہوئیں جو کہ نبی کی وفات
کے وقت لکھی ہوئی آپ کے بستر پر موجود تھیں۔
2۔دو آیات بکری کھا گئی !
(سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح، باب رضاع الکبیر، حدیث:۱۹۴۴، مسند احمد:۶/۲۲۹، مسند ابی یعلیٰ:۴۵۸۷،۴۵۸۸)
اس
روایت سے تو مزید واضح ہے کہ آیت رضاعت کے علاوہ آیت رجم بھی نبی صلعم کی
زندگی میں نہ صرف یہ کہ تلاوت ہو رہی تھی بلکہ یہ دونوں آیات، محمد صلعم کی
وفات تک کاشانہ نبوی میں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی موجود تھیں۔ مگر اس بکری
کو چونکہ اس بات کی سمجھ ہی نہ تھی کہ یہ قرآن کی آیات براہ راست حفاظت
الٰہی میں ہیں، اس لئے وہ اس کاغذ کو ہی کھا گئی جس پر یہ آیات لکھی ہوئی
موجود تھیں اور آج کا موجودہ قرآن اِن آیات سے محروم ہے ۔
مزید پڑھیں : رضاعت اور رجم
صرف
یہی نہیں کہ نبی صلعم کی حیات کے فوراً بعد جو آیات حفاظت الٰہی کے زیر
اثر نہ رہ سکیں وہی اس حادثے کا شکار ہوئیں بلکہ یہ سلسلہ اس کے کافی بعد
بھی اللہ کی آیات میں صحاحِ ستّہ کے مصنفین نے قطع و برید کا سلسلہ جاری رکھا ۔
3- سورۃ شعراء کی آیات :
فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ
﴿26/213﴾
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ
﴿26/214﴾
وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
﴿ 26/215﴾
اس سلسلے کی روایات ملاحظہ فرمائیں:
اوپر پیش کی گئی روایت میں جس آیت کے نازل ہونے کو ابن عباس (عبداللہ بن عباس بن عبد المطلب پیدائش 3 قبل ھجری وفات 68 ہجری طائف ) نے پیش کیا ہے وہ سورۃ شعراء کی آیت ہے لیکن ہمارے موجودہ قرآن کے نسخوں میں یہ آیت صرف، وَأَنذِرْعَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ کے الفاظ تک ہی ہے اور اس کے آگے کے الفاظ وَ رَھطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ موجود نہیں ہیں۔
ابن عباس کا اس آیت کو ان الفاظ کے ساتھ پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس آیت میں وَرَھطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ کے
الفاظ بھی شامل تھے۔ اگر سلسلۂ سند کو دیکھا جائے تو ابن عباس نے یہ روایت
اور یہ آیت مشہور تابعی، اپنے شاگرد سعید بن جبیر(پیدائش 44 ہجری وفات 95 ہجری کوفہ ) کے سامنے بیان کی ہے۔
جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ابن عباس، دور تابعین تک اور سعید بن جبیر اپنے دور تک سورۃ الشعراء کی اس آیت کو وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ کے اضافے کے ساتھ بیان کرتے تھے، جو بعد میں نہ جانے کس وقت قرآن سے مکمل طور پر محو کر دی گئی -
اور یہ بھی صحاح ستّہ کے مطابق ، قرآن کی انہیں آیات میں شامل کردی گئی جن پر اللہ کی حفاظت میں ہونے کی ذمہ داری پوری نہ ہو سکی۔
4۔موجودہ الکتاب میں سورۃ النساء کی ایک آیت کچھ یوں درج ہے:
لاَّ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُوْلِي
الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ بِأَمْوَالِهِمْ
وَأَنفُسِهِمْ فَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ
وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُـلاًّ وَعَدَ اللّهُ
الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا
عَظِيمًا [4:95]
مگر براء بن عازب (پیدائش قبل 23 ہجری مکہ ۔ وفات 70 ہجری کوفہ ) نزدیک یہ آیت، ابنِ مکتوم کی وجہ سے ، اس طرح نازل ہوئی تھی:
یعنی آیت رسول اللہ نے اِس طرح بتائی :
لاَّ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ غَيْرُ أُوْلِي الضَّرَرِ
لیکن کاتبِ وحی نے ڈنڈی ماری اور اِس طرح تبدیلی کر کے الکتاب میں شامل کردی -
لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [4:95]
اور حفّاظ نے ایسے ہی حفظ کیا ۔
اور صدیوں سے بخاری کے مطابق القرآن کی غلط تلاوت ہو رہی ہے-
جبکہ اللہ کا دعویٰ ہے :
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [15:9]
تو پھر نعوذ باللہ ، یہ آیت تو پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
آگے چلتے ہیں ، اور صحاح ستّہ کی مزید پھلجڑیا ں پڑھتے ہیں ۔ جو ملحدوں ، توہینِ رسالت کرنے والوں کے لئے ھاٹ کیک ہیں ۔
اگر ہمت ہے تو کرسچئین محقق جے سمتھ کی دو گھنٹے کی یہ وڈیو دیکھیں ۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہ کریں !
کرسچئین محقق جے سمتھ اور مسلمان سکالر ادیب اکسل کے دو گھنٹے اور 55 منٹ کا مباحثہ
مباحثے کا پہلا جے سمتھ کاحصہ ، جو میں نے ایڈٹ کر کے یو ٹیوب پر اَپ لوڈ کیا ہے دیکھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
5۔ ابو سعید خدری کی
ایک روایت میں کہا ہے:
محمد صلعم نے
خود بیان کیا کہ “اَللہ الوَاحِدُ الصَّمَدُ ” قرآن مجید کا ایک تہائی حصہ ہے۔
اب صرف اتنا غور فرمائیے کہ “اَللہ الوَاحِدُ الصَّمَدُ” الکتاب کی کون سی سورۃ کی آیت ہے؟
دوسری روایات سے پتا چلتا ہے کہ یہ فضیلت سورہ اخلاص کی ہے کہ یہ تہائی القرآن ہے ، تو پھر سورۃ
اخلاص میں یہ آیت کہاں گئی جس کی طرف محمد صلعم نے بطور خاص اشارہ کیا؟
کیا یہ بھی تو انہیں آیات میں سے نہیں جو تدوینِ قرآن کے وقت لکھنے سے رہ گئیں؟
لیکن ایسا نہیں ہے ، جس الکتاب کو روح القدّس نے محمدﷺ پر اللہ کی طرف سے نازل کیا اور روح القدّس نے خود حفظ کروایا اور محمدﷺ سے سنا کہ وہی وصول کیا گیا جو اُنہیں دیا گیا اور اللہ کے منتخب ایمان والوں
کو حفظ کروایا ، اور یہ سلسلہ ءِ حفاظت الذکر ،صدیوں سے رواں دواں ہے ۔
پڑھیں: الذِّكْرَ کے حافظون کون ہیں ؟
صحاح ستّہ کے مصنفین نے پوری کوشش کی کہ وہ رسول اللہ کے پائے استقامت کو اکھاڑ دیں ، لیکن حفّاظ نے اُن کی ایک نہ چلنے دی ۔ آج بھی الکتاب کی پوری دنیا اُسی طرح تلاوت کی جارہی ہے ، جیسےاللہ نے نازل کی -
بہت سے احباب نے شکوہ کیا کہ آپ ، اِن کتابوں میں بائبل (قدیم اور جدید) کو کیوں شامل کرتے ہیں ؟
بائبل
(قدیم اور جدید)کو اِن کُتب میں شامل کرنے کا مقصد الکتاب کی چند آیات،
جن میں اللہ نے روح القدّس کے ذریعے محمدﷺ کو اپنا حتمی لائحہءِ عمل بتا
دیا :
1- الکتاب کی اہمیت :
ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ ﴿2/2﴾
وہ الْكِتَابُ اِس میں کوئی رَيْبَ نہیں أَلْمُتَّقِيْنَ کے لئے ہدایت ہے
2-الکتاب کب سے المتقین میں باعثِ ہدایت ہے !
أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا
﴿4/54﴾
کیا لوگ حسد کرتے رہتے ہیں ، جواللہ نے اپنے فضل میں سے اُن کو عطا کیا ؟ پس حقیقت میں ہم نے آلِ ابراہیم کو الْكِتَابَ اور الْحِكْمَةَ عطا کی اور ہم نے اُن عظیم ملک عطا کیا ۔
وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿2/53﴾
اور جب ہم نے موسیٰ کو الْكِتَابَ اور الْفُرْقَانَعطا کی تاکہ تم (بنی اسرائیل) ھدایت پاؤ !
وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ
﴿3/48﴾
اور وہ (اللہ) اُسے( عیسیٰ ابنِ مریم ) کو الْكِتَابَ اورالْحِكْمَةَ اور التَّوْرَاةَاور الْإِنجِيلَ
کا علم دے گا
کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ:
آلَ إِبْرَاهِيمَ کو ملنے والی الْكِتَابَ اورالْحِكْمَةَ ، موسیٰ کو ملنے والی الْكِتَابَاور الْفُرْقَانَ اور عیسیٰ ابنِ مریم کو الْكِتَابَاورالْحِكْمَةَ اور التَّوْرَاةَاور الْإِنجِيلَ
کا علم ، ترجمہ اور تفسیر ہو کر بائبل (قدیم و جدید ) میں تبدیل کر دیا گیا ۔ یا-
بائبل (قدیم و جدید ) الْكِتَابَ اورالْحِكْمَةَ اور التَّوْرَاةَ اور الْإِنجِيلَ کی مُتَشَابِهَاتٌ ہیں ؟
لہذا یہی مُتَشَابِهَاتٌ صاح ستّہ میں اسرائیلیات کے نام سے شامل کردی گئیں !
3- النَّبِيُّونَ (بشمول محمدﷺ ) کواُن کے ربّ کی طرف سے نازل کی جانے اور ہم پر نازل ہونے والی وہی الکتاب میں فرق نہ کرتے ہوئے مسلمان رہنا !
قُولُواْ آمَنَّا بِاللّهِ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَى
إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَمَا
أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لاَ
نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿2/136﴾
وہ کہیں! ہم اللہ کے ساتھ ایمان لائے اور اُس (الْكِتَاب) پر جو
ہماری طرف اتاری گئی اور اس (الْكِتَاب) پر جو إِبْرَاهِيمَ اورإِسْمَاعِيلَ اور إِسْحَقَ اوريَعْقُوبَ اور الأَسْبَاطِ کی طرف اتاری گئی اور جو (الْكِتَاب) مُوسَى اور عِيسَى کو عطا کی گئیں اور النَّبِيُّونَ کو ان کے ربّ کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم اُن
میں سے کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے، اور ہم اُس کے مسلمان ہیں !
4-الکتاب کا حقِ تلاوت (قرءت نہیں) اور تلاوت سے انکار !
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ
أُوْلَـئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ
الْخَاسِرُونَ ﴿2/121﴾
وہ لوگ جنہیں ہم نے الْكِتَابَ دی ہے وہ اُس کی تلاوت کرتے رہتے ہیں ، جیسا اُس کی تلاوت کا حق ہے ، وہ اِس (الْكِتَابَ ) کے ساتھ ایمان رکھنے والے ہیں ، اور جو کوئی اِس (الْكِتَابَ ) کے ساتھ اور جو کوئی اِس (الْكِتَابَ ) کے ساتھ، کُفر کرتا رہتا ہے وہ الْخَاسِرُونَ میں ہیں ۔
5-الکتاب کی قرءت (تلاوت نہیں) محمدﷺ سے قبل ہو رہی ہے!
فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ
يَقْرَؤُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ
فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿10/94﴾
پس اگر تجھے شک ہو جائے جو ہم نے تیری طرف نازل کیا ہے ، پس اُن لوگوں سے سوال کر جو تجھ سےقبل الْكِتَابَ کی قرءت کر رہے ہیں ۔ حقیقت میں تیرے پاس الحق ، تیرے ربّ کی طرف سے آچکا ہے ، (الْكِتَابَ کی صورت میں ) پس الْمُمْتَرِينَ میں سے مت ہوجانا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگر ہم الکتاب کی بالا آیات پڑھیں تو یہ 100 فیصد حق ہے کہ الکتاب آلِ براہیم او ر النَّبِيُّونَ کو اللہ نے عطا کی اوریہ آیت ہم آج پڑھ رہے ہیں کہ محمدﷺ سےقبل ایمان والے اُس کی قرءت کر رہے ہیں !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ تو اللہ کا فضل ہے ، کہ محمدﷺ کو اللہ کی طرف روح القدّس نے اور رسول اللہ نے ، اللہ کے منتخب کردہ حفّاظ کو الکتاب ، پورے اعراب و نقاط کے ساتھ حفظ کی اور کروائی ،
ورنہ ، صاح ستّہ کے مصنفین نے پوری کوشش کی تھی ، کہ الکتاب کو
مشکوک بنا دیا جائے جس کی ابتداء
الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سے لے کر انتہا مِنَ الْجِنَّةِ
وَالنَّاسِ تک ہوتی ہے ، جو نہ تبدیل کی جاسکی اور نہ ہی کی جاسکے گی ۔
اور بالا انسانی تصنیف کی ہوئی کتابوں ( اِن کی تشریحات ، مقدمات یا تلخیصات ) میں پائے جانے والے بیانات ہیں ۔ جن کو الکتاب میں دی گئی ، اللہ کی آیات پر محمدﷺ کے نام کو استعمال کرتے ہوئے فوقیت دی گئی ۔