جنسی فعل اللہ کی آیات ہے ۔ پریشان ہو گئے نا ؟
روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کی طرف سے انسانوں کو ،زوج ( مرد اور عورت ) کے نکاح (جوڑ) کے بعد ،جنسی فعل (تَغَشَّاهَا) کے متعلق اللہ کی آیت میں وضاحت دی :
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا
لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِيفًا
فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ
آتَيْتَنَا صَالِحاً لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ[7:189]
وہی ہے جس نے تمھیں نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ میں سے خلق کیا اور اُس (نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ) میں سے اُس (نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ) کا زَوْجَ بنایا۔ تاکہ وہ (زَوْجَ) اُس (نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ) کی طرف سکون محسوس کرے۔ پس جب اُس (زَوْجَ) نے جب اُس (نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ) کو ڈھانپا تو اُس (نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ) نےحَمَلَ اُٹھایا، خفیف ساحَمَلَ، وہ اِ س (حَمَلَ) کے ساتھ گھومتی پھرتی پس جب وہ (حَمَلَ) ثَقَلَ (وزن دار) ہوا۔ اُ ن دونوں نے اپنے ربّ سے دعا کی اگر تو نے ہمیں صَالِح (مذکر) دے گا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔
نکاح کے بغیر جنسی فعل ، اللہ کا عذاب :الزَّانِيَةُ
وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ
وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ
تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا
طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ (24/2)
پس
زانی اور زانیہ کو کوڑے لگاؤ۔ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔اور تم ان
کے لئے اللہ کے دین میں نرمی اختیار نہ کرو۔اگر تم اللہ اور یوم الآخر پر
ایمان رکھتے ہو۔اور مومنین میں سے ایک طائفہ کو ان کے اس عذاب کو دیکھنا
چاہیئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا آپ کا اِس کلمہءِ عظیم پر ایمان ہے ؟
تو پھر پریشانی کس بات کی ؟
کثرت سے پڑھیں اور بغیر حساب پڑھیں۔
پانی پینے کے طریقے اور مقدار ۔
٭ - نہار منہ بغیر تھوکے یا کُلّی کئے، خالی پیٹ دو گلاس یعنی 500 ملی لٹر پانی پیئں ۔
٭- ایک گلاس ناشتے کے آدھے گھنٹے بعد
٭- ایک گلاس دوپہر کے کھانا کھانے سے 40 منٹ پہلے اور ایک گلاس 40منٹ بعد ۔
٭- دو گلاس پانی شام کو ایک ایک گھنٹے کے وقفے سے ۔
٭- ایک گلاس شام کے کھانا کھانے سے 40 منٹ پہلے اور ایک گلاس 40منٹ بعد ۔
٭- بعض لوگوں کو کوئی چیز کھانے سے پہلے گلا، تر کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے ، وہ ایک یا دو گھونٹ پانی پی سکتے ہیں ۔
٭- جسمانی محنت کرنے والے آدھا آدھا گلاس یعنی دوگلا س مناسب وقفے سے پیئں-
یاد رہیے کہ 24 گھنٹے میں آپ کم از کم یعنی ڈھائی سے تین لٹر پانی ضرور پیئں ۔گرمیوں ایک سے دو لٹر مقدار بڑھا دیں ۔ یہ 40 مختلف بیماریوں کا تریاق ہے ۔
پانی کب نہ پیئں !
٭- کھانے سے فوراً پہلے ، کھانے کے درمیان یا کھانے کے فوراً بعد ۔کیوں کہ منہ کا لعاب جو کھانے کو ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے ، وہ پانی سے پتلا ہوجاتا ہے اور کھانا ہضم ہونے کے بجائے پیٹ میں زیادہ دیر رہ کر سڑنے لگتا ہے اور گیس بناتا ہے ۔ایسیڈٹی پیدا کرتا ہے ۔کولیسٹرول بناتا ہے ۔ یورک ایسڈ بڑھ جاتا ہے ۔
٭- خشک غذا کی صورت پانی پینے کا دل چاہنے پر ، لسی ، جوس یا ٹھنڈی سبز چائے ، دو یا تین گھونٹ کی صورت میں پیئں ۔ جتنا ہو سکے کولڈ ڈرنک سے پرہیز کریں ۔
قابلِ توجہ باتیں :
٭- یاد رہے لسی آپ کے معدے کی قوتِ ہاضم کو بڑھاتی ہے ۔
٭- خشک غذاؤں کی جگہ سالن والی اور پتلی غذاؤں کو ترجیح دیں ۔
٭-مرغن اور خشک غذائیں بیماریوں کا رَتھ ہیں ۔
٭- دالوں کا زیادہ استعمال کریں ۔ تمام دالیں پتلی اور خوب گھٹی ہوئی ہوں ۔
٭- زیادہ نمک کا استعمال ، خون میں پانی کی مقدار بڑھا کر مستقل بلڈ پریشر کا سبب بنتا ہے ۔
٭- اگر آپ کےنصیب میں مرنے تک ، 1 ٹن کھانا لکھا ہے تو آپ 1 ٹن کھانا ہی کھائیں گے ۔ اِس میں ایک تولہ کا اضافہ نہیں کر سکتے ۔خواہ یہ 1ٹن کھانا ،آپ 20 سال میں کھائیں یا 100سال میں ۔ آپ پر منحصر ہے ۔
٭-اگر ایک انسان ،65 سال تک ، اوسطاً 2 سے 3کلو گرام بلحاظِ وزن پکا ہوا کھانا، روزانہ کھاتا ہے۔ اُس کے بعد یہ مقدار کم ہوتی جاتی ہے کیوں کہ جسم کو اِس کی ضرورت نہیں رہتی ۔
٭- پھلوں ، سبزیوں اور دودھ میں پائی جانے والی چینی کے علاوہ ، اضافی چینی کی مقدار اوسطاً 9 چائے کے چمچوں سے زیادہ نہیں بڑھنا چاہئیے ۔ جو 1کلوگرام ماہانہ بنتی ہے ۔ اپنی روزانہ کی چینی کی مقدار ناپیں ۔
٭٭٭مزید مضامین پڑھنے کے لئے کلک کریں ٭واپس٭٭٭٭
روح القدّس نے محمدﷺ کو بتایا کہ اللہ نے کن افراد کا آخرت میں کوئی خلاق نہیں رکھا:
1- اللہ سے کئے گئے عہد اور ایمان کو بیچتے رہنا :
إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلاً أُوْلَـئِكَ لاَ خَلاَقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلاَ يُكَلِّمُهُمُ اللّهُ وَلاَ يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ [3:77]
2- دنیاوی زندگی مانگنا :
فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ [2:200]
أُولَـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ فَلاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ يُنْصَرُونَ
[2:86]
3- میاں اور بیوی میں جدائی ڈلوانا :
وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُواْ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ [2:102]
مؤمن سے مسلم تک کےسفر کی ابتداء میرے فہم کے مطابق ، اپنے نفس کا کھوٹ نکالنے کے لئے ، اللہ کی اِس آیت سے ہوتی ہے !
لہذا ، اللہ کے دیئے گئے الکتاب میں عربی الفاظ پر رہنا چاہئیے ۔
روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کے الفاظ " الانسان، الجان ، الملائکہ ، ابلیس اور الجن " کے بارے میں اللہ کی مفصل وضاحت بتائی :
انسان کی تخلیق:وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ﴿15:26﴾
الجان کی تخلیق:
وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ ﴿15:27﴾
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ﴿15:28﴾
فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ ﴿15:29﴾
الملائکہ کی صفت :
فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ﴿15:30﴾
ابلیس کی صفت :
إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ﴿15:31﴾
ابلیس کی تخلیق :
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلاً ﴿18:50﴾
روح القدّس نے محمدﷺ کو الکتاب کے بارے ، اللہ کا حکم قطعی بتایا :
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجَا ﴿18:1﴾
ہم الکتاب سمجھنے والے ، الملائکہ اور ابلیس کے درمیان " نوری و ناری " کی تخلیق کے فہم پر " عوج" میں پڑ سکتے ہیں ۔
لیکن " الانسان اور الجان و الجن " کی تخلیق کو ایک بتانا ، صرف احمقانہ پن ہے !
ابلیس کا تعلق اللہ سے ہے ، اور
انسان کا مقابلہ الشیطان سے ہے ۔
روح القدّس نے محمدﷺ کو بتایا کہ بنی آدم کو اُس کے دشمن کے متعلق اللہ کی طرف سے بریکنگ نیوز دو !
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿36:60﴾
اللہ کے الکتاب میں عربی میں دیئے گئے الفاظ پرمجادلہ کرنا شیطان کا مرید بننا ہے ۔
روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ میں مجادلہ کرنے والوں کی صفت بتائی :
وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَانٍ مَّرِيدٍ ﴿22:3﴾
روح القدّس نے محمدﷺ کو خبر دی کہ " صُلب اور ترائب " کہ آپس میں ملتے ہی بنی آدم اپنی تخلیق کے وقت سے اپنے ربّ کے بارے میں جانتا ہے !
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُواْ بَلَى شَهِدْنَا أَن تَقُولُواْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ [7:172]
اور جب تیرے ربّ نے بنی آدم کے ظہور(صُلب اور ترائب) میں اُن کی ذریّت کو نکالا تو اُن کے نفسوں سے شہادت لی ،
" کیا تم اپنے ربّ کے ساتھ نہیں ہو ؟ "
تو وہ سب بولے ،" ہم شہادت دیتے ہیں ، ہاں ہیں "
( رب نے کہا) ۔" یہ کہ تم یوم القیامہ نہ کہو کہ ہم اِس (ربّ) کے (بارے میں) ٖغافل تھے !
روح القدّس نے محمدﷺ کو خبر دی کہ تیرے ربّ کو اُس کو نہ پہچاننے کا بنی آدم کا جواب معلوم ہے جس کی وہ تجھے میرے ذریعے خبر دے رہا ہے ، کہ رب نے کہا ، وہ کہیں گے !
أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ[7:173]
" یا تم یہ کہو! یقیناً ہمارے آباء نے ہم سے قبل شرک کیا ، ہم تو بعد میں اُن کی ذریّت ہوئے ، کیا تو اُن کے باطل فعل پر ہم کو ھلاک کرے گا ؟ "
کیا بالا دونوں آیات ، آباء کے شرک کو جاری رکھنے کے بجائے، تمھارے ربّ کی طرف رجوع کرنے کے لئے کافی نہیں ؟
وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ [7:174]
اور اُسی طرح ہم اپنی آیات کی تفصیل کرتے ہیں ، اور شاید کہ وہ (ہماری طرف) رجوع کریں !
روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کی یشاء سے انسانوں میں ، مذکّر ، مؤنث اور عقیم تخلیق ہونے والوں کے بارے خبر دی :
لِّلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ [42:49]
اللہ کے لئے السماوات اور الارض جو چاہتا ہے تخلیق کرتا رہتا ہے جس کے لئے چاہے گا مؤنث ھبہ کرتا ہے اورجس کے لئے چاہے گا مذکّرھبہ کرتا ہے ۔
أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ[42:50]
یا مذکّر اور مؤنث کو وہ ازواج قرار دیتا ہے اور جو چاہتا ہے عقیم ( ہونے کی وجہ سے زوج نہیں ) قرار دیتا ہے ، یقیناً وہ علیم اور قدیر ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک مضمون جو کسی نے اِس کمنٹ کے ساتھ لکھا :
" براہ کرم پڑھیں اور اپنی رائے ضرور دیں "
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مرنے کے بعد ایک خواجہ سرا کا اپنی ماں کو خط ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
ماں جی
میری عمر نو دس برس کی تھی جب ابا نے مجھے زمین پر گھسیٹتے ہوئے گهر سے بے گهرکر دیا تھا ۔
میں چیخ چیخ کر تمہیں پکارتا رہا مگر تم بےحس وحرکت سہمی ہوئی مجھے تکتی رہیں۔ واحد روانی تمہارے آنسوؤں کی تھی جو ابا کے غیض و غضب کے آگے بھی تهمنے کو تیار نہ تھے۔ تمہارا ہر آنسو اس بات کا ثبوت تها کہ تم ابا کے اس فعل سے بہت نالاں تھی مگر ابا کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرنے پر مجبور بهی۔
محلے والوں کے طعنے، رشتے داروں کے طنز اور لوگوں کی چبھتی ہوئی نگاہوں سے جب ابا بے قابو ہو جاتے تو پهر اپنی کالے چمڑے کی چپل سے میری چمڑی ادھیڑتے۔ اپنے جسم پر چپل سے بنائے گئے نقش لیے میں اس کال کوٹھڑی کی جانب بھاگتا جو پورے گهر میں میری واحد پناہ گاہ بن گئی تھی۔
پٹائی کا دن جب رات میں ڈھلتا تو تم ابا سے چھپ کر دبے پاؤں آتیں۔ مجھے سینے سے لگاتی، اپنے دوپٹے سے میرے زخموں کی ٹکور کرتی۔ میرا سر اپنی گود میں لیے گھنٹوں میرے پاس بیٹھی رہتی۔ مجھے چپ کراتے کراتے تمہاری اپنی سسکیاں بندھ جاتیں۔ آہوں اور سسکیوں کی گونج کے علاوہ اس کال کوٹھڑی میں کچھ سنائی نہ دیتا۔ ہم دونوں آنسوؤں کی زبان میں بات کرتے۔ میرے آنسوؤں میں ان گنت سوال ہوتے۔
آخر کیوں ابا کی نفرت کی خاص عنایت مجھ پر ہی ہے؟
آخر کیوں گھر میں مہمانوں کے آتے ہی اسٹور کے تنگ وتاریک کمرے میں گهر کے ہر فالتو سامان کے ساتھ مجھے بند کردیا جاتا ہے؟
اور جب تک اللہ کی رحمت ہمارے گھر سے چلی نہیں جاتی مجھے رہائی کا پروانہ کیوں نہیں دیا جاتا۔
یہ رحمت ہر بار میرے لیے زحمت کیوں بن جاتی ہے؟
مگر اماں میرے ہر سوال کے جواب میں تم خاموشی سے میرے اوپر محبت بهری نگاه ڈالتی اور کچھ نہ بولتیں۔ بس کبھی تم میرے ماتهے کا بوسہ لیتی اور کبھی میرے ہاتھوں کو چوم کر اس بات کی گواہی دیتی کہ میں تو اپنے راجہ بیٹے سے بہت پیار کرتی ہوں۔
ایک سوال کرتے کرتے میں تهک جاتا اور نیند کی آغوش میں چلا جاتا کہ آخر میرے سے ایسی کیا خطا ہوئی جو میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح ابا کے پیار کا حقدار نہیں۔
ہاں تمہاری گود میں سو جانے سے پہلے میں یہ دعا بھی کرتا کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو مگر صبح ہوتی اور تم پھر اس عورت کا لباده اوڑھ لیتی جو ابا اور معاشرے کے خوف سے مجھے پیار کرتے ڈرتی تھی۔
جس دن ابا نے مجهے گهر سے نکالا اس دن میرا قصور بس اتنا تھا کہ میں نے تمہاری سنگھار میز پر رکھی ہوئی لالی سے اپنے ہونٹ رنگ لیے تھے، تمہارا سرخ دوپٹہ سر پر رکھے، تمہارے ہاتھوں کے کنگن اپنی کلائی میں ڈالے تمہاری ٹک ٹک کرنے والی جوتی پہن کرخوش ہو رہا تھا۔
بس یہ دیکھنے کی دیر تھی کہ ابا نے مجھ پر پهر جوتوں کی برسات شروع کر دی۔ میں معافی کا طلب گار رہا مگر میری شنوائی نہ ہوئی اور پهرگالی گلوچ کرتے ہوئے زمین پر گھسیٹتے ہوئے زنخا زنخا کہتے ہوئے مجھے ہمیشہ کے لیے سب گهر والوں سے دور کر دیا۔
میرے لیے آبا کے آخری الفاظ یہ تھے،
"آج سے تو ہمارے لیے مر گیا"۔
یہ جملہ سنتے ہی میری ہاتھوں کی گرفت جس نے ابا کے پیروں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا کمزور پڑ گی۔ میری گڑگڑاتی ہوئی زبان خاموش ہوگی، میرے آنسو تهم گئے کیونکہ میں جانتا تھا کہ ابا اپنی کہی ہوئی بات سے کبھی نہیں پھرتے۔ اور تم ماں، ابا کے کسی بھی فیصلے کے خلاف جانے کی ہمت نہیں رکھتی ۔
اس کے بعد ابا مجھے ہمیشہ کے لیے یہاں چهوڑ گے جہاں ایک گرو رہتا تھا۔ امجد کی جگہ میرا نام علیشاہ رکھ دیا گیا۔ مجھے ناچ گانےکی تربیت دی جاتی۔
مجھ پر نظر رکھی جاتی لیکن میں جب کبھی موقع ملتا تمہاری محبت میں گرفتار اپنے گهر کی طرف دیوانہ وار بھاگتا مگر ابا کا آخری جملہ۔ "آج سے تو ہمارے لیے مر گیا"۔ مجھے دہلیز پار کرنے سے روک دیتا۔
دروازے کی اوٹ سے جب تمہیں گرما گرم روٹی اتارتے دیکھتا تو میری بھوک بھی چمک جاتی اور پهر تم اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر میرے بہن بھائیوں کے منہ میں ڈالتی تو ہر نوالے پر میرا بھی منہ کھلتا مگر وہ نوالے کی حسرت میں کھلا ہی رہتا۔ اس حسرت کو پورا کرنے کے لیے میں اکثر گهر کے باہر رکھی ہوئی سوکهی روٹی کو اپنے آنسوؤں میں بهگو بهگو کر کھاتا۔
عیدیں تو تنہا ہی تھیں ، جب گھر بدر نہ ہوا تھا تب بھی عید پر جب ابا ہر ایک کے ہاتھ پر عیدی رکهتے تو میرا ہاتھ پھیلا ہی ره جاتا۔ جب ہر بچے کی جھولی پیار اور محبت سے بهر دی جاتی تو میری جھولی خالی ہی ره جاتی۔ جب ابا اپنا دست شفقت سب کے سروں پر پھیرتے تو میرا سر جهکا ہی رہتا۔
صحن میں کھڑی ابا کی سائیکل جس کو اکثر میں محلے سے گزرتے دیکھتا تو ہر بار دل میں یہ خواہش ہوتی کہ کاش ابا سائیکل روک کر مجھے ایک بار، صرف ایک بار سینے سے لگا لیں مگر میری یہ خواہش، خواہش ہی ره گی۔
گھر چھوڑنے کے عذاب کے بعد میرے اوپر ایک اور عذاب نازل ہوا جس کے کرب نے میری روح تک کو زخمی کر دیا۔ چند "شرفا" گرو کے پاس آئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ مجھے زبردستی بے لباس کیا اور اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا ڈالا۔
ماں، میں اتنا چھوٹا اور کمزور تھا کہ میں تکلیف کی وجہ سے اپنے ہوش ہی کهو بیٹھا تھا۔ پهر اس ہی بے ہوشی کے عالم میں مجھے گرو کے حوالے کر دیا گیا۔ پهر یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ میں روز انہ اپنی ہی نظروں میں گرتا رہا مرتا رہا۔ کرتا بھی کیا کہ اب میرے پاس کوئی اور دوسری پناہ گاه نہ تهی۔
پهر اسی کام کو میرے گرو نے میرے پیشے کا نام دے دیا۔ میں گرو کے پاس سے کئی بار بھاگا، در در نوکری کی تلاش میں پهرتا رہا مگر مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ ہر بار گرو کے در پر ہی پناہ ملی۔
ہمارا وجود معاشرے میں گالی سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں تو کسی کو بددعا بھی دینی ہو تو ہم کہتے ہیں کہ جا تیرے گهر بھی مجھ جیسا پیدا ہو۔
حالانکہ ہماری رگوں میں بهی سرخ رنگ کا خون دوڑتا ہے۔ ہمیں بنانے والا بھی تو وہی ہے جس نے ان کو پیدا کیا۔ ان کے سینے میں بھی دل ہماری طرح ہی دھڑکتا ہے۔
تو پهر ہمیں کس بات کی سزا دی جاتی ہے ؟
ہمارا جرم کیا ہوتا ہے؟
شاید ہمارا جرم یہ ہوتا ہے کہ ہمارا خون سرخ ہے اور معاشرے کا سفید۔
ماں میں ساری زندگی جینے کی چاه میں مرتا چلا گیا۔
سفید خون رکھنے والے لوگ کبھی مذہب کی آڑ لے کر تو کبھی جسم فروشی سے انکار پر ہمارے جسموں میں گولیاں اتار دیتے ہیں۔
میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، مجھے بھی گولیاں ماری گئیں۔
جب مجھے ہوش آیا تو ڈاکٹر مجھے امید کی کرن دکهانے کی کوشش میں آہستہ آہستہ میرے کان میں سرگوشی کر رہا تھا کہ اگر تم ہمت کرو تو زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہو۔
میں نے بہت مشکل سے اپنے ہونٹوں کو جنبش دی اور ڈاکٹر سے کہا کہ اگر میں ہمت کر کے لوٹ بھی آیا تو کیا مجھے جینے دیا جائے گا؟
جب ملک الموت میرے پاس آیا تو میں نے اس سے جینے کے لیے چند لمحوں کی درخواست کی۔
نجانے کیوں اس بار مجھے امید تھی کہ تم دوڑی چلی آؤ گی، میرا بچہ کہتے ہوئے مجھے اپنے سینے سے لگالو گی۔
میرے سر کو اپنی گود میں رکھ کر میرے زخموں کی ٹکور کر کے مجھے اس دنیا سےرخصت کرو گی۔
لیکن موت کے فرشتے نے چند لمحوں کی مہلت بھی نہ دی۔
سنا ہے قیامت کے روز بچوں کو ماں کےحوالے سے پکارا جائے گا۔
بس ماں تم سے اتنی سی التجا ہے کہ اس دن تم مجھ سے منہ نہ پهیرنا۔
تمہاری محبت کا طلبگار۔
تمہارا خواجہ سر ا بیٹا یا بیٹی !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ ایک نہایت دکھی معاملہ ہے ۔ جس کو بجائے حل کرنے کے اُن مجبور انسانوں کو جن کو خود اللہ نے عقیم بنایا ، اُنہیں مسلمانوں میں ذلّت کی زندگی گذارنے پر مجبور کرکے کیوں قومِ لوط کے لونڈے بازوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے ؟
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ ﴿7:80﴾
اور جب لوط نے اپنی قوم کے لئے کہا ، " کیا تم ایسی فحاشی کرتے ہو جو تم سے سابق العالمین میں کوئی ایک بھی نہیں کرتا تھا "
إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاءِ ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ ﴿7:81﴾
یقیناً تم عورتوں کے علاوہ مردوں سے شہوت کرتے ہو! بلکہ تم قومِ مسرفون ہو !
کیا وہ انسان جنھیں اللہ نے عقیم تخلیق کیا ، وہ پچھلے 100 سالوں سے ہیں یااُس وقت سے ، جب سے اللہ نے قومِ لوط کی آزمائش کے لئے ،خود اُنہیں " عقیم " تخلیق کرنا شروع کیا؟
یاد رہے کہ ، جنسی فعل ، اللہ کی آیات ہے ۔
کیوں پریشان ہو گئے نا ؟
روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کی طرف سے انسانوں کو ،زوج ( مرد اور عورت ) کے جنسی فعل (تَغَشَّاهَا) کے متعلق اللہ کی آیت میں وضاحت دی :
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا
لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِيفًا
فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ
آتَيْتَنَا صَالِحاً لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ[7:189]
وہی ہے جس نے تمھیں نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ میں سے خلق کیا اور اُس (نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ) میں سے اُس (نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ) کا زَوْجَ بنایا۔ تاکہ وہ (زَوْجَ) اُس (نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ) کی طرف سکون محسوس کرے۔ پس جب اُس (زَوْجَ) نے جب اُس (نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ) کو ڈھانپا تو اُس (نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ) نےحَمَلَ اُٹھایا، خفیف ساحَمَلَ، وہ اِ س (حَمَلَ) کے ساتھ گھومتی پھرتی پس جب وہ (حَمَلَ) ثَقَلَ (وزن دار) ہوا۔ اُ ن دونوں نے اپنے ربّ سے دعا کی اگر تو نے ہمیں صَالِح (مذکر) دے گا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔
اٹھارہ سال قبل میرا شوہر جہاد کے لئے افغانستان گیا تھا۔
پھر لوٹ کے نہیں آیا
بس اتنا ہوا کہ محلے کے مولوی صاحب چند پڑوسیوں کے ساتھ آکر یہ اطلاع دے گئے کہ تمھارے میاں نے تم لوگوں کے لئے جنت میں مکان تعمیر کر دیا ہے۔
" کیسا مکان ؟
کہاں ہے وہ۔۔؟
" میں نے سوال کیا
وہ کافروں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا مگر اس نے مرتے ہوئے بھی کئی کافر جہنم رسید کر دئیے تھے اس بات کا ہمیں فخر ہے۔
"ا چھا" میں اتنا کہہ سکی۔
پڑوسی آنے لگے۔۔
کوئی مبارک باد دیتا تو کوئی رو کر تسلی۔۔
مولوی صاحب کی بیوی بھی آئی
کہنے لگی تم خوش قسمت ہو کہ تمھارے مرد نے تم لوگوں کے لیے جنت میں ٹھکانہ کر دیا ہے۔۔
میں خاموش رہی۔۔
" ٹھکانہ ۔۔۔؟
اور دنیا میں میری ذمہ داری؟
اپنے بچے کی زمہ داری ؟
اسک ا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"
میں کم عمر تھی
روایات کی پابند تھی۔۔
میں جس علاقے سے تھی وہاں کی عورت اپنے مرد سے کہیں زیادہ اپنی روایات کی پابند ہوتی ہے۔
میں بھی ان میں سے ایک تھی۔۔
3 روز تک سب آتے رہے۔۔
" دور دراز " سے بھی لوگ ملنے آئے اور میرے شہید میاں کی بہادری کے قصے سناتے رہے۔
اور پھر سب لوگ چلے گئے۔۔
بچہ کیسے پالا یہ میں جانتی ہوں
نہ ہی مولوی صاحب جانتے تھے نہ ہی اسکی بیوی
نہ ہی وہ لوگ جو " دور دراز " سے آئے تھے
جنہوں نے میرے شوہر کی بہادری جواں مردی کے قصے مجھے سنائے وہ بھی نہیں جانتے کہ میں نے کیسے اور کہاں کہاں مزدوری کی۔
کسی نے میری مدد نہ کی۔۔
جوانی کی بیوہ اور ایک بیٹے کی ماں
کیسے زندہ تھے ہم دونوں یہ خدا جانتا ہے۔۔
میرے شہید نے اچھا کام کیا ہوگا۔
جنت میں گیا ہوگا
یہ تو اللہ کو معلوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے واسطے جنت میں گھر بنایا ہوگا کہ نہیں۔۔
یہ بھی اللہ کو معلوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر اس دنیا میں فی الحال ہمیں اکیلا چھوڑ گیا۔
انیس سالہ بیوہ اور ایک سال کا بیٹا۔
میں پڑھی لکھی نہیں تھی، مگر بچہ پڑھایا لکھایا جوان کیا۔
بچے نے بھی محنت کی مزدوری کی۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے یونیورسٹی میں پہنچ گیا
۔
آج پھر چند پڑوسی میرے دروزے پر آئے ہیں۔
مبارک باد دینے۔
کہنے لگے تمہارا بچہ بہادر تھا۔
اس نے یونیورسٹی کے کئی دوسرے بچوں کی اکیلے جان بچائی۔
غمگین مت ہو۔۔
رونا بھی نہیں،
تم ایک شہید کی ماں ہو۔۔۔
میرے لال نے دس گولیاں کھائیں۔
مگر رب کو یہ ہی منظور تھا۔۔
پہلے شہید کی بیوہ اور اب شہید کی ماں
وہ لوگ کون تھے؟
جنہوں نے میرے بچے کو ایسے مارا۔۔
کسی نے بتایا وہ بھی مسلمان تھے، جہادی تھے ۔
کسی مدرسے تعلق رکھتے تھے۔۔
سارے ملک میں اسلام پھیلانا چاہتے تھے ۔ ۔ ۔
دو آدمی اُن کے بھی مارے گئے ۔ ۔ ۔
آج میں پھر سے بے سہارا ہوں
اور اب یہ سوچ رہی ہوں کہ میرے شوہر نے کیا واقعی جنت میں گھر بنایا ؟؟
یا وہ لوگ جو میرے بچے کے قاتل ہیں ۔۔۔؟؟؟
مجھے ڈر ہے کہ میرے بچے کے قاتلوں کے گھر بھی کوئی گیا ہوگا۔۔۔۔
کسی نے انکی ماؤں کو، بیواؤں کو بھی کہا ہوگا کہ تمھارا شہید جنت میں گیا ہے۔
اور اس نے وہاں تم لوگوں کے لئے گھر بنایا ہے ۔۔۔۔۔
میرے ذہن میں کئی سوال ہیں۔۔۔
میں آج پھر سڑک کنارے اکیلی بیٹھی ہوں ۔۔۔
فرق صرف اتنا ہے کہ
اٹھارہ انیس سال قبل ایک بچہ ساتھ تھا۔۔
آج وہ بھی نہیں ۔۔۔۔
کوئی مجھے بتاتا کیوں نہیں کہ میں کہاں جاؤں۔۔ ؟
میرا کوئی ٹھکانہ دنیا میں کیوں نہیں بنتا ؟؟
میں ہاتھ جوڑتی ہوں
مجھ بیوہ کا ٹھکانہ دنیا میں بنا دو۔۔
مجھے تمھاری جنت سے غرض نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے سوال کا جواب دو ۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھاری جنت تمہیں مبارک
بس میرا ٹھکانہ مجھے دنیا میں بنا دو ۔۔۔۔ !
(نامعلوم)
جب ابّا کی تنخواہ کے ساڑھے تین سو روپے پورے خرچ ہو جاتے تب امّاں ہمارا پسندیدہ پکوان تیار کرتیں۔ ترکیب یہ تھی کہ سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے کپڑے کے پرانے تھیلے میں جمع ہوتے رہتے اور مہینے کے آخری دنوں میں ان ٹکڑوں کی قسمت کھلتی۔ پانی میں بھگو کر نرم کر کے ان کے ساتھ ایک دو مٹھی بچی ہوئی دالیں سل بٹے پر پسے مصالحے کے ساتھ دیگچی میں ڈال کر پکنے چھوڑ دیا جاتا۔ حتیٰ کہ مزے دار حلیم سا بن جاتا اور ہم سب بچے وہ حلیم انگلیاں چاٹ کر ختم کر جاتے۔ امّاں کے لیے صرف دیگچی کی تہہ میں لگے کچھ ٹکڑے ہی بچتے۔ امّاں کا کہنا تھا کہ کھرچن کا مزہ تم لوگ کیا جانو۔
امّاں ایسی سگھڑ تھیں کہ ایک دن گوبھی پکتی اور اگلے دن اسی گوبھی کے پتوں اور ڈنٹھلوں کی سبزی بنتی اور یہ کہنا مشکل ہوجاتا کہ گوبھی زیادہ مزے کی تھی یا اس کے ڈنٹھلوں کی سبزی۔
امّاں جب بھی بازار جاتیں تو غفور درزی کی دکان کے کونے میں پڑی کترنوں کی پوٹلی بنا کے لے آتیں۔ کچھ عرصے بعد یہ کترنیں تکئے کے نئے غلافوں میں بھر دی جاتیں۔ کیونکہ امّاں کے بقول ایک تو مہنگی روئی خریدو اور پھر روئی کے تکیوں میں جراثیم بسیرا کر لیتے ہیں۔ اور پھر کترنوں سے بھرے تکیوں پر امّاں رنگ برنگے دھاگوں سے شعر کاڑھ دیتیں۔ کبھی لاڈ آجاتا تو ہنستے ہوئے کہتیں،
"تم شہزادے شہزادیوں کے تو نخرے ہی نہیں سماتے جی، سوتے بھی شاعری پر سر رکھ کے ہو۔"
عید کے موقع پر محلے بھر کے بچے غفور درزی سے کپڑے سلواتے۔ ہم ضد کرتے تو امّاں کہتیں وہ تو مجبوری میں سلواتے ہیں کیونکہ ان کے گھروں میں کسی کو سینا پرونا نہیں آتا۔ میں تو اپنے شہزادے شہزادیوں کے لیے ہاتھ سے کپڑے سیئوں گی۔ جمعۃ الوداع کے مبارک دن ابّا لٹھے اور پھول دار چھینٹ کے دو آدھے آدھے تھان جانے کہاں سے خرید کر گھر لاتے۔ لٹھے کے تھان میں سے ابّا اور تینوں لڑکوں کے اور چھینٹ کے تھان میں سے دونوں لڑکیوں اور امّاں کے جوڑے کٹتے اور پھر امّاں ہم سب کو سلانے کے بعد سہری تک آپا نصیبن کے دیوار ملے کوارٹر سے لائی گئی سلائی مشین پر سب کے جوڑے سیتیں۔
آپا نصیبن سال کے سال اس شرط پر مشین دیتیں کہ ان کا اور ان کے میاں کا جوڑا بھی امّاں سی کے دیں گی۔ ہم بہن بھائی جب ذرا ذرا سیانے ہوئے تو ہمیں عجیب سا لگنے لگا کہ محلے کے باقی بچے بچیاں تو نئے نئے رنگوں کے الگ الگ چمکیلے سے کپڑے پہنتے ہیں مگر ہمارے گھر میں سب ایک ہی طرح کے کپڑے پہنتے ہیں۔ مگر امّاں کے اس جواب سے ہم مطمئن ہوجاتے کہ ایک سے کپڑے پہننے سے کنبے میں محبت قائم رہتی ہے۔ اور پھر ایسے چٹک مٹک کپڑے بنانے کا آخر کیا فائدہ جنھیں تم عید کے بعد استعمال ہی نہ کر سکو۔
چھوٹی عید یوں بھی واحد تہوار تھا جس پر سب بچوں کو ابّا ایک ایک روپے کا چاند تارے والا بڑا سکہ دیتے تھے۔ اس کے انتظار اور خرچ کرنے کی منصوبہ بندی میں چاند رات آنکھوں میں ہی کٹ جاتی۔ صبح صبح نماز کے بعد ہم بچوں کی شاپنگ شروع ہوجاتی۔ سب سے پہلے ہر بہن بھائی کوڈو کے ٹھیلے سے ایک ایک پنی والی گول عینک خریدتا جسے پہن کر چال میں اتراہٹ سی آجاتی۔ پھر سب کے سب چاندی کے ورق لگی میٹھی املی اس لالچ میں خریدتے کہ رفیق افیمچی ہر ایک کو املی دیتے ہوئے تیلی جلا کر املی میں سے شعلہ نکالے گا۔
پھر خانہ بدوشوں کے خوانچے میں بھرے مٹی کے کھلونوں اور رنگین کاغذ اور بانس کی لچکدار تیلیوں سے بنے گھگو گھوڑے کی باری آتی۔ آخر میں بس اتنے پیسے بچتے کہ سوڈے کی بوتل آ سکے۔ چنانچہ ایک بوتل خرید کر ہم پانچوں بہن بھائی اس میں سے باری باری ایک ایک گھونٹ لیتے اور نظریں گاڑے رہتے کہ کہیں کوئی بڑا گھونٹ نہ بھر جائے۔
پیسے ختم ہونے کے بعد ہم دوسرے بچوں کو پٹھان کی چھرے والی بندوق سے رنگین اور مہین کاغذ سے منڈھے چوبی کھانچے پر لگے غبارے پھوڑتے بڑی حسرت سے دیکھتے رہتے۔ بندر یا ریچھ کا تماشا بھی اکثر مفت ہاتھ آ جاتا اور اوپر نیچے جانے والے گول چوبی جھولے میں بیٹھنے سے تو ہم سب بہن بھائی ڈرتے تھے اور اس کا ٹکٹ بھی مہنگا تھا۔
بقر عید پر سب کے ہاں قربانی ہوتی سوائے ہمارے۔ مگر یہاں بھی امّاں کی منطق دل کو لگتی'
" جو لوگ کسی وجہ سے دنیا میں قربانی نہیں کر سکتے ان کے بکرے اللہ میاں اوپر جمع کرتا رہتا ہے۔ جب ہم اوپر جائیں گے تو ایک ساتھ سب جانور قربان کریں گے، انشااللہ!"
ایک دفعہ گڑیا نے پوچھا،
"امّاں کیا ہم جلدی اوپر نہیں جاسکتے؟"
ہر سوال پر مطمئن کر دینے والی امّاں چپ سی ہوگئیں اور ہمیں صحن میں چھوڑ کر اکلوتے کمرے میں چلی گئیں۔ ہم بچوں نے پہلی بار کمرے سے سسکیوں کی آوازیں آتی سنیں مگر جھانکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر گڑیا کی بات پر رونے کی کیا بات تھی۔
کوئی چھ سات ماہ بعد ایک دن امّاں باورچی خانے میں کام کرتے کرتے گر پڑیں۔ ابّا نوکری پر تھے اور ہم سب سکول میں۔گھر آ کر پتہ چلا کہ آپا نصیبن امّاں کی چیخ سن کر دوڑی دوڑی آئیں اور پھر گلی کے نکڑ پر بیٹھنے والے ڈاکٹر محسن کو بلا لائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ امّاں کا دل اچانک ساتھ چھوڑ گیا ہے۔
تدفین کے بعد ایک روز گڑیا نے میرا بازو زور سے پکڑ لیا اور یہ کہتے ہوئے پھوٹ پڑی،
" خود تو اوپر جا کر اگلی عید پر اکیلے اکیلے بکرے کاٹیں گی وہاں خود کھائیں گی اور ہمیں کون پکا کر دےگا !"
(ماخوذ از نا معلوم)