فوجی شادی ہال کیوں چلاتے ہیں؟
جسٹس گلزار احمد پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مہنگے کمرشل علاقے میں دفاعی مقاصد کے لیے فراہم کی گئی زمین پر قائم شادی ہالز ہٹانے کے فیصلے پر فوری عمل کرنے کی ہدایت کی ہے ۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تجاوزات ختم کرنے کے مقدمے میں عدالت نے سیکرٹری دفاع کی رپورٹ مسترد کر دی ہے ۔
عدالت نے ملٹری لینڈ اور کنٹونمنٹس سے تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے اور متعلقہ حکام کو شادی ہالز اور تجارتی مراکز گرانے کے حکم پر فوری عملدرآمد کا حکم دیا ہے ۔
جسٹس گلزار احمد نے بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے کہا کہ آرمی کا شادی ہال چلانے کا کیا جواز بنتا ہے ۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آرمی کو کیا اختیار کہ سرکاری زمین کسی فرد کے حوالے کر دے ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ شادی ہال کے کرائے کے پیسے شہداء کے خاندانوں کو دیے جاتے ہیں ۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہمیں کیا پتہ یہ پیسے کہاں جاتے ہیں ۔
جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ ہم مزید وقت نہیں دے سکتے یہ 22 جنوری کا حکم ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ حکومت کام کرنا چاہے تو 5 منٹ لگتے ہیں، بلڈوزر پہنچ جاتے اور جگہ صاف ہوجاتی ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ہمیں پتہ ہے کون کیا کررہا ہے یہ کسی ایک پلاٹ کا معاملہ نہیں، راشد منہاس کے علاقے میں فوجی زمین پر شادی ہال اور نیوی کے علاقے میں فیلکن مال بن گیا ہے ۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ سب ہٹانا پڑیں گے، فوجیوں کوکیا مسئلہ ہے کہ وہ شادی ہال بنائیں ۔
سماعت کے دوران وکیل رشید اے رضوی اور جسٹس گلزار احمد کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا ۔
وکیل نے کہا، کہ آپ کسی کو نہیں سن رہے ۔
جسٹس گلزار احمد نے کہ،ا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کو ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کا اختیار نہیں ۔
جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا، کہ ڈی ایچ اے غلط بنا ہے توغلط ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے وکیل رشید رضوی سے کہا کہ ”میں توکہیں بھی چھپرا ڈال کر رہ لوں گا، جسٹس گلزار احمد نے کہا، یہ ریٹائرڈ کرنل کون ہیں جو این او سی جاری کررہے ہیں ۔“
جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا ، کہ آرمی اتھارٹی سرکاری زمین کسی پرائیوٹ شخص کو کیسے دے سکتی ہے،
جو دستاویزات پیش کررہے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔
وکیل رشید رضوی نے کہا، کہ آپ کور ہیڈ کوارٹر کو نوٹس کردیں ۔
رشید اے رضوی کا کہنا تھا ،کہ 72 سالہ تاریخ میں تو کسی نے نہیں پوچھا ۔
جسٹس گلزار احمد پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مہنگے کمرشل علاقے میں دفاعی مقاصد کے لیے فراہم کی گئی زمین پر قائم شادی ہالز ہٹانے کے فیصلے پر فوری عمل کرنے کی ہدایت کی ہے ۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تجاوزات ختم کرنے کے مقدمے میں عدالت نے سیکرٹری دفاع کی رپورٹ مسترد کر دی ہے ۔
عدالت نے ملٹری لینڈ اور کنٹونمنٹس سے تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے اور متعلقہ حکام کو شادی ہالز اور تجارتی مراکز گرانے کے حکم پر فوری عملدرآمد کا حکم دیا ہے ۔
جسٹس گلزار احمد نے بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے کہا کہ آرمی کا شادی ہال چلانے کا کیا جواز بنتا ہے ۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آرمی کو کیا اختیار کہ سرکاری زمین کسی فرد کے حوالے کر دے ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ شادی ہال کے کرائے کے پیسے شہداء کے خاندانوں کو دیے جاتے ہیں ۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہمیں کیا پتہ یہ پیسے کہاں جاتے ہیں ۔
جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ ہم مزید وقت نہیں دے سکتے یہ 22 جنوری کا حکم ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ حکومت کام کرنا چاہے تو 5 منٹ لگتے ہیں، بلڈوزر پہنچ جاتے اور جگہ صاف ہوجاتی ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ہمیں پتہ ہے کون کیا کررہا ہے یہ کسی ایک پلاٹ کا معاملہ نہیں، راشد منہاس کے علاقے میں فوجی زمین پر شادی ہال اور نیوی کے علاقے میں فیلکن مال بن گیا ہے ۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ سب ہٹانا پڑیں گے، فوجیوں کوکیا مسئلہ ہے کہ وہ شادی ہال بنائیں ۔
سماعت کے دوران وکیل رشید اے رضوی اور جسٹس گلزار احمد کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا ۔
وکیل نے کہا، کہ آپ کسی کو نہیں سن رہے ۔
جسٹس گلزار احمد نے کہ،ا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کو ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کا اختیار نہیں ۔
جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا، کہ ڈی ایچ اے غلط بنا ہے توغلط ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے وکیل رشید رضوی سے کہا کہ ”میں توکہیں بھی چھپرا ڈال کر رہ لوں گا، جسٹس گلزار احمد نے کہا، یہ ریٹائرڈ کرنل کون ہیں جو این او سی جاری کررہے ہیں ۔“
جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا ، کہ آرمی اتھارٹی سرکاری زمین کسی پرائیوٹ شخص کو کیسے دے سکتی ہے،
جو دستاویزات پیش کررہے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔
وکیل رشید رضوی نے کہا، کہ آپ کور ہیڈ کوارٹر کو نوٹس کردیں ۔
رشید اے رضوی کا کہنا تھا ،کہ 72 سالہ تاریخ میں تو کسی نے نہیں پوچھا ۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ چلیں آج تاریخ بدلتے ہیں ۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں