Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 13 مئی، 2019

ہمارا اپنا نظامِ احتساب ہے-

وٹس ایپ پر گردش کرنے والی ایک افوہ یا حقیقت ؟
جرنل مشرف اور دوسرے جرنیلوں کی جائیدادوں کے قصےسن کر آپ کی رونگٹےکھڑے ہو جائیں ۔ ان جائیدادوں کو بیچ کر  کئی بڑے کالا باغ ڈیم بنائے جاسکتے ہیں نیب کو ثبوت پیش۔
٭٭٭٭٭
نیب نےسابق ڈکٹیٹر پرویزمشرف کےخلاف اختیارات کےغلط استعمال اوراپنےپسندیدہ آفیسرزکوکئی مہنگےاور قیمتی پلاٹس جن کی مالیت1000کھرب روپےتک ہے،ان کی غیرقانونی الاٹمنٹ کےحوالےسےنئےثبوت جمع کرلیےہیں۔ 
ثبوتوں میں کھربوں روپےمالیت کی 10اہم پراپرٹیز کی ایک فہرست شامل ہےجو مشرف اوران کے خاندان کے افراد کےنام پرتھی۔
 یہ تازہ ثبوت ایک ریٹائرڈآرمی افسرکرنل ایڈووکیٹ انعام رحیم نےمنگل کوقومی احتساب بیورو راولپنڈی کےڈپٹی ڈائریکٹرکوآرڈینشن میں جمع کرائے۔
 نیب کےایک اہلکار نےدی نیوزکو تصدیق کی کہ بیورو سابق فوجی حکمران کےخلاف اختیارات کاناجائزاستعمال کرنےکےحوالےسے ایک انکوائری میں ثبوتوں کاجائزہ لےرہاہے۔ اس سے قبل نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر کوآرڈ ینیشن ناصررضا نےنیب آرڈیننس 1999کےتحت کرنل انعام سےسابق ڈکٹیٹرکےخلاف دستاویزی ثبوت مانگےتھے۔
 تاہم، نیب نے تاحال سابق ڈکٹیٹرکے خلاف طلبی کا نوٹس جاری کرنا ہے۔ خط میں کہاگیاہے
’’ کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہےکہ دفاعی مقاصد کیلئےرکھے گئے ہزاروں پلاٹوں کی الاٹمنٹ سے قومی خزانے کو کھربوں روپے کا نقصان ہوااور کم از کم اس رقم سے ایک کالاباغ ڈیم تعمیر ہوسکتا تھا لہذا یہ درخواست کی جاتی ہےکہ پرویزمشرف کی جانب سےالاٹ اورتحفہ دی گئی زمین کےمکمل ریکارڈکی فراہمی اورحکومتِ پاکستان کو واپسی کیلئےڈی جی ویلفئیراینڈ ری ہیبلیٹیشن کو مناسب ہدایات دی جائیں کیونکہ تمام زمینیں ایسے ملک میں ہیں جو پاکستان کی عوام کی ملکیت ہے۔‘‘
 نیب کو جمع کرایاگیاحالیہ خط جس کی کاپی دی نیوز کےپاس بھی ہے، اس میں مشرف اور اس کےخاندان کےافراد کی ملکیت ملک کے مختلف حصوں میں واقع 10سے زائد پراپر ٹیزکی فہرست ہے اور ان میں سے صرف دو کی مالیت ایک ارب بنتی ہے۔
 مشرف اور ان کے خاندان کے نام پرموجود پلاٹوں میں:
٭- پلاٹ نمبر172 اور 301 ،ہرایک 2000 گز اورمالیت 50کروڑروپےہے۔ خیابان فیصل ڈی ایچ اےکراچی۔
٭-  ڈی ایچ اے کراچی کی آرمی آفیسرہاؤسنگ سوسائٹی زمزمہ میں دوگھر، 
ڈی ایچ اےاسلام آباد کےسیکٹرڈی میں ایک پلاٹ۔
٭-ڈی ایچ اے اسلام آبادمیں کارنر پلاٹ نمبر 1A ۔
٭-  ڈی ایچ اے اسلام آباد سیکٹرڈی میں پلاٹ نمبر 15Aاور15B۔

 نیب کو بتایاگیاہےکہ سابق جنرل پرویز مشرف نے ایک انوکھی پالیسی متعارف کرائی تھی کہ بطورآرمی چیف نوکری کی آخری تاریخ کو جب وہ آخری خط پر دستخط کریں گے۔ تو اس کے ساتھ خاص پلاٹ کا الاٹمنٹ لیٹر بھی ہونا چا ہیے جو گُڈ سگنیچرپلاٹ/آخری دستخط پلاٹ کہلاتا ہے۔ 
اس طرح ان کے بعد آنے والے جنرل(ر)کیانی اور جنرل (راحیل) نے بھی فائدے حاصل کیے۔
حتٰی کہ جنرل(ر) یوسف نے بھی بطوروائس چیف لاسٹ سگنیچرپلاٹ حاصل کیا۔
 بیورو کوبتایاگیاکہ انھوں نے ایک خفیہ پالیسی بھی متعارف کرائی کہ ،
ریٹائرمنٹ پر  ہر آرمی چیف کوتمام سہولیات سےآراستہ اورتیارشدہ 2کنال کا گھرتحفہ میں دیاجائےگا۔ 
خاص گھروں کی تعمیراور تزئین و آرائش، گالف کلب ڈی ایچ اے لاہورکےسرکاری بجٹ سےکی گئی۔
 شکایت کرنےو ا لے نے انکشاف کیا:-
٭-   دوکنال پرواقع مکان نمبر185، فیز2،ڈیفنس رئیاگالف کلب لاہور جنرل کیانی کو تحفہ کیاگیا ۔
٭-  مکان نمبر 68فیز نمبر 1، ڈیفنس رئیاگالف کلب لاہورجنرل راحیل شریف کو تحفے میں دیاگیا۔ 
خط میں الزام لگایاگیاہے کہ جنرل (ر) مشرف نے سینئرآرمی افسران میں کرپشن کی بنیاد ڈالی۔
 سینئرافسران کی حمایت حاصل کرنےکیلئے، اس نے ایک پالیسی بنائی ہر جنرل رینک کےافسرکو5پلاٹ اور 50ایکٹراراضی دی جائےگی۔
 خط میں کہاگیاہے،
’’دیہہ اوکیواڑی ، جو اب کراچی کرکٹ  اسٹیڈیم ہے۔ وہ دوسری جنگ عظیم کےدوران برطانوی حکومت نےاس وعدے کےساتھ لی گئی تھی کہ جنگ ختم ہونے کے چھ ماہ بعد یہ زمین اس کےحقیقی مالکان کولوٹادی جائے گی۔ 
تاہم کے ڈی اےسکیم شروع ہونے کےبعدمذکورہ بالازمین سٹی گورنمنٹ کوکرکٹ اسٹیڈیم پراجیکٹ کیلئےدےدی گئی۔
"  نیب کوبتایاگیاہےکہ سال 2002کےدوران سابق جنرل مشرف نےمذکورہ بالا18 ایکٹر اراضی سینئرافسران کو ان کی عہدےسےبالاترہوکرغیرقانونی طورپرالاٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 
حقیقی مالکان نے غیرقانونی الاٹمنٹ کو مقدمہ نمبر 814/2002کے ذریعے چیلنج کردیا جو سندھ ہائی کورٹ میں زیرالتوا ہے ۔
لیکن تب بھی آرمی آفیسر ہاؤسنگ سوسائٹی پی ٹی II نیشنل اسٹیڈیم کراچی ، کے نام پر ایک غیرقانونی سوسائٹی شروع کردی گئی اور سینئرافسران کو الاٹ کردی گئی، پلاٹ لینےوالے چندلوگوں کےنام مندرجہ ذیل ہیں:
1-جنرل احسان الحق(دوکنال کے دو پلاٹ – پلاٹ نمبر29اور پلاٹ نمبر15)
 2-انھیں ڈی ایچ اے اسلام آباد میں بھی دو پلاٹ دیے گئے۔
3- سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمدشجاع پاشاکوبھی کراچی کرکٹ اسٹیڈیم کی زمین پر 2کنال کا پلاٹ دیاگیا۔
 4- صرف میجرجنرل شاہدحشمت نے یہ کہتے ہوئے کراچی اسٹیڈ یم میں پلاٹ لینےسے انکار کیاتھاکہ یہ زمین مقامی لوگوں کی ہےاوروہ اس زمین کے حقدار نہیں ہے۔  
 ’’یہ قابل ذکر بات ہے کہ جب ڈاکٹرعافیہ صدیقی کواسلام آباد میں امریکیوں کےحوالے کیاگیاتھاتب جنرل احسان ڈی جی آئی ایس آئی تھے"۔
 3-جنرل اشفاق پرویزکیانی کو گالف کورس راولپنڈی میں 4کنال کا ایک پلاٹ دیاگیا۔ 5-جنرل کیانی کو بطورچیف آف آرمی سٹاف ڈی ایچ اےاسلام آبادمیں 800گز  کا پلاٹ بھی دیاگیالیکن انھیں اردگرد کی 20کنال زمین پر قبضہ کرنے بھی اجازت دی گئی جسے ای ایل فیز1کہتے ہیں۔ سائٹ پلان کی نقل خط کےساتھ لگائی گئی تھی۔
6-جنرل یوسف پلاٹ نمبر28،
 7- جنرل عزیز پلاٹ نمبر14۔
 8- لیفٹیننٹ جنرل مصطفیٰ خان پلاٹ نمبر15۔
9- لیفٹیننٹ جنرل عبدالجباربھٹی پلاٹ نمبر19۔
10- لیفٹیننٹ جنرل حسینی۔
11- لیفٹیننٹ جنرل عارف حسینی۔
12۔ لیفٹیننٹ جنرل حمید رب نواز۔
13۔ لیفٹیننٹ جنرل شفاعت اللہ پلاٹ نمبر15۔
14-لیفٹیننٹ جنرل امتیازپلاٹ نمبر116۔
15- لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین پلاٹ نمبر115۔
16-  لیفٹیننٹ جنرل سیداطہرعلی پلاٹ نمبر113۔
17-لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج پلاٹ نمبر33۔
18- لیفٹیننٹ جنرل اعجاز بخشی پلاٹ نمبر34۔
19-  لیفٹیننٹ جنرل انیس عباس پلاٹ نمبر20۔
20-  لیفٹیننٹ جنرل عارف حیات پلاٹ نمبر2۔
21- لیفٹیننٹ جنرل طاہر قاضی پلاٹ نمبر12۔
22۔  سابق ڈی جی این ایل سی میجرجنرل ظہیراخترپلاٹ نمبر54۔؎
23-  میجر جنرل خالد ظہیراختر جو مبینہ طورپربطورڈی جی این ایل سی کے میگا کرپشن کیس میں بھی ملوث ہیں اور پرویز مشرف نے انھیں لگاتار 7سال کیلئے ڈی جی این ایل سی لگائے رکھا۔
24-  میجرجنرل احتشام ضمیر پلاٹ نمبر 26۔
25-  میجر جنرل محسن (ڈی جی ڈبلیوآر) پلاٹ نمبر 3سیکٹرڈی،ڈی ایچ اےفیز1اسلام آباد۔ 

 جنرل پرویز مشرف نے اپنی پوری مدت کے دوران تمام میجر جنرلز، لیفٹیننٹ جنرلز اور جنرلز جو ان کے ساتھ کام کررہے تھے، ان سب کوغیرقانونی طورپرکمرشل پلاٹ دیئے۔

سائٹ پلان کے ساتھ یہ مکمل فہرست بھی نیب کو جمع کرادی گئی ہے۔ 
خط میں مشرف پر یہ بھی الزام لگایاگیاہےکہ زرعی راضی کی الاٹمنٹ کے بعد سینئرافسران فوج کے وسائل استعمال کرسکتے ہیں۔
’’ وہ اپنی زمینوں کی تعمیروترقی کیلئے فوجی وسائل استعمال کرسکتے ہیں۔‘‘ 
درجنوں انجینئر یونٹس، ان کی افرادی قوت اور حتٰی کہ وہ ایندھن جو مسلح افواج کیلئے ہوتا ہے سینئرافسران نےاپنی زرعی زمینوں کیلئےاس کا بھی غلط استعمال کیا۔
نیب کوبتایاگیاہے کہ سینئردفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب بھی فائدہ اٹھانے والوں میں سے ایک تھے۔ ان سے اپنے اثاثے، رہائشی پلاٹس، کمرشل پلاٹس اور زرعی زمین کوظاہر کرنے کی درخواست کی جاسکتی ہے اور انھیں عوام کو بتانا چاہیے کہ انھوں نے کس طرح اپنی زرعی اراضی کی تعمیر کی۔
 بیوروکو بتایاگیاکہ جنرل مشرف نے ڈی ایچ اے سکیموں کےتعمیرشدہ فیزز سینئرافسران کوان کی حمایت حاصل کرنے کیلئےالاٹ کردیےتھے اور نتیجتاً وہ اب بھی اس کے ساتھ کھڑے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کیلئےاس کی حمایت کرتے ہیں۔
 جنرل پرویز نےوردی کےمعاملےپر مخصوص سیاستدانوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ڈی آئی خان میں ہزاروں کنال اراضی انھیں الاٹ کی تھی جبکہ مذکورہ اراضی شہداء کے خاندانوں کیلئے مختص تھی۔
 اس حوالے سے پی ٹی آئی کے سینیٹرشفقت محمود کی جانب سے ایک الگ شکایت دائر کرائی گئی تھی جوپہلےہی چیئرمین نیب کےپاس ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔