Pages
میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)
ہفتہ، 29 جون، 2019
صرف پاکستانی ہی نہیں ، غیرملکی بھی
ہم اور ہمارے افکار
ایسٹ تِمور پہنچ کر سوچا تھا کہ پہلے سفر نامہ لکھوں لیکن میرے ہم شہر نوجوان کی پکار ، جہاز میں پڑھی اور پھر لیپ ٹاپ کھولتے ہی سب سے پہلی پوسٹ اُس کی تھی ۔سوچا کہ چلو دلجوئیِ نوجوان لکھاری کر دوں ۔
کہتے ہیں دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ۔ یہ وجہ ہے کہ غوری سے دوستی انٹرنیٹ کی لہروں سے ہوئی اوراب وہ میرے ہردل عزیز نوجوان لکھاری اور ذاتی دوستوں میں سے ہے ۔
غوری کی باتوں اور لکھائیں میں ضرب ہے ، جِسے میں کسی مردِ فتنہ جو کے گھونسے کی طرح شدید تو نہیں کہوں گا اور نہ کسی خاتون کی لگائی ہوئی چماٹ کی طرح نازک ،جس کا مجھے اور آپ سب کو یقیناً بچپن سے تجربہ ہوگا ۔ یہ خاتون ماں یا بڑی بہن کی صورت میں ہماری زندگی میں داخل ہوتی ہیں اول الذکّر تو ہماری پہنچ سے باہر ہوتی ہے لیکن دوسری خاتون کی سو سنار کے بدلے ایک لوہار کی جمادی جاتی ہے ۔
ہاں تو ذکر ہورہا تھا غوری کی تحریروں کا ، انسان کی تحریروں میں نکھار یا تو پیسہ کرتا ہے اور یا زبوں حالیءِ عشق یا معیشت ۔
غوری کے عشق کے بارے میں زیادہ معلومات تو نہیں ۔ہاں البتّہ معیشت میں وہ ابھی ملک کے کئی نوجوانوں کی طرح معیشت کے خطِ فارغ البالی سے نیچے ہے ، کیوں کہ کمانے والا ایک ہاتھ ہوتاہے اور کھانے والے دو ۔ جو انسان کی زبان میں تلخی بھر دیتے ہیں۔
تلخیاں دو طرح کی ہوتی ہیں:
اک زبانی اور دوسری تحریری ۔
میں نے غوری کو ہمیشہ اچھا سامع پایا ہے وہ دوسروں کی سنتا ہے اور احساسات کی ترجمانی تحریری کرتا ہے ۔
اُس کی شروع کی تحریروں اور اب کی تحریروں کے درمیان الفاظ کا انتخاب یوں سمجھو کہ میڑک سے ماسٹر کی کے اوائل میں پہنچ چکا ہے ۔
لیکن اُس کی بالا تحریر دیکھ کر اُس کی پختگی نے دوسروں کو مجبور کیا ہے کہ اُس کے ذہنی مینار پر کھڑا ہوکر اپنا قد بلند کریں ، جس پر یہ نوجوان لکھاری پریشان دکھائی دیتا ہے ۔نہ صرف یہ بلکہ ثنا اللہ احسن بھی انہیں ، پری شانوں میں شامل ہے ۔
شائد نوجوان غوری کو نہیں معلوم کہ کاپی رائیٹ کا قانون رائیٹ برادران نے تو نہیں البتہ لیفٹ برادران کی وجہ سے ظہور میں آیا ۔ جنہیں آپ برادرانِ یوسف بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ خطابت اور لکھایت، دنوں میدانوں میں پائے جاتے ہیں یہ پہلے مکھی پر مکھی مارے میں ماہر تھے اور اگر کوئی اُن کے الفاظِ ناشائسہ پر گرفت کرتا تو یہ فوراً، فلاں ابنِ فلاں نے کہا اور میں نے سنا کے الفاظ سنا کر اگلے کو لاجوب کرتے اور اگر اگلا بھی صاحبِ علم ہوتا تو یہ کیا کرتے وہ قابل تحریر نہیں ، بس یوں سمجھیں کہ رضویانہ الفاظ سننے پڑجاتے ۔
اور پھر نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ، بس یہ جواب سننے کو ملتا ہے :
اچھا یہ بتاؤ کہ ہم دونوں میں کو ن اچھے مقام پر اور صاحبِ خطاب (احسن نادیا ) ہے ۔
تو غوری جی ! حوصلہ کرو اور برداشت کرو کہ اِس سے پہلے صاحب خطاب اور اُس کے چیلوں کے جواب ،
تیری پین دی سری کے اونچے سُروں سے شروع ہوکر ، آپ نہ صرف ایک جاہل ہیں بلکہ بدتمیز بھی ہیں کے نیچےسروں پر ختم ہوں ۔
یا پھر اِن باکس ، جس میں مدرسہءِ دھرنا کے طالبعلم و فارغ التحصیل مہارت رکھتے ہیں۔
مہاجرزادہ کی رائے یہ ہے ،
کہتے ہیں دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ۔ یہ وجہ ہے کہ غوری سے دوستی انٹرنیٹ کی لہروں سے ہوئی اوراب وہ میرے ہردل عزیز نوجوان لکھاری اور ذاتی دوستوں میں سے ہے ۔
غوری کی باتوں اور لکھائیں میں ضرب ہے ، جِسے میں کسی مردِ فتنہ جو کے گھونسے کی طرح شدید تو نہیں کہوں گا اور نہ کسی خاتون کی لگائی ہوئی چماٹ کی طرح نازک ،جس کا مجھے اور آپ سب کو یقیناً بچپن سے تجربہ ہوگا ۔ یہ خاتون ماں یا بڑی بہن کی صورت میں ہماری زندگی میں داخل ہوتی ہیں اول الذکّر تو ہماری پہنچ سے باہر ہوتی ہے لیکن دوسری خاتون کی سو سنار کے بدلے ایک لوہار کی جمادی جاتی ہے ۔
ہاں تو ذکر ہورہا تھا غوری کی تحریروں کا ، انسان کی تحریروں میں نکھار یا تو پیسہ کرتا ہے اور یا زبوں حالیءِ عشق یا معیشت ۔
غوری کے عشق کے بارے میں زیادہ معلومات تو نہیں ۔ہاں البتّہ معیشت میں وہ ابھی ملک کے کئی نوجوانوں کی طرح معیشت کے خطِ فارغ البالی سے نیچے ہے ، کیوں کہ کمانے والا ایک ہاتھ ہوتاہے اور کھانے والے دو ۔ جو انسان کی زبان میں تلخی بھر دیتے ہیں۔
تلخیاں دو طرح کی ہوتی ہیں:
اک زبانی اور دوسری تحریری ۔
میں نے غوری کو ہمیشہ اچھا سامع پایا ہے وہ دوسروں کی سنتا ہے اور احساسات کی ترجمانی تحریری کرتا ہے ۔
اُس کی شروع کی تحریروں اور اب کی تحریروں کے درمیان الفاظ کا انتخاب یوں سمجھو کہ میڑک سے ماسٹر کی کے اوائل میں پہنچ چکا ہے ۔
لیکن اُس کی بالا تحریر دیکھ کر اُس کی پختگی نے دوسروں کو مجبور کیا ہے کہ اُس کے ذہنی مینار پر کھڑا ہوکر اپنا قد بلند کریں ، جس پر یہ نوجوان لکھاری پریشان دکھائی دیتا ہے ۔نہ صرف یہ بلکہ ثنا اللہ احسن بھی انہیں ، پری شانوں میں شامل ہے ۔
شائد نوجوان غوری کو نہیں معلوم کہ کاپی رائیٹ کا قانون رائیٹ برادران نے تو نہیں البتہ لیفٹ برادران کی وجہ سے ظہور میں آیا ۔ جنہیں آپ برادرانِ یوسف بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ خطابت اور لکھایت، دنوں میدانوں میں پائے جاتے ہیں یہ پہلے مکھی پر مکھی مارے میں ماہر تھے اور اگر کوئی اُن کے الفاظِ ناشائسہ پر گرفت کرتا تو یہ فوراً، فلاں ابنِ فلاں نے کہا اور میں نے سنا کے الفاظ سنا کر اگلے کو لاجوب کرتے اور اگر اگلا بھی صاحبِ علم ہوتا تو یہ کیا کرتے وہ قابل تحریر نہیں ، بس یوں سمجھیں کہ رضویانہ الفاظ سننے پڑجاتے ۔
اور پھر نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ، بس یہ جواب سننے کو ملتا ہے :
اچھا یہ بتاؤ کہ ہم دونوں میں کو ن اچھے مقام پر اور صاحبِ خطاب (احسن نادیا ) ہے ۔
تو غوری جی ! حوصلہ کرو اور برداشت کرو کہ اِس سے پہلے صاحب خطاب اور اُس کے چیلوں کے جواب ،
تیری پین دی سری کے اونچے سُروں سے شروع ہوکر ، آپ نہ صرف ایک جاہل ہیں بلکہ بدتمیز بھی ہیں کے نیچےسروں پر ختم ہوں ۔
یا پھر اِن باکس ، جس میں مدرسہءِ دھرنا کے طالبعلم و فارغ التحصیل مہارت رکھتے ہیں۔
مہاجرزادہ کی رائے یہ ہے ،
خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !
بس سر جھکا کر اپنے افکار کو ایسا بناؤ کہ پڑھنے واہے ہمہ تن بصر ہوں اور سننے والے ہمہ تن گوش ۔
قادرغوری ۔ مہاجرزادہ اور خالد چنا
٭٭٭٭٭
ہفتہ، 22 جون، 2019
The list of ex MilitaryUS Presidents
1- Gen. George Washington (30-03 1789 – 04-03-1797). 8 Years
2- Col. Thomas Jefferson (04-03-1801 -04-03-1809).8 Years
3- Col. James Madison (04-03-1809 -04-03-1817).8 Years
4- Maj. James Monroe (04-03-1817 -04-03-1825).8 Years
5- Maj Gen. Andrew Jackson (04-03-1829 -04-03-1837). 8 Years
6- Maj Gen. William Henry Harrison (04-03-1841 -04-04-1841).1 Month
7- Capt. John Tyler (04-04-1841 -04-03-1845) 4 Years
29-Capt. Ronald Reagan (20-01-1981 -20-01-1989). 8 Years.
30-Lt (Jnr grade) George H. W. Bush (20-01-1989 -20-01-1993). 8 Years.
31-1st Lt. George. W. Bush. (20-01-2001 -20-01-2009). 8 Years.
*************
It is interesting to know that out of 45 US Presidents, 31 were Retired Military Officers and none came through MARTIAL LAW!
They came into power through elections process & played vital role in building America as Super Power.
وزیر اعظم صاحب ٹیکس، ہر پاکستانی دیتا ہے
لیکن وہ وہ فائلر نہیں !
وہ فائلر کیوں نہیں بنتا ؟
حقیقت تو یہ ہے کہ سرکاری ادارے ٹیکس لینا ہی نہیں چاہتے۔
کیوں کہ اُن کی منتھلی ماری جا تی ہے !
ایف بی آر کہتا ہے کہ اسے ہر برس’ ریٹرن ‘جمع کروائی جائے جو وصولیوں اور ادائیگیوں پر ٹیکس کی رسید ہوتی ہے مگراس ریٹرن کا تیار کرنا ایک عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں، اسے انتہائی مشکل اور ٹیکنیکل بنایا گیا ہے مگر اس سے بھی دلچسپ امر یہ ہے کہ
یہ ریٹرن آپ کے بنک اکاونٹ کی بنیاد پر بنتی ہے یعنی اگر آپ نقد لین دین کریں تو ریٹرن کی زدمیں نہیں آتے۔
جناب وزیراعظم!
اب سوال یہ ہے کہ:
پاکستان کے سترہ ہزار سات سو انچاس بنکوں کے تقریبا پانچ کروڑ بنک اکاؤنٹس کا ڈیٹا تو سنٹرلائزڈ ہے اور اداروں کی انگلیوں کے نیچے ہے تو آپ ان پانچ کروڑ اکاؤنٹس کو جمع شدہ گوشوارے کیوں ڈیکلئیر نہیں کر دیتے؟
جس کے بعد آپ کے فائلرز کی تعداد اچانک اٹھارہ ، بیس لاکھ سے بڑھ کے چار سے پانچ کروڑ ہوجائے گی۔
حقیقت میں ٹیکس ریٹرن ایک رسید ہے کہ میں نے کتنا ٹیکس ادا کیا اور رسید ہمیشہ وصول کرنے والا دیتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ میرے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ پر میری تنخواہ کے علاوہ پانی، بجلی، گیس، پراپرٹی، پٹرول، فون اور دیگر مدات پر جتنا ٹیکس کٹا۔
اس کی رسید مجھے ایف بی آر دے اور میرا شکریہ ادا کرے۔
مگریہاں الٹی گنگا بہتی ہے کہ ٹیکس بھی میں ہی دیتا ہوں اور
نان فائلر ہونے کی وجہ سے چور بھی میں ہی کہلاتا ہوں ۔
جناب وزیراعظم!
اگر آپ شناختی کارڈ نمبر کو ہی نیشنل ٹیکس نمبر بنا کے کام شروع کر دیں اور بنک اکاونٹس ہی گوشوارے بنا دیں تو !
صرف ایک مزید کام کرتے ہوئے پوری کی پوری اکانومی کو ڈاکومنٹڈ کیا جاسکتا ہے کہ ایک لاکھ روپے سے زائد کسی بھی نقد ادائیگی یعنی کیش پے منٹ کو قانونی تسلیم کرنے سے انکا رکر دیا جائے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہر شہری اپنی ادائیگیوں کے قانونی تحفظ کے لئے بنکنگ چینل استعمال کرے گا۔
جب ہر زیر استعمال بنک اکاونٹ ایک گوشوارہ ہو گا تواس کے بعد کوئی امیر آدمی نان فائلر نہیں رہے گا اور جو رہے گا وہ اپنے رسک پر ہو گا!
کیونکہ کسی بھی تنازعے کی صورت میں عدالتیں اس کا دعویٰ قبول نہیں کریں گی۔اور وہ الاعلان چور کہلایا جائے گا ۔
یوں ہمارے چہرے سے یہ کالک بھی اتر جائے گی کہ صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں، جی نہیں !
ٹیکس تو ہر پاکستانی دیتا ہے مگر فائلرز صرف ایک فیصد ہیں۔
(منقول)
انکم ٹیکس وکیل اِن کو بھرنے کے 8000 روپے لیتا ہے ۔ اور جو ریٹرن بھرتا ہے وہ کسی بھی شریف آدمی کو پھنسانے کے لئے کافی ہوتی ہے ۔
اگر آپ تنخواہ دار ملازم ہیں اور تنخواہ سے ٹیکس جمع کروا رہے ہیں ، تو آپ کو پریشانی کی ضرورت نہیں ، بس آپ نے یہ دونوں فارم بھرنے ہیں ۔
٭- پہلے یہ فارم 116(2) بھرا جاتاہے ۔
جس میں آپ کے اثاثے اور اخراجات ، درج کئے جاتے ہیں ۔
٭- اور پھر یہ فارم 114(1) بھرا جاتا ہے ۔
وہ فائلر کیوں نہیں بنتا ؟
حقیقت تو یہ ہے کہ سرکاری ادارے ٹیکس لینا ہی نہیں چاہتے۔
کیوں کہ اُن کی منتھلی ماری جا تی ہے !
ایف بی آر کہتا ہے کہ اسے ہر برس’ ریٹرن ‘جمع کروائی جائے جو وصولیوں اور ادائیگیوں پر ٹیکس کی رسید ہوتی ہے مگراس ریٹرن کا تیار کرنا ایک عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں، اسے انتہائی مشکل اور ٹیکنیکل بنایا گیا ہے مگر اس سے بھی دلچسپ امر یہ ہے کہ
یہ ریٹرن آپ کے بنک اکاونٹ کی بنیاد پر بنتی ہے یعنی اگر آپ نقد لین دین کریں تو ریٹرن کی زدمیں نہیں آتے۔
جناب وزیراعظم!
اب سوال یہ ہے کہ:
پاکستان کے سترہ ہزار سات سو انچاس بنکوں کے تقریبا پانچ کروڑ بنک اکاؤنٹس کا ڈیٹا تو سنٹرلائزڈ ہے اور اداروں کی انگلیوں کے نیچے ہے تو آپ ان پانچ کروڑ اکاؤنٹس کو جمع شدہ گوشوارے کیوں ڈیکلئیر نہیں کر دیتے؟
جس کے بعد آپ کے فائلرز کی تعداد اچانک اٹھارہ ، بیس لاکھ سے بڑھ کے چار سے پانچ کروڑ ہوجائے گی۔
حقیقت میں ٹیکس ریٹرن ایک رسید ہے کہ میں نے کتنا ٹیکس ادا کیا اور رسید ہمیشہ وصول کرنے والا دیتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ میرے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ پر میری تنخواہ کے علاوہ پانی، بجلی، گیس، پراپرٹی، پٹرول، فون اور دیگر مدات پر جتنا ٹیکس کٹا۔
اس کی رسید مجھے ایف بی آر دے اور میرا شکریہ ادا کرے۔
مگریہاں الٹی گنگا بہتی ہے کہ ٹیکس بھی میں ہی دیتا ہوں اور
نان فائلر ہونے کی وجہ سے چور بھی میں ہی کہلاتا ہوں ۔
جناب وزیراعظم!
اگر آپ شناختی کارڈ نمبر کو ہی نیشنل ٹیکس نمبر بنا کے کام شروع کر دیں اور بنک اکاونٹس ہی گوشوارے بنا دیں تو !
صرف ایک مزید کام کرتے ہوئے پوری کی پوری اکانومی کو ڈاکومنٹڈ کیا جاسکتا ہے کہ ایک لاکھ روپے سے زائد کسی بھی نقد ادائیگی یعنی کیش پے منٹ کو قانونی تسلیم کرنے سے انکا رکر دیا جائے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہر شہری اپنی ادائیگیوں کے قانونی تحفظ کے لئے بنکنگ چینل استعمال کرے گا۔
جب ہر زیر استعمال بنک اکاونٹ ایک گوشوارہ ہو گا تواس کے بعد کوئی امیر آدمی نان فائلر نہیں رہے گا اور جو رہے گا وہ اپنے رسک پر ہو گا!
کیونکہ کسی بھی تنازعے کی صورت میں عدالتیں اس کا دعویٰ قبول نہیں کریں گی۔اور وہ الاعلان چور کہلایا جائے گا ۔
یوں ہمارے چہرے سے یہ کالک بھی اتر جائے گی کہ صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں، جی نہیں !
ٹیکس تو ہر پاکستانی دیتا ہے مگر فائلرز صرف ایک فیصد ہیں۔
(منقول)
٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ دونوں فارم آن لائن بھرنا، نہایت آسان ہے ۔انکم ٹیکس وکیل اِن کو بھرنے کے 8000 روپے لیتا ہے ۔ اور جو ریٹرن بھرتا ہے وہ کسی بھی شریف آدمی کو پھنسانے کے لئے کافی ہوتی ہے ۔
اگر آپ تنخواہ دار ملازم ہیں اور تنخواہ سے ٹیکس جمع کروا رہے ہیں ، تو آپ کو پریشانی کی ضرورت نہیں ، بس آپ نے یہ دونوں فارم بھرنے ہیں ۔
٭- پہلے یہ فارم 116(2) بھرا جاتاہے ۔
جس میں آپ کے اثاثے اور اخراجات ، درج کئے جاتے ہیں ۔
٭- اور پھر یہ فارم 114(1) بھرا جاتا ہے ۔
مہاجرزادہ : اگلے مضمون میں اِن کو بھرنے کا طریقہ بتائے گا ۔
جو آپ کماتے ہیں وہ اِن میں بھر دیں !
جو آپ کماتے ہیں وہ اِن میں بھر دیں !
پریشانی کی کوئی بات نہیں ، اپنی آمدنی اور اخراجات اور بنک اکاونٹ سٹیٹمنٹ (1 جولائی تا 30 جون ) ، سکین کر کے بطور ڈاکومنٹ اٹیچ کردیں ۔ انہیں ایف بی آر میں جمع کروا کر آپ فائلر بن سکتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭
الَّذِينَ آمَنُواْ اور الَّذِينَ شِيَعًا
بچپن کے کوئٹہ کے ایک دوست کی گروپ پر پوسٹ ۔
میرا جواب:
روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کا حکم اور نعمت بتائی :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ
فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ
وَإِن كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ
فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا
فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ
مَا يُرِيدُ اللّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [5:6]
٭ - قریشی صاحب : کن لوگوں کے بَيْضَا وُجُوه ہوں گے !!
روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کی طرف سے ایک لازوال خوشخبری سنائی :
وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ [3:107]
٭- اور بَيْضَا وُجُوه کی وجہ بھی بتا دی ، جو یقیناً وضو نہیں بلکہ اللہ کیالْآيَاتٌ الْبَيِّنَات ہیں :
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ [3:105]
يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ [3:106]
٭- اور فرقے بنانے والے شِيَعًا ہیں :
٭-فرقے بنا کر شِيَعًا بن کر اپنی اپنی لکھائیوں پر فرحت اٹھانے والے حِزْبٍ مت بنو :
روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کا حکم اور نعمت بتائی :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ
فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ
وَإِن كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ
فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا
فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ
مَا يُرِيدُ اللّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [5:6]
٭ - قریشی صاحب : کن لوگوں کے بَيْضَا وُجُوه ہوں گے !!
روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کی طرف سے ایک لازوال خوشخبری سنائی :
وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ [3:107]
٭- اور بَيْضَا وُجُوه کی وجہ بھی بتا دی ، جو یقیناً وضو نہیں بلکہ اللہ کیالْآيَاتٌ الْبَيِّنَات ہیں :
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ [3:105]
يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ [3:106]
٭- اور فرقے بنانے والے شِيَعًا ہیں :
٭-فرقے بنا کر شِيَعًا بن کر اپنی اپنی لکھائیوں پر فرحت اٹھانے والے حِزْبٍ مت بنو :
مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
[30:32]
[30:32]
٭- اور شِيَعًا ہونا اللہ کا انعام نہیں بلکہ عذاب ہے :
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ [6:65]
نوٹ : اللہ کے لفظ شِيَعاً کا کسی اور زبان میں ترجمہ کرکے الَّذِينَ آمَنُواْ کو دھوکا نہ دیا جائے ! کیوں کہ الَّذِينَ شِيَعًا کو اللہ نے شِيَعاً کا لباس پہنایا ہوا ہے ۔
تھوڑا سا اللہ کی الْآيَاتِ پر فْقَه کر لیں ۔
فَرَّقُوا ، شِيَعاً،
حِزْبٍ ۔ الْأَحْزَابُٓ -
الَّذِينَ آمَنُواْ کے مقابل الَّذِينَ شِيَعًا ۔
جب الَّذِينَ آمَنُواْ اللہ کی آیات پر تفرقہ کرتے ہیں تو وہ الَّذِينَ شِيَعًا ۔میں اللہ کی آیت کے مطابق ٹرانسفر ہو جاتے ہیں ۔ اور آگے ہی آگے بڑھتے جاتے ہیں اور اپنے عالموں کی اھواء سے تخلیق کی ہوئی " شئے " پر جم جاتے ہیں۔ دین الخالص ، ناخالص دین بن جاتا ہے اور دعویٰ یہ ہوتا ہے ۔
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ [39:3]
٭ - اسلام میں قانون سازی کا تصوّر
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ [6:65]
نوٹ : اللہ کے لفظ شِيَعاً کا کسی اور زبان میں ترجمہ کرکے الَّذِينَ آمَنُواْ کو دھوکا نہ دیا جائے ! کیوں کہ الَّذِينَ شِيَعًا کو اللہ نے شِيَعاً کا لباس پہنایا ہوا ہے ۔
تھوڑا سا اللہ کی الْآيَاتِ پر فْقَه کر لیں ۔
فَرَّقُوا ، شِيَعاً،
حِزْبٍ ۔ الْأَحْزَابُٓ -
الَّذِينَ آمَنُواْ کے مقابل الَّذِينَ شِيَعًا ۔
جب الَّذِينَ آمَنُواْ اللہ کی آیات پر تفرقہ کرتے ہیں تو وہ الَّذِينَ شِيَعًا ۔میں اللہ کی آیت کے مطابق ٹرانسفر ہو جاتے ہیں ۔ اور آگے ہی آگے بڑھتے جاتے ہیں اور اپنے عالموں کی اھواء سے تخلیق کی ہوئی " شئے " پر جم جاتے ہیں۔ دین الخالص ، ناخالص دین بن جاتا ہے اور دعویٰ یہ ہوتا ہے ۔
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ [39:3]
٭٭٭٭مزید پڑھیں ٭٭٭
٭ - سورۃ بنا کر لاؤ۔ اللہ کا چیلنج ٭ - اسلام میں قانون سازی کا تصوّر
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !
افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔