Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 6 نومبر، 2015

پراٹھا اور لال مرچ

تربیتی نشست کے دوران ٹھیک ایک بجے لنچ بریک ہوتی ہے ۔وہ اِسی سال کی اُنتیس جولائی تھی ۔ایک بجے بریک کے بعد جائزہ لیا تو ابھی لنچ شروع ہونے میں پانچ دس منٹ باقی تھے ۔
عجیب قدموں کا ساتھ ہے کہ اکثر خواہ مخواہ کسی سِمت میں چل پڑتے ہیں ۔وقت اور ماحول کے تقاضوں سے انجان قدم !! اُس دِن بھی خواہ مخواہ چُپکے سے ایک سمت چل پڑے۔زیادہ نہیں چلنا پڑا۔ محض چند قدم دُور ہی دیوار کے سائے میں ایک پُراسرار سایہ بیٹھا دِکھائی دیا ۔تھوڑا قریب گیا تو پتا چلا کہ ایک مزدور ہے اور اُس کی بھی لنچ بریک چل رہی ہے ۔وہ ننگی زمین پر بیٹھا تھا ۔ اُس کے دائیں پاؤں کے ساتھ ایک شاپنگ بیگ بچھا ہوا تھا اور اُس شاپر پر اُس دِن کے مینو کے مطابق کھانا دھرا تھا۔
اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں دیسی بدیسی شاید ہی کوئی ڈِش ہو گی جو نظر سے نہ گُزری ہو ۔ نیلے کالر سے سفید کالر تک کے سفر میں مُلین سے مُرغن تک ہر بھوجن پر ہاتھ صاف کیا ۔
لیکن وہ ڈِش میرے لیے امتحان بن گئی ۔
چار و نا چار اُس غیر اہم پُرزے کو بھی سلام کرنا پڑا۔
السلام علیکم !!
وعلیکم السلام !!
(عجیب بد تمیز آدمی تھا ۔سلام کا جواب دیتے ہوئے سر بھی نہیں اُٹھایا)
کیا حال ہے بھائی !!
کرم ہے اللہ کا !!
اُس نے لقمہ سلیقے سے توڑتے ہوئے جواب دیا ۔
کیا کھا رہے ہو ؟؟
کھانا کھا رہا ہوں !!
بھائی وہ تو میں بھی دیکھ رہا ہوں کہ کھانا ہی کھا رہے ہو ۔بجری تو بہت دُور پڑی ہے !!
میرا مطلب ہے کہ کھانے میں کیا ہے ؟؟
اُس نے پہلی بار سر اُٹھایا۔ اُس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تھی لیکن چہرے پر بشاشت ، تازگی اور اعتماد کا راج تھا ۔
پراٹھا ہے اور اُس پر لال مِرچیں ہیں !!
میں پنجوں کے بَل اُس کے پہلو میں بیٹھ گیا ۔
صرف ایک پراٹھا اور اُس پر مِرچیں !!
کیا اِس غذا سے تمھیں اتنی طاقت مِل جاتی ہے جو اِتنی سخت مزدوری کر رہے ہو ؟؟
صاحب یہ خوراک تو بس ایک بہانہ ہے طاقت اور ہمت تو کہیں اور سے آتی ہے ۔
اُف اس قوم کا کیا بنے گا جہاں دیکھو فلسفہ اُبل رہا ہے ۔میں نے دِل ہی دِل میں سوچا اور ڈائننگ ہال کا رُخ کیا کہ صبح گھر سے ناشتہ کیے بغیر نکلا تھا اور مزید تاخیر سے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے تھے ۔
لنچ باکس میں پانچ کے قریب آئٹم تھے اور تمام ہی میرے من پسند ۔شاید وہ پہلا لمحہ ہی تھا جب مُجھے اُس کا خیال آیا کہ لنچ باکس لے کر اُس کے پاس چلا جاتا ہوں اور اکھٹے لنچ کر لیتے ہیں ۔اگلے ہی لمحے خیال آیا کہ کون سے میرے فیس بُک فین یہ سب دیکھ رہے ہیں اور ویسے بھی کہانی تو مُجھے مِل ہی چُکی ہے ۔
لیکن وہ جو اُسے ایک روٹی پر لگی نِری مرچوں سے طاقت اور ہمت دیتا ہے ،اُس کے ہاں ابھی کہانی ادھوری تھی ۔
شام چار بجے چھٹی کے بعد سوچا ایک “تاہ ” اور کرتا چلوں ۔
وہ اپنے اوزار سمیٹ رہا تھا۔
ایک کونے میں پوزیشن لیتے ہوئے میں نے پُوچھا چُھٹی کر رہے ہو ؟؟
نہیں !! اگلے دِن کی چال بنا رہا ہوں ۔
پاس ہی دیوار کے ایک کھانچے پر اُس کے دِن کے لنچ سے بچا ایک پراٹھے کا ٹکڑا پڑا تھا جس پر درمیانی جسامت والے کالے چیونٹوں نے دھاوا بول رکھا تھا ۔
بے اختیار میرے چہرے پر مُسکراہٹ پھیل گئی ۔ بڑا فلسفہ بگھار رہا تھا ۔ آخر ہمت جواب دے گئی ہو گی ۔نری مرچیں اور وہ بھی لال !! بھلا کوئی انسان کھا سکتا ہے ؟؟
ناراض نہ ہونا ایک بات کہوں ؟؟
جی صاحب اُس نے دوستانہ انداز میں مُسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
وہ بھلے نری مرچ ہی کیوں نہ ہو یا سادہ کچا پکا پراٹھا !!
بہرحال رزق ہے اور رزق کی بے حرمتی اللہ کو سخت نا پسند ہے ۔تمھیں پُورا کھانا چاہیے تھا۔
جی صاحب پُورے سے بھی زیادہ کی بُھوک تھی لیکن یہ کالے چیونٹے آپ دیکھ رہے ہیں نا !! اِن میں سے دو پراٹھے پر چڑھ آئے تھے۔ میں نے دو لقمے اِن کے لیے دیوار کے ساتھ ڈال دیے ۔سُنا ہے رِزق بانٹنے سے بڑھتا ہے ۔ اور جو رزق اللہ نے میرے نصیب میں لکھ رکھا ہے وہ میں آپ کو تو پیش کر نہیں سکتا تھا لہذا اللہ نے اِن چیونٹوں کو بھیج دیا ۔سو وہ اپنا حصہ کھا رہے ہیں ۔
میرے معدے میں موجود پانچوں فاسٹ فوڈ آئٹم ہنسنے لگے !!
اور اُن کے بے مہار قہقہوں سے میرے پیٹ میں شدید مروڑ اُٹھنے لگے۔
یہ کوئی افسانہ نہیں اور نہ ہی گھڑی ہوئی کہانی ہے ۔محض پانچ دِن پُرانا واقعہ ہے ۔جن گلیوں سے گزر کر میں روزانہ آتا جاتا ہوں وہاں موجود گھروں کے باہر موجود کیاریوں میں بعض ایسے پودے بھی ہیں جن کی قیمت کا آغاز ہی دو لاکھ سے ہوتا ہے ۔ وہاں گلیوں میں ایسے کُتے ٹہلائے جا رہے ہوتے ہیں کہ جن کی غذا ولایت سے درآمد ہوتی ہے ۔
میں نے اُس کا شکریہ ادا کیا ۔ جاہل آدمی تھا ہونقوں کی طرح تکے جا رہا تھا کہ کس بات کا شکریہ ۔اُسے کیا پتا تھا کہ میں اپنی زندگی میں آنے والے امیر ترین آدمی سے مِل کر جا رہا تھا کہ جس نے میری نظر میں امیر غریب کی تعریف ہی بدل دی تھی ۔جی ہاں عمل کی دُنیا میں پہلی بار دیکھا تھا کہ بانٹنے والے امیر ہوتے ہیں اور جمع کر کر کے گاڑنے والے مُفلس ، غریب اور بے چارے !!

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مزدوروں کے عالمی دن پر لکھی گئی ایک تحریر 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ: بوڑھے نے مزدور سے یک جہتی میں ظہرانہ پر ، 
لال مرچیں اور پراٹھا کھایا ۔
بچپن یاد آگیا!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔