Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 16 نومبر، 2015

خود کو بہتر بنائیں

پچھلا مضمون شخصیت کے ستون
 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

استاد(اتالیق) اور ٹیچر کا فرق !

استاد  کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کیلئے چھٹی پر جانا پڑا تو ایک نئے استاد کو اس کی ذمہ داری سونپ دی گئی..

نئے استاد نے سبق کی تشریح کرنے کے بعد ایک طالبعلم سے سوال پوچھا تو اس طالب علم کے ارد گرد بیٹھے دوسرے سارے طلباء ہنس پڑے..
ہم اِس طالبعلم کو بشیر سمجھ لیتے ہیں ۔
استاد کو اس بلا سبب ہنسی پر بہت حیرت ہوئی مگر اس نے ایک بات ضرور محسوس کرلی کہ کوئی نا کوئی وجہ ضرور ہوگی..
طلباء کی نظروں , حرکات اور رویئے کا اندازہ کرنے کے بعد آخرکار استاد نے یہ نکتہ پالیا کہ
بشیر باقی طالب علموں کی نظروں میں نکما اور غبی ہے..
ہنسی انہیں اس بات پر آئی تھی کہ استاد نے سوال بھی پوچھا تو کس پاگل سے پوچھا..
جیسے ہی چھٹی ہوئی , سارے طلباء باہر جانے لگے.. استاد نے کسی طرح موقع پا کر
بشیر کو علیحدگی میں روک لیا..
استاد نے
بشیر کو کاغذ پر ایک شعر لکھ کر دیتے ہوئے کہا کہ کل اسے ایسے یاد کرکے آنا جیسے تمھیں اپنا نام یاد ہے اور یہ بات کسی اور کو پتہ بھی نہ چلنے پائے..

دوسرے دن استاد نے کلاس میں جا کر تختہ سیاہ پر ایک شعر لکھا اور اس کے معانی و مفہوم بیان کرکے شعر مٹا دیا..
پھر طلباء سے پوچھا..
"یہ شعر کسی کو یاد ہو گیا ہو تو وہ اپنا ہاتھ کھڑا کرے.."

جماعت میں سوائے
بشیر کے ہچکچاتے , جھجھکتے اور شرماتے ہوئے ہاتھ کھڑا کرنے کے اور کوئی ایک بھی ایسا لڑکا نہ تھا جو ہاتھ کھڑا کرتا..
استاد نے
بشیر کو کہا ،
"سناؤ"
بشیر نے یاد کیا ہوا شعر سنا دیا..
سارے طالبعلم حیرت و استعجاب سے دیدے پھاڑے
بشیر کو دیکھ رہے تھے..

استاد نے
بشیرکی تعریف کی اور باقی سارے لڑکوں سے کہا کہ بشیر کے لئے تالیاں بجائیں..
استاد نے آنے والے دنوں میں وقفے وقفے سے , مختلف اوقات میں اور مختلف طریقوں سے
بشیر کی ایسے ہی مدد کی اور کلاس میں ، ایسا منظر کئی بار ہوا..
استاد
بشیر کی تعریف و توصیف کرتا اور لڑکوں سے حوصلہ افزائی کے لئے بشیر کیلئے تالیاں بجانے کا کہتا ..

آہستہ آہستہ دوسرے طلباء کا سلوک اور رویہ
بشیر کے ساتھ بدلنا شروع ہو گیا اور بشیرمیں بھی خود اعتمادی آتی گئی۔ وہ تختہ سیاہ پر استادکے لکھے ہوئے ہر لفظ کو یاد کر لیتا یوں بشیر  نہ صرف پراعتماد ہوا بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر استعمال کرکے دوسروں کے ساتھ مقابلے میں آنے لگا..

امتحانات میں خوب محنت کی اور اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا.. یوں استاد نے غیر محسوس طریقے
بشیر کو منفیت سے نکال کر مثبت راہوں پر ڈال دیا ۔بشیر، اب ایک محنتی طالب علم بن چکا تھا ، بشیر نے اگلی جماعتوں میں محنت کی اور یونیورسٹی تک پہنچا..
اور آجکل پی ایچ ڈی کر رہا ہے !!

بشیر ہمیشہ ، اس ایک شعر کو اپنی کامیابی کی سیڑھی قرار دیتا ہے جو ایک شفیق استاد
(اتالیق) ، چپکے سے اسے یاد کرنے کیلئے لکھ کر دیتا تھا..

جب کلاس میں استاد کسی بچے کو اُس کی خاموشی کی وجہ سے منفی القابات دیتا ہے تو یہ الفاظ اُس کے ذہن میں گونج بن جاتے ہیں اور وہ مزید اپنی ذات میں کچھوے کی طرح چُھپنے لگتا ہے ۔ اُس کی خود اعتمادی ، شرمیلے پن میں تبدیل ہو جاتی ہے اور دماغ کند ہونے لگتا ہے ۔
اللہ نے اپنی تمام تخلیقات کو ایک جیسا دماغ دیا ہے ۔ لیکن اُس دماغ میں بننے والا ذہن ایک جیسا نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ دماغ ، حواسِ خمسہ سے وصول ہونے والی تمام معلومات کو جانچنے ، پرکھنے اور استعمال کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ذہن کو دیتا ہے ۔دماغ یوں سمجھیں کہ ھارڈ وئیر ہے اور ذہن سافٹ وئیر ۔ ۔ ۔  یہ سافٹ ویئر جتنا اغلاط سے پاک ہوگا اُتنا ہی تیز رفتاری سے کام کرے گا -
اِس سافٹ ویئر کو تیز رفتاری کی طرف لے جانے کے لئے ہمارے ارد گرد رہنے والے انسانوں کے رویئے ہوتے ہیں اِن رویوں کی وجہ سے ہم انسانوں کو دو اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔

ایک قسم ان انسانوں کی ہوتی ہے جو:
   
٭-  خیر کی کنجیوں کا کام کرتے ہیں۔   
٭-  شر کے دروازے بند کرتے ہیں۔   
٭-  حوصلہ افزائی کرتے ہیں , داد دیتے ہی۔   
٭-  بڑھ کر ہاتھ تھامتے ہیں۔   
٭-  اپنی استطاعت میں رہ کر مدد کر دیتے ہیں۔  
 ٭-  دوسروں کے رویوں اور برتاؤ کو سمجھتے ہیں۔   
٭-  کسی کے درد کو پڑھ لیتے ہیں۔   
٭-  مداوا کی سبیل نکالتے ہیں۔   
٭-  رکاوٹ ہو تو دور کر دیتے ہیں ۔   
٭-  تنگی ہو تو آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔   
٭-  ترشی ہو تو حلاوت گھولنے کی کوشش کرتے ہیں ۔   
٭-  مسکراہٹ بکھیرتے ہیں۔   
٭-  انسانیت کو سمجھتے ہیں ۔   
٭-  انسانیت کی ترویج کر دیتے ہیں ۔   
٭-  کسی کی بیچارگی کو دیکھ کر ملول ہوتے ہیں اور اپنے تئیں چارہ گری کی سبیل کرتے ہیں ۔   
٭-  انسانی بھلائی کے کاموں کی ابتداء کرتے ہیں -   
٭-  بلا رنگ و نسل و مذہب ایجاد کرتے ہیں۔  


دوسری قسم کے انسان،
 
٭-  شر کا دروازہ کھولنے والے ۔  
 ٭-  قنوطیت اور یاسیت کو پروان چڑھانے والے ۔   
٭-  دوڑتوں کو روکنے والے۔   
٭-  چلنے والوں کے سامنے پتھر لڑھکانے والے
٭-   حوصلوں کو پست کرنے والے ۔   
٭-  منفی رویوں کی ترویج اور اجاگر کرنے والے -
٭-   شکایتوں کے پلندے اٹھائے اپنے نصیبوں , کرموں اور تقدیروں کو رونے والے ۔  
 ٭-  راستے بند کرنے والے ہوتے ہیں.....

اب یہ آپ کا انتخاب ہے کہ آپ پہلی قسم میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا دوسری میں ! 


 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔