Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 23 نومبر، 2015

گاندھی جی کا آشرم ، بکری اور داسیاں


صبح تڑکے  سروجنی نائیڈو نے مجھے اٹھایا کہ جھٹ پٹ منہ ہاتھ دھو کر باہر چلو، بعد میں ناشتا کرنے چلیں گے۔ باہر آکر تماشا دیکھا کہ ہر طرف اِدھر اُدھر لوگ جھاڑو لگا رہے ہیں، کچھ خواتین بھی ۔ پیچھے کی طرف لڑکے لڑکیاں تھیں جو بڑی پھرتی سے جھاڑو لگانے، گوبر اُٹھانے میں مصروف تھیں۔ بتایا یہ لڑکے لڑکیاں یہاں ( گاندھی ) کے آشرم ہی میں رہتے ہیں۔یہ کہہ کر نیچے اتریں، برآمدے کے نیچے رکھی جھاڑو اٹھا کر گز دو گز ادھر ادھر دو چار ہاتھ مارکر ہنستی ہوئی اوپر پھر برآمدے میں آگئیں۔ دور کی طرف اشارہ کیا۔وہ دیکھو، سیٹھ برلا جھاڑو لگا رہے ہیں۔
’’توبہ توبہ ،یہ سب کیا ڈھونگ ہے؟‘‘میں نے کہا۔ 
سروجنی نائیڈو  بولی ،’’ تم یہ کیوں نہیں سمجھتیں کہ یہ برابری کا درس ہے۔ دیکھو میں تمہیں باپو کے پاس ایک شرط پر لے جاؤں گی کہ ہر گز ایسی اوٹ پٹانگ باتیں نہیں کروگی۔ دوسرے یہ کہ ان کو گاندھی جی نہیں بلکہ باپو جی کہو گی‘‘۔
’’ بہت بہتر‘‘۔ میں نے کہا
ناشتے میں ایک اسٹیل کے گلاس میں دودھ اور ایک پھلکا ملا۔ وہ تو نہانے چلی گئیں۔میں کھڑکی سے لگ کر باہر کا تماشا دیکھنے لگی۔ کچھ لڑکیاں لڑکے بالٹی اور گگریاں لیے پانی بھرنے کنوئیں پر جا رہے تھے، کچھ پانی بھر کر لوٹ رہے تھے۔ کسی نے ایک بالٹی پانی کی ہمارے برآمدے میں بھی بھر کر رکھ دی۔
مسز نائیڈو تیار ہو کر باہر آئیں تو کہا ،"پانی کی بالٹی غسل خانے میں لے جاؤاور تیار ہو کر آؤ۔ میں اِتنے میں ذرا اخبار پڑھ لوں۔
"
میں نکلی تو وہ مجھے لے کر جو بیچ میں ہٹ بنی ہوئی ہے،اس طرف کو چلیں۔اپنا سر پلوّ سے ڈھانک کر کہا۔ ’’تم بھی سر ڈھا نپ لو‘‘۔
 باہر برآمدے میں ’اینی بینیسنٹ ‘ ایک انگریز خاتون کھڑی ملیں۔ بے بلاؤز کی ساری کا پلوّ کس کر سرپر سے ہوتا ہوا کمر پر کھونس رکھا تھا۔ ذرا سا پلوّ سر پر سے کھسکا تو نظر آیا کہ سر منڈا ہوا ہے۔ یہ عرصے سے گاندھی جی کی چیلی بنی ہوئی ان کی سیوا اور ٹہل خدمت کے کام انجام دے رہی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک تھال تھا جس میں ایک کٹوری میں کدو کش کی ہوئی گاجر، ایک میں چقندر تھا اور ایک طرف کچھ پتے مولی کے۔ سروجنی نائیڈو نے ان سے اندر جانے کی اجازت لی اور مجھے لے کر اندر آئیں اور جھک کر نمسکار کرکے گاندھی جی کے پائوں ہاتھ لگا کر چھوئے اور انکا آشیرباد لے کر مجھے بھی اشارہ کیا کہ میں بھی ایسا کچھ کروں۔ میں نے تو صرف جھک کر آداب کیا۔مجھے ملایا ،
" یہ حمیدہ، اختر حسین رائے پوری کی بیوی ہیں۔ آپ کا شکریہ ادا کرنے یہاں آئی ہیں۔"
’’ بیٹھیے بیٹھیے آپ دونوں۔‘‘ کمرے کے لِپے پُتے فرش پر ایک بڑی سی چٹا ئی بچھی ہوئی تھی، پیچھے گاؤ تکیہ اور سامنے ایک منّے سے ڈیسک نما نیچی سی میز پر قلم اور کاغذ رکھے تھے۔

اب میں نے ان کی طرف ہمت کرکے دیکھا۔ موٹے کھدر کی دھوتی اس انداز سے بندھی ہوئی تھی کہ پتلی سوکھی ٹانگیں ران تک ننگی۔ نہ بنیان نہ کرتا۔ ایک ایک پسلی یوں نمایاں کہ بڑی آسانی سے ہڈیاں گن لو۔ لمبا سا جینیئو گلے میں پڑا ہوا۔ ماتھے پر تلک، سر کے بال برائے نام، اُبھرتا ہوا بے حد چوڑا ماتھا، پتلے پتلے ہونٹ ایک دوسرے سے بھنچے ہوئے، ناک موٹی سی اور موٹی موٹی بھنویں، عجیب قسم کی آنکھیں، نہ تو بہت بڑی نہ چھوٹی، مگر ان میں برقی روشنی سی، جیسے مقابل والے کا ایکسرے لے رہی ہوں۔ دھنسے ہوئے کلے، جبڑے کی ہڈیاں اُبھار لیے ہوئے، گندمی رنگ اور سامنے کے چار
 دانت غائب،مٹھی بھر وزن، مگر جانے ان میں کون سی طاقت تھی۔ مجھے یوں لگا کہ اُنھوں نے مجھے اندر تک پڑھ لیا ہے۔ ان کے آگے یا تو انسان کی آنکھیں جھکی کی جھکی ر ہ جائیں یا اگر ان کی طرف دیکھ لے تو نگاہیں ٹکی کی ٹکی رہ جائیں۔
سروجنی نائیڈو سر ڈھانکے بڑی مؤدب بیٹھی تھیں، نظریں نیچی کیے ہوئے اور میں گاندھی جی کی طرف دیکھے ہی جارہی تھی۔ مسکرا کر بولے
’’آپ کو ہم یہ کہے ہے کہ بڑا ۔’کسمت ‘ والی ہے کہ پتی اکتر حسین رائے پوری ملا ہے۔ اگر ایسا لوگ اور بھی ذرا ہو تو کھوب اچھا ہو۔ وہ کابل بہت سا ہے اور بہت سا نڈر، بے باک ہے۔ ناگپور کانفرنس میں زبان کے بارے میں بولا تو ہم سمجھ لیا کہ اس کو ہلا سکتا نہیں۔ ہندوستان کو ایسا ہی لوگ کا ضرورت ہے جو ہندی اردو ایک موافق سا جانے۔ جب یہاں آیا تو اس وکت پاسپورٹ کا بات کچھ کسی سے نہیں بولا۔‘‘
میں نے کہا ’’ وہ بہت خوددار ہیں۔ اپنے لیے کسی سے کچھ نہیں کہتے۔ میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ وائسرائے کو تار بھیجا۔‘‘ 

گاندھی جی بولے ، ’’نہیں ،شکریہ کا بات نہیں بی بی۔ سوچو اگر آپ بھی ان کے ساتھ جاتا ہے، پڑھائی آدھی نہ ہوجائے۔ ایسا بھی تو آپ کرسکتا ۔ یہاں آشرم میں رہ کر کچھ سیکھے۔ کوئی بڑا آدمی جو ملک کا سیوا کرے، اس کا پتنی میں بھی حوصلہ، ہمت اوردیس کی سیوا دکا سوک اگر ہوگا تو پھر پتی دل لگا کر دیس کی سیوا کرتا ہے۔ بولے آپ کہ اس آشرم میں اگر رہ جائے تو کیسا لگے؟‘‘
’’ باپو جی مجھے اپنے شوہر سے دُور رہنا ذرا اچھا نہ لگے ا ور پھر یہاں کی بہت سی باتیں پسند نہیں۔‘‘
سروجنی نائیڈو نے گھبرا کر میری طرف دیکھا۔ 
’’کون سا بات؟‘‘ 
’’جی یہ بات ٹھیک ہے، مگر یہ سب بچے تو نہیں ہیں۔ بڑے لوگ تو عقل سمجھ والے ہوتے ہیں۔ ان کو توآپ کی بات فوراً مان لینا چاہیے۔ ‘‘
اینی بینسینٹ نے آکر کہا ’’ فلاں صاحب کی ملاقات کا وقت ہو گیا‘‘
تو گاندھی جی نے کہا ’’کہہ دیں ابھی ان کے پاس ملاقات کا وکت نہیں۔‘‘

سروجنی نائیڈو تو اٹھ کر کھڑی ہوگئیں۔ میں نے اٹھنا چاہا تو حکماً کہا۔
’’ ابھی آپ بیٹھیے۔‘‘ میں پھر بیٹھ گئی ۔
آپ بولے ’’ جب ہم سارا ہندو ستانی لوگ ایکم ہی دھرتی ماتا کا رہنے والا ہے، پھر ہندو اور مسلمان الگ الگ کیسا ہو سکتاہے۔ مل جل کر کیوں نہیں رہنے سکتا؟ ملک کی آزادی کے لیے ایک موافق کام کیوں نہیں کرنے سکتا؟‘‘

’’ میں خود آپ سے یہ بات پوچھنے کو تھی کہ اگر آپ یہ بات دل سے چا ہتے ہیں تو اگر ایک مسلمان کسی ہندو لڑکی سے شادی کرلے تو اس میں ہرج ہی کیا ہے؟ آپ کی نظر میں جب ہندو اور مسلمان ایک ہے تو آپ کو سب سے بڑھ کر اعتراض کیوں ہو؟ بیچاری لکشمی پنڈت نے جب سید حسین صاحب سے شادی کرلی توآپ ہی نے بہانے سے سید صاحب کو ولایت بھیج کر لکشمی جی کو کئی ماہ نظر بند رکھا، جب تک کہ ان کے پھیرے نہ ڈلوا لیے۔ میں ٹھیک بات کہہ رہی ہوں نا؟ اس کا کیا جواب ہے آپ کے پاس؟‘ ( واضح رہے کہ نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے مذکورہ مسلمان سید حسین سے پسند کی شادی کی تھی جسے گاندھی جی نے بعد میں زبردستی ختم کرایا تھا بلکہ تاریخی حقیقت تویہ ہے کہ پورا نہرو خاندان ہی، انگریزاور مسلمان مردوں اور عورتوں کے ساتھ رومانی پینگوں میں مبتلارہا کرتا تھا۔ پھر
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جواہر لال نہرو پر موہن چند گاندھی جی کا بہت گہرا اثر تھا) ۔
ذراعینک کو اور نیچا ناک پر کرکے ذرا تھم کر بولے ۔
’’بات یہ ہے کہ مسلمان اور ہندو بہن بھائی تو پھر بہن بھائی کی شادی کیسے ہونا؟‘‘
اس جواب پر مجھے ہنسی تو بڑے زور سے آئی۔ مشکل سے ضبط کر کے کہا
’’ ہندو بھی تو آپس میں بہن بھائی ہوتے ہیں ۔پھر تو کوئی شادی مت ہو نے دیں۔ کتنی اچھی طرح بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘
یہ سن کر وہ ہنسے تو سامنے کے
۲ دانت نمایاں ہو گئے۔مجھے کھڑکی کا خیال آیا۔ اب اُنھوں نے بات کا رُخ بڑی ہوشیاری سے یوں موڑا ’’آپ سامنے وہ بکسے کو دیکھتا ہے، اس پر کیا لکھا ہے؟‘‘
ہندی میں’ کانگریس فنڈ ‘ لکھا ہوا تھا۔ تھوڑی ہندی شادی سے پہلے شدبد تک جان گئی تھی۔ میرے بتانے پر کہ فنڈ لکھا ہوا ہے، خوش ہوکر بولے
’’خوب خوب، آپ ہندی پڑھ لیتا ہے۔ یہاں جو بھی عورت آتی ہے وہ اپنا زیور اتار کر اس میں ڈال دیتی ہے۔ مرد لوگ جیب کا روپیہ ڈال دیتا ہے۔ تب کانگریس کا کام چلتا ہے۔ آب
۱۲ سونے کا چوڑیاں پہنے ہیں۔ ان کو ڈبے میں ڈال دیں۔جس ملک میں آدمی لوگ کے پاس بدن ڈھانپنے کو کپڑا نہ ہو، پیٹ بھرنے کو کھانا نہ مل سکے، وہاں پر سونا پہننا شرم کی بات ہے نا؟‘‘
’’بات توآپ ٹھیک فرمارہے ہیں مگریہ چوڑیاں میری اماں نے مجھے تحفے میں دی تھیں اور میرے ہاتھوں میں پہناتے وقت یہ کہہ کر دی تھیں ، خدا تمھارے سہاگ کو ہمیشہ قائم رکھے۔ ایک تو یہ ماں کا تحفہ اور سب سے بڑی دعا، جو کسی بیٹی کے لیے ہو سکتی ہے وہ ان چوڑیوں کے ساتھ شامل ہے۔ پھر آپ ہی بتائیں کہ کیا میں ایسا تحفہ اُتار سکتی ہوں؟ ہاں جب ان شاء اﷲ اختر کی کمائی والی چوڑیاں پہن کر آپ کے درشن کرنے آؤ ں گی تو اندر قدم رکھتے ہی پہلا کام یہ کروںگی کہ ان کو پہلے فنڈ کے ڈبے میں ڈال دوںگی۔ ‘‘

’’آپ تو ہماری کوئی بات بھی نہیں مانتا۔ اچھا ایسا ہونا چاہیے کہ جانے سے پہلے سروجنی جی کو یہ بتاکر جانا کہ آشرم میں رہے گا اور مولانا عبدالحق صاحب کو میرا سلام دینا۔ وہ تو ہم سے بہت بگڑ گیا ہے۔ اردو اور ہندی دونوں زبان ان کا بھی ہمارا بھی۔ پھروہ بس اُردو اُردو کیوں کہتا ہیں؟‘‘
اِتنے میں’ اینی بیسینٹ‘ ایک بکری کو رسی کے ٹکڑے سے پکڑے ہوئے چٹائی پر آئیں تو میں اچھل کر کھڑی ہوگئی۔ وہ بڑی پھرتی سے بکری کے تھنوں کو اس طرح دبارہی تھیں کہ گاندھی جی کے کھلے ہوئے منہ میں دودھ کی دھاریں سیدھی جاتیں اور وہ غٹ غٹ کرکے پی رہے ہیں۔ جھک کر آداب کیا اور وہاں سے نکل کر برآمدے میں آئی تو دیکھا کہ سروجنی جی کھڑی میرا انتظار کر رہی تھیں۔ بڑے روکھے انداز سے بولیں
” حمیدہ تم بھی خوب ہو۔ بھلا کبھی باپو جی سے کسی نے ایسی باتیں کی ہوں گی ؟”
” تو وہ مجھ سے آخر یہ کیوں کہہ رہے تھے کہ میں آشرم میں رہ جاؤں اور اختر چلے جائیں ولایت؟یہ تو میں نے ان سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اگر وہ آشرم میں رہنے کو خود کہیں گے تو شاید تم مان لوگی تاکہ اختر کی پڑھائی مکمل ہوسکے۔ یوں میں مدراس میں جو ’’بِرلا ٹرسٹ ‘‘ ہے، اسکالر شپ دلانے کی پوری کوشش کروں گی۔‘‘

’’ اگر مل جائے تو کیا ہی کہنے ۔ اور نہ ملے تو آپ ذرا فکر نہ کریں۔ اللہ اختر کے قلم کو سلامت رکھے ۔ہم دونوں آسانی سے گزر کرلیں گے۔ اور پھر میری پاکٹ منی بھی تو ہے۔‘‘
وہ میرے چہرے کو غور سے دیکھ کر چپ ہوگئیں۔
۹ بجے رات کو حیدرآباد کے لیے روانہ ہوئی ۔اس خیال سے بے حد مگن کہ اسٹیشن پر مولوی صاحب اور اختر کھڑے ملیں گے۔ گاڑی رکی تو دیکھا کہ صرف مولوی (عبدالحق۔سید)صاحب ہیں۔ جب میں نے اِنھیں گاندھی جی سے ملاقات کی ساری باتیں بتائیں۔
خوش ہو کر بولے ‘‘ تم نے اچھا کیا سید حسین اور لکشمی پنڈت والی بات کا ذکر کیا۔ دیکھو بڈھا کیسا چالاک ہے، بالکل لومڑی جیسا۔ بکری کے تھن سے تازہ دودھ پینے کے طریقے کو سن کر کہا میں تمھاری جگہ ہوتا تو اپنا منہ بھی کھول کر بیٹھ جاتا اور یوں شاید اپنے حصے میں بھی کچھ آجاتا"۔
 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"موہن داس کم چند گاندھی"   کے کردار کی یہ نقشہ گری ایک ایسی خاتون کے قلم سے ہے، جن کے شوہر اختر حسین رائے پوری کوئی بہت زیادہ مذہبی نہیں تھے کہ ہم کہہ سکیں کہ خاتون نے مذہبی جوش میں ان کے خلاف باتیں لکھ دی ہیں۔ بلکہ در حقیقت گاندھی جی کے ساتھ ان کی یہ ایک دوبدو ملاقات تھی اور اُنھوں نے گاندھی جی کو جیسا دیکھا ویسا ہی بیان کیا۔چنانچہ ان کے اس بیانیے کا پسِ پردہ مطلب یہی نکلتاہے کہ ،
گاندھی اپنے طرزِ عمل سے قوم کو بیوقوف بنارہے تھے۔ جس آشرم میں بھلا لا تعداد نوجوان لڑکیاں اور عورتیں اَن گنت مردوں کے ساتھ گھر بار چھوڑ کردن رات گاندھی جی کی خدمت کے لیے رہتی ہوں، وہاں بہت سے ’’ غیر معمولی واقعات ‘‘ کے ہوجانے کا تصور کوئی بھی فرد کرسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
۔محترمہ حمیدہ اختر حسین  ’’ہم سفر‘‘ (شوہر کی سوانح حیات ) شائع شدہ مکتبۂ دانیال سے انتخاب!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"موہن داس کم چند گاندھی"  2 اکتوبر 1860 پور بندر انڈیا میں پیدا ہوا۔  1883 میں  کستوری بائی مکھن جی سے شادی کی ، ساوتھ افریقہ میں 1914 تک رہنے کے بعد ہندوستان واپس آیا  ۔ تاریخِ وفات  30 جنوری 1948 ۔
دیکھیں :   شجرہ نسب ۔ 

http://listverse.com/2014/10/31/10-curious-controversies-about-mahatma-gandhi/ 
کستوری بائی مکھن جی اپنے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔