Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 23 نومبر، 2015

یاروں کی خامشی کا بھرم کھولنا پڑا


یاروں کی خامشی کا بھرم کھولنا پڑا
اتنا سکوت تھا کہ مجھے بولنا پڑا

صِرف ایک تلخ بات سُنانے سے پیشتر
کانوں میں پُھول پُھول کا رس گھولنا پڑا

اپنے خطوں کے لفظ، جلانے پڑے مجھے
شفاف موتیوں کو کہاں رولنا پڑا

خوشبو کی سرد لہر سے جلنے لگے جو زخم
پُھولوں کو اپنا بندِ قبا کھولنا پڑا

کتنی عزیز تھی تری آنکھوں کی آبرو
محفل میں بے پیے بھی ہمیں ڈولنا پڑا

سُنتے تھے اُ س کی بزمِ سُخن نا شناس ہے
محسنؔ ہمیں وہاں بھی سُخن تولنا پڑا
محسن نقوی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔