گئے دنوں کا سراغ لیکر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
بس اگ ہلکی سی جھلک دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارہ شب بن کے آیا برنگ خواب سحر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرستوں کی اداس برکھا
یونھی ذرا سی کسک ہے دل میں زخم جو گہرا تھا بھر گیا وہ
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثال گرد سفر گیا وہ
ہوس کی بنیاد پر نہ ٹھہرا کسی بھی امید کا گھروندا
چلی ذرا سی ہوا مخالف غبار بن کے بکھر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ
میرا تو خون ہو گیا ہے پانی ستمگروں کی پلک نہ بھیگی
جو نالہ اٹھا تھا رات دل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ
وہ جس کے شانے پرہاتھ رکھ کرسفر کیا تو نے منزلوں کا
تیری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائےنکل گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
بس اگ ہلکی سی جھلک دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارہ شب بن کے آیا برنگ خواب سحر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرستوں کی اداس برکھا
یونھی ذرا سی کسک ہے دل میں زخم جو گہرا تھا بھر گیا وہ
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثال گرد سفر گیا وہ
ہوس کی بنیاد پر نہ ٹھہرا کسی بھی امید کا گھروندا
چلی ذرا سی ہوا مخالف غبار بن کے بکھر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ
میرا تو خون ہو گیا ہے پانی ستمگروں کی پلک نہ بھیگی
جو نالہ اٹھا تھا رات دل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ
وہ جس کے شانے پرہاتھ رکھ کرسفر کیا تو نے منزلوں کا
تیری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائےنکل گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں