"یہ لڑکا کون ہے جو ابھی گزرا ہے ؟؟"
دوھزار گز پر بنی قلعے جیسی حویلی سے بڑے سائیں کی پراڈو آہستہ آہستہ باہر نکل رہی تھی ۔۔
"زینت مائی کا پوتا ہے سائیں !" اگلی سیٹ سے آواز آئی
"اُس کالی چمارن کا ! ! ! !" بڑے سائیں چونکے
" ذرا روک تو اسے "
" جی حکم !!! "
سامنے آتے ہی لڑکے نے ہاتھ جوڑ لئیے اور نظریں جُھکالیں
"کیا نام ہے تیرا؟ " آواز میں گرج تھی
"ہارون سائیں ! " لڑکا کچھ اور جھُک گیا
یہ تُو اتنا صاف ستھرا ہوکر بستہ اُٹھائے کہاں جا رہا ہے ؟؟
غراتا ہوا سوال تھا ۔۔۔۔
سکول جارہا ہوں سائیں ۔ ۔ ۔ ۔لڑکا تھر تھر کانپ رہا تھا
سکول ! ! ! ! !
اب کمیوں کے بچے بھی سکول جائیں گے ؟ ایک بھاری قہقہہ فضا میں گونجا
آقا ہنسا تو حواری بھی ہنسنے لگے ۔۔۔
پاگل ہو گیا ہے کیا ۔ کبھی تیرے اگلوں نے بھی سکول کی شکل دیکھی ہے !
بڑے سائیں کی آواز میں اب بھی گرج تھی ۔۔۔
خنک موسم کے باوجود لڑکا پسینے سے شرابور تھا ۔
چل پھینک بستہ ! ! ! ! !
لرزتے ہاتھوں سے بستہ چھُٹا اور ساتھ ہی لڑکا بھی گھٹنوں پر گرگیا ۔ ۔ ۔
یہ صاف کپڑے اُتار ۔ ۔ ۔ ۔
کانپتے ہاتھ اپنے بدن سے اپنے خواب الگ کر رہے تھے
یہ جوتے بھی اتار ۔ ۔ ۔
اب لڑکا جھلنگے بدرنگ بنیان اور پاجامے میں تھا ۔ ۔ ۔ ۔
ہاں اب لگ رہا ہے نا تُو اپنی ذات کا ۔ ۔ ۔ چل اب زمین پر لوٹ لگا۔ ۔ ۔ ۔
بڑے سائیں کا حکم حتمی تھا
خاک کو خاک میں ملا تے وقت بھی لڑکے کے ہاتھ جُڑے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔
کمی غلامی کے جملة آداب سے واقف جو تھا
چل اُٹھ اب جا کر گند سمیٹ ۔ ۔
جھاڑو مار ۔ ۔ ۔ ۔
گاڑی کا بلیک کوٹڈ شیشہ آہستہ آہستہ اوپر اُٹھتا چلا گیا ۔ ۔ ۔
۔
بڑے سائیں کی بیوی نماز پڑھ رہی تھی جب زینت مائی حویلی کے واش روم صاف کرنے آئی
اس نے روتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اماں سائیں تم تو ولی لوگ ہو نا ۔۔۔۔
میرے ہارون کے لئیے دعا کرو
دوھزار گز پر بنی قلعے جیسی حویلی سے بڑے سائیں کی پراڈو آہستہ آہستہ باہر نکل رہی تھی ۔۔
"زینت مائی کا پوتا ہے سائیں !" اگلی سیٹ سے آواز آئی
"اُس کالی چمارن کا ! ! ! !" بڑے سائیں چونکے
" ذرا روک تو اسے "
" جی حکم !!! "
سامنے آتے ہی لڑکے نے ہاتھ جوڑ لئیے اور نظریں جُھکالیں
"کیا نام ہے تیرا؟ " آواز میں گرج تھی
"ہارون سائیں ! " لڑکا کچھ اور جھُک گیا
یہ تُو اتنا صاف ستھرا ہوکر بستہ اُٹھائے کہاں جا رہا ہے ؟؟
غراتا ہوا سوال تھا ۔۔۔۔
سکول جارہا ہوں سائیں ۔ ۔ ۔ ۔لڑکا تھر تھر کانپ رہا تھا
سکول ! ! ! ! !
اب کمیوں کے بچے بھی سکول جائیں گے ؟ ایک بھاری قہقہہ فضا میں گونجا
آقا ہنسا تو حواری بھی ہنسنے لگے ۔۔۔
پاگل ہو گیا ہے کیا ۔ کبھی تیرے اگلوں نے بھی سکول کی شکل دیکھی ہے !
بڑے سائیں کی آواز میں اب بھی گرج تھی ۔۔۔
خنک موسم کے باوجود لڑکا پسینے سے شرابور تھا ۔
چل پھینک بستہ ! ! ! ! !
لرزتے ہاتھوں سے بستہ چھُٹا اور ساتھ ہی لڑکا بھی گھٹنوں پر گرگیا ۔ ۔ ۔
یہ صاف کپڑے اُتار ۔ ۔ ۔ ۔
کانپتے ہاتھ اپنے بدن سے اپنے خواب الگ کر رہے تھے
یہ جوتے بھی اتار ۔ ۔ ۔
اب لڑکا جھلنگے بدرنگ بنیان اور پاجامے میں تھا ۔ ۔ ۔ ۔
ہاں اب لگ رہا ہے نا تُو اپنی ذات کا ۔ ۔ ۔ چل اب زمین پر لوٹ لگا۔ ۔ ۔ ۔
بڑے سائیں کا حکم حتمی تھا
خاک کو خاک میں ملا تے وقت بھی لڑکے کے ہاتھ جُڑے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔
کمی غلامی کے جملة آداب سے واقف جو تھا
چل اُٹھ اب جا کر گند سمیٹ ۔ ۔
جھاڑو مار ۔ ۔ ۔ ۔
گاڑی کا بلیک کوٹڈ شیشہ آہستہ آہستہ اوپر اُٹھتا چلا گیا ۔ ۔ ۔
۔
بڑے سائیں کی بیوی نماز پڑھ رہی تھی جب زینت مائی حویلی کے واش روم صاف کرنے آئی
اس نے روتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اماں سائیں تم تو ولی لوگ ہو نا ۔۔۔۔
میرے ہارون کے لئیے دعا کرو
درگاہ والے بابا کہتے ہیں اُس پر کسی بڑے آسیب کا سایہ ہوگیا ہے
نہ کھاتا ہے نہ سوتا ہے ۔ ۔ ۔
بس دن رات دیوانوں کی طرح گلیوں کی جھاڑو لگاتا رہتا ہے اور اسکی آنکھوں سے آنسو بہتے رہتے ہیں ۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭٭ ٭٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭٭٭٭ ٭
سبق آموزتحریروں کے ہم رکاب ایک نو آموز کی تحریر،
جن کو پڑھ کر آپ کی آنکھیں نم ہوجائیں ۔ ( مہاجر زادہ)
طبقاتی تقسیم کے کربناک پہلوؤں کو عیاں کرتا واقعہ
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ
سلامتی ہو