چند سال سے اس ملک کے ٹیلیویژن چینلز پر تعلیم کے نام پر سفید جھوٹ پر مبنی پروگرام چلائے جا رہے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ جب یورپ میں یونیورسٹیاں کُھل رہی تھیں۔ تو مسلم بادشاہ تاج محل اور شالامار باغ بنا رہے تھے۔
پہلی فن تعمیر کی تفصیلی مہارت، جس میں جیومیٹری، فزکس، کیمسٹری اور ڈھانچے کے خدوخال وضع کرنے تک کے علوم شامل ہوتے ہیں۔
دوسری کسی ملک کی مضبوط معاشی اور اقتصادی حالت، اس قدر مضبوط کے وہاں کے حکمران شاندار عمارات تعمیر کرنے کا خرچ برداشت کر سکیں۔
معاشی حوالے سے ہندوستان بالعموم مسلم ادوار اور بالخصوص مغلیہ دور (اکبرتا اور نگ زیب ) میں دنیا کے کل GDP میں اوسطاً 25% فیصد حصہ رکھتا تھا۔در آمدات انتہائی کم اور برآمدات انتہائی زیادہ تھیں اور آج ماہر معاشیات جانتے ہیں کہ کامیاب ملک وہ ہے جس کی برآمدات زیادہ اور درآمدات کم ہوں۔
. سترویں صدی میں فرانسیسی سیاح فرانکوس برنئیر (1)(1656-1668) میں ہندوستان آیا ، اپنی کتاب(2)" مغل شہنشایت میں سفر " اور کہتا ہے کہ ہندوستان کے ہر کونے میں سونے اور چاندی کے ڈھیر ہیں۔اسی لئے سلطنت مغلیہ ہند کو سونے کی چڑیا کہتے تھے ۔
فن تعمیر کی جو تفصیلات تاج محل، شیش محل، شالامار باغ، مقبرہ ہمایوں، دیوان خاص وغیرہ وغیرہ میں نظر آتی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ ان کے معمار جیومیٹری کے علم کی انتہاؤں کو پہنچے ہوئے تھے۔ تاج محل کے چاروں مینار صرف آدھا انچ باہر کی جانب جھکائے گئے تاکہ زلزلے کی صورت میں گرے تو گنبد تباہ نہ ہوں. مستری کے اینٹیں لگانے سے یہ سب ممکن نہیں، اس میں حساب کی باریکیاں شامل ہیں۔
1631 تا 1648 میں بننے والا ، پورا تاج محل 90 فٹ گہری بنیادوں پر کھڑا ہے۔ اِس کے نیچے 30 فٹ ریت ڈالی گئی کہ اگر زلزلہ آئے تو پوری عمارت ریت میں گھوم سی جائے اور محفوظ رہے. لیکن اس سے بھی حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنا بڑا شاہکار دریا کے کنارے تعمیر کیا گیا ہے اور دریا کنارے اتنی بڑی تعمیر اپنے آپ میں ایک چیلنج تھی۔جس کے لئے پہلی بار ویل فاونڈیشن (well foundation) متعارف کرائی گئی یعنی دریا سے بھی نیچے بنیادیں کھود کر ان کو پتھروں اور مصالحہ سے بھر دیا گیا، اور یہ بنیادیں سینکڑوں کی تعداد میں بنائی گئی گویا تاج محل کے نیچے پتھروں کا پہاڑ اور گہری بنیادوں کا وسیع جال ہے، اس طرح تاج محل کو دریا کے نقصانات سے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا گیا۔
عمارت کے اندر داخل ہوتے ہوئے اسکا نظارہ فریب نظر یعنی (Optical illusion ) سے بھرپور ہے۔
مسلمان معماروں نے تعمیرات میں (well foundation) اور (optical illusions) کا ، استعمال تاج محل میں کر کے سترھویں صدی کے وسط میں مکمل کیا ۔جب کہ مغرب میں تعمیرات کا آغاز ، انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں کیا۔
مترجم ،عیسائیوں کے دو گرجاؤں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے ۔
ایک فرانس میںRue Saint Antoine چرچ ہے اور دوسرا امریکہ میں نیویارک کا Saint Louis Church Buffalo چرچ ۔ اور تاج محل کے میناروں کی بلندی ایک جیسی ہے ۔ (صفحہ۔ 295)
لیکن تاج محل عمارت بیک وقت اسلامی، فارسی، عثمانی، ترکی اور ہندی فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ یہ فیصلہ کرنے کے لئے حساب اور جیومیٹری کی باریک تفصیل درکار ہے۔
آسڑیئن آرٹ اور فن تعمیر کی مؤرخ ، پروفیسر ڈاکٹر ایبا کوچ (Prof. Dr. Ebba Koch) ویانا یونیورسٹی، نے حال میں ہی تاج محل کے اسلامی اعتبار سے روحانی پہلو واضح (decode) کئے ہیں اور بھی کئی راز مستقبل میں سامنے آ سکتے ہیں۔
کراسنگ بارڈر ۔مغل آگرہ جیسا یہ تھا (ؤڈیو)
آج تاج محل کو جدید مشین اور جدید سائنس کو استعمال کرتے ہوئے بنایا جائے کافی رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی ایسا بنانا ، تقریباً ناممکن ہے۔
"ٹائل موزائیک" فن میں چھوٹی چھوٹی رنگین ٹائلوں سے دیوار پر تصویریں بنائی جاتی اور دیوار کو منقش کیا جاتا ہے. یہ فن لاہور کے شاہی قلعے کی ایک کلومیٹر لمبی منقش دیوار اور مسجد وزیرخان میں نظر آتا ہے. ان میں جو رنگ استعمال ہوئے، ان کو بنانے کے لئے آپ کو موجودہ دور میں پڑھائی جانے والی کیمسٹری کا وسیع علم ہونا چاہئیے۔
یہی حال فریسکو پینٹنگ کا ہے، جن کے رنگ چار سو سال گزرنے کے باوجود آج تک مدہم نہیں ہوئے . تمام مغل ادوار میں تعمیر شدہ عمارتوں میں ٹیرا کوٹا (مٹی کو پکانے کا فن) سے بنے زیر زمین پائپ ملتے ہیں۔ اِن سے سیوریج اور پانی کی ترسیل کا کام لیا جاتا تھا. کئی صدیاں گزرنے کے باوجود یہ اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔
مسلم فن تعمیر کا مکمل علم حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور موجودہ دور کے سائنسی پیمانوں پر ایک نصاب کی صورت تشکیل دیا جائے تو صرف ایک فن تعمیر کو مکمل طور پر سیکھنے کے لیے پی ایچ ڈی (phd) کی کئی ڈگریاں درکار ہوں گی۔
کیا یہ سب کچھ اس ہندوستان میں ہو سکتا تھا، جس میں جہالت کا دور دورہ ہو اور جس کے حکمرانوں کو علم سے نفرت ہو؟؟
یہ مسلم نظام تعلیم ہی تھا ، جو سب کے لئے یکساں تھا، جہاں سے بیک وقت عالم، صوفی، معیشت دان، طبیب، فلسفی، حکمران اور انجینئر نکلتے تھے۔
شیخ احمد سرہندی ہوں یا جہانگیر ہو یا استاد احمد لاہوری ہو، یہ سب مختلف گھرانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک ہی تعلیمی نظام میں پروان چڑھے، اسی لئے ان سب کی سوچ انسانی مفاد کی تھی۔
مزید بھی میں مغربی مصنفین کی گواہی پیش کروں گا، اسلئے کہ میرے ان "عظیم" صاحبان علم کو کسی مسلمان یا لوکل مصنف کی گواہی سے بھی بو آتی ہے۔
ول ڈیورانٹ مغربی دنیا کا مشہور ترین مورخ اور فلاسفر ہے. وہ اپنی کتاب story of civilization میں مغل ہندوستان کے بارے میں لکھتا ہے:
"ہر گاؤں میں ایک سکول ماسٹر ہوتا تھا، جسے حکومت تنخواہ دیتی تھی. انگریزوں کی آمد سے پہلے صرف بنگال میں 80 ہزار سکول تھے. ہر 400 افراد پر ایک سکول ہوتا تھا. ان سکولوں میں 6 مضامین پڑھائے جاتے تھے. گرائمر، آرٹس اینڈ کرافٹس، طب، فلسفہ، منطق اور متعلقہ مذہبی تعلیمات. "
اس نے اپنی ایک اور کتاب A Case For India میں لکھا کہ مغلوں کے زمانے میں صرف مدراس کے علاقے میں ایک لاکھ 25 ہزار ایسے ادارے تھے، جہاں طبی علم پڑھایا جاتا اور طبی سہولیات میسر تھیں.
میجر ایم ڈی باسو نے برطانوی راج اور اس سے قبل کے ہندوستان پر بہت سی کتب لکھیں. وہ میکس مولر کے حوالے سے لکھتا ہے
"بنگال میں انگریزوں کے آنے سے قبل وہاں 80 ہزار مدرسے تھے".
اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں ایک سیاح ہندوستان آیا، جس کا نام الیگزینڈر ہملٹن تھا، اس نے لکھا کہ صرف ٹھٹھہ شہر میں علوم و فنون سیکھانے کے 400 کالج تھے۔
میجر باسو نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہندوستان کے عام آدمی کی تعلیم یعنی فلسفہ، منطق اور سائنس کا علم انگلستان کے رئیسوں حتیٰ کہ بادشاہ اور ملکہ سے بھی زیادہ ہوتا تھا۔
جیمز گرانٹ کی رپورٹ یاد رکھے جانے کے قابل ہے. اس نے لکھا ،
" تعلیمی اداروں کے نام جائیدادیں وقف کرنے کا رواج دنیا بھر میں سب سے پہلے مسلمانوں نے شروع کیا. 1857ء میں جب انگریز ہندوستان پر مکمل قابض ہوئے تو اس وقت صرف روحیل کھنڈ کے چھوٹے سے ضلع میں، 5 ہزار اساتذہ سرکاری خزانے سے تنخواہیں لیتے تھے."
مذکورہ تمام علاقے دہلی یا آگرہ جیسے بڑے شہروں سے دور مضافات میں واقع تھے۔ انگریز اور ہندو مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم کا عروج اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں اپنی انتہا کو پہنچا. اورنگزیب عالمگیر نے ہی پہلی دفعہ تمام مذاہب کے مقدس مذہبی مقامات کے ساتھ جائیدادیں وقف کیں. سرکار کی جانب سے وہاں کام کرنے والوں کے لئے وظیفے مقرر کئے۔ اس دور کے 3 ہندو مورخین سجان رائے کھتری، بھیم سین اور ایشور داس بہت معروف ہیں۔
سجان رائے کھتری نے "خلاصہ التواریخ"، بھیم سین نے "نسخہ دلکشا" اور ایشور داس نے "فتوحات عالمگیری" لکھی. یہ تینوں ہندو مصنفین متفق تھے کہ عالمگیر نے پہلی دفعہ ہندوستان میں طب کی تعلیم پر ایک مکمل نصاب بنوایا اور طب اکبر، مفرح القلوب، تعریف الامراض، مجربات اکبری اور طب نبوی جیسی کتابیں ترتیب دے کر کالجوں میں لگوائیں تاکہ اعلیٰ سطح پر صحت کی تعلیم دی جا سکے. یہ تمام کتب آج کے دور کے MBBS نصاب کے ہم پلہ ہیں۔
اورنگزیب سے کئی سو سال پہلے فیروز شاہ نے دلی میں ہسپتال قائم کیا، جسے دارالشفاء کہا جاتا تھا. عالمگیر نے ہی کالجوں میں پڑھانے کے لیے نصابی کتب طب فیروزشاہی مرتب کرائی. اس کے دور میں صرف دلی میں سو سے زیادہ ہسپتال تھے۔
تاریخ سے ایسی ہزاروں گواہیاں پیش کی جا سکتی ہیں، ہو سکے تو لاہور کے انارکلی مقبرہ میں موجود ہر ضلع کی مردم شماری رپورٹ ملاحظہ فرمالیں،آپکو ہر ضلع میں شرح خواندگی 80% سے زیادہ ملے گی جو اپنے وقت میں بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ تھی۔
لیکن انگریز جب یہ ملک چھوڑ کر گیا تو صرف 10% تھی. بنگال 1757ء میں فتح کیا اور اگلے 34 برسوں میں سبھی سکول و کالج کھنڈر بنا دیئے گئے. ایڈمنڈ بروک نے یہ بات واضح کہی تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے مسلسل دولت لوٹی جس وجہ سے ہندوستان بدقسمتی کی گہرائی میں جاگرا. پھر اس ملک کو تباہ کرنے کے لئے لارڈ کارنیوالس نے 1781ء میں پہلا دینی مدرسہ کھولا۔ اس سے پہلے دینی اور دنیاوی تعلیم کی کوئی تقسیم نہ تھی۔ ایک ہی مدرسہ میں قرآن بھی پڑھایا جاتا تھا، فلسفہ بھی اور سائنس بھی۔
یہ تاریخ کی گواہیاں ہیں۔
لیکن اشتہار و پروگرام بنانے والے جھوٹ کا کاروبار کرنا چاہے تو انہیں یہ باطل اور مرعوب نظام نہیں روکتا۔
مجھے دہلی جانے کا اتفاق ہوا ہے اور ان تعمیرات کا مشاہدہ کیا ہے، آپ یقین کیجئیے کہ ان عمارات کے سحر سے نکلنا ایک مشکل کام ہوتا تھا اور فخر اور حیرانی ہوتی تھی کہ ان ادوار میں مشین کا وجود نا ہونے کے باوجود ایسے شاہکار تعمیر کرنا ناممکن لگتا ہے۔
لاہور میں مغلیہ فن تعمیر پر کبھی نظر دوڑائیے، آپ انجینئرنگ کے کارناموں پر محو حیرت رہے گے کیونکہ جب یورپ یونیورسٹیاں بنا رہا تھا تو یہاں وہ تعلیمات عام ہو چکی تھیں۔
لیکن یہ موجودہ ظالم نظام جہاں ہمیں اپنی اعانت کے لئے اپنا کلرک بناتا ہے وہاں ہماری عظیم تاریخ کو بھی مبہم بناتا ہے۔
تحریر کا اختتام کرنے کے لئے بہت کچھ ہے لیکن ایک سنہری قول سے اختتام کروں گا۔
"آج مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہیں ذرائع ابلاغ (Media) کا پروپیگنڈا بہا کے لے گیا"۔
تحریر: اعظم قدوائی صاحب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
روح القدّس نے محمدﷺ خاتم النبیئن کو اللہ کی سنت بتائی۔
وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم
بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلادِ
وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلاَّ غُرُورًا
﴿17:64﴾
اور تو اپنی استطاعت سے اُن کو ، اُن میں اپنی آواز (پروپیگنڈہ) سے اُکھاڑ ، اور اُن پر اپنے خیالات بر اپنی مردانگی کا پردہ ڈال اور اُن کے اموال اور اولاد میں شراکت کر اور اُس سے وعدے کر ، الشیطان کے وعدے سوائے مغالطے کے کچھ نہیں ۔إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ وَكِيلًا ﴿17:65﴾
صرف میرے عباد پر تیرے لئے کوئی سلطان نہیں ۔ اور تیرے ربّ کے ساتھ وکا لت کافی ہے ؛
------------------------
نوٹ: مہاجرزادہ نے ، گوگل کی مدد سے مصنف کے حوالہ جات ڈھونڈے تاکہ مضمون کو مصدّق کیا جائے ۔ (1)۔ فرانسیسی سیاح فرانکوس برنئیر (1)(1656-1668)
(2)۔ مغل شہنشایت میں سفر ۔ہندوستان سونے کی چڑیا کا ذکر نہیں ، ہاں البتہ سونے کی بہتات کو ذکر کیا ہے جو باہر سے آنے والے سونے یا چاندی کے سکوں کے بدلے ہندوستان سے یہاں کا مالِ تجارت خریدتے ، سونے کے یہ سکّے ، لگان کی صورت میں اور بادشاہ ، امیروں ، راجوں کو منتقل ہوتے اور مندروں میں بتوں کو دان کئے جاتے ۔ فرانکوس 1656 میں ہندوستان آیا تھا ، جب تاج محل تعمیر ہوچکا تھا ۔ دارا اور اورنگ زیب آپس میں تخت کے لئے بر سرو پیکار تھے ، دو سال بعد اورنگزیب دارا کو ذلت آمیز شکست دینے اور شاہجہاں آگرہ میں ہی پابندِ زنداں کرنے کے بعد پورے ہندوستان کا بلا شرکتِ غیرے بادشاہ بن چکا تھا ۔
اپنے ایک خط میں لکھتا ہے ، کہ ہندوستان کے زوال کا سبب کی اصل وجہ :
جبکہ ، ہندوستان کے زوال کی اصل وجہ ہندوستان پر یورپی اقوام کا قبضہ اور ہندوستان کا سونا ، چاندی اور جواہرات اپنے اپنے مُلک میں چھین کر لے جانا تھا۔ وہ ملک جِس سے تجارت سونے اور چاندہ کے سکّوں میں کی جاتی ، اب وہ تانبے اور پیتل کے سکّوں اور کاغذی پرونوٹ پر گذارا کرنے لگی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں