ریاستِ حیدرآباد دکن کا نواب، جو ’نظام دکن‘ کہلاتا ہے، برطانیہ کا اتحادی ہے اور ان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ کوئی بغاوت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن جب انگریز کے خلاف تحریک آزادی کے نعرے ہندوستان کے گلی کوچوں تک پہنچ جاتے ہیں تو اس کی بازگشت نظام حیدر آباد کے درو دیوار کو بھی متاثر کرتی ہے۔
یہاں بیگم بازار کا ایک عام سپاہی تورے باز خان نہ صرف باغیوں کی قیادت کرتا ہے بلکہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ چھ ہزار مظاہرین کو لے کر حیدر آباد میں برٹش ریذیڈنسی پر حملہ کر دیتا ہے۔تورے باز خان اور مولوی اللہ الدین کے ساتھیوں نے انگریز ریزیڈنسی کی دیوار گرا دی اور دروازے کو توڑتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔ اندر داخل ہوتے ہی دو طرفہ لڑائی شروع ہو گئی لیکن تورےخان کے ساتھیوں کے پاس ہلکے ہتھیار تھے جو انگریز کی تربیت یافتہ مدراس آرٹلری کے سپاہیوں کے مقابلے پر ناکارہ تھے۔ پھر بھی تمام رات گولیاں چلتی رہیں مقابلہ ہوتا رہا۔ بالآخر صبح کے چار بجے باغی پسپا ہو گئے لیکن انہیں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
تورے باز خان اس نیت سے فرار ہوا کہ وہ زیادہ بڑی طاقت کے ساتھ پھر حملہ کرے گا۔ 22 جولائی کو تراب علی خان کو خبر ملی کہ تورے باز خان ایک بار پھر انگریز ریزیڈنسی پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس نے تورے باز خان کو ہر قیمت پر گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ تورے باز خان بھیس بدل کر روپوش ہو چکا تھا۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ تورے باز خان کی ایک پیدائشی شناختی علامت تھی کہ اس کی آنکھ کے قریب ایک تل تھا جس کی وجہ سے نظام کے کھوجیوں نے اشورخانہ کے قریبی جنگلات میں اسے ڈھونڈ نکالا۔
اس پر حیدر آباد کی عدالت میں مقدمہ چلا۔ اس دوران اس سے مولوی اللہ الدین اور دیگر باغیوں کے ٹھکانے پوچھے گئے اور نہ بتانے پر طرح طرح کی صعوبتیں دی گئیں مگر تورے باز خان نے کوئی راز نہ اگلا۔ اسے سزا دے کر عمر بھر کے لیے جزائر انڈیمان (کالا پانی) بدر کر نے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔ مگر اس سے پہلے کہ اسے کالا پانی بھیجا جاتا وہ 18جنوری1857 کو جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ خبر پا کر انگریز انتظامیہ میں ہل چل مچ گئی انہوں نے طرے باز خان کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے پر پانچ ہزار کے خطیرانعام کا اعلان کر دیا۔ نظام کے فوجی جگہ جگہ پھیل گئے۔
آخر کار 24 جنوری کو توپران کے جنگل میں تعلقدار مرزا قربان علی بیگ کی قیادت میں ایک فوجی دستے نے تورے باز خان کو ڈھونڈ کر مار دیا۔ اس کی لاش کو شہر میں لایا گیا اور انگریز ریذیڈنسی کے سامنے برہنہ کرکے درخت سے لٹکا دیا گیا۔ اس طرح تورے باز خان ولد رستم خان آف بیگم بازار کی کہانی کا اختتام ہو گیا۔
لیکن اپنے پیچھے شجاعت و بہادری کی وہ مثال چھوڑ گیا جو آج بھی محاورہ بن کر تاریخ کے ابواب پر زندہ ہے۔ حیدر آباد میں بغاوت کو کچلنے کے بارے میں بمبئی کے انگریز گورنر نے گورنر جنرل کو لکھا کہ ’اگر نظام کی مدد حاصل نہ ہوتی تو انگریز جنوبی ریاستوں میں شکست کھا جاتا۔‘ حیدرآباد میں طرے باز خان کی بغاوت کو کچلنے میں 94 فوجی مارے گئے۔تورے باز خان کو مارنے پر تعلق دار مرزا قربان علی کو پانچ ہزار روپے انعام دیا گیا اور اس کی تنخواہ میں دو سو روپے کا اضافہ کیا گیا، جبکہ اسے ترقی دے کر صدر تعلق دار بنا دیا گیا۔
نظام کو ’سٹار آف انڈیا‘ کے اعزاز سے نوازا گیا جبکہ ریاست کے ذمہ 50 لاکھ سے زائد کے واجبات معاف کر دیے گئے۔ نظام کواپنا سکہ جاری کرنے کا اختیار دیا گیا۔ میر تراب علی کو سالار جنگ کے اعزاز سے نوازا گیا۔
پشتومیں کالے رنگ کو تور کہا جاتا ہے اور سفید کو سپین ۔ لہذا پٹھانوں میں جو بچہ سانولا یا گیری رنگت والا پیدا ہوتا تو اُسے تور خان کہا جاتا ۔ اور پکارنے پر اوئے تورے خان سے مخاطب کیا جاتا یا وہ جو تلوار کا دھنیّ ہوتا اُسے تورہ خان کہتے ۔
طرّم خان یا طرّم خانخانی ۔ یہ اردو میں بطور محاوہ مستعمل ہے اِس کا تورے باز خان کی شجاعت اور بہادری سے کوئی تعلق نہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں