شاید آپ میں سے معدودے بسیارصحتمند لوگ اس بات سے یقیناً اتفاق کریں گے کہ ماحول جیسے عالمانہ ہوتا ہے، فاسقانہ ہوتا ہے، سوقیانہ ہوتا ہے، عاشقانہ ہوتا ہے ، ویسے ہی مریضانہ بھی ہوتا ہے اور اکثر ہوتا ہے۔
جہاں انسان بستے ہیں وہاں بیماریاں بھی ہوتی ہیں اور ان کے چرچے بھی۔ بیماریاں تو چرند پرند کو بھی ہوتی ہیں اور شاید وہ بھی چرچے کرتے ہوں۔ ہو سکتا ہے جسے ہم چڑیوں کی چہچہاہٹ کہتے ہیں وہ بیماریوں کے بارے میں ان کی بات چیت ہو۔ ورنہ اور کون سا موضوع اتنی دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے جس پر صبح ہونے سے پہلے ہی گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔
بہرحال ہماری دلچسپی تو انسانوں میں زیادہ ہے کیونکہ ہمیں انہی میں سے کچھ کی زبان سمجھ میں آتی ہے، اس لیے بات کریں گے انسان مریضوں کی۔
واضح رہے کہ قدرت نے انسان تین قسم کے بنائے ہیں، مریض، معالج اور مظلوم۔ سب سے پہلے تیسری قسم کی وضاحت کرتے چلیں کہ وہ انسان جو نہ مریض ہوں نہ معالج وہ بیچارے مظلوم ہی ہوتے ہیں، کیونکہ وہ مریضوں کی تیمارداری کرنے، ان کے لیے دواؤں اور پرہیزی غذاؤں کا بند و بست کرنے، اگر مریض اسپتال میں ہوں تو اسپتال کے پھیرے لگانے اور سب سے بڑھ کر ان کا حال سننے اور سچّی یا جھوٹی تسلیّاں دینے کے پابند ہوتے ہیں۔
معالج وہ ہوتے ہیں جو پہلی قسم کے ہوم گراونڈ پر قدرت کے ساتھ دوستانہ میچ کھیلنے کا شوق کرتے ہیں۔ جس مریض کو ملک الموت اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئے ہوئے ہوں یہ اسے کیچ کر کے وینٹی لیٹر پر لگا دیتے ہیں تاکہ میچ کی رفتار آہستہ ہو جائے۔ اور جو مریض ملک الموت کی ویٹنگ لسٹ پر ہوں یہ انہیں بڑی مہارت سے عالم بالا اسمگل کر دیتے ہیں۔
لیکن ہم بات شروع کریں گے مریضوں سے کیونکہ وہی تمام امراض کی جڑ ہیں۔ اگر مریض نہ ہوتے تو ---- نہ کوئی معالج بنتا نہ تیماردار ہوتا۔
مریضوں کو یوں تو دائمی اور عارضی مریضوں میں تقسیم کرنے کا رواج عام ہے مگر ہم ان کو مندرجہ ذیل گروہوں میں رکھیں گے۔
پیشہ ور مریض:
یہ وہ مریض ہیں جو ہر وقت کسی نہ کسی حقیقی یا فرضی مرض میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور بسا اوقات بیک وقت ایک سے زائد امراض کی نمائندگی کرتے ہیں۔ الف سے یائے طویل تک سے شروع ہونے والے جتنے امراض پائے جاتے ہیں یہ یا تو ان میں مبتلا ہوتے ہیں یا مبتلا ہونے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ وہ ہوتے ہیں جو دعوتوں میں سنٹر فارورڈ کے فرائض نبھاتے ہیں اور محفلوں میں دوسروں کو بولنے کا موقع نہیں دیتے ، لیکن اگر کوئی ان کے مریض ہونے پر شک کرے تو انتہائی برہم ہوتے ہیں اور محفل کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔ شوگر کے مریض ہوں تو میٹھا اس طرح چھپ کر کھاتے ہیں کہ لوگ انہیں کھاتے ہوئے دیکھ بھی سکیں اور ٹوک بھی سکیں۔ کئی کئی دنوں تک شوگر چیک نہ بھی کریں تو بھی آخری بلند ترین اور پست ترین ریڈنگ دن میں کئی کئی بار لوگوں کو بتاتے ہیں۔ ان کی گفتگو حاذق طبیبوں، مشہور ڈاکٹروں، عطائیوں کے تیر بہدف نسخوں، پیر صاحب کی دعاؤں، صاحب قبر کی کرامتوں، کوئی پرہیز نہ کر کے بھی جینے والے مریضوں اور حال ہی میں پرہیز کر نے کے باوجود ملک الموت کے ہمسفر بن جانے والوں کے گرد گھومتی ہے۔ دواؤں کے نام ان کو ازبر ہوتے ہیں۔ ملاقاتیوں کو بیمار نظروں سے دیکھتے ہیں لیکن ملاقاتنوں کو دیکھ کر چونچال ہو جاتے ہیں، اور وائس ورسا۔
انکاری مریض:
یہ مریض پیشہ ور مریضوں کے مخالف کیمپ میں ہوتے ہیں۔ بیماریوں کی ہر طرح کی علامات ساتھ لیے پھرنے کے باوجود خود کو بیمار سمجھنے سے ہٹ دھرمی کے ساتھ انکار کرتے ہیں۔ یہی کہتے ہیں کہ میں بالکل ٹھیک ہوں، بس ذرا سی تھکن ہو گئی یا نیند نہ آنے کی وجہ سے سر درد ہو گیا ہے، چاہے نیند خود سر درد کی وجہ سے نہ آتی ہو۔ گھر والے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کو کہیں تو کنّی کتراتے ہیں۔ پرہیز کرنے کو کفرانِ نعمت بلکہ کفر سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی ڈاکٹر /طبیب خود گھر آجائے تو اس سے حتی الامکان بچتے ہیں۔ اگر گھِر جائیں اور کوئی معالج دوائیں لکھ ہی دے تو دوائیں لے کر نہیں آتے اور اگر کوئی دوسرا دوائیں لے آئے تو یا تو کھاتے نہیں یا چپکے سے کہیں پھینک دیتے ہیں۔
امکانی مریض:
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو مریض نہ ہونے کے باوجود ہر مرض سے ڈرتے رہتے ہیں۔ ہر قسم کی صحتمند سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں۔ سردی کے موسم میں باہر نکلنے سے اس لیے گریز کرتے ہیں کہ انفلوئنزا (یعنی فلو) نہ ہو جائے، اورنہانے سے اس لیے پرہیز کرتے ہیں کہ نمونیہ نہ ہو جائے۔ گرمیوں کے موسم میں باہر اس لیے نہیں نکلتے کہ سن اسٹروک نہ ہو جائے اور آم اس لیے نہیں کھاتے کہ بدن میں گرمی نہ ہوجائے۔ میٹھا کھانے سے اس لیے گریز کرتے ہیں کہ شوگر نہ ہو جائے اور نمک سے اس لیے بچتے ہیں کہ بی پی ہائی نہ ہو جائے۔ کولڈ ڈرنک اس لیے نہیں پیتے کہ یہ ہزار بیماریوں کی جڑ ہے اور چائے/کافی سے اس لیے دور رہتے ہیں کہ یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ گائے کے گوشت سے پرہیز کرتے ہیں کہ یہ ثقیل ہوتا ہے، مچھلی سے بچتے ہیں کہ یہ گرم ہوتی ہے۔ ذرا سی طبیعت نڈھال ہو تو ان کو یقین ہوجاتا ہے کہ اب میں بچنے والا نہیں۔ فوراً ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور اگر ڈاکٹر کہہ دے کہ آپ بالکل ٹھیک ہیں تو ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ جلد ہی کسی اور ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں جو یہ جان کر کہ پہلے ڈاکٹر نے ان کوصحتمند قرار دیا تھا، ان کو کوئی نہ کوئی مرض بتا دیتے ہیں، اور ان کی من پسند دواؤں میں سے چند بے ضرر دوائیں دے دیتے ہیں۔
پرہیزی مریض:
یہ وہ مریض ہوتے ہیں جو معمول کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر زور شور سے کچھ معالج کے بتائے ہوئے اور کچھ خود تجویز کردہ پرہیز کرتے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں بڑے شوق سے جاتے ہیں اور پھر میزبان کو اپنے پرہیز کی جزئیات سے آگاہ کر کے من پسند کھانے بنواتے ہیں۔ لیکن دسترخوان پر موجود غیر پرہیزی کھانوں کو بھی بلا اصرار اور بلا ترغیب چکھتے بھی اور تعریفیں بھی کرتے ہیں۔ ان کا پرہیز عموماً چکنائی، کھٹاس، بادی اشیاء ، گائے کے گوشت سمیت تقریباً ہر خوش ذائقہ خوراک پر محیط ہوتا ہے۔ دعوتوں میں یہ پرہیز سے تقیّہ کر لیتے ہیں لیکن گھر میں اس کا اہتمام انتہائی تقویٰ سے کرتے ہیں۔
عادی مریض:
یہ بے ضرر سے لوگ ہوتے ہیں۔ بیماری عام ہو یا وی آئی پی، بیچارے ابتدا میں تھوڑا بہت علاج بھی کرتے ہیں، اور پرہیز بھی۔ مگر جلد ہی مرض کے عادی ہو جاتے ہیں۔ گاہے بگاہے کھانستے، چھینکتے، کھنکھارتے اور کراہتے نظر آتے ہیں۔ مرض یا امراض سے ایک خاموش سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ نہ شور شرابا کرتے ہیں نہ خون خرابا۔ جو مل جائے کھا لیتے ہیں۔ دوا مل جائے تو فبہا ورنہ اللہ اللہ خیر صلّا۔ یہ بے ضرر لوگ اپنی بیماری کو دوسروں کے لیے بھی بے ضرر سمجھ لیتے ہیں اور لوگوں سے بڑے تپاک سے گلے ملتے ہیں، بچوں کو چومتے ہیں، عام لوگوں کے برتن استعمال کرتے ہیں، اس بات کی پروا کیے بغیر کہ ان کا مرض کسی اور کو بھی لگ سکتا ہے۔
شوقین مریض:
ایسے مریض دواؤں کے، انجکشن کے، ٹیسٹ کروانے کے، بی پی چیک کروانے کے، بخار چیک کرنے یا کروانے کے، فزیو تھیراپی کروانے کے، اسپتال میں داخل ہونے کے،ایکسرے اور الٹرا ساؤنڈ کروانے کے اور نت نئے ڈاکٹروں کو دکھانے کے بہت شوقین ہوتے ہیں۔ اگر خوش قسمتی سے ان کو کوئی ایسا مرض ہو جائے جو زیادہ تکلیف دہ بھی نہ ہو اور آسانی سے ٹھیک بھی نہ ہو تو ان کی بن آتی ہے۔ گولیاں اور دیگر دوائیں تھوک میں خریدتے ہیں اور خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ طاقت کی دوائیں اور وٹامن بھی پابندی سے استعمال کرتے ہیں۔ ہلکی سی چھینک بھی آجائے تو بستر پر لیٹ کر منہ ڈھانپ لیتے ہیں اور ہائے ہائے کرتے رہتے ہیں۔ ان کو عیادت کروانے کا بھی شوق ہوتا ہے۔ توقع کرتے ہیں کہ ان کی بیماری کا سن کر عزیز رشتے دار اور اہلِ محلّہ جوق در جوق ان کو دیکھنے کے لیے آئیں گے۔ گھر والوں پر تو یہ ایک قسم کا کرفیو نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی شور نہ کرے، ہنسے نہیں، بولے نہیں، فون آئے تو سنے نہیں۔ کوئی ان سے بات کرے تو بے رخی سے جواب دیتے ہیں، اور نہ کرے تو شکوہ کرتے ہیں کہ میں یہاں پڑا مر رہا ہوں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
تو صاحبو یہ تھی ایک مختصر تفصیل اس گروہ زحمت شعار کی۔ امید ہے کہ بانظر احباب اس کلاسی فیکیشن میں حسبِ استطاعت اضافہ فرمائیں گے۔
بشکریہ آصف اکبر :
رنگِ مزاح، دسمبر 2019
٭٭٭٭٭٭
(یہ مزاحیہ مضمون 14 دسمبر 2019 کو شگُفتہ نثر کی چوتھی محفل اسلام آباد کی مزاحیہ محفل میں آن لائن پڑھا گیا۔)
٭٭٭٭٭٭واپس جائیں٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں