آؤ ، تمھیں مزدوری دلوا دوں ، کہا ایک ہمدرد نے ۔
"کیسی مزدوری ہے ؟ " شیدے نے اپنی پھٹی چادروں کی جھگی کے سائے میں لیٹے ہوئے پوچھا ۔
" دیہاڑی کرنا ہے " ہمدرد بولا " بھٹے پر وہاں مُفت جگہ بھی ہے رہنے کے لئے ،
لیکن ایک شرط ہے ، کہ آدھی تنخواہ میری ہوگی" ۔
شیدے نے سوچا ، " جہاں وہ رہ رہا ہے ، 100 روپے مہینہ کرایہ بھی دے رہا ہے اپنے خاندان کے 20 افراد کا ، اُوپر سے پولیس والے بھی تنگ کرتے ہیں ۔ کہ تم لوگ خطرناک ہو ۔تھانے کے پھیرے الگ ، چنانچہ حامی بھر لی ۔
ہمدرد نے سیٹھ سے آدھی تنخواہ وصول کر کے ، بھوک کا شکار ، شیدے کو بھٹے پر رکھوادیا اور بھٹے کے پاس رہنے کو جگہ بھی مل گئی ۔ شیدے نے اپنی ، ماں ، بہن ، بیوی سب بچوں کو مالک سے ادھار لے کر بھٹے پر رکھوا دیا۔کیوں کہ تنخواہ تو تین بھٹوں کی اینٹیں کے بِکنے کے بعد ملے گی ، لیکن پیٹ تو کھانا ابھی مانگتا ہے ۔
پہلے بھٹے کی اینٹیں پکیں تو ٹھیکیدار لے گیا ۔
مزدوروں نے شُکر کیا ۔
دوسرے بھٹے کی اینٹیں سوکھ رہی تھیں کہ ، کسانوں نے دعا مانگی ۔
اور ناگہانی بارشیں شروع ہو گئیں جو پورے ہفتے لگی رہیں ،کسانوں نے شُکر کیا ۔
اور سوکھی اینٹیں مٹی اور ریت بن کر تودوں میں تبدیل ہو گئیں ۔
شیدے ، نے سوچا حکومت نے مہنگائی بڑھا دی ہے ، لیکن بھٹہ مالک سال بعد مزدوری بڑھائے گا ۔
کیا کیا جائے ؟
ہمدرد پھر شیدے کے پاس آیا ، شیدے نے اپنی ببپتا سنائی ، ہمدرد نے کہا ، ایک اور جگہ ہے وہاں دیہاڑی بھی زیادہ راضی ہو تو بولو ۔ شیدے نے حامی بھری ۔
رات کو اُس نے پورے خاندان کے ساتھ نکلنا تھا ۔ لیکن یہ کیا ابھی وہ سامان باندھ کر گدھوں پر رکھ رہے تھے ، کہ بھٹہ مالک کے کارندے آگئے ، اُنہوں نے شیدے کو خوب مارا ، اُس کی چھوٹی دو بچیوں 10 سالہ صغرا کو اور 13 سالہ شنّو کو لے گئے ۔
" یہاں سے کہیں گئے تو لڑکیاں بیچ کر قرض پورا کر لیں گے " کارندوں کے باس نے دھمکی دی ۔
"کیسی مزدوری ہے ؟ " شیدے نے اپنی پھٹی چادروں کی جھگی کے سائے میں لیٹے ہوئے پوچھا ۔
" دیہاڑی کرنا ہے " ہمدرد بولا " بھٹے پر وہاں مُفت جگہ بھی ہے رہنے کے لئے ،
لیکن ایک شرط ہے ، کہ آدھی تنخواہ میری ہوگی" ۔
شیدے نے سوچا ، " جہاں وہ رہ رہا ہے ، 100 روپے مہینہ کرایہ بھی دے رہا ہے اپنے خاندان کے 20 افراد کا ، اُوپر سے پولیس والے بھی تنگ کرتے ہیں ۔ کہ تم لوگ خطرناک ہو ۔تھانے کے پھیرے الگ ، چنانچہ حامی بھر لی ۔
ہمدرد نے سیٹھ سے آدھی تنخواہ وصول کر کے ، بھوک کا شکار ، شیدے کو بھٹے پر رکھوادیا اور بھٹے کے پاس رہنے کو جگہ بھی مل گئی ۔ شیدے نے اپنی ، ماں ، بہن ، بیوی سب بچوں کو مالک سے ادھار لے کر بھٹے پر رکھوا دیا۔کیوں کہ تنخواہ تو تین بھٹوں کی اینٹیں کے بِکنے کے بعد ملے گی ، لیکن پیٹ تو کھانا ابھی مانگتا ہے ۔
پہلے بھٹے کی اینٹیں پکیں تو ٹھیکیدار لے گیا ۔
مزدوروں نے شُکر کیا ۔
دوسرے بھٹے کی اینٹیں سوکھ رہی تھیں کہ ، کسانوں نے دعا مانگی ۔
اور ناگہانی بارشیں شروع ہو گئیں جو پورے ہفتے لگی رہیں ،کسانوں نے شُکر کیا ۔
شیدے ، نے سوچا حکومت نے مہنگائی بڑھا دی ہے ، لیکن بھٹہ مالک سال بعد مزدوری بڑھائے گا ۔
کیا کیا جائے ؟
ہمدرد پھر شیدے کے پاس آیا ، شیدے نے اپنی ببپتا سنائی ، ہمدرد نے کہا ، ایک اور جگہ ہے وہاں دیہاڑی بھی زیادہ راضی ہو تو بولو ۔ شیدے نے حامی بھری ۔
رات کو اُس نے پورے خاندان کے ساتھ نکلنا تھا ۔ لیکن یہ کیا ابھی وہ سامان باندھ کر گدھوں پر رکھ رہے تھے ، کہ بھٹہ مالک کے کارندے آگئے ، اُنہوں نے شیدے کو خوب مارا ، اُس کی چھوٹی دو بچیوں 10 سالہ صغرا کو اور 13 سالہ شنّو کو لے گئے ۔
" یہاں سے کہیں گئے تو لڑکیاں بیچ کر قرض پورا کر لیں گے " کارندوں کے باس نے دھمکی دی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں