Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 30 جولائی، 2021

گھٹیا جج اور حرام و سحت کھانے والے ایک وکیل کی کہانی ۔ ایک بہترین جج کی زبانی

سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ فَإِن جَآؤُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُم أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن يَضُرُّوكَ شَيْئًا وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ[5:42]

 جسٹس نعیم اختر افغان،نامزد چیف جسٹس   بلوچستان ہائی کورٹ    نےوکلا سے بات کرتے ہوئے بتایا ، "  جب میں  خضدار جیل کا معائنہ کرنے  گیا ۔  تو دورے کے اختتام پر جب میں  باہر نکلنے کے لیے مین گیٹ پر پہنچا ۔تو آخری بیرک کی جالیوں کے پیچھے سے ایک شخص نے آواز دی۔ کیا آپ میری بات سنیں گے۔ میں نے کہا کہ ضرور کیونکہ میں تو آپ لوگوں کو سننے کے لیے آیا ہوں۔ جب   میں اُس کے قریب گیا ۔تو  اُس شخص نے رونا شروع کر دیا۔  میں نے  اُس شخص کو غور سے دیکھا  اور اُس  کو دلاسہ دیا اورپوچھا ،  آپ رو کیوں رہے ہو ۔کیا ہوا ؟اُس  کو بلک بلک کر روتے دیکھ کر میری اپنی حالت بھی غیر ہو گئی تھی ۔‘

 قیدی نے مجھے  بتایا کہ اس کا تعلق کراچی سے ہے اور میں  بے گناہ قید ہوں ۔ اُ س    کا ہسٹری ٹکٹ دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اُسے عمر قید کی سزا ہوئی تھی۔  میں حیران ہوا کہ وضع اور قطع سے وہ مجرم لگتا نہیں تو پھر اُس  کو سزا کیسے ہوئی؟ 

جیل کے عملے نے میرے استفسار پر بتایا کہ اس قیدی کو منشیات کے مقدمے میں عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔ میں نے قیدی کو کہا کہ اگر آپ منشیات کا کاروبار کریں گے تو پھر سزا تو ہو گی۔اُس کے کہا مائی باپ میں بے قصور ہوں ۔

اُس نے  بتایا :۔ 

" اُس  کی بھتیجی کی شادی کوئٹہ میں ہوئی تھی لیکن یہ شادی صرف ایک سال چل سکی۔ ایک سال بعد لڑکی کی طلاق ہوئی۔اُس  کا کہنا تھا کہ طلاق کے بعد لڑکی واپس کراچی چلی گئی۔ تاہم سسرال کی جانب سے جہیز میں لڑکی کے شوہر کو جو سامان دیا گیا تھا اس کی واپسی کے لیے کوئٹہ کی فیملی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ جب فیملی کورٹ سے لڑکی کے حق میں فیصلہ آیا تو جو سامان واپس کیے جانے تھے۔ ناظر نے اس کی فہرست تیار کی اور سامان لڑکی کے حوالے کرنے کا بندوبست کر دیا۔  جہیز کے سامان کو منتقل کرنے کے لیے  وہ کوئٹہ کے ٹرک اڈاگیا ۔ جہاں ایک ٹرک والے سے کرایہ طے ہوا۔ ٹرک والے سے یہ طے پایا کہ وہ اگلی صبح آئے گا اور سامان لے کر کراچی کے لیے روانہ ہوں گے۔ جب اگلی صبح ٹرک آیا تو اس میں سامان رکھ دیا گیا۔ قیدی سامان رکھنے کے بعد ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا اور وہ کراچی کے لیے روانہ ہو گئے۔ جب وہ کراچی کے قریب اوتھل پہنچے تو چیک پوسٹ پر گاڑی کو روک دیا گیا۔ پھر وہ ہوا جو قیدی کے خواب و خیال میں نہیں تھا۔ قیدی نے بتایا کہ ایک اہلکار آیا اور یہ پوچھا کہ یہ سامان کس کا ہے؟  تو میں نے کہا کہ میرا ہے۔ اہلکار نے بتایا کہ ہماری اطلاع یہ ہے کہ اس ٹرک میں منشیات ہیں۔ میں نے کہا کہ نہیں اس میں کوئی ایس چیز نہیں بلکہ بچی کے جہیز کاسامان ہے۔ پلنگ ،دیگر فرنیچر اور بسترہیں۔جو اہلکاروں کو بھی نظر آرہا تھا ۔ 

 قیدی  نے تلاشی کے لیے آنے والے اہلکاروں کو رسید دکھائی، ناظر کی رپورٹ دکھائی، اجرا کا حکم دکھایا لیکن انھوں نے مجھے اور ڈرائیور کو نیچے اتار دیا۔  جب سامان اتارنے کے بعد ٹرک کے پچھلے فرش کو اکھیڑا گیا تو وہاں خفیہ خانوں میں منشیات تھی اور اس میں پانچ سو پیکٹ چرس چھپائی گئی تھی"۔ 

 چیف جسٹس نے وکیلوں کو بتایا  کہ چرس کی برآمدگی کرنے والے اہلکاروں نے دونوں کو گرفتار کر لیا۔  تفتیشی افسر نے دونوں افراد کا چالان کیا اور سیشن جج نے  دونوں کو عمر قید کی سزا سنا دی۔میں نے قیدی سے پوچھا  کہ آپ نے اپنی بے گناہی کا کوئی ثبوت  کیوں نہیں پیش کیا ۔ جب ہی تو   آپ کو سزا ہوئی۔

 قیدی نے بتایا کہ اُس  اپنے  نے دفاع میں تمام دستیاب دستاویزات اور دیگر ثبوت پیش کیے ۔لیکن سیشن  جج صاحب نے  اُس کے باوجود سزا سنا دی۔

 جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ میں نےقیدی سے پوچھا کہ ہائیکورٹ میں ان کی اپیل کی اگلی سماعت کب ہے؟   تو معلوم ہوا کہ گذشتہ تین سال سے ہائیکورٹ میں ان کی اپیل کی کوئی سماعت نہیں ہوئی۔ 

 وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس نعیم اختر افغان  کا کہنا تھا کہ ،۔

"یہ بات ذہن میں رکھنا چائیے کہ میں انصاف  کے  نظام میں بہتری کی بات کررہا ہوں۔"

 جسٹس نعیم اختر افغان نے بتایا کہ خضدار سے واپسی پر وہ اپنے چیف جسٹس کے پاس گئے اور انھیں اس شخص کی کہانی بتائی اور ان سے درخواست کی کہ اس کیس کو میں خود سنوں گا۔

  چیف جسٹس نے میری ستائش کی اور کہا کہ یہی تو کرنے کی بات ہے آپ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو۔؟

  جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ وہ اس وکیل کا نام نہیں لیں گے تاہم اگر وہ اس پنڈال میں بیٹھے ہیں تو ان کو یاد آ جائے گا۔ 

  جسٹس نعیم اختر افغان  نے بتایا ۔ " رات کو میں نے قیدی پر مقدمے کی فائل پڑھی تو اس کے ہر صفحے پر اُس کی بے گناہی کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔' انھوں نے کہا کہ ،" میں حیران ہوا کہ ثبوت نہ ہونے کی باوجود میرے ساتھی جج صاحب نے ان کو سزا کیسے دی؟۔

 نامزد چیف جسٹس نے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔" یہ دیکھنے کے لیے کہ ہائیکورٹ میں سزا کے خلاف اپیل لگنے کے بعد اس کی سماعت کیوں نہیں ہوئی؟  میں نے مقدمے کے آرڈر شیٹس دیکھیں ۔ آرڈر شیٹس پر قیدی کے وکیل کی بار بار غیر حاضری پائی گئی۔ مجھےاس پر بھی بہت زیادہ تکلیف ہوئی کہ وکیل نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیوں کیا؟۔ 

 نامزد چیف جسٹس نے بتایا کہ اگلے دن جب سماعت کے لیے قیدی کی اپیل کی باری آئی ، تو نوٹس ہونے کے باوجود وکیل پھر نہیں آیا۔ 

انھوں نے کہا کہ،میں نے اپنے سٹاف کو کہا کہ وکیل کو فون کریں اور اُسے   وہ جہاں کہیں بھی  ہو بلا لیں ۔

 وکیل ساڑھے بارہ بجے میرے سامنے پیش ہوا۔ میں نے وکیل سے پوچھا کہ آپ کا کیس ہے، کیوں ظلم کر رہے ہو، کیس کیوں نہیں چلا رہے۔؟ 

نامزد چیف جسٹس نے بتایا کہ وکیل کا جواب یہ تھا ،"یہ ظالم میری فیس نہیں دیتا"۔ 

  جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ انھوں نے قیدی کے وکیل کو کہا کہ آپ کو ایک اور موقع دیتا ہوں۔ 

جسٹس نعیم اختر افغان نے بتایا ، میں نے قیدی کے وکیل کو کیس کی فائل پڑھنے کی مہلت دی مگر اگلے دن جب وکیل آیا ،تو اُس نے فائل ابھی تک  نہیں پڑھی تھی

 ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ اس قیدی سے منشیات کی برآمدگی کا کوئی ثبوت نہیں تھا جس پر میں نے ان کو پانچ منٹ میں بری کر دیا۔ 

 نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ ایک  تلخ  حقیقت ہے جس میں بہت سارے سوال ہیں اور بہت سارے کردار ہیں۔ 

کس نے کہاں ٹھیک ہونا ہے؟

میری کیا ذمہ داری ہے؟

 اور آپ کی کیا ذمہ داری ہے؟۔

نامزد چیف جسٹس نے کہا ۔ " میں تو قسم کھا رہا ہوں کہ میں اپنی ذمہ داری پوری کروں گا چاہے مجھے اس کے لیے کتنے کڑوے گھونٹ کیوں نہ پینے پڑیں" ۔

 انھوں نے وکلا سے سوال کیا کہ

 ’آپ لوگ بتا دیں کہ آپ اپنی ذمہ داری پوری کریں گے یا نہیں؟‘

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اُفق کے پار رہنے والے میرے پیارے فیس بُک کے دوستو ۔

 کیا کبھی ہم نے اللہ کی آیات کی روشنی میں اپنا محاسبہ کیا ہے ، یا 

ھارو سکوپ کی تحاریر کی طرح اچھی باتیں خود اور بُری باتیں دوسروں سے منسوب کر دیتے ہیں ۔

 اُفق کے پار رہنے والے میرے پیارے فیس بُک کے دوستو ۔

 آئیں اپنا محاسبہ کریں ۔ کہ کیا ہم الْمُؤْمِنِين ہیں ؟ یا ابھی تک الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ ہیں !۔ 

  رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (14:41)

 

اُفق کے پار بسنے والے دوستو  !۔


جمعرات، 29 جولائی، 2021

مرکزِ ملت ، عیسائیت و اسلامیت

٭٭٭٭٭٭
حیوانات بھی اپنی اپنی راہیں الگ بناتے ہیں ۔
 حیوانوں میں جو محکومیت پسند کرتے ہیں وہ کمزور ہوتے ہیں ۔ شیر جب جوان ہوتا ہے تو وہ اپنا فرقہ الگ بناتا ہے اور اُس فرقے کے اصول بھی خود طے کرتا ہے ۔ یوں ایک خاندان فرقہ در فرقہ میں تبدیل ہوتے جاتا ۔ کیوں کہ جانوروں کا مذہب نہیں ہوتا لہذا ، اُن کے درمیان یہ   طاقتور اور کمزور کے درمیان قبیلوں کی تقسیم کہتے ہیں۔
 اِسی اصول کی بنیاد پر انسانی حیوانات بھی قبائل در قبائل اور برادری در برادری میں تقسیم ہوتا گیا ۔ 
مذھب نے بھی یہی کیا جو لچھے دار باتوں کے ماہر ہیں ، اُنہوں نے پہلے سے لچھے دار باتیں بنانے والوں کی راہ چلتے ہوئے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا شروع کیا ۔ کیوں کہ وہ طاقتور نہیں ہوتے تھے لہذا قبیلے کے طاقتوروں نے اُنہیں اپنے مفاد کے لئے پالنا شروع کر دیا ۔
 جب اِن لچھے دار باتیں بنانے والوں نے قبیلے کے طاقتوروں کو اُپنے سننے والوں کی تعداد سے متاثر ہو کر خود کو طاقتور بنانے کی کوشش کی تو وہ جلاوطن کر دیئے گئے یا پھانسی پر لٹکا دئے گئے ۔ اُن کے مریدوں نے وہ لچھے دار باتیں اندرونی سطح پر پھیلانا شروع کر دیں ۔ طاقتورں نے نئے لچھے دار باتیں بنانے والوں کو اپنے گروپ میں شامل کیا تو نئے لچھے دار باتیں بنانے والوں اپنے سننے والوں کا نیا گروپ تشکیل دیا ۔ یوں تفریق در تفریق بڑھتی گئی ۔
 پرانی اور نئی لچھے دار باتوں کو اپنے فہم کے مطابق انسانوں نے اصولوں کی شکل دی اور پھر اُنہیں کتابوں کی صورت میں ڈھال دیا ۔
 تاریخ میں درج ہے کہ1604 میں بائیبل کے 66 نسخے تھےجو 66  سینٹ تھے     ۔یہ  ایڈم سے شروع ہوئے ، نوحا ، ابراہم اور لوٹ سے گذرتے ہوئے کرائسٹ کو  صلیب  پر چڑھانے کے بعد  ختم ہوئے  ۔
 گویا 66 تفریقی گروپس تھے 1911 میں اِن تمام کتب کو اکٹھا کرکے ایک مستند نسخہ کنگ جیمس نے بنایا اور دولت کے بل پر پوری عیسائیت  جماعت میں پھیلا دیا گیا۔
 یوں عیسائیوں میں لچھے دار باتیں بنانے والوں کا 1929 میں اختتام ہوا ۔ جب ویٹیکن سٹی میں چرچ کو ایک متفقہ عبادت گا بنا لیا ۔
مذہب اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ آدم کے ساتھ زمین پر آیا اور بنی آدم میں رسولوں اور نبیوں کے ہمراہ چلتا ہوا ہیکلِ سلیمانیہ کی بنیادوں سے گذرتا ہوا ، یروشلم کے عیسائی عبادت گا کو قبلہ بناتا ہوا ۔
 مکّہ میں کعبہ ہر آکر ٹہر گیا جہاں لات ،منات اور عزہ کے معبد 360 ہمرایوں کے قائم تھے ۔
اسلامیت کے پرچاروں کابھی یہی دعویٰ تھا کی اُن کی تمام کتابوں  اور صحیفوں  کو ایک جگہ کمپائل کرکے قرآن نامی کتاب  مصحفِ عثمانی وجود میں لائی گئی ۔جس کی صرف  7 فوٹو کاپیاں  مملکت میں بھجوادی گئیں ۔
  یوں مذہبی تفرقہ بازوں کی لچھے دار باتوں کا ویٹیکن سٹی اور کعبہ میں اختتام ہو گیا  اور اسلامیت  میں بھی تفریق ختم ہو گئی ۔کالے اور گورے برابر قرار دیئے گئے ۔ امیر طبقہ  اور غریب  طبقہ دولت کی مساوی تقسیم کے باعث متوسط طبقے میں تبدیل ہوگئے ۔
تمام پڑھنے والے تالیاں بجائیں ۔
  لیکن مسئلہ یہ ہوا ۔ کہ
 لچھے لچھےدار باتوں کا ایک گروپ ، مدینہ سے جان کے خوف سے بھاگ کر ،  کوفہ میں بننا شروع ہوا ۔
 اُس گروپ کے لوگ ماورالنہر کے شہروں تک پہنچ گئے ، جن میں ماوراء النہر کے اہم ترین شہر سمرقند اور بخارا،خجند،شیستان ، نیشاپور ، قزوین اور ترمذ شامل تھے۔ 
لچھے دار باتوں کے بنانے والوں میں بھی فرقے بننے شروع ہو گئے ۔ ہر فرقہ خود کو دوسرے سے افضل سمجھتا ، اِن لچھے دار باتیں بنانے والوں کو بھی ملک بدر کیا گیا ، زندان خانوں میں ڈالا گیا اور غالباً زہر دیا گیا ، قتل کیا گیا ۔ اں کے بھی متبعین وہاں سےبھاگے اور 10 لاکھ آبادی کے شہر بغداد 66  میں تو نہیں البتہ 15یا 20  لچھے دار باتیں بنانے والوں کے مرکز بن گئے ۔ 
یہاں تک کہ ہلاکو خان نے سب لچھے دار باتیں بنانے والوں اور اُن کی باتیں سن سن کر سر دھننے والوں کو دریائے فرات میں اُن کی کتابوں سمیت بالکل ایسے بہایا جیسے  آج کل کرونا انسانوں کو بہا رہا ہے ۔
 لیکن کیا کیا جائے ؟ 
 اسلامیت   کا  سٹی موجود ہے ۔ مسلمانوں کی متفقہ کتاب موجود ۔ 
لیکن افسوس لچھے دار باتیں بنانے والوں کے گروپس کے گروپس بنتے جا رہے ہیں ۔ 
پاکستان کے رہنے والے مسلمان ، تمام مسلمانوں کےمتفقہ سٹی کے حکمرانوں کو خود سے الگ گروپ سمجھتے ہیں اور کیوں نہ سمجھیں ؟
 کہ یہ گروپ بھی بغدادی گروپ کا دیوانہ  اور وہابی فرقہ ہے  ۔ 
سنا ہے کہ اب آئندہ حکومت لینے والا نیا حکمران ، بغدادی لچھے دار باتیں بنانے والوں کو پسِ پشت ڈال کر  قرآن  کو ترجیح دینے کی کوششوں میں انٹرویو دے رہا ہے ۔
 تاکہ عیسائیوں کی طرح مسلمانوں کو بھی امت واحدہ پر لائے ۔ لیکن ایک بات وہ بھول رہا ہے کہ اِس کے لئے اُسے اپنے متفقہ  سٹی پر ابھرنے والے چاند کے تہواروں کو پورے گلوب پر  ویٹیکن سٹی کے کرسمس کے تہوار کی طرح ایک دن  قرار دینا ہوگا ۔
 ٭٭٭٭

بدھ، 28 جولائی، 2021

کرائسٹ ماس

کرسمس 25 دسمبر کو منایا جاتا ہے اور یہ ایک مقدس مسیحی مذہبی تعطیل اور عالمی ثقافتی اور تجارتی رجحان دونوں ہے۔
دو ہزار سال سے، دنیا بھر کے لوگ اسے روایات اور طریقوں کے ساتھ منا رہے ہیں. جو کہ مذہبی اور غیر مذہبی (سیکولر) دونوں نوعیت کے ہیں۔
عیسائی کرسمس کے دن کو عیسیٰ ناصری کی پیدائش کی سالگرہ کے طور پر مناتے ہیں، ایک روحانی پیشوا جن کی تعلیمات ان کے مذہب کی بنیاد ہیں۔ کرسمس کے مقبول رسم و رواج میں تحائف کا تبادلہ، کرسمس ٹری کو سجانا، چرچ میں جانا، خاندان اور دوستوں کے ساتھ کھانا بانٹنا اور یقیناً سانتا کلاز کے آنے کا انتظار کرنا شامل ہیں۔
25 دسمبر—کرسمس کا دن—1870 سے ریاستہائے متحدہ میں ایک وفاقی تعطیل ہے۔
کرسمس کا آغاز کیسے ہوا؟
موسم سرما کا وسط طویل عرصے سے دنیا بھر میں جشن کا وقت رہا ہے۔ یسوع مسیح کی آمد سے صدیوں پہلے، ابتدائی یورپی لوگ سردیوں کے تاریک ترین دنوں میں روشنی اور پیدائش کا جشن مناتے تھے۔ بہت سے لوگوں نے سردیوں کے اختتامی دنوں کے دوران خوشی منائی، جب سردیوں کا بدترین دور ان کے پیچھے تھا اور وہ لمبے دنوں اور سورج کی روشنی کے طویل گھنٹوں کا انتظار کر سکتے تھے۔
اسکینڈینیویا میں، نورس نے 21 دسمبر سے یوم منایا، موسم سرما کے سال، جنوری تک۔ سورج کی واپسی کے اعتراف میں باپ بیٹے گھر میں بڑے بڑے لکڑی کے ٹکڑے لاتے، جنہیں آگ لگا دیتے۔ لوگ اس وقت تک دعوت دیتے رہتے جب تک کہ لاگ جل نہیں جاتا، جس میں زیادہ سے زیادہ 12 دن لگ سکتے تھے۔ نورس کا خیال تھا کہ آگ سے نکلنے والی ہر چنگاری ایک نئے "سور" یا "بچھڑے" کی خوش خبری سناتی ہے جو آنے والے سال کے دوران پیدا ہوگا۔
دسمبر کا اختتام یورپ کے بیشتر علاقوں میں جشن منانے کا بہترین وقت مانا جاتا تھا۔ سال کے اس وقت، زیادہ تر مویشیوں کو ذبح کر دیا جاتا تھا تاکہ انہیں سردیوں میں کھانا کھلانا نہ پڑے۔ بہت سے لوگوں کے لیے، یہ سال کا واحد وقت یا حصہ تھا جب انہیں تازہ گوشت کی فراہمی ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ، سال کے دوران بنائی گئ زیادہ تر شراب اور بیئر آخر کار خمیر شدہ اور پینے کے لیے تیار ہوتی تھی۔
جرمنی میں، لوگ موسم سرما کے وسط کی تعطیلات کے دوران کافر دیوتا “اوڈن” کی تعظیم کرتے تھے۔ جرمن اوڈن سے خوفزدہ تھے، کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ اس نے اپنے لوگوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے رات کی پروازیں کیں، تاکہ فیصلہ کریں کہ آئندہ سال کون ترقی کرے گا یا تباہ ہوگا۔ اس کی موجودگی کی وجہ سے، بہت سے لوگوں نے گھر کےاندر رہنے کا انتخاب کیا۔
کرسمس روم میں:جہاں دور دراز شمال میں سردیاں اتنی سخت نہیں تھیں، Saturnalia — (زحل)، زراعت کے دیوتا کے اعزاز میں چھٹی منائی جاتی تھی۔ موسم سرما کے حل تک جانے والے ہفتے سے شروع ہونے والا اور پورے ایک مہینے تک جاری رہنے والا، Saturnalia ایک خوش مزاجی کا وقت تھا، جب کھانے پینے کی بہتات تھی اور عام رومن سماجی نظام الٹا تھا۔ ایک مہینے کے لیے غلام بنائے گئے لوگوں کو عارضی آزادی دی گئی اور ان کے ساتھ مساوی سلوک کیا گیا۔ کاروبار اور اسکول بند تھے تاکہ ہر کوئی چھٹی کی خوشیوں میں شرکت کر سکے۔
اس کے علاوہ موسم سرما کے سالسٹیس کے وقت کے ارد گرد، رومیوں نے Juvenalia کا مشاہدہ کیا، جو روم کے بچوں کے اعزاز میں ایک دعوت تھی۔ اس کے علاوہ، اعلیٰ طبقے کے ارکان اکثر 25 دسمبر کو ناقابل تسخیر سورج کے دیوتا “متھرا” کی سالگرہ مناتے تھے۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ "متھرا"، (ایک شیرخوار دیوتا)، ایک چٹان سے پیدا ہوا تھا۔ کچھ رومیوں کے لیے، متھرا کی سالگرہ سال کا سب سے مقدس دن تھا۔
کیا کرسمس واقعی اس دن کی یاد ہے جب یسوع مسیح کی پیدائش ہوئی تھی؟
عیسائیت کے ابتدائی سالوں میں، "ایسٹر" کا تہوار اہم چھٹی تھی؛ یسوع کی پیدائش نہیں منائی جاتی تھی۔
چوتھی صدی میں، چرچ کے حکام نے عیسیٰ کی پیدائش کو چھٹی کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ بدقسمتی سے، بائبل عیسیٰ کی پیدائش کی تاریخ کا ذکر نہیں کرتی ہے (ایک ایسی حقیقت جس کی، بعد میں، پیوریٹنز نے جشن کی قانونی حیثیت سے انکار کرنے کے لیے نشاندہی کی)۔
اگرچہ کچھ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عیسیٰ کی پیدائش موسم بہار میں ہوئی ہو گی (کیوں کہ چرواہے موسم سرما کے وسط میں چراگاہوں میں نہیں جاتے ہوں گے؟)۔ پوپ جولیس اول نے 25 دسمبر کا انتخاب کیا۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ چرچ نے اس تاریخ کو اپنانے کی کوشش میں منتخب کیا تاکہ کافر Saturnalia تہوار کی روایات کو جذب کریں۔ یہ پہلا جشن ولادت کہلاتا ہے۔ یہ رواج 432 تک مصر اور چھٹی صدی کے آخر تک انگلینڈ میں پھیل گیا۔
کرسمس کو، روایتی موسم سرما کے تہواروں کی طرح ایک ہی وقت میں منعقد کرنے سے، چرچ کے رہنماؤں نے اس بات کے امکانات کو بڑھا دیا کہ کرسمس کی مقبولیت کو اکثریت کی جانب سے قبول کیا جائے گا۔ لیکن یہ بتانے کی کوئی کوشش یا رہنمائی نہیں کی کہ اسے کیسے منایا جانا ہے۔ قرون وسطی تک، عیسائیت نے، زیادہ تر حصے کے لیے، کافر مذاہب کی جگہ مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ کرسمس کے موقع پر، مسیحی گرجا گھر میں شرکت کرنے لگے، پھر شرابی، کارنیوال جیسے ماحول میں اور آج کے مارڈی گراس جیسے ماحول میں جشن منایا۔ ہر سال، ایک بھکاری یا طالب علم کو "بد حکمرانی کے مالک" کا تاج پہنایا جاتا تھا اور خوشی منانے والے اس کی رعایا کا کردار ادا کرتے تھے۔
غریب امیروں کے گھر جا کر ان سے بہترین کھانے پینے کا مطالبہ کرتے۔ اگر مالکان تعمیل کرنے میں ناکام رہے تو، ان کے زائرین زیادہ تر، ممکنہ طور پر، شرارت سے انہیں دہشت زدہ کریں گے۔ اس طرح کرسمس سال کا وہ وقت بن گیا جب اعلیٰ طبقے، کم خوش نصیب شہریوں کو، تہوار کی تفریح کی فراہمی کے ذریعے معاشرے کو اپنا، حقیقی یا تصوراتی، "قرض" چکانے لگے تھے۔
جب کرسمس منسوخ کر دیا گیا تھا:
17ویں صدی کے اوائل میں، مذہبی اصلاحات کی لہر نے یورپ میں کرسمس منانے کا طریقہ بدل دیا۔ جب 1645 میں اولیور کروم ویل اور اس کی پیوریٹن افواج نے انگلینڈ پر قبضہ کر لیا تو انہوں نے انگلستان کو زوال پذیری سے نجات دلانے کا عہد کیا اور اپنی کوشش کے ایک حصے کے طور پر کرسمس کو منسوخ کر دیا۔ مقبول مطالبہ کے مطابق، چارلس II کو تخت پر بحال کیا گیا اور، اس کے ساتھ، مقبول چھٹی کی واپسی عمل میں آئی.
انگریز علیحدگی پسند جو 1620 میں امریکہ آئے تھے، اپنے پیوریٹن عقائد میں کروم ویل سے بھی زیادہ قدامت پسند (آرتھوڈوکس) تھے۔ نتیجے کے طور پر، ابتدائی امریکہ میں کرسمس کی چھٹی نہیں تھی۔ 1659 سے 1681 تک، بوسٹن میں کرسمس کا جشن دراصل غیر قانونی تھا۔ کرسمس کے جذبے کا مظاہرہ کرنے والے کو پانچ شلنگ جرمانہ کیا گیا۔ اس کے برعکس، جیمز ٹاؤن کی بستی میں، کیپٹن جان اسمتھ نے اطلاع دی کہ کرسمس سب نے انجوائے کیا اور بغیر کسی واقعے کے گزر گیا۔
آج کرسمس سب کا تہوار گردانا جاتا ہے۔ دنیا کا مقبول ترین تہوار ہے۔ مسیحی ہوں یا دیگر مذاہب کے لوگ۔ دین کے پیروکار ہوں یا لادینیت کے پرچارک۔ کرسمس سب یکساں طور پر مناتے ہیں۔
کرسمس کے بارے میں چنیدہ حقائق:
• ہر سال، صرف امریکہ میں 25-30 ملین اصلی کرسمس درخت فروخت ہوتے ہیں۔ ریاستہائے متحدہ میں تقریبا 15,000 کرسمس ٹری فارم ہیں، اور درخت عام طور پر فروخت ہونے سے پہلے چار سے 15 سال تک بڑھتے ہیں۔
• قرون وسطی میں، کرسمس کی تقریبات ہنگامہ خیز اور ہنگامہ پرور تھیں — بہت کچھ آج کی مارڈی گراس پارٹیوں کی طرح۔
• جب کرسمس منسوخ کر دیا گیا: 1659 سے 1681 تک، بوسٹن میں کرسمس کا جشن غیر قانونی قرار دیا گیا، اور قانون شکنی کرنے والوں پر پانچ شلنگ جرمانہ عائد کیا گیا۔
• 26 جون 1870 کو ریاستہائے متحدہ میں کرسمس کو وفاقی تعطیل کا اعلان کیا گیا۔
• ریاستہائے متحدہ میں بنایا جانے والا پہلا انڈے کا استعمال کیپٹن جان سمتھ کی 1607 جیمز ٹاؤن کی بستی میں کیا گیا تھا۔۔
• سالویشن آرمی 1890 کی دہائی سے سانتا کلاز پہنے عطیہ جمع کرنے والوں کو سڑکوں پر بھیج رہی ہے۔
• روڈولف، "سب کا سب سے مشہور قطبی ہرن"، 1939 میں رابرٹ ایل مے کے تخیل کا نتیجہ تھا۔ کاپی رائٹر نے مونٹگمری وارڈ ڈیپارٹمنٹ اسٹور میں گاہکوں کو راغب کرنے میں مدد کرنے کے لیے قطبی ہرن کے بارے میں ایک نظم لکھی۔
• تعمیراتی کارکنوں نے 1931 میں راک فیلر سنٹر کرسمس ٹری کی روایت شروع کی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

الدِّينِ میں فَقَّهُ کے لئے كُلِّ فِرْقَةٍ (الْمُؤْمِنُونَ ) میں سے طَآئِفَةٌ نفر کرے ۔

 مُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ نے حدیث کی۔

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ‎[9:122]


 اِس کے متعلق میرا فہم یہ ہے۔

 : وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَآفَّةً ۔

 الْمُؤْمِنُونَکے لئے یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ كَآفَّةً ، نفِرُ کرتے رہیں گے ۔

فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ ۔

   پس کیوں نہیں كُلِّ فِرْقَةٍ (الْمُؤْمِنُونَ ) اُن میں سے طَآئِفَةٌ نفر کرے ۔

لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ۔

  تاکہ وہ (طَآئِفَةٌ) الدِّينِ  میں فَقَّهُ  کریں ۔ 

وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ  ۔

 اور اُن کی قَوْمَ  کے لئے  وہ نذِرُکرتے رہیں گے ۔ جب وہ اُن کی طرف رَجَعُ کریں گے ۔

لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ۔  

 تاکہ وہ  (الْمُؤْمِنُونَ  رَجَعُ  کرنے والی قَوْمَسے  ) چوکس رہیں۔ 

کتاب اللہ میں ۔ اختلاف کے باعث فریق بنتے رہتے ہیں ۔ یہ فرق مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی ، نفِرُ کی کامیابی کے لئے  كَآفَّةً  سے کامیابی نہیں ہوگی ۔ بلکہ ، كُلِّ فِرْقَةٍ (الْمُؤْمِنُونَ سے طَآئِفَةٌ لے کر نفِرُ  کیا جائے ۔

٭٭٭٭٭٭

اتوار، 18 جولائی، 2021

۔ مرزا اسلم بیگ ۔ سابق چیف آف دی آرمی سٹاف

‏سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے اپنی سوانح عمری کا نام ''اقتدار کی مجبوریاں‘‘ رکھا ہے اور شاید انہیں مجبوریوں کی وجہ سے انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد تیس سال تک کچھ اہم معاملات پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔
 

بقول مصنف ،’’یہ کتاب جنرل بیگ کی مخصوص سوچ و فکر اور ان کے ایمان و ایقان کی دلچسپ داستان ہے‘‘

  جنرل صاحب نے جس راز سے پردہ اٹھایا ہے اگر یہ راز دس سال پہلے سامنے آ جاتا تو شاید ملک کے حالات آج ایسے نہ ہوتے
کٹھ پتلی حکومت  موجود نہ ہوتی معیشت تباہ  نہ ہوتی
 مہنگائی کا طوفان  نہ آتا
 بیروزگاری عام نہ ہوتی
 عوام خوار نہ ہو رہی ہوتی
جنرل مرزا اسلم بیگ نے سوانح عمری میں  یہ اعتراف کیا کہ سن 1964ء میں جنرل ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کو زیادہ مقبولیت حاصل تھی لیکن انہیں دھاندلی کے ذریعے ہرا دیا گیا، جس سے مشرقی پاکستان کے عوام میں بددلی پھیلی۔
 1971ء تک فوج نے مشرقی پاکستان میں حالات کنٹرول کر لیے تھے، جس کے بعد لیفٹیننٹ کرنل مرزا اسلم بیگ نے تحریری طور پر لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی کو کہا کہ اب اقتدار سول انتظامیہ کے سپرد کر کے سیاسی عمل شروع کیا جائے۔
 یہ بات جنرل نیازی کو پسند نہ آئی کیوں کہ وہ طاقت کے نشے میں چور تھے۔ انہوں نے ایسے ریمارکس پاس کیے، جو ہمارے جنرل آفیسر کمانڈنگ کو پسند نہ آئے اور تلخ کلامی ہو گئی۔ تین دن کے اندر اندر کمانڈ تبدیل ہو گئی اور مرزا اسلم بیگ زیرعتاب آ گئے۔ انہیں واپس راولپنڈی بھیج دیا گیا۔

   جنرل اسلم بیگ ایک صوبیدار میجر کے بیٹے ہیں۔ ان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ پاکستانی فوج کے پہلے آرمی چیف ہیں جن کی تربیت پی ایم اے میں ہوئی، ان سے پہلے تمام آرمی سربراہ برطانیہ کی رائل اکیڈمی سینڈہرسٹ کے تربیت یافتہ تھے۔ 

 وہ کہتے ہیں کہ حکمرانوں کو اقتدار اس حد تک بے بس کر دیتا ہے کہ وہ قومی غیرت کو بھی دا پر لگا دیتے ہیں۔جنرل بیگ کا کہنا ہے کہ جب اس کتاب کے عنوان کو تلاش کر رہے تھے تو ان کے ذہن میں سابق صدر جنرل محمد ضیا الحق کے یہ الفاظ بارہا گونجتے کہ ’’اقتدار کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں‘‘۔ جنرل بیگ نے اس کتاب میں ان مجبوریوں کا ذکر اس طرح کیا ہے۔

 ٭۔ جنرل ایوب خان کی مجبوری تھی کہ انھوں نے اقتدار جنرل یحییٰ کے حوالے کر دیا۔

 ٭۔جنرل یحییٰ کی مجبوری تھی کہ وہ تین مارچ 1971 کو ڈھاکا میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اعلان کر کے اپنے وعدے سے منحرف ہوگئے۔ 

٭۔ جنرل ضیاالحق کی مجبوری تھی کہ انھوں نے اپنے وعدے کے خلاف بھٹو کی موت کے پروانے پر دستخط کر دیے۔

٭۔ جنرل پرویز مشرف کی مجبوری تھی کہ وہ غیروں کے ساتھ مل کر افغانستان کے خلاف جنگ میں شامل ہو گئے۔

 جنرل بیگ کا کہنا ہے کہ اقتدار کی ہوس میں ہمارے ارباب فکر ونظر اندیشہ سود و زیاں(آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 )  کے تحت اپنی زبان بند رکھتے ہیں۔ حکمرانوں کوٹوکتے نہیں۔

یہ ہمارا المیہ ہے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ میرے علم ( یعنی اسلم بیگ) کی حد تک سچ اور صرف سچ پر مبنی ہے اور سچائی کی وجہ سے میں نے کئی بار نقصان بھی اٹھایا۔ (سچ بولنے والے میجر تک پہنچ پاتے ہیں ۔ مہاجرزادہ)

بھٹو کی پھانسی کے پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے جنرل بیگ کہتے ہیں، پھانسی کی سزا دینے سے پہلے جنرل ضیا الحق نے آفیسرز اور جوانوں کا ردعمل معلوم کرنے کے لیے تمام کور کمانڈرز کو جائزہ لینے کا کہا۔ کور کمانڈروں کے اجلاس میں، میں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو کو پھانسی دینا نہایت ہی غلط فیصلہ ہوگا۔ اس کے نتائج سنگین ہوں گے، ایسی پیچیدگیاں پیدا ہو گی جنھیں سنبھالنا مشکل ہو گا۔ اس سے پنجاب اور سندھ کے لوگوں کے درمیان نفرتیں بڑھیں گی۔ بہتر ہوگا کہ بھٹو کو جلاوطن کر دیا جائے۔ان کے مطابق فلسطین کے یاسر عرفات، سعودی عرب کے شاہ فیصل ، لیبیا کے کرنل قذافی اور متحدہ عرب امارات کے حکمران یہ ذمے داری لینے کے لیے تیار تھے۔ میری اس بات سے کورکمانڈر ناراض ہوگئے۔ کانفرنس ختم کردی گئی۔ میری رائے چیف تک پہنچا دی گئی۔ میں انتظار میں تھا کہ میرے ساتھ اب کیا ہوگا۔ لیکن کوئی رد عمل سامنے نہ آیا۔

1987ء میں جنرل ضیا نے جنرل زاہد علی اکبر کو وائس چیف آف دی آرمی اسٹاف بنانے کا فیصلہ کیا لیکن وزیراعظم جونیجو نے جنرل مرزا اسلم بیگ کا نام تجویز کیا، جسے جنرل ضیا نے قبول کر لیا۔

 مجھے اس وقت بڑی حیرانی ہوئی جب چند روز بعد مجھے چیف آف جنرل اسٹاف تعینات کر دیا گیا۔ جنرل بیگ کا کہنا ہے کہ ’’ جنرل ضیا الحق نپولین جیسی فہم و فراست کے مالک تھے جو تنقید کرنے والوں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے، وہ بے لاگ ، مخلصانہ اور حقیقت پسندانہ رائے سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔‘‘ 

اسلم بیگ صدر جنرل محمد ضیا الحق کے سیاسی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ضیا الحق نے ملک کے لیے نیا سیاسی نظام تشکیل دینے کا ارادہ کیا، ان کی حکومت کو نو سال ہو چکے تھے۔ مجھے اور جنرل حمید گل کو یہ ذمے داری دی گئی کہ ہم تفصیلی جائزہ لینے کے بعد رپورٹ پیش کریں۔ہماری سفارشات پڑھنے کے بعد ضیا الحق نے بحث کے لیے ہمیں بلایا۔ 

ہماری رائے تھی کہ ’’اب وقت آگیا ہے کہ صاف ستھرے الیکشن کرا کے اقتدار عوامی نمایندوں کو منتقل کر دیا جائے، اس سے قوم آپ کواچھے الفاظ سے یاد رکھے گی‘‘۔ ضیا الحق کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بولے،’’چاہتے ہو کہ پھانسی کا پھندا میرے گلے میں ہو‘‘۔ میں نے کچھ معروضات پیش کرنا چاہیں لیکن اجازت نہ ملی۔ ہم خاموش ہوگئے۔

جنرل ضیا الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرا دیے اور محمد خان جونیجو کی حکومت قائم ہوگئی۔ افغان مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے جنرل اسلم بیگ اس کتاب میں کہتے ہیں۔

٭۔ سوویت یونین کی دائمی خواہش تھی کہ وہ افغانستان کے ذریعے ، پاکستان کے راستے گوادر کے گرم پانیوں تک پہنچے۔

٭۔ دوسری طرف امریکی گیم پلان تھا کہ وہ یوریشیا پر کنٹرول حاصل کرے تاکہ پوری دنیا اس کی دسترس میں ہو۔ 

امریکا کو اس منصوبے پر عمل کرنے کے لیے افغانستان کی ضرورت تھی۔ افغانستان میں امریکا اور سوویت یونین کی اس متصادم پالیسی میں پاکستان نے امریکی جارحیت کا ساتھ دیا۔اس جنگ کی اصل قوت افغانستان اور پاکستان کے پختونوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ستر ممالک سے آئے ہوئے سرفروش جہادی تھے جنھوں نے سوویت یونین کو شکست دی ۔دس سال کی طویل جنگ کے بعد روس کو احساس ہوا کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت سکتا، بالآخر روس بے بس ہو گیا اور اپنی فوجیں نکالنے پر مجبور ہوا۔افغانستان سے روس کے نکلنے کے بعد امریکا نے بھارت کے ساتھ مل کر چین کا گھراؤ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس عمل میں پاکستان کو بھی دباؤ کا شکار کیاَ۔

٭۔ دوسری طرف افغان قوم اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کرنا چاہتی تھی۔امریکا نے افغانستان پر کنٹرول کرنے کے لیے طالبان پر تمام حربے استعمال کیے لیکن وہ اپنے موقف سے نہ ہٹے۔ طالبان کا موقف تھا کہ امریکا افغانستان سے نکل جائے اور افغانی عوام اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔امریکا اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود افغان نوجوان قیادت کو زیر نہ کرسکا ۔امریکا نے یوٹرن لیا اور طالبان کو دہشت گرد قرار دینا شروع کر دیا۔

٭۔  جنرل اسلم بیگ کا کہنا ہے کہ طالبان افغانستان کی اجتماعی مدافعتی قو ت کا نام ہے جس کے سامنے دنیا کی دو سپر پاور شکست کھا چکی ہیں۔ 

 اس کے علاوہ اس کتاب میں جنرل محمد ضیاالحق کے C-130 جہاز کے حادثے میں جاں بحق ہونے کے حوالے سے اسلم بیگ کا نقطہ نظر واضح طور پر بیان کیا ہے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور ڈاکٹر قدیر خان کے خلاف الزامات کی نوعیت کا تذکرہ بھی ہے۔

جنرل مرزا اسلم بیگ نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والی پانچ شخصیات کے ساتھ اس ملک میں بہت ظلم ہوا۔
 جنرل صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں کہا ہے، ''انہیں عدالتی قتل کے ذریعے ختم کیا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان بدترین تضحیک کا نشانہ بنائے گئے۔
 محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہماری ایٹمی قوت میں منطق اور ٹھہراؤ کا عنصر شامل کیا لیکن دہشت گردی کا شکار ہو گئیں۔
 میاں محمد نواز شریف کے بارے میں جنرل بیگ نے صفحہ 245 پر کہا ہے، ''انہوں نے امریکی دباؤ  اور ڈالروں کی لالچ کو پس پشت ڈال کر ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو موثر جواب دیا لیکن آٹھ سال جلاوطن رہے۔ دوبارہ وزیراعظم بنے لیکن پھر سازش کے تحت انہیں کرسی اقتدار سے الگ کر دیا گیا
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل اور نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے کو سازش قرار دے دیا۔

1988ء کے انتخابات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔ مرزا اسلم بیگ نے محترمہ کے ساتھ اپنے ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر اعتراف کیا ہے کہ 1990 کے اوائل میں بھارت نے ہماری ایٹمی تنصیبات تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تو محترمہ نے صاحب زادہ یعقوب علی خان کو دہلی بھیجا اور بھارت کو پیغام دیا کہ باز آ جاؤ ورنہ تمہاری تنصیبات تباہ کر کے رکھ دیں گے
 محترمہ بے نظیر بھٹو نے بڑی دانشمندی سے نیوکلیئر پالیسی آگے بڑھائی۔ اس دور میں محترمہ کی اجازت سے بھارت کے خلاف لائن آف کنٹرول پر ایک کامیاب سرجیکل اسٹرائیک کی گئی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی وزیراعظم تھیں، جو سیاچین کے بلند ترین محاذ کے دورے پر گئیں۔
فوج کے ایک سابق سربراہ کے خیال میں نہ تو ذوالفقار علی بھٹو غدار تھے، نہ ہی محترمہ بے نظیر بھٹو سکیورٹی رسک تھیں اور جو کچھ نواز شریف کے ساتھ ہوا، وہ سب ایک سازش تھی۔
جنرل اسلم بیگ نے حقائق سے پردہ اٹھا دیا اور ساتھ میں یہ بھی بتا دیا کہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں اصل رکاوٹ کون لوگ ہیں
 جو اپنے مفاد کے لیے ملک کے وزیراعظم کو پھانسی بھی دیتے ہیں
ملک کے وزیراعظم کے خلاف بہت سے کیسز بنا کر اس کو وزیراعظم ہاؤس سے بھی نکلوا دیتے ہیں
 اس کو سزا بھی دلوا دیتے ہیں اور صرف اور صرف سوئس  بینکوں میں اپنے اکاؤنٹ بھرنے کے لئے۔ پاپا جان پیزا بنانے کے لیے ۔آسٹریلیا میں جزیرہ خریدنے کے لئے   ملک جائے بھاڑ میں ان کے اکاؤنٹ ڈالروں سے ہونے چاہیے۔

٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں  :۔

٭-اللہ حافظ ، میں تو اپنے جہاز میں جا رہا ہوں ۔

٭۔ جنٹلمین محترمہ فاطمہ جناح

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔