Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 23 دسمبر، 2021

مہنگائی اور پنشنرز ویلفیئر گروپ پاکستان

 

اُفق کے پار بسنے والے میرے پیارے پنشنر بھائیو!
اللہ آپ کو اپنی امان میں مکمل صحت اور تندرستی کے ساتھ رکھے  اور اُس وقت تک آپ کو اپنے  قدموں پر چلاتا رہے ۔ جب تک آپ دوسروں کے کندھوں پر سوار ہوکر اپنے آخری سفر پر روانہ نہیں ہوجاتے ۔
 اِس مہنگائی کے دور میں سارے  گریڈ 1 تا 14 کے پنشنرز  پریشان ہیں ، کہ وہ کیسے اپنی باقی زندگی کو معاشی دلدل سے گھسیٹ کر نکالیں؟

تنگ دستی اور پریشانیوں کی اِس آزمائش میں  وہ سوچتے ہیں کہ حکومت کیوں اُن کی طرف توجہ نہیں دیتی   ،  ملازمین کی تنخواہیں ہیں کہ وہ بڑھتی جارہی ہیں ، ممبرانِ قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی  کے وظیفے  کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور وکالت کی پر پیچ گلیوں سے گذر کر ، انصاف کا ترازو سنبھالنے والی مسند پر بیٹھنے والے ۔ آئین کے آرٹیکل   کا سہارا لے کر اپنی تنخواہیں ، الاؤنسز اور پنشن اتنی بڑھا چکے ہیں کہ گریڈ 1 کا ملازم  ، مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکا ہے ۔ 

آپ لوگ حیران ہوں گے کہ مہنگائی کا  افسران کی تنخواہوں سے کیا تعلق ؟

میں بتاتا ہوں۔ 

کہتے ہیں نا ،  مالِ مفت  دل بے رحم ۔
اگر اِس مال مُفت  میں بے تحاشہ اضافہ نہ ہوتا تو مہنگائی کا منہ زور گھوڑا بے لگام نہ ہوتا ۔ 

ڈالر  بہت اونچا چلا گیا ؟ مہنگائی تو ہو گی نا ۔یہ جملہ ہر حکومتی شاہ پرست کےمنہ سے نکلتا ہے ۔

ایتھوپیا جیسے غریب ملک میں ڈالر لے کر  پھرنا جرم ہے، صرف غیر ملکیوں کو اجازت ہے ۔ لیکن وہ ڈالر بیچ نہیں سکتے ۔تمام ملیں اور فرمیں  جتنے ڈالر کا سامان باہر ملکوں کو بھیجیں گی ۔ اُتنے کا خام مال ملک میں لا سکتی ہیں ۔  اور ملوں میں بننے والا تما م سامان صرف 35٪ باہر بھیجا جاسکتا ہے باقی تمام ایتھوپیا میں بیچا جائے گا ۔  اگر ملک کو ضرورت نہیں  تو مت بناؤ ۔ اگر ملکی کہتے ہیں مہنگا ہے تو سستا بیچو ۔

لہذا ڈالر جتنا مرضی اونچا جائے  ، مہنگائی  نہیں ہوتی ۔کیوں کہ وہاں منی چینجر نہیں ۔وہاں ایک فیملی ایک گھر کا قانون ہے ۔عدیس  ابابا میں ، آبائی گھروں میں اضافی کمرے بنا کر  غیرملکیوں کو کرائے پر دیئے ہوئے ہیں ۔ یا پھر دوسرے  یورپی اور مغربی ممالک  میں جانے والوں نے اپنے گھر کرائے پر لگائے ہوئے ہیں ۔ ڈالروں میں نہیں ، مقامی کرنسی میں  کیوں کہ 2000 ڈالر سے زیادہ لے کر عدیس ابابا  میں کوئی داخل نہیں ہوسکتا ۔ وہاں رشوت نہیں ۔

بطور پنشنرز میں نے وہاں  گریڈ 1 تا 14 کے پنشنرز کو خوشحال پایا ۔

یہی نظام اب ترکی میں پہنچ چکا ہے ، ترک قوم  نے ڈالر بنکوں میں جمع کروادیئے ہیں۔ وہاں بھی مہنگائی کنٹرول ہے ۔

 جب 19 فروری 2021  میں ،  آل پاکستان پنشنرز ایسوسی ایشن  وجود میں آئی اور بڑے دھو م دھڑکے سے پریس کانفرنس ہوئی تو یہ سمجھا گیا کہ 10 فروری  2021 کی ملازمین کے کامیاب احتجاج نے ،  فیڈرل و صوبائی ملازمت    سے ریٹائرڈ ،سوئے ہوئے  شیروں کو بھی جگا دیا ہے ۔

31 مئی 2021 کو پنشنرز کے ملکی احتجاج  کی بُری طرح ناکامی نے ،  یہ احساس دلایا کہ  خوابِ خرگوش سے جاگنے   والے  اِکا دُکا پنشنرز    پھر گہری نیند میں سو چکے ہیں ۔ 

حاضر سروس ملازمین سے اتحاد کرنے کی وجہ سے

   آل پاکستان پنشنرز ایسوسی ایشن   کی بنیاد میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں  اور مجلسِ عاملہ کے کچھ رُکن سوکھے پتوں کی طرح  جھڑ گئے ۔ لیکن باہمت  اراکین نے ہمت نہ ہاری اور  قائد رحمان باجوہ  کی قیادت میں ،تمام فیڈرل و صوبائی ، اٹامس و سیمی اٹانومس   ، ملازمین کے احتجاج میں اپنی شمولیت  سے اتحاد کو فروغ دیتے رہے ۔   

جس کے بعد ، کچھ پنشنرز     کے دوبارہ خوابِ خرگوش سے جاگنے کی وجہ سے برسات میں اُگنے والی کھمبیوں کی طرح   اخباری بیانات نے سر اُٹھانا  شروع کیا اور نئی نئی  پاکستان  پنشنرز تنظیمیں  اپنے اپنے ڈسٹرکٹ میں وجود میں آنا شروع ہوگئیں  ۔   اور  نئے سرے سے تنظیم کی رجسٹریشن  کے لئے وکیلانہ سرگوشیاں اور کاروائیاں شروع ہوئی ۔ 

 اُفق کے پار بسنے والے میرے پیارے پنشنر بھائیو! اِس ریٹائرڈ پنشنر نے اسلام آباد کے تمام آفس کے چکر لگائے ۔ اور کئی بار لگائے ، لیکن تمام حکّام نے  آل پاکستان پنشنرز ایسوسی ایشن سے ، اِس کے باوجود کہ اسلام آباد میں پاکستان کے  مختلف ڈسٹرکٹ  سے آئے ہوئے  مختلف محکموں  کے پنشنرز آباد ہیں یا اپنے   سرکاری ملازم بچوں کے ساتھ، اُن کے گھروں میں ،  رہ رہے ہیں ۔

 آل اور پاکستان نکالنے کی تجویز دی  کیوں کہ ۔ ڈسٹرکٹ کی سطح پر صرف    پنشنرز ایسوسی ایشن ہی رجسٹر ہو سکتی ہے اور وہ بھی  محکمے کے نام سے  ، جیسے ۔ ریٹائر ڈفیڈرل  ملازمین ایسوسی ایشن  -  ۔ڈسٹرکٹ اسلام آباد  ۔ ریٹائرڈ فیڈرل گورنمنٹ ٹیچر پنشنرز ایسوسی ایشن۔ڈسٹرکٹ راولپنڈی ۔  ریٹائرڈ ایمپلائز واپڈا   ایسوسی ایشن ۔ڈسٹرکٹ  لاہور  ۔ پنشنرز ویلفیئر ایسوسی ایشن   ۔ ڈسٹرکٹ میرپورخاص  ۔ وغیرہ وغیرہ 

لہذا ،  مجلس  عاملہ کے اراکین  کے فیصلے کے مطابق ، آل پاکستان پنشنرز ایسوسی ایشن کو   صرف تمام پنشنرز ایسوسی ایشن کی تحریک کے لئے استعمال کیا جائے اور تمام فنڈ اور ڈونیشن کا سلسلہ موقوف کردیا جائے ۔ لہذا   تمام فنڈ اور ڈونیشنز ۔ منجمند کردئیے گئے  ۔جن کا مکمل ریکارڈ ،سیکریٹری  جنرل  میجر (ر) محمد نعیم الدین خالد  ۔کے پاس اور  فنانس سیکریٹری  (سابقہ) حاجی رانا صفدر  اقبال  ،   وائس چیئر مین ( سابقہ )رانا محمد اسلم     کے پاس بمع رقوم  موجودہیں  ۔ 

مختلف پنشنرز تنظیموں سے اتحاد کی کوششیں شروع ہوگئیں ۔ لیکن  یہ تمام تنظیمیں اخباری بیانات اور تصویری  کاروائی  سے آگے نہ بڑھ سکیں ، 16نومبر 2021 اور 30 نومبر 2021 کو ہونے والے ملازمین کے احتجاج میں  ، اِن تمام تنظیموں کی کاروائی صفر تھی ۔ کیوں کہ پاکستان کے دوسرے شہروں سے اسلام آباد آنا ، بوڑھے اور بیمار پنشنرز کے لئے بہت مشکل ہے۔ 

تو پھر ایسا کیا طریق کار اختیار کیا جائے  کہ حکومتِ پاکستان پنشنرز کے لئے ایسا قانون وضع کرے کہ پنشنرز کو اپنی پنشن بڑھوانے کے لئے سڑکوں پر نہ نکلنا پڑے ؟

بطور صدر  ملازمین  و پنشنرز اتحاد   ، میری یہ رائے ہے ، کہ ملازمین  اور پنشنرز یک جان دو قلب ہوجائیں ۔ پنشنرز کوئی الگ اکائی نہیں ۔پاکستان کے ملازمین  سے ریٹائر کیا ہوا ایک حصہ ہے ۔اور  آج کا ملازم کل کا پنشنر ہے ۔

  ریٹائر ہوتے ہی اُس سے وہ تمام اضافی سہولتیں اور رقم واپس لے لی جاتی ہے جو بطور ملازم اُس کو ملتی ہے ۔اور تنخواہ کا 60 فیصد بطور پنشن اُس کے بنک میں آنا شروع ہوجاتا ہے ۔ 

پھر وقت گزرنے کے ساتھ وہ مہنگائی کے جن  سے گتھم گتھا رہتا ہے ۔ 

 پاکستان کے تمام ڈسٹرکٹ  کے ریٹائر ملازمین سے میری درخواست ہے کہ وہ، آل پاکستان   یا پاکستان لیول کے بجائے ،  اپنے اپنے محکموں یا اُن سے متّصل  ، ملازمین  کی ایک تنظیم بنائیں ، اِن محکمہ جاتی تنظیموں کو ایک لڑی میں پرونے کے لئے اِن کی مجلس عاملہ کے منتخب ارکان  کی پنشنر اتحاد تنظیم ڈویژنل اور صوبائی لیول پر بنائیں ۔ 

 اسلام آباد میں پاکستان کے تمام   ڈسٹرکٹ  سے آئے ہوئے  مختلف محکموں  کے پنشنرز کو اپنا کوآرڈی نیٹر بنائیں اور اُنہیں کہیں کہ وہ    اسلام آباد میں ہونے والی  پنشنرز میٹنگ  یا احتجاج میں اپنے ڈسٹرکٹ کی نمائیندگی کریں ۔ یوں پاکستان کے کونے کونے سے اسلام آبا د نہ آسکنے والے پنشنرز پر انگلیاں نہیں  اُٹھائی جاسکیں گے ۔ 

اور پاکستان کے تمام پنشنرز کی   تمام میٹنگز اور احتجاج میں شمولیت  ممکن بنائی جا سکے گی ۔

اللہ تمام پنشنرز کا حامی و و ناظر ہو۔ 

، آل پاکستان پنشنرز ایسوسی ایشن  (تحریک)  مرکزی کوآرڈینیٹر  ، سیکریٹری  جنرل  

اور صدر  ملازمین و پنشنرز اتحاد ۔

  میجر (ر) محمد نعیم الدین خالد  ۔

٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔