Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 30 دسمبر، 2023

زمین میں چُھپے خزانے

 پاکستان زیرِ زمین پانی کی ایکوئفر کے لحاظ سے دُنیا کی سپر پاور ہے۔ دنیا کے 193 ممالک میں سے صرف تین ممالک چین، انڈیا اور امریکہ پاکستان سے بڑی ایکوئفر رکھتے ہیں۔دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے میدانی علاقوں کے نیچے یہ ایکوئفر 5 کروڑ ایکڑ رقبے پر سے زیادہ علاقے پر پنجاب اور سندھ میں پھیلی ہوئی ہے۔

 در حقیقت پاکستان کے مردہ ہوتے دریاؤں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والے سیلابوں یا قحط کے خطرے کے سامنے یہ ایکوئفر ہی ہماری آخری قابلِ بھروسہ ڈھال ہے جس کے سینے میں ہم نے دس لاکھ سے زیادہ چھید (ٹیوب ویل ) کر رکھے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

 یہ ایکوئفر اتنی بڑی ہے کہ پاکستان کے سارے دریاؤں کا پانی اپنے اندر سما سکتی ہے۔ یہ آپ کے تربیلا ڈیم جتنی ایک درجن جھیلوں سے زیادہ پانی چُوس لے گی اور اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

 پاکستان اس وقت دُنیا میں زمینی پانی کو زراعت کے لئے استعمال کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ آپ کی زراعت میں آدھے سے زیادہ پانی (50ملئین ایکڑ فٹ) اس ایکوئفر سے کھینچا جارہا ہے۔دریائے سندھ کے نہری نظام سے کبھی سال میں ایک فصل لی جاتی تھی ، آج ہم تین تین فصلیں لے رہے ہیں۔

 آبادی کے دباؤ کی وجہ سے زرعی اور صنعتی مقاصد کے لئے بے تحاشا پانی ٹیوب ویلوں سے کھینچنے کی وجہ سے یہ ایکوئفر نیچے جانا شروع ہوچکی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق پاکستان تقریباً 500 کیوبک میٹر پانی فی بندہ کے حساب سے زمین سے کھینچ رہا ہے جو کہ پورے ایشیا میں بہت زیادہ ہے۔

 اس ایکوئفر کے اوپر سندھ اور پنجاب کے علاقے میں صرف مون سون کے تین مہینوں میں 100 ملئین ایکڑ فٹ تک پانی برس جاتا ہے۔ یہ ایکوئفر ہزاروں سال سے قدرتی طور پر ری چارج ہورہی تھی لیکن ہم نے کنکریٹ کے گھر اور اسفالٹ کی سڑکیں بناکر پانی کے زمین میں جانے کا قدرتی راستہ کم سے کم کردیا ہے۔ 

بارش کا پانی سب سے صاف پانی ہوتا ہے لیکن یہ ری چارج ہونے کی بجائے فوری طور پر سڑکوں ، سیوریج لائنوں اور گندے نالوں کے ذریعے گٹر والے پانی میں بدل جاتا ہے جس سے نہ صرف اس کی کوالٹی بدتر ہوجاتی ہے بلکہ یہ سیلابی پانی بن کر شہروں کے انفراسٹرکچر اور دیہاتوں کو فلیش فلڈنگ سے نقصان پہنچاتا ہے۔

 تاہم اگر اس پانی کو اکٹھا کرکے زیرزمین پانی کوری چارج کرنے کا بندوبست کیا جائے تو نہ صرف اربن فلڈنگ اور فلیش فلڈنگ پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ بڑے بڑے ڈیم بنائے بغیر بہت زیادہ پانی بھی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔

 لہٰذا فوری طور پر آبادی والے علاقوں میں ری چارج کنویں، ڈونگی گراونڈز، ری چارج خندقیں ، تالاب، جوہڑ بنانے پر زور دیا جائے جب کہ نالوں اور دریاؤں میں ربڑ ڈیم اور زیرزمین ڈیم بنا کر مون سون کے دوران بارش اور سیلاب کے پانی کو زیرِزمین ری چارج کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے راوی اور ستلج دریا کے سارا سال خشک رہنے والے حصے، پرانے دریائے بیاس کے سارے راستے اور نہروں اور دوآبوں کے زیریں علاقے انتہائی موزوں جگہیں ہیں۔ 

اس طرح پانی ذخیرہ کرنے کے فوائد کیا ہوں گے؟

٭۔ بڑے ڈیموں کی جھیلیں آہستہ آہستہ مٹی اور گادھ سے بھر جاتے ہیں جب کہ زیرِ زمین ایکوئفر میں پانی فلٹر ہو کر جاتا ہے لہٰذا یہ ہمیشہ کے لئے ہیں ۔

٭۔  ایکوئفر سے پانی بخارات بن کر نہیں اڑ سکتا۔
٭۔کسی بھی قسم کی آبادی یا تنصیبات کو دوسری جگہ منتقل نہیں کرنا پڑے گا جیسا کہ پانی کے دوسرے منصوبوں میں کرنا پڑتا ہے۔
٭۔ جب اور جہاں ضرورت ہو یہ پانی نکالا جا سکے گا۔
٭۔ پانی کی کوالٹی بھی جھیل میں کھڑے پانی سے بہتر ہوگی۔ ہمارے صنعتوں میں 100 فی صد پانی زیرزمین استعمال ہوتا ہے اور پھر یہ لوگ پانی استعمال کرنے کے بعد بغیر اسے صاف کئے واپس زمین میں یا نالوں میں پانی گندا کرنے کے لئے چھوڑ دیتےہیں۔

اگر ابتدا صنعتوں سے ہی کرکے ان کو پمپ کئے گئے پانی کی مقدار کے برابر پانی ری چارج کرنے کی سہولیات بنانے کا پابند بنایا جائے تو یہ ایک اچھا آغاز ہوگا جس کے بعد میونسپیلیٹی اور ضلع کی سطح پر کام کیا جاسکتا ہے۔

 موجودہ پانی کے تناؤ کی صورت حال، بھارت کی طرف سے دریاؤں کے خشک کرنے، سیلابوں اور قحط کے سامنے نظر آتے خطروں کے خلاف زمینی پانی ہی ہمارے بچاؤ کی آخری صورت ہے۔ زمین میں چھپے اس خزانے کو ری چارج کرنا ضروری ہے۔

انجنئیر ظفر وٹو 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

جمعہ، 22 دسمبر، 2023

تاریخ کا سب سے بڑا انسانی معجزہ ۔" CERN "

 سوئٹزرلینڈ اور فرانس دونوں نے مل کر لیبارٹری بنانا شروع کی‘ یہ لیبارٹری سرن کہلاتی ہے‘ یہ کام دو ملکوں اور چند سو سائنس دانوں کے بس کی بات نہیں تھی چنانچہ آہستہ آہستہ دنیا کے 38 ممالک کی 177 یونیورسٹیاں اور فزکس کے تین ہزار پروفیسر اس منصوبے میں شامل ہو گئے‘
سائنس دانوں نے پہلے حصے میں زمین سے 100 میٹر نیچے 27کلو میٹر لمبی دھاتی سرنگ بنائی۔
اس سرنگ میں ایسے مقناطیس اتارے جو کشش ثقل سے لاکھ گنا طاقتور ہیں‘
مقناطیس کے اس فیلڈ کے درمیان دھات کا 21 میٹر اونچا اور 14 ہزار ٹن وزنی چیمبر بنایا گیا‘ یہ چیمبر کتنا بھاری ہے ؟
دنیا کے سب سے بڑے دھاتی اسٹرکچر کا وزن 7 ہزار تین سوٹن ہے‘ سرن کا چیمبر اس سے دگنا بھاری ہے‘ اس چیمبر کا ایک حصہ پاکستان کے ہیوی مکینیکل کمپلیکس میں بنا اور اس پر باقاعدہ پاکستان کا جھنڈا چھاپا گیا‘
سائنس دانوں کے اس عمل میں چالیس سال لگ گئے‘
یہ چالیس سال بھی ایک عجیب تاریخ رکھتے ہیں۔
ملکوں کے درمیان اس دوران عداوتیں بھی رہیں اور جنگیں بھی ہوئیں لیکن سائنس دان دشمنی‘ عداوت‘ مذہب اور نسل سے بالاتر ہو کر سرن میں کام کرتے رہے‘ یہ دن رات اس کام میں مگن رہے‘ سائنس دانوں کے اس انہماک سے بے شمار نئی ایجادات سامنے آئیں مثلاً انٹرنیٹ سرن میں ایجاد ہوا تھا‘ سائنس دانوں کوآپس میں رابطے اور معلومات کے تبادلے میں مشکل پیش آ رہی تھی چنانچہ سرن کے ایک برطانوی سائنس دان ٹم برنرزلی نے 1989ء میں انٹرنیٹ ایجاد کر لیا یوں www(ورلڈ وائیڈ ویب) 
سرن میں ’’پیدا‘‘ ہوا اور اس نے پوری دنیا کو جوڑ دیا۔
سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی بھی اسی تجربے کے دوران ایجاد ہوئیں ‘ سرن میں اس وقت بھی ایسے سسٹم بن رہے ہیں جو اندھوں کو بینائی لوٹا دیں گے‘ ایک چھوٹی سی چپ میں پورے شہر کی آوازیں تمام تفصیلات کے ساتھ ریکارڈ ہو جائیں گی‘ ایک ایسا سپرالٹرا ساؤنڈ بھی مارکیٹ میں آرہا ہے جو موجودہ الٹرا ساؤنڈ سے ہزار گنا بہتر ہوگا ‘ ایک ایسا لیزر بھی ایجاد ہو چکا ہے جو غیر ضروری ٹشوز کو چھیڑے بغیر صرف اس ٹشو تک پہنچے گا جس کا علاج ہو نا ہے‘ ایک ایسا سسٹم بھی سامنے آ جائے گا جو پورے ملک کی بجلی اسٹور کر لے گا اور سرن کا گرڈ کمپیوٹر بھی عنقریب مارکیٹ ہو جائے گا‘ یہ کمپیوٹر پوری دنیا کا ڈیٹا جمع کرلے گا۔
یہ تمام ایجادات سرن میں ہوئیں اور یہ اس بنیادی کام کی ضمنی پیداوار ہیں‘ سرن کے سائنس دان اس ٹنل میں مختلف عناصر کو روشنی کی رفتار (ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ) سے لگ بھگ اسپیڈ سے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور پھر تبدیلی کا مشاہدہ کرتے ہیں‘ یہ عناصر ایٹم سے اربوں گنا چھوٹے ہوتے ہیں‘ یہ دنیا کی کسی مائیکرو اسکوپ میں دکھائی نہیں دیتے‘ سائنس دانوں نے 2013ء میں تجربے کے دوران ایک ایسا عنصر دریافت کر لیا جو تمام عناصر کو توانائی فراہم کرتا ہے‘ یہ عنصر ’’گاڈ پارٹیکل‘‘ کہلایا‘ اس دریافت پر دو سائنس دانوں پیٹر ہگس اور فرینکوئس اینگلرٹ کونوبل انعام دیا گیا‘ یہ دنیا کی آج تک کی دریافتوں میں سب سے بڑی دریافت ہے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے مادے کی اس دنیا کا آدھا حصہ غیر مادی ہے‘ یہ غیر مادی دنیا ہماری دنیا میں توانائی کا ماخذ ہے‘ یہ لوگ اس غیر مادی دنیا کو ’’اینٹی میٹر‘‘ کہتے ہیں‘یہ اینٹی میٹر پیدا ہوتا ہے‘کائنات کو توانائی دیتا ہے اور سیکنڈ کے اربوں حصے میں فنا ہو جاتا ہے‘ سرن کے سائنس دانوں نے چند ماہ قبل اینٹی میٹر کو 17 منٹ تک قابو رکھا ‘ یہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا‘ یہ لوگ اگر ’’اینٹی میٹر‘‘ کو لمبے عرصے کے لیے قابو کر لیتے ہیں تو پھر پوری دنیا کی توانائی کی ضرورت چند سیکنڈز میں پوری ہو جائے گی‘ دنیا کو بجلی اور پٹرول کی ضرورت نہیں رہے گی‘
سرن ایک انتہائی مشکل اورمہنگا براجیکٹ ہے اور سائنس دان یہ مشکل کام65 سال سے کر رہے رہے ہیں۔
یہ لیبارٹری دنیا کے ان چند مقامات میں شامل ہے جن میں پاکستان اور پاکستانیوں کی بہت عزت کی جاتی ہے‘ اس عزت کی وجہ ڈاکٹر عبدالسلام ہیں‘ ڈاکٹر عبدالسلام کی تھیوری نے سرن میں اہم کردار ادا کیا‘ عناصر کو ٹکرانے کے عمل کا آغاز ڈاکٹر صاحب نے کیا تھا‘ ڈاکٹر صاحب کا وہ ریکٹر اس وقت بھی سرن کے لان میں نصب ہے جس کی وجہ سے انھیں نوبل انعام ملا۔
دنیا بھر کے فزکس کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں اگر ڈاکٹر صاحب تھیوری نہ دیتے اور اگر وہ اس تھیوری کو ثابت کرنے کے لیے یہ پلانٹ نہ بناتے تو شاید سرن نہ بنتا اور شاید کائنات کو سمجھنے کا یہ عمل بھی شروع نہ ہوپاتا چنانچہ ادارے نے لیبارٹری کی ایک سڑک ڈاکٹر عبدالسلام کے نام منسوب کر رکھی ہے‘ یہ سڑک آئین سٹائن کی سڑک کے قریب ہے اور یہ اس انسان کی سائنسی خدمات کا اعتراف ہے جسے ہم نے مذہبی منافرت کی بھینٹ چڑھا دیا‘ جسے ہم نے پاکستانی ماننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

سرن میں اس وقت 10 ہزار لوگ کام کرتے ہیں‘ ان میں تین ہزار سائنس دان ہیں یوں یہ دنیا کی سب سے بڑی سائنسی تجربہ گاہ ہے‘یہ تجربہ گاہ کبھی نہ کبھی اس راز تک پہنچ جائے گی جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات تخلیق کی تھی‘ یہ راز جس دن کھل گیا اس دن کائنات کے سارے بھید کھل جائیں گے‘
ہم اس دن قدرت کو سمجھ جائیں گے۔
علامہ عنایت اللّٰہ خان المشرقی نےفرمایاتھا کہ ایک دن انسان قدرت کے تمام بھید جان لےگا اور وہ دن انسانیت کی تکمیل کا دن ہوگا اور اسکےساتھ ہی انسان کو خلیفہ بنانے کا قدرت کا مقصد پورا ہوجائیگا۔
سرن میں ایک نوجوان پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر مہر شاہ بھی کام کرتے ہیں۔‘ یہ بہت متحرک‘ کامیاب اور ایکٹیو قسم کے سائنس دان ہیں‘اللہ نے انھیں ابلاغ کی صلاحیت سے نواز رکھا ہے‘ ڈاکٹر مہر سمیت ہمیں وہاں ہزاروں درویش ملے‘ ایسے درویش جو اس راز کی کھوج میں مگن ہیں جسے آج تک مذہب نہیں کھول سکا‘
یہ لوگ اصل درویش ہیں‘ یہ انسانیت کے بہتر مستقبل کے لیے کام کر رہے ہیں‘
یہ لوگ واقعی عظیم اور قابل عزت ہیں۔
 پاکستان بھی سرن کا ممبر ہے‘ حکومت پاکستان ہر سال 22کروڑ روپے فیس ادا کرتی ہے‘ہمیں اس فیس کا فائدہ اٹھانا چاہیے ‘ڈاکٹر مہر کے بقول سرن طالب علموں کومفت تعلیم دیتا ہے‘ ہمارے نوجوانوں کو اس سہولت کا فائدہ اٹھانا چاہیے‘ ہمارے نوجوان ایف ایس سی سے لے کر پی ایچ ڈی تک کے لیے سرن سے وظائف لے سکتے ہیں ‘ دوسرا سرن ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے لیے اوپن ادارہ ہے‘ اس کا ہر ممبر کوئی بھی ٹیکنالوجی حاصل کر سکتا ہے‘ پاکستان کو اس سہولت کا بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔
  ہم اگر سرن سے صرف میڈیکل سائنس اور زراعت کی ٹیکنالوجی ہی لے لیں تو یہ بھی ہمارے  لیے کافی ہو گی ‘ ہمارے بے شمار مسائل حل ہو جائیں گے۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

اتوار، 10 دسمبر، 2023

انسانی تکبّر۔ قول و فعل کا تضاد

اِس 70 سالہ بوڑھے کے فہم کے مطابق ۔ الکتاب کے تین حصے ہیں ۔
پہلا حصہ ۔ آدم سے نوح تک ۔
دوسرا حصہ ۔ نوح سے ابراہیم تک
تیسرا حصہ ۔ ابراہیم سے احمد تک ۔
القرآن ۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سے مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ تک عربی کے الفاظ، میں پہلے حافظ کی مکمل تلاوت ہے ، جس میں تلاوت کئے گئے  تمام سٹینڈرڈ کی مکمل اتباع ، پہلے حافظ  نے خود کی ۔

لہذا  سب انسانوں کو اِسی تلاوت پر ایمان لاتے ہوئے ۔ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْب بن کر  اِس تلاوت کی اتباع کر تے ہوئے ۔ اس تلاوت کے مطابق اپنے اعمال کو درست رکھنا ہے تاکہ اُن کے افعال کو تلاوت سننے والے انسانوں کو  قول رسول کے مطابق دکھائی دیں ۔
یاد رکھیں کہ اعمال کا تعلق انسان کے نفس سے ہوتا ہے اور افعال اُس کا اظہار ہوتے ہیں ۔لہذا قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاھئیے ۔ کیوں کہ قول و فعل کا تضاد ، تکبّر کی نشانی ہے۔

ہر مذھب کے انسان کا ایک مسئلہ ہے ، کہ میں اپنے گناہوں کے لبادے کو اپنی جلد سے کیسے اتاروں  ۔ چھوٹے گناہ ۔ درمیانے گناہ اور بڑے گناہ ۔
اںسب کی ابتداء چھوٹے گناہ سے ہوتی ہے ۔ جو مذاق میں ، کھیل میں شروع ہوتا ہے اور بچہ ہے کہہ کر اُس کی جلد سے جھاڑ دیا جاتا ہے ، جب وہ اِس کے دھونے کا یعنی لفاظی میں چھپانے کا ماہر ہو جاتا ہے ، تو درمیانے گناہ کی طرف یہ کہہ کر بڑھتا ہے کہ سب کرتے ہیں میں نے کردیا تو کون سا جرم کیا ؟  ۔

 اور یوں بڑے گناہ کو اپنی جلد کے اطراف لپیٹ لیتا ہے  ۔ کہ یہ تو انسانی فطرت ہے ۔ اور فطرت بنانے والا معاف کرنے کا بھی حق رکھتا ہے ۔ جس کے لئے اُس نے مذھب اتارا ہے ۔ جبکہ مذھب تو انسانوں کا بنایا ہوا ہے ۔چنانچہ بڑھاپے میں اپنی جلد سے گناہ جھاڑنے اور جھڑوانے کا عمل انسان شروع کر دیتا ہے ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


جمعہ، 8 دسمبر، 2023

فقیری سے امیری تک ۔ لیہ سے لاہور

 آج کے اِس تیز رفتار دور میں بھی جنوبی پنجاب کے شہر لیہ سے لاہور پہنچنے میں لگ بھگ آدھا دن لگ جاتا ہے، اور لالا ہرکِشن لال تو سنہ 1882 میں اِس سفر پر نکلے تھے۔ وہ بھی پیدل! 13 اپریل 1864 کو پیدا ہونے والے ہر کشن لال کو والدین کی وفات کے بعد چچا لالا ہرجس رائے نے پالا اور پڑھایا۔ ہرکشن لال خود بھی لائق طالبعلم تھے اور وظیفہ لیتے تھے۔ وظیفے ہی پر انھیں لاہور کے ایک کالج میں داخلہ لینا تھا ۔لیکن سفر کے لیے پیسے نہ تھے چنانچہ وہ پیدل ہی چل پڑے۔

 اُن کے بیٹے کے ایل گابا کے مطابق انھوں نے ’کئی دن سفر کیا، زیادہ تر پیدل اور کہیں کوئی چھکڑا مل جاتا تو اس پر۔ دن میں سفر کرتے اور رات کو سڑک کنارے پُلوں پر سو جاتے۔

 گورنمنٹ کالج لاہور میں ریاضی، معاشیات اور فارسی اُن کے پسندیدہ مضامین تھے۔ جب انھوں نے بی اے میں صوبے میں دوسری پوزیشن حاصل کی تو انھیں کیمبرج میں تین سالہ پڑھائی کے لیے سکالرشپ مل گیا۔

 کتب فروشوں کا مقروض جو بینکوں کا مالک بنا ۔گابا لکھتے ہیں کہ '1890 میں انگلستان میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رقم کی امید میں ہندوستان واپس آئے۔ ان میں سے زیادہ تر قرضے کتب فروشوں کے تھے۔ 

سو گورنمنٹ کالج میں ریاضی اور اورینٹل کالج میں فارسی پڑھانے لگے۔ سنہ 1891 میں دوبارہ بیرون ملک گئے اور اس کے بعد 1892 میں پہلے ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر لاہور میں وکالت شروع کی۔

 سنہ 1896 میں انھوں نے اپنے چند دوستوں سے مدد طلب کی، جن میں سے ایک دیال سنگھ مجیٹھیا تھے اور بھارت انشورنس کمپنی شروع کی، جو ایک مقامی شخص کی اپنی نوعیت کی پہل کاری تھی۔ اس سے ایک سال قبل انھوں نے پنجاب نیشنل بینک کی بنیاد رکھی تھی۔ بینک کے پہلے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں مجیٹھیا چیئرمین اور لالا ہر کشن اعزازی سیکریٹری تھے۔ لالا لاجپت رائے انارکلی لاہور میں آریا سماج مندر کے سامنے قائم اس بینک کے پہلے کھاتے دار بنے۔ ان کے چھوٹے بھائی بینک کے مینیجر تھے۔ لاہور سے باہر پہلی شاخ 1900 میں راولپنڈی میں کھولی گئی اور سنہ 1904 میں بینک نے کراچی اور پشاور میں اپنی شاخیں قائم کیں۔

 لالا ہرکشن لال، مجیٹھیا کے اخبار دی ٹربیون کے ٹرسٹی بھی تھے۔ انھوں نے 1901 سے 1906 تک، کئی کمپنیاں اور مالیاتی ادارے قائم کیے جیسے پنجاب کاٹن پریس کمپنی، پیپلز بینک آف انڈیا، امرتسر بینک، کان پور فلور ملز، سنچری فلور ملز، صابن کے کارخانے، اینٹوں کے بھٹے، آرے، برف خانے اور لانڈری۔ پنجاب نیشنل بینک سمیت کچھ ادارے اب بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ بینک پاکستان بننے سے پہلے ہی دلی منتقل ہو گیا تھا۔ 

لاہور میں آٹھ آنے فی یونٹ بجلی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت کی پنجاب حکومت سرکاری دفاتر میں بجلی کی فراہمی چاہتی تھی۔ حکومت نے خود سے کئی بار اس ضمن میں کوشش کی جو ناکام رہی۔ لالا نے اپنے بینک، پیپلز بینک آف انڈیا، کے نام پر ٹینڈر جمع کروا دیا جو اسی سال جولائی میں منظور ہو گیا۔ حکومت کی شرائط میں سے ایک یہ تھی کہ پندرہ منٹ سے اوپر بجلی جانے پر ہر بار 25 سے 200 روپے جرمانہ ہو گا۔ 

فروری 1912 میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی پانچ لاکھ روپے کے سرمائے سے قائم ہوئی۔ 21 مارچ 1912 کو رجسٹرڈ ہوئی۔ لا لا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پہلے چیئرمین بنے۔ تاریخ دان احمد سعید کے مطابق نومبر 1912 میں لاہور الیکڑک سپلائی کمپنی نے بجلی کی سپلائی کا سلسلہ شروع کیا اور گول باغ میں ایک افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ افتتاح پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر(1908-1913) لوئی ڈین نے کیا۔ احمد سعید اپنی کتاب ’لاہور اک شہرِ بے مثال‘ میں لاہور سے چھپنے والے اخبار ’بندے ماترم‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’بجلی لگانے کے لیے سرکلر روڈ پر بنسی لال اینڈ کمپنی قائم ہوئی جسے بجلی لگوانے کے لیے صرف اتنا لکھ دینا کافی تھا کہ ہمیں اتنے لیمپوں اور پنکھوں کی ضرورت ہے اور آپ کا کام ہو جاتا تھا۔‘ ’سرکاری دفاتر کو چار آنے فی یونٹ اور عوام کو چھ آنے اور آٹھ آنے فی یونٹ کی شرح سے بجلی فروخت کی جاتی تھی۔ جو لوگ مقررہ وقت پر اپنا بل ادا کرتے ان سے کمپنی آٹھ آنے یونٹ کی بجائے چھ آنے وصول کرتی۔‘ ’گھروں اور دفاتر وغیرہ میں بجلی ’روشن کرنے‘ کے اوقات پہلے سوا چھ بجے شام سے ساڑھے پانچ بجے تھے۔

 پیسہ اخبار میں میونسپل کمیٹی کے سیکریٹری ہربھجن داس کے ایک اشتہار سے پتا چلتا ہے کہ 25 جنوری 1922 سے یہ آٹھ بجے شام سے ساڑھے چھ بجے صبح تک مقرر کیے گئے۔‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’مرقع چغتائی کا منصوبہ زیر تکمیل تھا۔ مالی وسائل کم تھے۔ جرمنی سے پرنٹس اور باقی کتاب یہاں لاہور سے چھاپنے کا فیصلہ ہوا۔ پیسہ محدود ہونے کی وجہ سے ایک چھوٹا سا پریس خریدا گیا اور دوبھائیوں، ایم اے رحمان چغتائی اور عبدالرحیم چغتائی نے پرنٹنگ خود کرنے کا فیصلہ کیا۔ محلہ چابک سواراں میں گھر میں پریس لگایا گیا، لیکن بجلی کا کنکشن دستیاب نہیں تھا۔ ہرکشن لال کو ایک درخواست بھیجی گئی۔ مصور کے لیے خصوصی رعایت کے ساتھ ان کے گھر پر بجلی کا کنکشن دیا گیا۔

  سازش کا مقدمہ اور چپل میں عدالت حاضری :۔

ہرکشن لال کا اثر و رسوخ، شہرت اور خوش قسمتی ہر ایک کو نہ بھائی۔ کے ایل گابا لکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے دیکھا کہ وہ لیفٹیننٹ گورنر کے ساتھ نمائش کا افتتاح کرنے ایک ہی ہاتھی پر سوار ہو کر جاتے ہیں۔ لاہور میں اپنی نوعیت کی صرف دو موٹر کاروں میں سے ایک میں سفر کرتے ہیں، جبکہ ان کے کئی حریف سائیکل، تانگہ یا فیٹن استعمال کرتے ہیں۔ ’لالا جی کے پاس بھی ایک فیٹن تھا۔ اسے دو کی بجائے چار گھوڑے کھینچتے تھے۔ وہ کبھی کبھی اونٹ گاڑی بھی استعمال کرتے جو لیفٹیننٹ گورنر کی گاڑی سے مشابہ تھی۔۔۔ تو ان لوگوں نے سوچا کہ لالا کی اہمیت کم کرنے کا یہی وقت ہے۔‘ گابا کے مطابق سنہ 1913 میں آریا سماج کے ارکان نے اپنے اخبار ’آریا پتریکا‘ کے ذریعے ان کے بینک کے کھاتے داروں میں اضطراب اور خوف و ہراس پیدا کیا۔ لیفٹیننٹ گورنر مائیکل او ڈوئیر کو ہرکشن لال سے خاص بیرتھا۔ اپریل 1915 میں، پنجاب میں مارشل لا میں خلل ڈالنے کے الزام میں، لالا کو گرفتار کر کے جلا وطن کر دیا گیا اور پھر ایک خصوصی ٹریبونل کے ذریعے ان پر سازش اور بغاوت سمیت مختلف الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔ تب بجلی کمپنی اپنے نئے ترقیاتی منصوبے کو عملی شکل دینے میں مصروف تھی۔ لالا گرفتار ہوئے تو رائے بہادر موہن لال نے اسے چلایا۔

 گابا لکھتے ہیں کہ لالا کے نجومی نے انھیں بتایا تھا کہ اگر مقدمہ او ڈوئیر کے دور میں ختم ہو گیا تو انھیں اور ان کے دوستوں کو پھانسی ہو جائے گی۔ دوسری صورت میں، وہ چھوٹ جائیں گے۔ دونوں صورتوں میں، لالا نے سوچا کہ اپنا وقت گزارنے کا بہترین طریقہ سونا ہے۔ ’لالا بے پرواہی سے، نائٹ سوٹ اور چپل میں عدالت میں حاضر ہوتے اور کارروائی کے دوران خراٹے لے کر ججوں کو غصہ دلاتے۔  تاہم لالا نے دو سال کی کم سزا بھی پوری نہیں کی۔

 مونٹاگو-چیمسفورڈ اصلاحات (1919) کے نفاذ کے بعد اور مونٹاگو کی سفارش پر عام معافی کا اعلان کیا گیا، ہرکشن لال اور ان کے ساتھیوں کو رہا کر دیا گیا۔ لالا نے جیل سے رہا ہونے پر کمپنی کی سربراہی پھر سنبھالی۔ پنجاب کا ’سب سے بڑا سرمایہ دار کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گیا‘

 سنہ 1919 ہی میں لالا ہرکشن لال کو پنجاب حکومت کا وزیر زراعت اور صنعت مقرر کر دیا گیا۔ موہن لال دوبارہ کمپنی کے چیئرمین بنے۔ ان کی موت کے بعد لالا ملک راج بھلا چیئرمین مقرر ہوئے۔ ڈھائی سال وزیر رہنے کے بعد ہرکشن لال کاروبار کی جانب واپس آ گئے۔

 گابا لکھتے ہیں کہ ذاتی دولت کے لحاظ سے پنجاب میں بھی لالا سے کم از کم آدھ درجن آدمی زیادہ امیر تھے۔ لیکن تنوع اور ذاتی اثر و رسوخ میں ملک میں بہت کم لوگ ان کے ہم پلہ تھے۔ ان کے مطابق ’ایک اہم بینک، ایک انشورنس کمپنی (جو سالانہ کاروبار اور پریمیم آمدن میں ہندوستان میں پہلی تین میں سے ایک تھی)، چھ یا سات فلور ملیں، چینی کے کارخانے اور بجلی سپلائی کمپنیاں، مختلف ایجنسیاں اور سٹور۔ وہ ہندوستان میں ممکنہ طور پر کسی دوسرے شخص سے زیادہ کمپنیوں کے چیئرمین تھے۔ ان کی آمدن بہت زیادہ تھی۔‘ ’ان کی ملوں میں ہزاروں ملازمین تھے۔ ان کے کاروبار نے یورپ میں برآمد کنندگان اور مینوفیکچررز کی توجہ مبذول کروائی۔ صوبائی حکومتیں صنعتی اور اقتصادی سکیموں کو فروغ دینے کے لیے ان سے مشورے لیتیں۔‘ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی نے بجلی فراہمی کا دائرہ کامیابی کے ساتھ ذیلی کمپنیوں کے ذریعے سیالکوٹ، روہتک اور حصار، راوڑی اور سرسا، پشاور، لاڑکانہ، کٹنی اور بلاس پور، فرخ آباد، سراج گنج اور شاہدرہ تک پھیلا دیا۔ 

کمپنی نے شاہدرہ پاور سٹیشن سے 1930 سے 1933 تک امرتسر کو بھی بجلی فراہم کی۔ وہاں حکومت کے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ میں تاخیر تھی۔ یہ فراہمی تب بند ہوئی جب ہائیڈرو الیکٹرک سسٹم فعال ہو گیا۔ 1931 کی کساد بازاری سے ہر کاروبار کی طرح ان کا کاروبار بھی متاثر ہوا۔ یہی وہ وقت تھا جب ان کے محسن سر شادی لال کی جگہ سر ڈگلس ینگ پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ شادی لال ہرکشن لال کے تئیں مثبت رویہ رکھتے تھے اور ان کے خلاف شکایات سے صَرفِ نظر کرتے۔ مگر ینگ نے ہرکشن لال کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی حوصلہ افزائی کی۔ انھیں توہین عدالت، دیوالیہ پن اور ریسیور شپ (باقی داری) کا مجرم قرار دیا گیا۔

 سوم آنند لاہورسے دلی منتقل ہوئے تھے۔ 1976 میں چھپی اپنی کتاب ’باتیں لاہور کی‘ میں لکھتے ہیں: 'ہرکشن لال دولت و ثروت کی جس مسند پر بیٹھے تھے وہ جلد ہی ان سے چھن گئی۔‘ ’پنجاب کا سب سے بڑا سرمایہ دار کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گیا۔ ایک زمانہ تھا کہ لاہور کی سیاسی و سماجی زندگی کا کوئی ذکر ہرکشن لال کا نام لیے بغیر مکمل نہیں ہوتا تھا۔‘ ان آزمائشوں کے دوران ہی میں ہرکشن لال 13 فروری 1937 کو وفات پا گئے۔ کے ایل گابا اپنے والد پر لکھے مضمون میں کہتے ہیں: ’کیا لالا ہرکشن لال اپنے وقت کے سب سے بڑے ناکام یا کامیاب ترین آدمی تھے؟ شاید وہ دونوں ہی تھے۔‘ ’چاہے وہ کامیاب تھے یا ناکام، اس سے اختلاف نہیں کیا جائے گا کہ وہ اپنے وقت کے سب سے غیر معمولی آدمیوں میں سے ایک تھے۔‘ وہ لکھتے ہیں: ’وہ کفایت شعار تھے لیکن شاہانہ میزبانی کرتے۔ وائسرائے کو اپنی گفتگو اور وائسرائن کو اپنے ہیرے کے بٹنوں کی چمک سے حیران کرتے۔ مانچسٹر اور برمنگھم کے حوالے سے سوچتے لیکن سودیشی لحاظ سے کام کرتے۔‘ ’ہر آدمی بھکاری ہے‘ لاہور کی کوینز روڈ پر گنگا رام ہسپتال کے سامنے جہاں اب فاطمہ جناح میڈیکل کالج ہے، لالا کا شان دار گھر تھا۔ اسی گھر کے حوالے سے کے ایل گابا لکھتے ہیں: ’اگرچہ لالا ہرکشن لال نے ایک محل بنایا تھا لیکن خود ایک چھوٹے سے کمرے میں رہنے کو ترجیح دی جو بیڈروم، ڈریسنگ روم اور نیم دفتر تھا۔‘انھیں اپنے پنجابی ہونے پر فخر تھا۔ ’اس کمرے کی سجاوٹ کے لیے انھوں نے ایک مصور کو پنجاب کا سفر کرنے اور بھکاریوں کی تصویریں بنانے کا حکم دیا۔‘ ’تقریباً ایک سو ایسی تصویروں کے درمیان وہ رہتے اور کام کرتے تھے۔ پوچھا جاتا کہ یہ سب کیا ہے، تو وہ کہتے: ہر آدمی بھکاری ہے۔ میں نے زندگی کا آغاز غربت میں کیا تھا اور میرے اردگرد یہ تصویریں مجھے کبھی بھولنے نہیں دیں گی کہ میری ابتدا کیا تھی۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اتوار، 3 دسمبر، 2023

فوج کا فوجی پنشنرز کے لئے ایک اقدام

  فوجیوں کا ڈسٹرکٹ لیول تک سول اداروں میں 10 فیصد ہر بھرتی میں  کوٹہ دیا گیا ہے ۔ جو صرف آفیسروں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔

اِسی لئے آپ پولیس اور ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپس میں   ، کمشنر یا انسپکٹر جنرل آف پولیس کیپٹن  ۔ میجر  اور کرنل  کے ناموں کا لاحقہ لگا دیکھتے ہیں ، یہ سب فوج کے برگزیدہ لوگ ہوتے ہیں اور جو مار گزیدہ ہوتے ہیں وہ صرف اپنے نام کے ساتھ ریٹائرڈ لکھتے ہیں ۔  مجھے امید ہے کہ اب یقیناً فوج کی کوششوں سے  سولجرز کی متوازی بھرتیاں اُن کے 10 فیصد کوٹے میں شروع ہو جائیں گی۔ لیکن اِن 10 فیصد بھرتیوں کے بجائے جو مضمون میں نے لکھا تھا ۔پر لازمی عمل کیا جائے ۔کیوں کہ سرکاری ملازم ہڈ حرام ہوتے ہیں اور پنشن ملنے کے بعد اگر سرکاری ملازمت ملے تو مزید ھڈ حرام ہو جاتے ہیں۔

    ۔ پاکستان کی ترقی میں نان ایکٹو سولجر کا شمول

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مجھے وٹس ایپ پر ایک فارم ملا جو میں نے اپنے تمام پنشنرز دوستوں کو ذاتی طور پر نیوز براڈ کاسٹ میں ڈال دیا ۔کہ اسے دوسرے فوجی پنشنرز کو شیئر کردیں۔ یہ بالکل ماضی بعید  کی حکومت  کے ایمپلائمنٹ ایکسچینج  کی طرح ہے ۔جو ماضی بعید میں میٹرک پاس کرنے کے بعد ملازمت  حاصل کرنے والوں کے لئے بنایا گیا تھا ۔ جس میں میرٹ ،میٹرک سائنس ۔میٹرک کامرس ۔ میٹرک آرٹس اور نان میٹرک طالبعلموں کے لئےشروع کیا تھا ۔ اگر آپ نے پِٹ مین ٹائپنگ انسٹیوٹ سے ٹائپنگ کا کورس کیا ہے تو آپ کا میرٹ سائنس والے سے کلیریکل جاب میں اوپر چلا جاتا تھا اور اگر آپ نے شارٹ ہینڈ کا کورس بھی کیا ہے تو آپ کا میرٹ سب سے اوپر میٹرک پاس والوں میں ہوتا ۔ سرکاری ملازمت حاصل کرنے کی دھکم پیل ہمیشہ رہی ہے کہ پکی  60 سالہ ملازمت ہوتی اور ریٹائرمنٹ پر پنشن ملتی ۔ لیکن ڈیفنس فورسز (آرمی ، نیوی اور ائر فورس)میں ایسا نہیں ہوتا۔ جن میں پہلی کلر سروس  مکمل کرنے کے بعد  38 سال اور 43 سال کی عمر میں ، پھر ملازمت کی لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔پاکستان آرمی کی۔

W&R Directorate

 ایک ایسا ادارہ ہے جوفوجیوں اور ریٹائر ہوجانے والے فوجیوں  کی  دوبارہ ۔ پاکستان  آرمی کے دو بڑے ویلفیئر اداروں ۔ فوجی فاونڈیشن  اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ میں ۔ملازمت دلواتا ہے۔ یہ ایجوٹنٹ جنرل (یفٹننٹ جنرل)کے ماتحت ہوتی ہے ، جس کا ڈائریکٹر جنرل ۔ میجر جنرل ہوتا ہے۔ اصولاً یہ فارم ریٹائرمنٹ کے وقت تمام رینکس سے بھرواکر  ڈبلیو اینڈ آر ڈاریکٹوریٹ ۔جی ایچ کیو    بھجوانا چاھئیے ۔ لیکن کئی پنشنرز جو فوجی نوکری سے اتنے تنگ ہوتے ہیں کہ وہ دوبارہ فوج میں ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت نہیں کرنا چاھتےاور اپنی بچوں کے پاس رہ کر کاروبار یا وہیں ملازمت کرنا چاھتے ہیں ۔ بزنس کے تھپیڑوں میں اپنی پنشن گنوا کر دوبارہ ، ملازمت کے خوہش مند ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ گیٹ پر کھڑے چوکیدار کی کیوں نہ ہو ۔ اُن کو دوبارہ موقع مشکل سے ملتا ہے ۔ لیکن اگر فوج میں اُن کا ٹریڈ اچھا ہو تو، اُنہیں 50 سال کی عمر تک دوبارہ ملازمت کا چانس ہوتا ہے ۔ جن میں ٹیکنیکل ٹریڈ۔ کلیریکل ٹریڈ اور سیکیورٹی کی ڈیوٹی کے لئے جاب مل جاتی ہے ۔ جس کے لئے اُن کا تجربہ اور اضافی تعلیم یا سرٹیفکیشن اہمیت رکھتی ہے ۔

وہ تمام فوجی جن کی عمر  31 دسمبر 2023  کو 50سال سے کم ہے ،  جو دوبارہ ملازمت پر جو نان پنشن  ایبل  ہوگی     ۔ اُس کے لئے درج ذیل فارم بھر کر لازمی ۔ اِس ایڈیس پر بھجوائیں ۔ممکن ہے کہ آپ مہنگائی کے اِس دور میں دوبارہ روزگار حاصل کر سکیں ۔اگر آپ نے پہلے کوئی درخواست دی ہے تب  بھی یہ فارم بھر کر بھجوائیں کیوں کہ آپ کی معلومات اِسی ترتیب سے کمپیوٹر میں ڈالی جائے گی ۔

آپ کی یہ درخواستیں تصدیق کے لئے آپ کے ریکارڈ آفس بھجوائی جائیں گی ، لہذا  تمام معلومات درست دیں ۔ آگر آپ نے ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی تعلیم حاصل کی تو اُس کے سرٹیفکیٹ کی کاپی لگائیں شکریہ

WR - 7 (RE-EMP RANKS) . W&R DTE .GHQ RAWALPINDI

صبح اٹھا موبائل کھولا تو ، جوانوں کے پیغامات سے بھرا ہوا تھا کہ سر یہ کیسے بھرا جائے؟۔

فارم دیکھے بغیر پنشنرز نے سوال پوچھے ۔
٭۔ یہ فیک تو نہیں ؟
٭۔ تنخواہ کیا ہوگی ؟
٭- ڈیوٹی کس شہر میں ہو گی ؟

٭۔ فوج دوبارہ بھرتی کر رہی ہے ؟

٭۔ گھر ملے گا ؟ وغیرہ وغیرہ

 ٭٭٭٭واپس ٭٭٭ ٭

 

منگل، 14 نومبر، 2023

اسرائیل کے لئے عرب بغاوت

 سلطنت عثمانیہ قائم تھی توالقدس مسلمانوں کے پاس تھا۔ ہنستا بستا شہر تھا، جس میں مسلمان عزت اور آبرو سے جی رہے تھے۔ ان کے بچے بھی محفوظ تھے اور ان کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی سکون سے زندگی گزار رہی تھیں۔ پھر عربوں  نے  دوسری جنگ عظیم کی اتحادی فوجیوں  کے ساتھ مل کر  شہنشاہ جارج پنجم    کی سر براہی میں  سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی ا ور نتیجہ یہ نکلا کہ   یروشلم میں کنگ سلومن کا  تعمیر کردہ  ہیکل سلیمانی  دیوار گریہ سمیت  ،یہودیوں   کی ملکیت بن گیا ۔جس کے لئے  ایک کہانی تخلیق کی گئی ۔ درد اور دکھوں میں لپٹی کہانی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ 10 جون 1916 کی بات ہے۔برٹش مہم جو فوج کی قیادت میں جنرل آرچی بالڈ مرے اورشریف مکہ   شاہ حسین ابن علی کے درمیان ، عثمانیہ  ترکوںکو خطہ عرب  سے نکالنے کا ایک معاہد ہوا ۔    جس پر ۔بولی اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔

اُس بغاوت کو الثورۃ العربیہ الکبری‘ کا نام دیا گیا۔  ثَوْرٌعربی  میں میں  بھینسے  کو کہتے ہیں اورثَوْرَة بغاوت کو ۔

باغی بھینسے 1919 میں حسین ابن علی شاہ اردن کی قیادت میں اپنا ترنگا پرچم  لہراتے  دمشق پر قابض ہوگئے۔ 

    برطانیہ کے لیفٹیننٹ کرنل ہنری  میک موہن کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں عربوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر دی، 
ہنری میک موہن معلوم ہے کہ کس رائل  انڈین انفنٹری رجمنٹ کے کمانڈنگ آفیسر تھا؟

   پنجاب فرنٹئیر فورس (1843) ۔میں 1885  میں جائن کیا  اور فرسٹ سکھ رجمنٹ جو 1901 میں پنجاب کے سکھوں اور پٹھانوں سے مل کر بنائی گئی تھی میں پوسٹ ہوا ۔پھر وہاں سے  پنجاب سول سروس کمیشن پنجاب میں ٹرانسفر ہوا ۔میجر ہنری میک موہن ،بہترین اردو ، پنجابی اور پشتو جانتا تھا  پھر اِس نے عربی میں مہارت حاصل کی۔

   جب بغاوت کا فیصلہ ہو چکا  اور اس کی جزئیات طے ہو چکیں تو اگلا مرحلہ اس عرب بغاوت اور مزاحمت کا پرچم تیارکرنا تھا۔ کتنی عجب بات ہے کہ بغاوت مسلمان کر رہے تھے لیکن اس بغاوت کا پرچم برطانوی سفارت کار تیار کر رہے تھے۔  
یہ پرچم ایک برطانوی   انٹیلیجنس آ فیسر   کرنل مارک سائیکس (سفارت کار)  نے تیار کیا۔ مارک سائیکس صیہونیوں کے بہت قریب تھے اور جس اعلان بالفور کے نتیجے میں اسرائیل قائم کیا گیا اس اعلان کو حقیقت بنانے میں کرنل صاحب کا بڑا اہم کردار تھا۔
 مارک سکائیس نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کا جو پرچم تیار کیا اس میں چار رنگ شامل تھے۔ اس میں سیاہ، سفید اور سبز یعنی تین رنگوں کی تین افقی پٹیاں تھیں اور ایک تکون تھی جس کا رنگ رخ تھا۔
سیاہ رنگ عباسی سلطنت کی یادگار کے طور پر لیا گیا، سفید رنگ کو اموی سلطنت سے نسبت دی گئی  اور سبز رکنگ فاطمی خلافت کی یادگار کے طور پر رکھا گیا۔ تکون کا سرخ رنگ ہاشمی خاندان یعنی اشراف مکہ کی نسبت سے لیا گیا یو ں سمجھ لیجیے کہ یہ رنگ شریف مکہ شاہ  حسین بن علی کی ممکنہ سلطنت کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور  پر چناگیا جو جو شریف مکہ اور مک موہن معاہدے کی روشنی میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد وجود میں آنا تھی۔

 

پرچم بھی تیار ہو گیا اور بغاوت بھی شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ ایک وقت وہ آیا کہ یروشلم کا محاصرہ کر لیا گیا۔ عثمانی افواج لڑیں اور یروشلم کے اطراف میں شہید ہونے والے فوجیوں کی تعداد ایک روایت کے مطابق 25 ہزار تھی۔ لیکن یہ افواج بے بس ہو گئیں۔ اس کی بہت ساری وجوہات تھیں مگر ان میں سے دو بہت نمایاں تھیں۔
پہلی وجہ عرب بغاوت تھی۔ ایک طرف برطانوی اور اس کی اتحادی افواج یروشلم پر حملہ آور تھیں۔ دوسری جانب عرب بغاوت نے ترکوں کی سپلائی لائن کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔سلطنت عثمانیہ باہر کے دشمنوں سے تو شاید نمٹ لیتی لیکن جب اپنے ہی اپنوں کے خلاف ہو گئے تو سلطنت عثمانیہ بے بس ہو گئی۔
 دوسری وجہ ہندوستان سے گئے فوجی تھے جو اتنی وافر تعداد میں تھے کہ اس نے اتحادی افواج کو افرادی قوت سے بے نیاز کر دیا تھا۔ فیلڈ مارشل  کلاڈ اچنلک نے بعد میں اعتراف بھی کیا کہ ہندوستان کے فوجی ہمیں میسر نہ ہوتے تو ہم دونوں جنگ عظیم ہار گئے ہوتے۔ جب یروشلم میں مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی ۔تو پنجاب کے پیروں کی گدیاں سرکار انگلشیہ کی فتح کا جشن منا رہی تھیں۔
یہاں اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہندوستان سے جانے والے صرف ہندو اور سکھ فوجی تھے تو اس غلط فہمی کو دور کر لیجیے۔ اس کام میں مسلمان فوجی بھی پیش پیش تھے کیونکہ ہندوستان میں یہ فتوی آ چکا تھا کہ مسلم دنیا کی قیادت پر ترکوں کا کوئی حق نہیں۔ یہ حق تو شریف مکہ کا ہے۔
آج شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ جب القدس مسلمانوں سے چھن گیا اور سلطنت عثمانیہ کو یہاں شکست ہو گئی تو برطانوی فوج کا جو پہلا دستہ شہر میں داخل ہوا وہ   ”نعرہ تکبیر“ بلند کرتے ہوے داخل ہوا۔
 11 دسمبر 1917 کو جب یروشلم مسلمانوں سے چھن گیا اور جنرل ایلن بے ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا تو فاتحین کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو ہندوستان سے تشریف لے گئے تھے اور نعرہ تکبیر بلند فرما رہے تھے  اور کچھ وہ تھے جو ہندوستان سے تشریف نہیں لے گئے تھے وہیں آس پاس کے علاقوں کے  عرب تھے اور ’الثورۃ العربیہ الکبری‘ کا پرچم تھامے ہوئے تھے۔ وہی چار رنگوں والا پرچم جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ جزوی تبدیلیوں کے ساتھ عرب بغاوت کا یہی پرچم،آج بھی مصر، اردن، سوڈان، کویت، امارات، شام، لیبیا اور یمن کا  قومی پرچم ہے۔فلسطین کا پرچم بھی اسی پرچم کی ایک شکل ہے۔
اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کیا۔ اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے القدس مسلمانوں سے چھین کر برطانوی فوج کے حولے کیا۔ اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے دشمن کو یروشلم میں گھسنے کا موقع دیا  اور آج اسی پرچم تلے مسلمان صہیونیوں کے مظالم کے خلاف بے بسی سے سراپا احتجاج ہیں۔
بغاوت کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا؟ شریف مکہ اردن کے  شاہ حسین ابن علی  نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو خود کو خلیفہ قرار دے ڈالا۔ پورے چاؤ سے’الثورۃ العربیہ الکبری‘  چلانے والے شریف مکہ چند ماہ ہی حکومت کر سکے پھر جلاوطن ہوئے اور مر گئے۔
ان کا اقتدار بعد میں سمٹ کر اردن تک رہ گیا گیا۔ ان کی اولاد میں سے ایک بادشاہ سلامت ایک دن مسجد اقصی میں داخل ہوئے اور کسی مسلمان کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ کچھ عرصہ مسجد اقصی ان کے زیر انتظام رہی بعد میں اسرائیل نے یروشلم شہر پر بھی قبضہ کر لیا اورب اب صرف کاغذی طور پر مسجد اقصی اردن کے شاہی خاندان کے زیر انتظام ہے۔
غلطیاں یقینا سلطنت عثمانیہ سے بھی ہوئی ہوں گی، تبھی تو بغاوت ہوئی لیکن سلطنت عثمانیہ جیسی بھی تھی، اسرائیل جیسی سفاک تو نہ تھی۔القدس کے مسلمانوں پر یوں ظلم تو نہ کرتی تھی۔
اسی بغاوت کے پرچم تلے خود مسلمانوں نے سلطنت عثمانیہ کو اسی یروشلم میں شکست دی اور تب سے اب تک انہیں سُکھ کا ایک دن نہیں ملا۔ وہی پرچم اٹھا کر اب وہ اپنے معصوم بچوں کے لاشوں پر سوگوار کھڑے احتجاج کر رہے ہیں۔

٭٭٭٭٭

Britain in Palestine 1917-1948

 https://www.youtube.com/watch?v=hOJqLTc6RkU 


Six days that changed the Middle East: The '67 Arab-Israeli War | Featured Documentary

 https://www.youtube.com/watch?v=cn3RUZsaPmg

The War In October: who claimed victory in 1973?

 https://www.youtube.com/watch?v=icxos9sVrYY

جمعرات، 9 نومبر، 2023

بوڑھے کا ایک اور سوشل ورک

بوڑھا ، بڑھیا کے ساتھ گھر سے فلیٹ میں شفٹ ہوا ،  گھریلو ملازم ، تنخواہ ، کھانا ،  رہائش  ،صابن تولیہ ، ٹوتھ برش و پیسٹ مُفت    ہر مہینے تین دن کی چھٹی ، کی  وجہ سے سکون سے رہنے لگا ۔ 6 اگست تا 11 اگست گوادر میں گذارنے کے بعد  بوڑھا واپس آیا ۔ کیوں کہ بیٹے کے اگلے رینک میں پروموشن کو یادگار بنانے کے لئے 8 اگست 2013 کی تاریخ منتخب کی جو اُس کی ماما یعنی بڑھیا کی پیدائش کا دن تھا ۔
تو بڑھیا نے بتایا کہ ملازم  تنخواہ کی کمی  کی وجہ   کڑکڑانا   شروع ہو گیا ہے۔
 جس کی مہینے میں تین دن چھٹیوں اور مزید اضافے کی وجہ سے بڑھیا اور بوڑھے کو کچن کا اضافی  کام کرنا پڑتا ۔ یہاں تک کہ تیسرے ماہ  یعنی ستمبر میں بڑھیا کے علیل ہوجانے کے بعد  کام کا بوجھ مکمل بوڑھے کے کندھوں پر پڑ گیا ۔ تو بوڑھے کو سنت یاد آئی مگر اب پل کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا ، فرض نبھانا مشکل لگتا تھا ۔تو بوڑھے   کو خیال آیا اور یہ خیال اپنے کورس میٹ قاضی فواد کے گھر آیا ،جہاں امریکہ پلٹ میاں اور بیوی ڈالروں سے گلچھرے اُڑانے کے باوجود ،  گھر میں ملازم افورڈ نہیں کرسکتے ، وجہ اُس کی تنخواہ نہیں بلکہ  خواہ مخواہ  دو افراد کے لئے  ماھانہ اضافی اخراجات جو  بلا مبالغہ 35 ہزار روپے سے زیادہ بن جاتے ہیں ۔
بوڑھے  نے حساب لگایا تو احساس ہوا کہ بوڑھا اور بڑھیا دن کا کھانا کھائیں یا نہ کھائیں ۔ ہر دو دن بعد کھانا بنانا پڑتا ہے ۔ مہمان آئیں تو سیور ، فاسٹ فوڈ یا گاف کلب سے کھانا ۔  ملازم جب چھٹی جاتا تو دو دن کے بجائے کھانا  تین سے چار دن چلتا کیوں کی دو مہینے  بعد، ایک سے تین دن لیٹ آنا ، نوجوان نے اپنی طرفسے والد کی فالج کی بیماری کی وجہ سے کر لیا ۔ یہاں تک کہ اکتوبر میں اُس نے پورا ایک ہفتہ اپنے علیل والد کی خدمت میں گذارا، یو ں بوڑھا اور بڑھیا گھر میں کھانے سے بے نیاز ہوگئے ۔ فروٹ چاٹ ، جسے دیگر  چیزوں    پر توجہ دی اور سب سے بہتر کہ روزانہ گھر کی صفائی کے لئے آنے والی ملازمہ کو اضافی رقم دے کر بڑھیا نے کچن کا اضافی کام جیسے پیاز، لہسن ، سبزی وغیرہ کاٹنے پر رکھ لیا ۔ نوجوان جب واپس آیا تو اُس نے اپنی مجبوری کی وجہ سے معذرت کر لی ، کیوں کہ اُس کا والد مزید علیل ہو چکا تھا ۔ تو بوڑھے نے شکریہ  کے ساتھ نصف تنخواہ دے کر اُسے رخصت کر دیا ۔
اب کیا کیا جائے ، بڑھیا کا خیا ل تھا ، کہ اُسے ملازم کی ضرورت نہیں ، دونوں بیٹیوں کا خیال تھا کہ ملازم لازمی رکھیں ۔ بوڑھے نے سوچا کیوں نہ عمران جو بوڑھے  کے پاس 2017 میں 17 سال کا آیا تھا اور بہترین گھریلو ملازم بن کر 2019 میں فوج میں بطور  این سی بی ملازم ہو گیا ۔
لیکن بڑھیا نے صاف انکار کر دیا کہ اُس میں ہمت نہیں کہ وہ ملازم کو کھانے پکانے کی تربیت دے ۔ چنانچہ بوڑھے نے اک نئے سوشل ورک کی طرف سوچنا شروع کر دیا ۔ 
 جس کے لئے گوادر کے ایک استاد  قاری حنیف  سے رابطہ کیا جو اُس نے  منظور کر دیا وہ یہ کہ گوادر کے  ایک یتیم بچے کو بوڑھا ، اپنے گھر میں رکھ کر اُسے تربیت دے  ۔ جس کے لئے بڑھیا کی یہ شرط تھی کہ وہ  حفاظ ہو ہا کم از کم ناظرہ القرآن پڑھ چکا ہو ۔ 
لیکن قاری صاحب کی تلاش بسیار کے باوجود کو ئی بلوچی  یتیم بچہ گوادر  تا  تربت  نہ ملا ۔ 
چنانچہ اِس پروگرام میں مزید وسعت دینے کے لئے ۔ ملت ابراھیم حنیف پراجیکٹس کا آغاز کیا ۔
بوڑھے کو یہاں بھی ناکامی ہوئی ۔لہذا اِس پراجیکٹ کو دوسری سمت لے جانے کی کوشش  کرنے کا  پروگرام بنایا ۔
٭٭٭٭واپس ٭٭٭٭٭


بدھ، 1 نومبر، 2023

انارکی ۔ برصغیر کی اینگلو انڈین نسل

 

جب انگریز ہندوستان پہنچے تو ہندوستان جنسی طور پر یورپ سے زیادہ آزاد تھا۔ ہم جنس پرست اور ہم جنس پرست تعلقات عام، کھلے اور شاعری اور پینٹنگز میں منائے جاتے تھے۔ لونڈیاں ایک عام رجحان تھا جسے تمام مذہبی اور نسلی گروہوں نے رواج دیا تھا۔ اس کے برعکس، وکٹورین انگلینڈ میں کافی سخت جنسی جبر تھا۔

جنسی تعلقات کے دو پہلو ہیں: ایک برطانوی فوجیوں اور دوسرا برطانوی افسران سے متعلق۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے ہندوستان میں، انگریزوں کے زیر کنٹرول ہندوستان میں جسم فروشی قانونی اور اچھی طرح سے منظم تھی۔ 1850 کی دہائی میں، پچھتر  فوجی اضلاع تھے اور ہر ضلع میں عصمت فروشی حکام کی نگرانی میں ہوتی تھی۔ انڈین میڈیکل سروس   کے ڈاکٹر قحبہ خانوں کو منظم کرنے کے ذمہ دار تھے۔ تمام طوائفیں رجسٹرڈ تھیں، طوائفوں کی کم از کم عمر پندرہ سال تھی اور خواتین کو ان کے اپنے رہنے کے کوارٹر یا خیمے مہیا کیے جاتےتھے جن کا باقاعدگی سے معائنہ کیا جاتا تھا۔ کچھ قحبہ خانے  کافی بڑے تھے اور لکھنؤ کے کوٹھے میں پچپن کمرے تھے۔

 جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں سے متاثرہ طوائفوں کو ہٹا دیا جاتا  تھا اور صحت یاب ہونے تک ان  کو سیکس  کی اجازت نہیں تھی۔ مقامی اور یورپی فوجی دونوں ان بازاروں کو استعمال کرتے تھے۔ تاہم سپاہیوں کو ان طوائفوں سے ملنے کی حوصلہ شکنی کی  جاتی  جبکہ لالکرتی ( یورپی) فوجیوں کو ترجیح دی۔ زیادہ تر برطانوی فوجی معاشرے کے نچلے طبقے سے تھے اور وہ کسی برطانوی افسر کے معیار کے مطابق نہیں تھے۔ برطانوی فوجی، مقامی  سپاہیوں کے مقابلے طوائفوں سے زیادہ کثرت سے ملنے جاتے تھے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ برطانوی فوجیوں کی شادی نہیں ہوئی تھی جبکہ  مقامی سپاہی عموماً شادی شدہ مرد ہوتے تھے۔ ان بازاروں کو لال کرتی  بازار کہا جاتا تھا۔  جنس پرستی اور ہم جنس پرستی دونوں تعلقات عام تھے۔

 برطانوی رجمنٹوں نے ہندوستان میں کئی سال گزارے اور کئی بار ایسے رشتوں سے بچے پیدا ہوئے۔ ان بچوں کے لیے اٹھارویں صدی کے اوائل میں خصوصی مکانات اور اسکول مختص کیے گئے تھے۔ 

 جہاں تک برطانوی افسران کا تعلق ہے، یہ رجحان 18ویں اور 19ویں صدی کے اوائل میں عام تھا۔ تاہم، جنسی تعلقات کی نوعیت مختلف تھی. ہندوستان کے اشرافیہ میں افسروں نے شادی کی۔ سول اور ملٹری دونوں کمپنی کے زیادہ تر ملازمین سولہ سال کی عمر میں سروس میں شامل ہوئے۔ بہت سے عوامل جیسے کہ بہت کم عمر، ہندوستان میں کئی دہائیوں تک   برطانیہ نہ جاسکنے   یا  چھٹی  کم ہونے  کی وجہ سے  یورپی خواتین سے دوری ، دور دراز کے اسٹیشن پر پوسٹنگ اور مقامی داشتاؤں اور بیویوں کے اثر و رسوخ کے نتیجے میں ان میں سے کچھ انگریز مقامیوں خاندانوں   میں گھل مل گئے ۔

 سترہویں اور اٹھارویں صدی کے آخر میں، بہت سے یورپی باشندوں نے مقامی لونڈیوں کے ساتھ ساتھ ،قانونی طور پر مقامی مسلم اور ہندو دونوں عورتوں سے شادی کی۔ ان خواتین کو بی بی گھر کے نام سے الگ گھر میں رکھا گیا تھا۔

 یہ رواج کافی عام تھا کہ بنگال  سے 1780تا 1785میں زندہ بچ جانے والوں کی  وصیتوں کا ریکارڈ  ظاہر کرتی ہیں کہ تین میں سے ایک یورپی سپاہی ، اپنی   ہندوستانی  بیویوں یا  ساتھیوں کے لئے  وصیت کرتا  ۔ کچھ انگریزوں نے اپنے مذہب اور ثقافت کو برقرار رکھا جبکہ کچھ نے ہندو مذہب یا اسلام قبول کر لیا اور مکمل طور پر مقامی  بن گئے۔ ایسی شادیوں سے پیدا ہونے والے بچے  آرام سے دونوں سوسائیٹوں میں پروان چڑھتے   ۔جبکہ کچھ مقامی رہناپسند کرتے اورکچھ   انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرکے  وہیں آباد ہوجاتے ۔  جبکہ  مقامی طور پر پلے بڑھے بچوں میں سے کچھ  اردو اور فارسی   کے مشہور شاعر،موسیقار ، شیوخ  اور اسکالر بن گئے۔ 

مؤرخ ولیم ڈاریمپل نے اپنی کتاب انارکی  میں ان تعلقات کو تفصیل سےلکھا کیا ہے۔ 

دہلی میں برطانوی  ، میجر جنرل سر ڈیوڈ اوچرلونی مشرقی نواب کی طرح رہتے تھے جن کی تیرہ مقامی بیویاں تھیں۔ سب سے مشہور مبارک بیگم ہیں۔ 

پونے میں مرہٹوں کے دربار میں برطانوی باشندےمیجر ولیم پامر نے دہلی کے ایک ممتاز گھرانے کی بیگم فیض  بخش سے شادی کی۔

 حیدرآباد میں برطانوی رہائشی لیفٹیننٹ کرنل جیمز اچیلز کرک پیٹرک نے خیر النساء سے شادی کی۔جو حیدرآباد کے وزیر اعظم کی بڑی بھانجی تھی ۔ 

جیمز کا سوتیلا بھائی ولیم اپنی داشتہ  دھولوری بی بی کے ساتھ رہتا تھا۔  

میجر جنرل چارلس اسٹورٹ عملی طور پر ہندو بن چکے تھے اور اپنی ہندو بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کا عرفی نام 'ہندو اسٹورٹ' اور 'جنرل پنڈت' تھا۔ اسے کلکتہ کے عیسائی قبرستان میں دفن کیا گیا لیکن اپنے ہندو دیوتاؤں کے ساتھ۔ 

حیدرآباد میں برطانوی فوجیوں کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل جیمز ڈارلمپل نے نواب آف مسولیپٹم کی بیٹی موتی بیگم  سے شادی کی۔  

ولیم لینیئس گارڈنر نے نواب آف کیمبے کی بیٹی بیگم ماہ منزل النسا سے شادی کی۔

 حیدرآباد کے مرہٹوں اور نظام کے ساتھ فری لانس سروس کے بعد، اس نے ایسٹ کمپنی کے لیے گارڈنر ہارس کے نام سے بے قاعدہ کیولری رجمنٹ قائم کی۔ یہ رجمنٹ اب بھی ہندوستانی فوج کے سیکنڈ لانسر   کےنام پر زندہ ہے۔ گارڈنر آگرہ کے قریب اپنی بیوی کی جاگیر پر خوشی سے رہتا تھا (ماہ منزل مغل بادشاہ اکبر شاہ دوم کی گود لی ہوئی بیٹی تھی)۔

 اس کے بیٹے جیمز نے بیگم ملکہ ہمنی سے شادی کی۔ مغل شہنشاہ کی بھانجی (وہ لکھنؤ کے نواب کی بہن بھی تھیں)۔ 

ولیم کی پوتی کی شادی مغل شہزادے مرزا انجم شکوہ بہادر سے ہوئی تھی۔

ہندوستان کی سکنر فیملی ۔کے سربراہ  سکاٹش  نسل  لیفٹننٹ  کرنل  ہرکولیس سکنر  نے    بھوج پور کے ہندو راجپوت گھرانے میں ہندو عورت  شادی کی جس کے بطن سے  جیمز سکنر تولد ہو ۔    لیفٹننٹ کرنل جیمز سکنر  (1778 ۔ 1844) نےمسلم گھرانے میں شادی کی اور  دہلی گیٹ کے سامنے  عالیشان گھر بنایا ۔جو ہندو کالج دہلی کے طور پر استعمال ہوتا رہا ۔
 جیمز سکنر نے 'یلو بوائز' کے نام سے مشہور مرہٹہ کیولری رجمنٹ سکنرز ہارس بنائی جو  فرسٹ لانسر کے نام سے  ہندوستانی فوج کی سب سے سینئر کیولری رجمنٹ ہے۔  جیمز کی چودہ ہندو ،مسلمان بیویاں اور داشتائیں تھیں۔ اس نے ایک مسلمان کی طرح زندگی گزاری لیکن بعد میں زندگی میں باقاعدگی سے بائبل پڑھی اور دہلی کے سینٹ جیمز چرچ میں دفن ہوا۔ 

 ایسے ہی عشق کی آخری کہانی بنگال آرٹلری کے کرنل رابرٹ واربرٹن  (1812-1863)اور شاہ جہاں بیگم کی ہے۔ افغانستان کے امیر دوست محمد خان کی بھانجی۔ واربرٹن پہلی اینگلو-افغان جنگ (1839-1842) میں لڑا اور افغانوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ اسے شاہجہاں بیگم سے پیار ہو گیا اور اس سے شادی کر لی۔ اس   کی اولاد رابرٹ واربرٹن جونیئر (1842-1899)تھی۔ جو  1842 میں گندمک کے قریب ایک قلعے میں پیدا ہوا۔ جب کی ماں شاہ جہاں بیگم ، محمد اکبر خان     (سوتیلے بیٹے)  سے  جان بچاتی  پھر رہی تھی ۔ برٹن  کا پٹھان فیملی میں پرورش کی بنیاد پر انگریزی، فارسی اور پشتو پر عبور  تھا  اور اٹھارہ سال تک خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر خدمات  دیں ۔ ایک عجیب ستم ظریفی میں،کرنل  واربرٹن سینئر آئرلینڈ میں پیدا ہوئے اور پشاور کے کرسچن قبرستان میں دفن ہوئے جبکہ واربرٹن جونیئر افغانستان میں پیدا ہوا اور لندن کے قریب برمپٹن قبرستان میں دفن ہوا۔

اٹھارویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے اوائل کے قریب، کمپنی کے قوانین،انجیل کی بشارت    کی وجہ سے عیسائیوں کی مقامی عورتوں سے شادیوں کی  سرگرمیوں کے عروج اور ہندوستان میں یورپی خواتین کے  مقامیوں سے شادیوں کے مستقل بہاؤ نے اس طرح کے مقابلوں کو سختی سے روک دیا اور انیسویں صدی کے وسط تک یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ انیسویں صدی کے وسط تک یہ رجحان تقریباً ختم ہو چکا تھا۔

 انگریزوں کو اندیشہ تھا کہ ہندوستانی انگریز عورتوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔ 1800 کے اواخر اور 1900 کی دہائی کے اوائل میں جب قابل ہندوستانی ڈاکٹروں کو انڈین میڈیکل سروس  میں داخل کیا گیا تو انگریزوں نے انہیں ان عہدوں پر تعینات کرنے میں بے چینی محسوس کی جہاں انہیں انگریز خواتین کا معائنہ کرنا پڑتا تھا۔ انگریز خواتین کے ساتھ ہندوستانیوں کے تعلقات کا مسئلہ جنگ عظیم کے دوران اُٹھا۔

  جنگ عظیم  میں، ہندوستانی فوجی جب مغربی محاذ پر لڑتے تھے تو یورپی معاشرے سے رابطے میں آئے۔ کچھ ہندوستانی خاص طور پر سکھ اور پٹھان مقامی فرانسیسی عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتے تھے۔جن کی اولادوں  کی وجہ سے    انگریز گھبرا گئے اور انہیں ان یورپی   خواتین کو ہندوستان واپس لانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ 

میری (ولیم ڈاریمپل ) بھابی کے دادا خان زمان خان بابر (انڈین ڈاکٹر میڈیکل سروس  )،   نے  جب وہ فرانس میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک فرانسیسی خاتون سے شادی کی  ۔خاندانی مذاق یہ ہے کہ فرانس میں کچھ میرے  کھوئے ہوئے کزن گھوم رہے ہیں۔ کچھ پٹھان ( سرحدی آفریدی) جنہوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ لی ۔  جرمن خواتین سے شادی کی  وہاں رچ بس گئے ۔ مٹھی بھر یورپی خواتن کو قبائلی علاقوں میں واپس لے آئے۔سفارت  خانے  اور  خیبر پولیٹیکل ایجنٹ کی فائلیں ان لوگوں کا پتہ دیتی ہیں ۔ ایک آفریدی  دوسری جنگ کے بعد  جرمنی میں رہا اور جرمنی کے ایک قصبے میں تمباکو کی دکان چلا رہا تھا۔

 براعظم آسٹریلیا کی مختلف کالونیاں برطانوی سلطنت کے زیر تسلط تھیں، ابتدائی آباد کاروں نے برطانوی علاقوں خصوصاً ایشیا کے لوگوں کےبحری جہاز اونٹ کو  صحرا میں باربرداری  کے طور پر استعمال کیا۔ چنانچہ   1838 میں، جوزف بروس اور جان گلیسن نے پہلے "افغانوں"  کے اونٹوں کومنتخب کیا جو  18 کو  لے کر  1840 میں جنوبی آسٹریلیا کی بندرگاہ پورٹ ایڈیلیڈ    پہنچے۔یہ اونٹ ہیری کے نام سےمشہور ہوئے ۔جان ہوریکس کی قیادت   میں یہ بہترین باربرداری کے جانور ثابت ہوئے ۔چنانچہ کراچی سے 1858 میں جارج جیمز لینڈلز نے 24 اونٹ اور 8  سلیمان خیل ساربانوں کو لے کر  آسٹریلیا  ملبورن کی بندرگاہ پہنچا ۔یوں  مزید 24 اونٹوں کے ساتھ  مختلف  قبیلوں کے ساربانوں نے 9 جون 1960 کو آسٹریلیا پہنچایا ۔ سیموئل سٹکر نے 13 ساربان اور 100 اونٹ اوریوں 1860 تک 3000 سرحدی ساربان آسٹریلیاپہنچ چکے تھے ۔معلوم نہیں اُن کی کتنی اولادیں آسٹریلیا میں پل رہی ہوں گی ۔یورپی آسٹریلیئن مہاجروں کی مقامی اسٹریلئن سے جنگ کے بعد مقامی  مقبوضہ  عورتوں   کو جن افغانیوں نے داشتاؤں کے طور پر رکھا ۔معلوم نہیں اُن کی کتنی اولادیں آسٹریلیا میں پل رہی ہوں گی ۔یا واپس وہ سرحد یا کراچی لے آئے ۔

خانہ بدوش سلیمان خیل پاوندہ   نے ٹیلی گراف، ریلوے اور سڑکیں بچھانے کے لیے اپنے اونٹوں کے ساتھ آسٹریلیا لے گئے۔ کچھ آسٹریلوی خواتین کے ساتھ واپس آئے۔ ایسی ہی ایک ناقابل تسخیر آسٹریلوی خاتون اپنے شوہر کی موت کے بعد تھیمیری (وسطی ایشیا اور ہندوستان کے درمیان گھومنے والی بڑی بستیوں) کی سربراہ بنی۔ وہ کارواں کے سامنے اونٹ پر بیٹھی ہوتی  اور قبائلی علاقے میں داخل ہونے پر آسٹریلیا کے بھاری لہجے میں برطانوی سکاؤٹ افسروں کا استقبال کرتی۔ 

کچھ ہندوستانی شہزادوں نے 20ویں صدی میں انگریز عورتوں سے شادی کی تھی۔ آفیسر کور کے ہندوستانی ہونے سے انگریزی معاشرے کے ساتھ سماجی رابطے میں اضافہ ہوا۔ 1930 کی دہائی کے وسط میں جب انگریز خواتین نے  آفیسرز  کلب کے سوئمنگ پولز کا استعمال کرنا شروع کیا تو کلبوں میں ہندوستانی افسروں کا انگریز خواتین کو  سوئمنگ کے کم لباس پہنے دیکھنا  معیوب سمجھا جاتاتھا۔ دوسرا مسئلہ رقص سے متعلق تھا۔ رسمی رقص سرکاری کام کا حصہ تھا۔ بہت کم ہندوستانی افسران انگریز تھے اور ساتھ ہی وہ بال روم ڈانس میں بھی اچھے تھے جو انگریز خواتین سے رقص کے لیے پوچھتے تھے۔ جنرل 'ٹمی' کے ایس تھیمایا (4/19 حیدرآباد رجٹ) شاید اس سلسلے میں مستثنیٰ تھے۔ ہندوستانی افسران کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ یکساں سلوک چاہتے تھے۔ جس میں خصوصی کلبوں میں شرکت اور انگریز خواتین کے ساتھ تیراکی اور رقص کرنے کا حق بھی شامل تھا اگر وہ راضی ہو جائیں لیکن وہ  اپنی خواتین کو لانے کے لیے تیار نہ ہوتے۔ کئی ہندوستانی افسران نے اپنی خواتین کو پردہ میں رکھا۔ اس کا اطلاق مسلم اور غیر مسلم دونوں افسران پر ہوتا ہے خاص طور پر اعلیٰ ذات کے راجپوت افسران۔ یہاں تک کہ تعلیم یافتہ بیویوں کے  باوجود    آزاد خیال ہندوستانی افسران بھی اپنی بیویوں کو دوسرے مقامی  افسروں  کے ساتھ  رقص کرنے میں راضی نہیں تھے   یا اپنی خواتین کو انگریز افسروں کے ساتھ رقص کرنے کی اجازت دینے پر  یا  ان کی اپنی برادریوں کی طرف سے  شرمندگی   کی وجہ سے ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، دونوں معاشروں میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں جہاں بہت سے ہندوستانی افسران نے انگریز خواتین سے شادی کی۔

ہم جنس پرست لڑکوں سے محبت کرنے والے افسروں  نے خود کو  پفرز (فرنٹیئر فورس)اور سکاؤٹس میں پوسٹ  کروایا  کیا تاکہ پٹھانوں کے ہم جنس پرستوں جذبوں  کے  مفید ہو سکیں   ۔  پفرز یا سکاؤٹس کے ساتھ رجمنٹ میں تعینات افسران کو  نظم و ضبط کا منفرد  مسئلہ درپیش ہوتا ۔ کوئی ایسا معاملہ بھی ہوجاتا  ۔ جب ایک نوجوان ریکروٹ نے ناپسندیدہ پیش قدمی کے  نتیجے میں   بوڑھے صوبیدار کے سر میں گولی مار دی ۔ یا کوئی  صوبیدار اپنے ’’نوجوان لڑکے‘‘ کو دور دراز کے عہدوں پر بھیجنے کی بجائے اسے ہیڈ کوارٹر میں رکھ کر اور اسے آسان ڈیوٹی دینے اور اپنی ڈیوٹی میں تھکاوٹ   کا بہانہ دے کر اس پر خصوصی احسان کرتا ہے۔ہم جنس پرستی سپاہوں میں بھی عام تھی ۔  دو نوجوان سپاہی اصرار کرتے  کہ انہیں رات کی سنٹری ڈیوٹی کے لیے ایک ساتھ یا کسی چوکی پر تعینات کیا جائے جہاں وہ دنوں تک ساتھ رہیں۔

 ٭٭٭

 


خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔