Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 16 جنوری، 2015

شخصی آزادی کا آخری دن !

کوہاٹ سے واپسی کس طرح ہوئی یہ ایک دردناک سفر کی ہولناک داستان ہے۔
شوال کے دن تھے۔ راولپنڈی سے حاجی صاحبان کراچی کی طرف بمع اپنے خاندان و دوستاں رواں دواں تھے۔ریلوے سٹیشن پر پورا شہر موجود تھا ، موجود تھا تل دھرنے کو جگہ نہ تھی ۔ 
عوامی میل میں ، واپسی  کی  ٹکٹ اور سیٹ ہم نے  اترتے ہی  بُک کروادی تھی ، لیکن سیٹ تک پہنچنا  ، کارِ دشوار تھا ، بہر حال  ہم بھی گھسڑ مسڑ کے گسیڑم گھساڑ ہوکر سیٹ پر پہنچے ،    ٹرین  سےحیدر آباد اور وہاں سے میرپورخاص پہنچے ۔
اکیڈمی جائن کرنے کا لیٹر ہم سے پہلے گھر پہنچ چکا تھا ۔ کہ 16 نومبر 1977 کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں نصف جہیز کے ساتھ رپورٹ کی جائے ۔  
گھر پہنچے ہی ،   سب نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ہر کوئی ہمیں تعریفی نظروں سے دیکھتا۔ مائیں اپنے نالائق فرزندوں کو ہماری مثال دیتیں ۔ ارسطو اور افلاطون ہمیں شک کی نظروں سے دیکھتے ۔ اور آئی ایس ایس بی کے میعارِ سلیکشن    گرنے پر  افسوس کرتے ہوئے ، فوج کے مستقبل  پر دعائے خیر کرتے ۔
  اور پھر13 نومبر کو ہم      کاکول جانے کے لئے  تیار تھے ۔ سب رشتہ دار، عزیز و اقارب  ہمیں الوداع کہنے گھر  پر آئے ہوئے تھے۔ ہر کوئی سلامتی سے سفر کی دعائیں دے رہا تھا۔
 والدہ صاحبہ نے ہمارے بازو پر امام ضامن باندھا۔ گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے۔
ایک کالے مرغے کے سر پر دستِ شفقت پھروایا، جو یقیناًقربان ہوکر ہمارے سفر اکیڈی سے باعزت اخراج کا ضامن بنا۔
 والدہ  نے  چھوٹے  بھائی کو ساتھ لے کر ، ہمارے ساتھ حیدر آباد تک جانا فرض سمجھا۔ مبادا کہ کہیں ہم حیدر آباد سے کسی غلط ٹرین میں نہ بیٹھ جائیں۔چنانچہ ابّا سمیت ،ہم تینوں  ، ٹانگے پر بیٹھ کر ، ریلوے سٹیشن پہنچے ،    ٹرین وقت مقررہ پر وسل بجا کر چل پڑی۔
 اگلاسٹیشن ٹنڈو الہ یار تھا ہم دروازے میں کھڑے ہوئے شاید کوئی دوست ہمیں نظر آجائے۔
 ہمیں دروازے میں ہار پہنا کھڑا دیکھ کر ایک نوجوان مسلم نے نعرہ لگایا،”اسلام“  سب نے باآوازِ بلند کہا،”زندہ باد“ 
 اور پھر وہ باری باری ہمارا ہاتھ چومنے لگے۔
 ہم حیران کہ خدایا! یہ کیسا کرشمہ ہے، انہیں کیسے خبر ہوئی کہ ہم پاک فوج کے مایہ ناز آفسر بننے اکیڈمی جا رہے ہیں۔ بعد میں عقدہ کھلا کہ گلے میں پھولوں کے ہار ہونے کی وجہ سے وہ ہمیں ”حاجی“ سمجھ رہے  تھے۔ بہرحال حضرت انسان کا اس میں کیا قصور وہ بے چارہ تو ظاہری صورت دیکھ کر دھوکا کھا جاتا ہے۔


     سولہ نومبر 1974 بروز ہفتہ،  4 ذی القعدہ  1394 ھجری، جو ہماری تاریخ میں یادگار دن تھا ،کیوں کہ اس دن پاکستان کے وقت کے مطابق ٹھیک شام کو چار بج کر پندرہ منٹ اور تیس سیکنڈ کو جب ہماری ٹیکسی پی ایم اے کے گیٹ سے اندر داخل ہوئی تو ہمارے شہری حقوق سلب ہوچکے تھے۔ اور ہم  54 لانگ کورس کا حصہ بن چکے تھے ، 
بس اب یہی کورس ہماری پہچان تھا اور اِس کے مظلومین ، جنہیں کورس میٹس کہا جاتا ہے  -
گیٹ کے سامنے چھ سات کیڈٹ اور دو بغل میں ڈنڈا دبائے  فوجی حوالدار  کھڑے تھے، انہوں نے ٹیکسی رکوائی ہم نے گردن گھما گھما کر  اور آنکھیں مل مل کر دیکھا مگر ہمیں کہیں بھی شامیانے اور قناتیں نظر نہیں آئیں۔
 جو فوجی حضرات اپنے قابلِ قدر مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے لگواتے ہیں۔ ٹیکسی سے اترے  ڈرائیور نے سامان اتار کر نیچے رکھا۔ہم نے پیسوں کی ادائیگی کی اور اس کا شکریہ ادا کیا اس نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ سلام کیا۔
 ہمارے میزبانوں نے نہایت شائستگی سے اسے واپس جانے کو کہا۔ 
ٹیکسی کے جاتے ہی ایک کرخت آواز ہمارے کانوں میں گونجی،
”سامان اٹھاؤ“ 
مڑ کر دیکھا۔ ہمارا ایک میزبان خوفناک بلکہ خونخوار نظروں سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔
 ”تم نے میرا حکم نہیں سنا“ وہ دوبارہ چلایا،
”جی، آپ مجھے کہہ رہے ہیں؟“ ہم نے حیرانگی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
 ”یہاں کوئی قلی نہیں ہے؟“ ہم نے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے کہا،
 ”قلی، کیا کہا قلی؟  یہ سامان تم خود اٹھاؤ“ وہ  گلے کی گہرائیوں سے دھاڑا۔
ہم  میں جانے کہاں سے پھرتی آگئی جھک کر سامان اٹھایا ، یہاں کے جذبہ ء میزبانی کی دل میں تعریفیں کرتے ہوئے ۔ اپنے ایک میزبان کے پیچھے تقریباً دوڑتے ہوئے ایک بڑی عمارت کے لان میں پہنچے جس کا نام بٹالین میس تھا اور اب بھی ہے ۔
  یہاں ایک میلہ سا لگا ہوا تھا بھانت بھانت کی آوازیں آرہی تھیں اور ان آوازوں کے پس منظر میں لوگ قلا بازیاں اور دوسرے کرتب دکھا رہے تھے۔
 ہم بھی اپنا سامان ایک طرف رکھ کر انہیں لوگوں میں شامل ہوگئے۔ اور اپنی پہلی زندگی پر بھی پچھتا رہے تھے کہ اگر کسی سرکس میں نوکری کی ہوتی تو آج اتنی تکلیف نہ اٹھانا پڑتی۔
 ایکرو بیٹکس کے مختلف مظاہروں کے بعد رات گیارہ بجے اپنی رہائش گاہ، انگریزوں کے دور میں لکڑی سے بنی ہوئی بیرک میں پہنچادیئے گئے۔
 وہاں برآمدے میں لگے ہوئے قدآدم آئینے میں اپنا حلیہ دیکھا، 
 واللہ اگر اس وقت ہمیں  مجسموں کی نمائش میں رکھ دیا جاتا تو پہلا انعام ہمارے مجسمے کو ملتا۔

1 تبصرہ:

  1. ⁠⁠⁠⁠⁠ایک دوست نےاعتراض اٹھایا ، "یار تم فوجی بھی عجیب ہوتے ہو، جب بھی کسی فوجی افسر سے کسی دوسرے افسر کے بارے میں دریافت کرو تو اگلا سوال تمہارا یہ ہوتا ہے کہ وہ کس کورس کاہے اور کونسی یونٹ ہے۔
    یونٹ تو سمجھ آتی ہے مگر یہ کورس کیا ہوتا ہے؟
    کوئ علاقے کا نہیں پوچھتا، نا ہی باپ کےنام کی کوئی شناخت ۔ نا ذات کا نام ، کیا فوجیوں میں محظ کورس ہی پہچان ھوتی ہے؟۔

    کوئی 30 سے زیادہ فوجی ( آرمی نیوی یا ائر فورس ) کورس کو جنم دیتے ہیں۔ جو مجموعی طور پر کورس اور انفرادی طور پر کورس میٹ کہلاتے ہیں۔ ہر کورس کی مدتِ زندگی کو آپ جانچ نہیں سکتے جو پی ایم سے شروع ہو کہ قبر میں داخلے کے بعد بھی جاری رہتی ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔