سفرانچے
کہتے ہیں کہ پہلے سیّاح اپنے سفر کی کار گزاری زبانی یاد رکھتے تھے اور زبانی ہی دوسروں کو سُنا کرلطف اندوز ہولیا کرتے تھے۔کہیں ایک سیّاح نے اپنے چیدہ چیدہ واقعات کی تفصیل کو کاغذی یاد داشت کے طور پر محفوظ کرنا شروع کردیااور یاروں دوستوں کے اُکسانے پر اُس نے وہ رُوداد کتابی صورت میں چھاپ دی، ایسے سفر نامے کا آغاز ہوا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سفر ناموں کا فیشن سامنے آیا۔فی زمانہ اصلی سفر نامے خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔سفر نامے کو دوام بخشنے میں ادیب قسم کے سیّاحوں نے اہم کردار ادا کیا، انہی کی کوششوں سے سفر نامے کو ادب کاحصہ تسلیم کرلیا گیا۔ سفر نامہ لکھنے کے دو طریقے ہیں، پہلا کہ آپ سیر و سیّاحت کریں، نگر نگر گھومیںاور پیش آنے والے تما م واقعات کواپنے احساسات کے ہمراہ کاغذ پر منتقل کردیں۔دوسرا کچھ مختلف ہے اور اِسے فکشن یا کہانی نگاری کے علاوہ کوئی اور نام دینا سفر نامے کے ساتھ زیادتی ہوگی۔وہ طریقہ یہ ہے کہ دنیا کا نقشہ کھولا، ایک دو مقامات چنے، اپنے شہر سے وہاں تک کے فاصلے ناپے، راہ میں پڑنے والے علاقوں اور لوگوں کے بارے میں ذرا سی تفصیل کسی کتاب یا انٹر نیٹ سے حاصل کی۔کہیں اور سے رسوم و رواج کا حال معلوم کیا، پھر اِسے ایک خود ساختہ افسانے کے ساتھ مکس کر کے تھوڑا سا مزاح کا تڑکا لگایا، چھ سات دوستوں کے نام ڈالے، کچھ فرضی کردار و واقعات ترتیب دیے اور یوں ایک معرکۃ الآراء سفر نامہ تخلیق کرکے ادب کے حوالے کردیا۔کچھ روپے پیسے یا پی آر والے تو اِس سفر نامے کی تقریبِ اجراء یا رونمائی کر کے اِسے ادب پر ایک احسانِ عظیم ثابت کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
اقتباس از انشائیہ سیاحت:
تحریر:عاطف ؔمرزا
۳۰ جون ۲۰۱۱
۱۱۴۵ بجے
ملتان ائیر پورٹ
کہتے ہیں کہ پہلے سیّاح اپنے سفر کی کار گزاری زبانی یاد رکھتے تھے اور زبانی ہی دوسروں کو سُنا کرلطف اندوز ہولیا کرتے تھے۔کہیں ایک سیّاح نے اپنے چیدہ چیدہ واقعات کی تفصیل کو کاغذی یاد داشت کے طور پر محفوظ کرنا شروع کردیااور یاروں دوستوں کے اُکسانے پر اُس نے وہ رُوداد کتابی صورت میں چھاپ دی، ایسے سفر نامے کا آغاز ہوا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سفر ناموں کا فیشن سامنے آیا۔فی زمانہ اصلی سفر نامے خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔سفر نامے کو دوام بخشنے میں ادیب قسم کے سیّاحوں نے اہم کردار ادا کیا، انہی کی کوششوں سے سفر نامے کو ادب کاحصہ تسلیم کرلیا گیا۔ سفر نامہ لکھنے کے دو طریقے ہیں، پہلا کہ آپ سیر و سیّاحت کریں، نگر نگر گھومیںاور پیش آنے والے تما م واقعات کواپنے احساسات کے ہمراہ کاغذ پر منتقل کردیں۔دوسرا کچھ مختلف ہے اور اِسے فکشن یا کہانی نگاری کے علاوہ کوئی اور نام دینا سفر نامے کے ساتھ زیادتی ہوگی۔وہ طریقہ یہ ہے کہ دنیا کا نقشہ کھولا، ایک دو مقامات چنے، اپنے شہر سے وہاں تک کے فاصلے ناپے، راہ میں پڑنے والے علاقوں اور لوگوں کے بارے میں ذرا سی تفصیل کسی کتاب یا انٹر نیٹ سے حاصل کی۔کہیں اور سے رسوم و رواج کا حال معلوم کیا، پھر اِسے ایک خود ساختہ افسانے کے ساتھ مکس کر کے تھوڑا سا مزاح کا تڑکا لگایا، چھ سات دوستوں کے نام ڈالے، کچھ فرضی کردار و واقعات ترتیب دیے اور یوں ایک معرکۃ الآراء سفر نامہ تخلیق کرکے ادب کے حوالے کردیا۔کچھ روپے پیسے یا پی آر والے تو اِس سفر نامے کی تقریبِ اجراء یا رونمائی کر کے اِسے ادب پر ایک احسانِ عظیم ثابت کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
اقتباس از انشائیہ سیاحت:
تحریر:عاطف ؔمرزا
۳۰ جون ۲۰۱۱
۱۱۴۵ بجے
ملتان ائیر پورٹ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں