جی میل اور ہاٹ میل
اللہ جانے ای میل بنانے والوں کو یہ شرارت کیوں سوجھی کہ ڈاک والے ایڈریس میں صرف لفظ "میل" کو ہی شامل رکھا۔ یہاں خواتین کو متناسب نمائندگی سے محروم کر دیا گیا۔ وہ عورتیں جو مردوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہتی ہیں، انھیں اس صورت حال میں بہت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ خود فی میل کو بھی ایڈریس کی حد تک "میل" ہونا پڑتا ہے۔ بیالوجی تو یہی کہتی ہے کہ ہر میل کچھ نہ کچھ فی میل بھی ہوتا ہے اور ہر فیمیل کچھ نہ کچھ میل بھی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو میل ایڈریس میں صرف میل کا ہونا فیمیل طبقے کے لئے قابل قبول ہو سکتا ہے۔ یہ الگ کہ بعض میل ضرورت سے زیادہ فیمیل بن جائیں تو اس کے فوائد ،نقصانات سے مہا کم ہوتے ہیں۔ یا اگر فی میل کچھ کی بجائے بہت کچھ میل بن جائیں تو اس کے نتائج شوہروں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔
اردو شاعری میں قاصد کی پروفیشنل ذمہ داریوں کو بہت تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔ یہ بھی وہاں مذکور ہے کہ قاصدین کرام اپنے فرائض میں کون کون سی کوتاہیاں برتتے تھے۔ ایک ایسی ہی کوتاہی کا اعتراف خود غالب نے کیا ہے کہ قاصد نے خط پہنچانے کے بہانے اس کی محبوبہ سے اپنی لائن سیدھے کر لی تھی۔ تہذیب یافتہ ماضی میں پروفیشنل بددیانتی کی ایسی مثالیں کم کم ہی نظر آتی ہیں۔ایک بات جو بہت قابل غور ہے کہ محبوباوں تک عاشق کے خطوط و تحائف مرد قاصدین کے ذریعے بھیجے جاتے تھے جو ، بوجوہ، یہ کام تقریباً ایمانداری سے سرانجام دیتے تھے اور اپنے شعبے کی خوش نامی کا باعث بنتے تھے۔ شاید اسی لئے ای میل کی ڈاک کا کام بھی "میل" کے سپرد کیا گیا ہے۔ حالانکہ کتب عشق کے پیغام رسانی والے ابواب میں ماسیوں، نوکرانیوں اور نانیوں کا ذکر بھی جلی حروف میں ملتا ہے لیکن پھر بھی ای میل کے کارپردازوں نے آن لائن ڈاک میں لائن مارنے کے لئے "فی میل" پر بھروسہ نہیں کیا۔
اللہ جانے ای میل بنانے والوں کو یہ شرارت کیوں سوجھی کہ ڈاک والے ایڈریس میں صرف لفظ "میل" کو ہی شامل رکھا۔ یہاں خواتین کو متناسب نمائندگی سے محروم کر دیا گیا۔ وہ عورتیں جو مردوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہتی ہیں، انھیں اس صورت حال میں بہت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ خود فی میل کو بھی ایڈریس کی حد تک "میل" ہونا پڑتا ہے۔ بیالوجی تو یہی کہتی ہے کہ ہر میل کچھ نہ کچھ فی میل بھی ہوتا ہے اور ہر فیمیل کچھ نہ کچھ میل بھی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو میل ایڈریس میں صرف میل کا ہونا فیمیل طبقے کے لئے قابل قبول ہو سکتا ہے۔ یہ الگ کہ بعض میل ضرورت سے زیادہ فیمیل بن جائیں تو اس کے فوائد ،نقصانات سے مہا کم ہوتے ہیں۔ یا اگر فی میل کچھ کی بجائے بہت کچھ میل بن جائیں تو اس کے نتائج شوہروں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔
اردو شاعری میں قاصد کی پروفیشنل ذمہ داریوں کو بہت تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔ یہ بھی وہاں مذکور ہے کہ قاصدین کرام اپنے فرائض میں کون کون سی کوتاہیاں برتتے تھے۔ ایک ایسی ہی کوتاہی کا اعتراف خود غالب نے کیا ہے کہ قاصد نے خط پہنچانے کے بہانے اس کی محبوبہ سے اپنی لائن سیدھے کر لی تھی۔ تہذیب یافتہ ماضی میں پروفیشنل بددیانتی کی ایسی مثالیں کم کم ہی نظر آتی ہیں۔ایک بات جو بہت قابل غور ہے کہ محبوباوں تک عاشق کے خطوط و تحائف مرد قاصدین کے ذریعے بھیجے جاتے تھے جو ، بوجوہ، یہ کام تقریباً ایمانداری سے سرانجام دیتے تھے اور اپنے شعبے کی خوش نامی کا باعث بنتے تھے۔ شاید اسی لئے ای میل کی ڈاک کا کام بھی "میل" کے سپرد کیا گیا ہے۔ حالانکہ کتب عشق کے پیغام رسانی والے ابواب میں ماسیوں، نوکرانیوں اور نانیوں کا ذکر بھی جلی حروف میں ملتا ہے لیکن پھر بھی ای میل کے کارپردازوں نے آن لائن ڈاک میں لائن مارنے کے لئے "فی میل" پر بھروسہ نہیں کیا۔
(جاری ہے )
عزیز فیصل ڈاکٹر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں