Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 24 فروری، 2021

وزیر اعظم پاکستان کے نام ایک خط

 آل پاکستان پنشنرز کے لئے بنائی گئی ایسوسی ایشن کی جہد و جہد ۔ 

٭٭٭٭وزیر اعظم کے نام ایک خط ٭٭٭٭٭

 



٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭

آل پاکستان پنشنرز کے لئے بنائی گئی ایسوسی ایشن کی جہد و جہد ۔ 

٭- پہلی میٹنگ

٭- دوسری میٹنگ

٭۔تیسری میٹنگ

٭۔آل پاکستان پنشنرز ملکی خزانے پر بوجھ ہیں ۔  

منگل، 23 فروری، 2021

میں ملکی خزانے پر کبھی بوجھ نہیں رہا ۔ ایک ریٹائر فوجی

  أعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ

  بِسْمِ  اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ۔ وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي۔

 وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي ۔ يَفْقَهُوا قَوْلِي ۔(دعائے موسیٰ کلیم اللہ کے ساتھ)

 

جناب وزیر دفاع حکومت، پاکستان

!کے نام کھلا خط

كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ

 

پاکستان کے برف پوش پہاڑوں  کے دفاعی علاقوں میں یہ نوجوان محو رقص ہیں اِن کی خوشی کا سبب  وہ  جوش اور ولولہ ہے جو مادرِ وطن کی حفاظت کے لئے اِن کی رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہا ہے ۔

 یہ اپنے خاندان سے دور اُن کی معاشی کفالت بڑے سکون سے کر رہے ہیں کیوں کہ بھرتی ہوتے وقت اُن سے جو وعدے کئے وہ حکومتِ پاکستان اپنی پوری مساعی سے پورے کر رہی ہے ، اِن پر ہونے والا بلا حساب خرچ حکومتِ پاکستان پر بوجھ نہیں ،  کیوں کہ حکومتِ پاکستان اِن کی قربانیوں سے کرارض پر قائم ہے ۔ ورنہ خون خوار دشمن 1947 سے پاکستان پر نظریں جمائے بیٹھے ۔ اِنہیں معلوم ہے کہ اُن کی ملک کے لئے قربانی اُن کے خاندان کی کفالت کی راہ میں  حائل نہیں ہوگی ۔  کیوں کہ حکومت پاکستان نہ صرف اُن کے لئے ایک شفیق ماں ہے بلکہ اُس کی سرکار میں خدمت انجام دینے والی تمام سرکاری ملازموں کی بھی ماں ہے ۔

جو ہر سال بڑھتے ہوئی مہنگائی سے نپٹنے کے لئے نہ صرف تنخواہ   اور الاؤنسز سے اُن کی کفالت کرتی ہے بلکہ ،  اپنی   خدمت کا معاوضہ ، تاج برطانیہ کے کفالت الاؤنس  کی طرح ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن  دے کر

اُن کی خدمات کو 1947 سے بطور حق سراہا رہی ہے ۔

اگر برف پوش پہاڑوں پر خوشیاں مناتے ہوئے اِن پاکستانی محافظوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اِنہیں حکومتِ پاکستان سے اپنا حق مانگنے کے لئے ، دیگر سرکاری ملازموں کی طرح عمر رسیدگی میں سڑکوں پر بینر لے کر کھڑا ہونا پڑے تو اِن کی خوشیوں کے اِس رقص پر  مستقبل کی مایوسیوں کا سایہ چھا جائے گا ۔ جناب ۔ یکم دسمبر  1999 کو ریٹائر ہونے والا یہ 68 سالہ بوڑھا ،  جب کل اپنی پنشن میں اضافے کے لئےاپنے سے بھی عمر رسیدہ ،   پنشنرز اور ریٹائرڈ  ڈیفنس فورسز کے ملازمین  کے ساتھ   بینرلے کراسلام آباد پریس کلب کے باہر کھڑا ہوا ، تو مجھےایک خفت کا احساس ہوا کہ    ،میں بھی اِنہی جیسے ملکی دفاع میں سرشار نوجوانوں کے ساتھ  14 اگست  1993 کے دن سیاچین پر پاکستان کے قیام کی 46 ویں سالگرہ پر محو رقصاں تھا ۔  مجھ سمیت یہ سب نوجوان ریٹائر ہوچکے ہیں اور اپنے خاندان کی  کفالت کی گاڑی اِس امید پر کھینچ رہے ہیں ، کہ شاید  پچھلے 73 سالوں کی طرح اِس سال بھی حکومتِ پاکستان معاشی مہنگائی کے اِس دور میں اُن کی کفالت کرتے ہوئے  ، ملک کی خدمات کرنے والے  اِن  میں نوجوانوں کی اشک سوئی کرتے ہوئے 25 فیصد الاؤنس  اضافے کے ساتھ  ، موجودہ حکومت کے نئے پاکستان میں پنشنرز  کے کفالت الاؤنس ( پنشن) میں اضافہ کرے گی اور دولتمند مشیروں کی تجاویزِ کہ تمام پنشنرز ملکی خزانے پر بوجھ ہیں ۔

جناب  47 سال  کی عمر میں پاکستان آرمی سے ریٹائر ہونے والا ،یہ بوڑھا پنشنر دیگر پنشنر  سمیت یہ سوچ رہا ہے کہ نئے پاکستان کے انصاف پرست حکمران کیوں نہ پاکستان کے تمام پنشنرز    کو  ریٹائر منٹ کے بعد زہر کے ٹیکوں سے نوازیں ، تاکہ ملک کی خدمت  کا دعویٰ کرنے والے ،سرکاری ملازموں  کے ووٹ منتخب وزراء کے تنخواہوں ، الاؤنسز  اور دیگر اضافی مراعات کے لئے  قومی خزانہ وافر مقدار میں موجود ہو ۔    

والسلام

 

میجر (ر) محمد نعیم الدین خالد

22 -02-2021

 

 

 

 

 

 

بدھ، 17 فروری، 2021

مہاجرزادہ کی آپّا میں شمولیت

 "پاکستان کے تمام پنشنرز ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں ۔ چلو چلو اسلام آباد چلو "
18 فروری کو مجھے ایک دوست لیفٹننٹ کرنل (ر) محمد عمران بٹ نے وٹس ایپ کیا ۔ جو مجھے بہت پسند آیا ۔ میں نے اُسے وٹس ایپ کیا کہ، بٹ صاحب ہم سوچ رہے تھے ، آل پاکستان پنشنرز کے اتحاد کا  یہ نعرہ مجھے بہت پسند آیا ۔

میں نیچے اُس  کا وائس میسج ڈال رہا ہوں ۔

کرنل عمران بٹ کے اِس وائس میسج نے  میرے ذہن میں سیاچین پر میری خدمت کرنے والے میرے  بیٹ مین  گنرمحمد بوٹا خان  کی بات      میرے تحت الشعور (دماغی ہارڈ ڈسک) سے شعور  ( ریم میموری) میں چھلانگ لگا کر آگئی ۔
اِس سے پہلے کہ میں آگے چلوں میں ایک پیغام۔اگر آپ سپاہی نہیں ۔۔ آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں : 
اگر آپ سپاہی نہیں ۔
تو آپ نہیں سمجھ سکتے 
واقعات جو ہم نے دیکھے اورہم پر گذرے 
اپنے ملک کی خدمت کی خاطر
ہم  کو تو لڑائی کی تربیت دی گئی 
ایک بدترین منظر کو برداشت کرنے کے لئے 
جو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا کیوں
کہ آپ کی راتوں کی نیند اُڑ جاتی ہے 
ہم کسی کو بتا بھی نہیں سکتے 
وہ زخم جو ذہن اور جسم پر لگتے ہیں
ہم اپنی تکلیف پیچھے چھوڑ دیتے ہیں
اور اپنی یادوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں
ہمیں فخر ہے کہ ہم اپنے ملک کی خدمت کرتے ہیں
وہ یاد رہتے ہیں جنہیں ہم گنوا چکے ہیں
اے میرے ہم وطنو ۔ آپ کی آزادی کی خاطر
اُنہوں کے بہت تکلیف دہ قیمت ادا کی ہے 
 (کلائیو سینڈر ۔ترجمہ مہاجرزادہ) 
جذبات کا ایک اوراظہار ۔ فوجی کی بیوی 

چؤا سیدن شاہ  ، کا بوٹا جو اپنی سروس کا آخری سال 1993 میں مکمل کر رہا تھا ، اُس سے میری ملاقات ۔ 29 نومبر 1976 میں ہوئی تھی    - جب اُسے وادیءِ نیلم میں دھنّی کے مقام پر  مجھے بطورِ بیٹ مین   دیا گیا ۔ بوٹا خان  ، ٹھیٹھ پنجابی بولنے والا ، تعلیم کے حساب سے چٹّا اَن پڑھ لیکن تربیت کے مطابق ایک بہترین ملازم ثابت ہوا ۔افغان وار میں کرم ایجنسی کے بارڈر  پر ایک آبزرویشن پوسٹ پر میرے ساتھ رہا ۔  1979    تک   میرے پاس رہنے کے بعد ،وہ میرے بیٹری کمانڈر   میجر ارسل نواز کے پاس بھجوادیا گیا ۔ وقت گذرتا گیا ۔ پھر اَن پیڈ لانس نائیک محمد بوٹا خان سے میری ملاقات  مارچ 1993 میں ہوئی جب میں کوئیٹہ سے لاہور ۔ اپنی یونٹ کا سیکنڈ اِن کمانڈ  بن  کر پوسٹ ہوا ۔پوسٹ کیا ہوا ۔ کمانڈنگ آفیسر نے   مجھے فون کیا ، 

نعیم یونٹ سیاچین جارہی ہے ، میں چاہتا ہوں آپ ہمارے ساتھ چلو ۔

سر مجھے ابھی  پوسٹ ہوئے صرف آٹھ ماہ ہوئے ہیں یہاں  دو سال کا پیریڈ  ہے ۔ 

نعیم ، کیا یونٹ کی خاطر یہ پیریڈ کم نہیں کروا سکتے ؟
کیوں نہیں سر ! یونٹ کی خاطر  میری جان بھی حاضر ہے ۔
میں ملٹری سیکریٹری برانچ میں بیٹھا ہوں ۔ آپ ان سے بات کرو  ۔

یوں  میں بچوں کو کوئیٹہ چھوڑ کر  لاہور سیاچین جانے کے لئے پہنچ گیا ۔

 کیپٹن عمران بٹ یونٹ میں ایجوٹنٹ تھا  ۔  کرنل زاہد وحید بٹ ( مرحوم) کمانڈنگ آفیسر اوریونٹ کو  سیاچین  لے جانے کے لئے  ، کرنل نور الامین   نئے کمانڈنگ آفیسر ۔                    میں نے جب 57  ماونٹین رجمنٹ آرٹلری   کو 28  نومبر   1976 دھنّی میں جائن کیا تو    بعد میں کیپٹن نور الامین  اور میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر ہفتہ ساتھ رہے ۔ پھر وہ چھٹی لاہور چلے گئے اور میں اتھلیٹک کی ٹیم لے کر  مظفر آبادا ور  پھر اوجھڑی کیمپ راولپنڈی آگیا ۔ 

اپریل 1993 سے جون 1994 تک سیاچین میں بطور سیکنڈ اِن کمانڈ   اور ایکٹنگ کمانڈنگ آفیسر رہنے والی   جنگی یادیں  میری فوجی زندگی کا سرمایہ ہیں ۔موقع ملا تو تحریر میں لاؤں گا ۔

میں آفس میں بیٹھا تھا کہ رنر نے بتایا  کہ ، سر ، اَن پیڈ لانس نائک محمد بوٹا  خان آپ سے ملنا چاہتا ہے  ۔ 


اَن پیڈ لانس نائک محمد بوٹا  خان آفس میں داخل ہوا ۔   وہ اندر داخل ہوا ۔ میں پہچان گیا ۔ اُس نے زور سے سلیوٹ مارا ۔ میں کھڑا ہوا اور بولا،
بوٹے خانا ۔تینوں کدروں پُٹ کے ۔میرے مغر مار دتا  جے ۔

اَن پیڈ لانس نائک محمد بوٹا  خان ، شرمندہ ہو کر ویسے ہی مسکرایا ۔جیسے وہ  18 سال پہلے مسکرایا کرتا تھا  اور پہلی بار جواب دیا :
سر جی تہاڈی ماسی دے پنڈ، توں !

 میری  ماسی  ( گلزار خالہ )کے لئے پڑھیں ،" نمّو  کی پہلی اُڑان "

میں اُس سے اُٹھ کر گلے ملا۔ پاس کرسی پر بٹھایا  اور بوٹے نے چائے پینے تک اپنی پوری  کہانی سنا دی ۔ اُس کاریٹائرمنٹ آرڈر آچکا تھا اُس نے  جولائی میں   آرٹلری سنٹر رپورٹ  کر نا تھا ۔لہذا وہ  پنڈی ٹرانزٹ کیمپ میں ڈیوٹی دینے کے لئے نامزد کیا گیا تھا ۔

لیکن وہ مجھے سیاچین تک چھوڑنے میں بضد تھا ۔ بلکہ وہ میرے ساتھ سیاچین میں ہی شہادت پانا چاھتا تھا ۔ کیوں کہ اُس نے سن رکھا تھا کہ سیاچین جانے والے واپس نہیں آتے ۔

اُس کے جذبہءِ شہادت کو دیکھ کر ، میں نے کمانڈنگ آفیسر  سے بات کی،  

  یوں، اَن پیڈلانس نائیک بوٹا خان میرا بیٹ مین بن کر سیاچین کے میدانِ جنگ میں  آگیا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے  جب   یونٹ کے پہنچنے کے پہلے ہی ہفتے میں ، ابھی ہم نے اپنے ٹروپس واپس جانے والی یونٹ کی جگہ تعینات نہیں کئے تھے  کہ گیاری  سیکٹر  سے دو شہداء کے جسم   لائے گئے تو ۔ لانس نائک اَن پیڈ بوٹا خان کی حالت خونخوار شیروں جیسی ہو گئی ۔ 

" سر جی مینوں گن پوزیشن تے گھل دیو ، میں انڈین  نو سبق سکھاواں گا ۔ 

میراا نشانہ  حالے وی سُچا اے میں ،

 فائرنگ وچ  پورے نمبر لینا آں "

بوٹا خان تو کیا ہم سب کی یہی حالت تھی ۔ لیکن سیاچین میں برفانی  پہاڑوں کے پیچھے چھپی  ہوئی توپوں کے گولے ہی  منفی 20 سے 40 ڈگری  سنٹی گریڈ تک دشمنوں  یا ہمیں نقصان پہنچاتے تھے ۔ بندوق ، مشین گن ،  یا کوئی اور ڈائریکٹ فائر ہتھیار وہاں بے کار تھا ۔

جولائی کے پہلے ہفتے میں وہ     سنٹر چلا گیا اور پھر چؤا سیدن شاہ ، جہاں اُس کے آبا و اجداد کی زمینیں تھیں جو تقسیم درتقسیم ہوکر  4 ایکڑ  بن کر  اُس کے پاس آئیں جس پر اُس کا نکما مگر اکلوتا بیٹا اب   بکریاں چراتا اور گذارہ کرتا تھا   ۔  بوٹے کا پروگرام تھا کہ وہ پنشن کی رقم سے اپنا گھر پکا کرے گا اور بیٹے کی شادی کردے گا میں نے بہت سمجھایا پکے گھر کو رہنے دو  اپنی پنشن قومی بچت میں جمع کروا کر ، منافع لو تاکہ پنشن اور منافع سے اُس کا گذارہ اچھا ہوجائے ۔ لیکن مولوی کے فتویٰ  نے اُسے  سود(کالی کمائی ) کھانے سے باز رکھا ۔

بوٹےنے    یونٹ سے   میرا موبائل نمبر  لیا   اور جولائی 2019 میں فون آیا :

یہ سب گفتگو پنجابی میں ہوئی ۔

بوٹے کیسا حال ہے ؟ بہو اور بچے کیسے ہیں ؟

سر جی ۔ اللہ کا شکر ہے ۔   سر جی کوئی ملازمت دلا دو ؟
بوٹے ملازمت کہاں ملتی ہے ؟ 

سر جی آپ نے پہلے احسان کیا تھا ، اب ایک اور کردو ، پنشن بہت کم ہے ۔ بوڑھا ہوگیا ہوں ملازمت نہیں ملتی ،  بہو تنگ کرتی ہے -آپ تو لوگوں کو  بیٹ مین کی ملازمت دلواتے ہو مجھے بھی دلوادو ۔

 پڑھیں : گھریلو ملازمین  ، برائے فوجی افسران

بوٹے  70 سال کا ہوگیا ہے اب تجھے ملازمت پر کون رکھے گا ۔ اگر رکھوا دوں تو  اگلا بندہ کہے گا ، میجر صاحب :  اے بوٹا  کدروں پُٹ کے میرے مگر مار دتا  جے ۔

سر جی : مجھے اپنے ہاں گیٹ پر چوکیدار رکھوادو ، آپ کی گاڑی صاف کروں گا ، آپ کے لئے گیٹ کھولوں گا، بس مجھے کھانا کھلا دینا اور  برانڈے میں چارپائی رکھ دینا ۔

بوٹے ، تیرا پنشن میں گذارا نہیں ہوتا  ، پھر بیٹا بھی ہے، پنشن کے پیسوں سے  تو نے گھر بھی بنایا تھا ، روٹی تو تجھے بیٹا بھی کھلاتا ہوگا  ، 6 ہزار روپے گھر بیٹھے کافی نہیں ؟
" سر جی بیٹا کہندا جے ، ابّا   تیری پنشن نال ساڈا گذارا نئی ہونا ، نالے توں ٹاپاں بہوں کھاندا جے، کسی صاب کو ل  چوکیدار دی ملازمت کر لے  "

یہ سُن کر ، یہ بوڑھا سُن سا ہو گیا ۔ لیکن پھر غصے میں بھر گیا،
بوٹے اپنے خبیث بیٹے کو بتاؤ ، کہ گھر تمھارا ، پنشن   تمھاری  ، بچے کے بیٹی اور بیٹے کے چوکیدار تم   ، تم نے اُسے پالا ، پڑھایا   اب وہ کیسے کہتا ہے ؟ کہ بڑھاپے میں تم چوکیداری کرو ۔ اُسے تمھاری خدمت کرنا چاھئیے  تم اُس کے باپ ہو، اب باپ بنو ، رات کو درخت کے نیچے سونے اور بارش میں   چھپّر کے نیچے سونے کے بجائے  ، اُسے بولو اپنا گھر تلاش کرے ۔ یا تمھیں چوکیداری کے بدلے کھانا کھلائے۔

سر جی میں ،بہت بیمار ہوا تھا ، رشتہ داروں کے کہنے پر  گھر  اُس کے نام کر دیا ہے ۔

پنشنر دوستو، یہ جملہ کہانی کا کلائمکس تھا ۔

 جب میں  جولائی  2020 میں عدیس ابا با سے واپس آیا ، بوٹے کے نمبر پر فون کیا ، تو معلوم ہوا ۔اَن پیڈلانس نائیک بوٹا خان روٹیوں سے بے نیاز ہو چکا تھا ۔


پنشنر دوستو:  یوں بوٹے  کے دُکھ بھرے جملے نے  بوڑھے کو سیّد حفیظ  سبزواری کو فُون کرنے پر مجبور کر دیا ، جو بقول اُس کے  محکمہ صحت کا  ایک ریٹائرڈ  پنشنر ہے ۔ بوڑھے نے اُسے بتایا کہ بوڑھا بھی ایک پنشنر ہے اور فوج سے تعلق ہے ۔ فوج کے پنشن کے قواعد و ضوابط اپنے ہیں اور اکاونٹنٹ  جنرل آف پاکستان کے مختلف اداروں کے لئے اپنے ۔ یہ بتائیں کہ میں کیسے تمام پنشروں کی مدد کر سکتا ہوں۔

 یوں یہ پوسٹ اِس بوڑھے نے دیگر بوڑھوں کو ایک نیک کاز کے لئے ڈالی :

 19 فروری کی صبح مجھے سبزواری کا فون آیا   کہ  میجر صاحب ،  اسلام آباد و راولپنڈی کے تمام  پنشنر کی  میٹنگ  ، رانا   محمد اسلم  ریٹائرڈ پی ایس  تو سیکریٹری وفاقی مذہبی امور کے گھر ہوگی  جہاں 22 فروری کی پریس کانفرنس کے انتظامات کے بارے میں  ، ڈسکشن ہو گی اگر آپ جاسکتے ہیں تو وہاں اپنے پنشنر ساتھیوں کے ساتھ پہنچ جائیں  اور باقی پنشنرز جن کو آپ جانتے ہیں اُنہیں بھی بتائیں ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

میں نے سبزواری سے بات کی اُس نے بتایا کہ وہ 22 فروری کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرے گا ۔ میں نے پوچھا اسلام آباد کب آنے کا پروگرام ہے ؟ اُس نے بتایا کہ وہ 21 فروری کو اسلام آباد پہنچے گا ۔
مجھے 18 فروری کو جناب رانا محمد اسلم کی طرف سے میسج ملا کہ 19 فروری کو اُن کے گھر میں میٹنگ ہے آپ تشریف لائیں ۔ میں وہاں پہنچا وہاں جو بھی کاروائی ہوئی اُس کی مکمل گُفتگو کی وڈیو میں نیچے ڈالتا ہوں ۔
وہ دیکھ کر آپ سمجھ جائیں گے ۔ کہ 65 سے 70 سال کے سمجھدار ، لوگوں نے ایسوسی ایشن بنانے کے لئے کیا گُفتگو کی ۔ 

 ٭- پنشنرز کی اسلام آباد میں پہلی میٹنگ

٭٭٭٭٭٭٭

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مزید پڑھیئے :

  ٭۔ایک پنشنر کے سوالات کے حل کا، دوسرا راستہ

٭۔ پاکستان کی ترقی میں ریٹائر ہونے والی سپاہوں کا کردار

٭۔19 فروری تا 31 مئی ۔ داستان ایک سفرِ مسلسل

   ٭۔  31مئی پاکستان کے تمام پنشنرز کا دن

 ٭٭٭٭واپس ٭٭٭ ٭

 

 

ہفتہ، 13 فروری، 2021

بیٹی کے ساتھ بندھن ختم نہیں ہوتا۔

ایک حاملہ خاتون نے اپنے شوہر سے پوچھا ! ہم اگلے دو مہینوں میں ماں باپ بننے والے ہیں
بولی ،  اگر بیٹا ہوا، تو کیا منصوبہ ہوگا؟
شوہر نے جواب دیا۔

 میں اس کو تمام روزمرہ زندگی کی روایات سکھاؤں گا، کھیل، ریاضی، لوگوں کی عزت اور وغیرہ وغیرہ۔
خاتون نے پھر پوچھا۔
اگر بیٹی ہوئی تو؟
شوہر نے جواب دیا۔

میں اسے کچھ نہیں سکھاؤں گا، بلکہ میں اس سے خود سیکھوں گا۔
میں غیرمشروط محبت سیکھوں گا، میری بیٹی یہ کوشش کرے گی کہ وہ میری پرورش اپنے ایک مخصوص زاویہ نگاہ سے کرے۔
بالوں کی کنگھی کرنے سے لیکر ڈریسنگ تک 

ابتداءِ گفتگو سے لیکر انتہاءِ گفتگو تک 
نیز کہ وہ میرے ہر کام کو اپنی زاویہ نظر سے تربیت کرے گی۔
وہ میرے لیے دوسروں سے لڑے گی، مباحثہ کرے گی، اس کی خوشی اور غم میری طبیعت پہ منحصر ہوں گے۔

خاتون نے پھر پوچھا ۔

کیا بیٹا یہ سب کچھ نہیں سکھائے گا آپ کو؟
شوہر نے جواب دیا۔

بیٹے میں یہ ساری خصوصیات ڈالی جاتی ہے، لیکن بیٹی ان خصوصیات کیساتھ پیدا ہوتی ہے۔
خاتون نے پوچھا۔

لیکن بیٹی تو ہمارے ساتھ ہمیشہ نہیں رہے گی؟
شوہر نے جواب دیا۔

 بیٹی ہمارے ساتھ جسمانی طور پر نہیں رہے گی، لیکن روحانی طور پروہ ہرلمحہ ہمارے ساتھ ہوگی۔
یہ بات کہہ کر شوہر نے اپنے مکالمے کو ختم کیا۔

 بیٹی کے ساتھ بندھن ختم نہیں ہوتا۔

٭٭٭٭

منگل، 9 فروری، 2021

گنگناہٹ سے بیماریوں کی تشخیص

 انسانی عارضے ، رازداریاں ، مختلف گنگناہٹ سے سمجھنے والوں کے لئے اظہار اور معالجانِ ظرف کے لئے تشخیص: ۔
جیا جلے، جان جلے ،رات بھر دھواں چلے۔
بیماری: بخار ۔
من ڈولے میرا تن ڈولے ۔

 بیماری: چکر آنا 

بیڑی جلائی لے جگر سے پیا،جگر میں بڑی آگ ہے

 بیماری: ایسیڈیٹی ۔

تجھے یاد نہ میری آئی ،کسی سے اب کیا کہنا

 بیماری: یادداشت کمزور 

ٹپ ٹپ برسا پانی، پانی نے آگ لگائی۔

 بیماری: پیشاب میں جلن۔

 ہائے رے ہائے نیند نہیں آئے۔

 بیماری: بے خوابی ۔

جیا دھڑک دھڑک جائے۔

 بیماری: ہائی بلڈپریشر۔

 تڑپ تڑپ کے اس دل سے آہ نکلتی رہی۔

 بیماری: ہارٹ اٹیک ۔

بتانا بھی نہیں آتا چھپانا بھی نہیں آتا۔

 بیماری: بواسیر۔

 سہانی رات ڈھل چکی ہے نہ جانے تم کب آؤ گے۔

 بیماری: قبض

 اور آخر میں ۔ ۔ ۔ ۔ 

 

لگی آج ساون کی پھر وہ جھڑی ہے۔

 بیماری: ۔ پیچس۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔